باہی نیازی اور مچن خیل۔۔۔بابا تور باہی اور بابا مچن


پشتو اسپیکنگ ایریاز میں نیازیوں کو درویش جانا جاتا ہے ، وہاں ایک عام خیال ہے کہ سات نیازی مل کر دعا کریں تو وہ ضرور قبول ہوتی ہے. کوئٹہ ریڈیو پاکستان میں میرے سینئر ساتھی مرحوم عزت نیازی سینئر پروڈیوسر شبقدر پشاور کے تھے ، جن کے سر کے بال سفید تھے – وہ مجھے بتاتے تھے کہ جب میں نماز پڑھ کر مسجد سے نکلتا ہوں تو کئی لوگ بچے لے کر میرے انتظار میں ہوتے ہیں اور مجھے کہتے ہیں ، آپ نیازی ہو ، اس بچے پر پھونک مار کر جاو – یہ سات نیازیوں والی بات مجھے انہوں نے بتائی تھی – وہ خود پشتو سپیکنگ نیازی تھے –
میں نے انہیں کہا ، یہ کسی نے ہمارے ساتھ سخت مذاق کیا ہے کیونکہ ہمارے ہاں سات نیازی کسی ایک بات پر متفق ہو جائیں ، یہ ممکن ہی نہیں – میں ان دنوں میں یعنی 1974 میں کوئٹہ میں تھا اور ان دنوں میرے سر کے بال کالے تھے –
لکی مروت کے بہت پیارے دوست راز مروت بتا رہے ہیں کہ سات بندوں کی دعا والی بات ہمارے ہاں نونا مروتوں کے بارے میں کہی جاتی ہے – نونا خیل ، بابا نونا کی اولاد ہے جو بابا مروت کے چار بیٹوں میں سے ایک تھے – نونا بابا کا مزار بھی وانا میں ہی بابا مچن کے مزار کے قریب ہے – مزید یہ کہ کرک ، بنوں اور لکی مروت میں مچن خیل نیازی خاصی تعداد میں آباد ہیں اور ان کا پشتو لہجہ وہی ہے جو وہاں کے دیگر پشتونوں کا ہے – مروت بھی نیازیوں کی طرح لودھی کی اولاد ہیں –
داود خیل کے ظفر جمالی بتا رہے ہیں کہ یہاں مچن خیلوں کا بہت بڑا قبیلہ آباد ہے اور ان کی شہرت سانپوں کو دم کرنے کی ہی ہے –
نیازیوں کی درویشی کا یہ امیج غالبا” باہی نیازیوں کی وجہ سے بنا ہے – موسے خیل ، داود خیل ، روکھڑی ، میانوالی ، نمل ، لاوہ اور تلہ گنگ کے علاقے میں باہی نیازی بہت کم تعداد میں آباد ہیں اور وہی درویشی اور فقیری ہی ان کا چلن ہے – یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ باقی نیازی بھائیوں کے ساتھ ان کی جائیداد کی سانجھ کیوں نہیں – موسے خیل کے سب قبائل ان کا بہت احترام کرتے ہیں – اور ان کے بزرگ باہی درویشوں کو کچھ رقبہ نذرانہ میں دے گئے تھے – برادرم رفیق نیازی سابق ڈسٹرکٹ اٹارنی بتا رہے ہیں :—
“موسے خیل اور بوری خیل کے سنگم پر دشت میں اس درویش قبیلے کے بزرگ اعلے حضرت شیخ طور باہی نے قیام کیا تھا – وہاں اب بھی کری کے درخت ہیں جو انہی کے نام سے منسوب ہیں اور حضرت شیخ کے احترام میں ان درختوں کو کاٹا نہیں جاتا “-

حضرت شیخ طور باہی کا مزار چکڑالہ میں ہے –
سانپوں والے بابا مچن جن کا مزار وانا میں ہے ، بھی نیازی تھے لیکن خاکو کی اولاد سے تھے ، سو وہ باہی نہیں تھے – ان کے مزار پر سانپوں کے دم کرنے والے زندگی میں ایک بار ضرور سلام کرنے جاتے ہیں – ایک بار میرے ساتھ ویگن میں وانا کے ایک نوجوان نے سفر کیا تھا – وہ اپنے گمشدہ بھائی کو طالبان میں ڈھونڈنے آرہا تھا جو میٹرک کی کلاس سے بھاگ کر طالبان سے جا ملا تھا – یہ وہ دن تھے جب صوفی محمد دس ہزار کم عمر نوجوانوں کا ایک لشکر لے کر کابل گیا تھا اور بہت سے بچے مارے گئے تھے – اس نے مجھے بتایا تھا کہ ان کے ہاں ایک عام روایت ہے کہ بابا مچن کے مزار سے ایک چٹکی مٹی لے کر گھر میں ڈال دی جائے تو گھر سے سانپ بھاگ جاتے ہیں – میانوالی روکھڑی میں بھی مچن خیل بہت تھوڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں – جو انتہائی غریب ہیں –
میانوالی سے وقاص محمد خان بتا رہے ہیں :—
” نیازی کے تین بیٹوں جمال، خاکُو اور باہی میں سے باہی ایک درویش صفت آدمی تھا، باقی دونوں بھائیوں کی اولادوں میں سے آج کی ساری نیازی خیلیاں وجود میں آئیں مگر باہی اب بھی اپنے آپ کو باہی ہی کہلاتے ہیں ، خیلیوں میں تقسیم نہیں کرتے۔ بابا میاں شیخ طور اور بابا مِچن کے حوالے سے ہماری دادی امی ہمیں روایتی قصہ یوں سناتی ہیں کہ بابا مچن اور بابا میاں شیخ طور غالباً ہم عصر تھے، دونوں بزرگ بہت سادہ اور جلالی طبیعت کے مالک تھے، بابا مچن کی یہ کرامت تھی کہ وہ سانپوں کی چارپائی بُن کر اُس پر سوجاتے تھے، ایک دن بابا میاں شیخ طور کو غصہ آگیا کہ میں بھی باہی ہوں تو کرامت صرف بابا مچن کے حصہ میں کیوں؟ تو وہ غصہ میں ایک دیوار پر سواری کی طرح چڑھ بیٹھے اور دیوار کو چلنے کا کہا، اور اللہ کے حکم سے وہ دیوار چل پڑھی، جس پر انہیں بابا میاں شیخ طور، کندھاں ٹور کا لقب مل گیا۔ آج بھی ان کے مزار پر یہی نام درج ہے ایک روایت ہے کہ ان کے مزار پر ایک شیر بھی حاضری دینےآتا تھا اور گاؤں کے کئی بندے یہ منظر دیکھنے کا دعوٰی کرتےہیں۔ واللہ علم –
باہی قبیلہ سب سے زیادہ موسٰی خیل میں آباد ہے جبکہ ایک بڑی تعداد ڈھک پہاڑی کے پار بھی رہتی ہے جن میں سے میجر محبوب نیازی مرحوم ساکن ترحدہ، تلہ گنگ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ غالباً پاکستان کے پہلے ستارہِ جرات سے انہیں نوازا گیا تھا، ان کے بیٹے کرنل عابد بھی آرمی سے ریٹائرڈ ہیں۔ ڈاکٹر محبوب نیازی تلہ گنگ اور ن لیگ کے سینیٹر ڈاکٹر غوث بخش نیازی، خوشاب بھی باہی قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں- “
بہت شکریہ وقاص محمد خان صاحب –
یہ طور ، تور ہے ، جس کا مطلب پشتو میں کالا ہے – اب معلوم نہیں حضرت کا یہ نام ہی تور تھا یا رنگت کی وجہ سے تور کہلانے لگے تھے –
دوسری بات ، ہم داود خیل ، کمر مشانی اور میانوالی شہر کے نیازی خاکو کی اولاد ہیں جبکہ عیسے خیل اور سنبل ، جمال کی –
اصغر خان کہتے ہیں :–
میاں شیخ طور صاحب کا مزار چکڑالہ کی نواحی ڈھوک نورشاہ کے قریب ھے اور وھاں پر باھی قبیلہ کے کچھ گھرانے آباد ھیں لیکن وھاں کے رھائشی اپنے آپ کو نیازی نہیں کہلواتے اور جہاں تک میجر محبوب صاحب کی بات ھے تو ان کا آبائی گھر تلہ گنگ ترحدہ سے اگے ڈھوک میل میں ھے اور نہ ھی انکے بارے میں یہ سنا کہ انہو ں نے اپنے آپ کو نیازی لکھا یا کہلوایا ھو جہاں تک میری معلومات ھے جو میں نے بزرگوں سے سنا ھے میاں شیخ طور صاحب کا عرس ھر سال بڑی دھوم سے منایا جاتا ھے اور وھاں عرس کے دنوں میں سب سے زیادہ تعداد بوری خیل قبیلہ کی ھوتی ھے اور تمام انتظام یہی لوگ کرتے ھیں یہ لوگ عرس کے دنوں میں بمعہ ٹرانسپورٹ حاضری دیتے ھیں اور انکے بارے مشہور ھے جب یہ نیا ٹریلر لیتے ھیں تو سب سے پہلے دربار پر سلام کرتے ھیں پھر اسکے بعد کاروبار کرتے ھیں –
جہاں پر زیارت ھے وہ ایک برساتی نالہ گبھیر کے کنارے واقعہ ھے – بارش کے موسم میں اس نالے کو پار نہیں کیاجاسکتا – اسکا پانی تیز رفتاری سے بہتا ھے اگر کوئی لاش دور سے پانی اپنے ساتھ بہا لے آئے تو دربار سے آگے لاش نہیں جاتی بلکہ وھیں کسی نہ کسی جگہ سے لاش برآمد ھوجاتی ھے یہ دربار شریف کی کرامت ھے کافی عمر کے بزرگوں سے یہ بات اکثر سنی ھے
باقی واللہ اعلم —
کوئٹہ سے ڈاکڑ منیر رئیسانی بتا رہے ہیں :—
“بابی قبیلہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں موجود ھے ۔ یہ لوگ پشتو کے علاوہ براھوئ زبان بطور مادری زبان کے بولتے ھیں ۔ لیکن یہ اپنے آپ کو نیازی نہیں کہتے –
بلوچ علاقوں میں انہیں بابی کہتے ھیں اور یہ لوگ براھوئ بولتے ھیں ۔ پشتون انہیں اپنے لہجے میں بابئ کہتے ھیں جیسے کہ نیازی کو نیازئ کہتے ھیں “-
ڈاکٹر ، آپ نے انہیں بابی لکھا ہے جبکہ بات باہی کی ہو رہی ہے – لیکن ممکن ہے یہ باہی ہی ہوں – کیونکہ قیس بن رشید کا مزار جو کہ پشتونوں بشمول نیازیوں کے جد امجد ہیں ، کوہ سلیمان ، زوب میں واقع ہے – باہی نیازی کا شجرہ چند پشت اوپر قیس بن رشید سے جا ملتا ہے جو قندھار سے چلے تھے – اور یہ اس وقت بلوچستان میں ہوں گے نیازی بعد میں وانا کے راستے لکی مروت اور میانوالی میں آکر آباد ہوئے – نیازیوں کا چیف ٹانک کا کٹی خیل سردار تھا جو ڈیرہ اسماعیل خان اور وانا کے درمیان واقع ہے – مشہور ٹی وی آرٹسٹ مرینہ خان کٹی خیل قبیلے سے ہے – پرانے وقتوں میں نیازیوں کا مکمل شجرہ نسب بھی کٹی خیل قبیلے کے پاس تھا – میانوالی میں طنزا” ایک سوال پوچھا جاتا ہے ، تو کوئی ٹانک دا نواب ایں —
میانوالی میں ایک بزرگ نانا نواز مچن خیل ہمارے محلے زادے خیل میں رہتا تھا جس کی دو بیویاں تھیں – ایک بیوی کی گورنمنٹ گرلز ہائی سکول کے دائیں جانب بلو خیل روڈ پر سکول کے گیٹ کے مشرق میں باکل ساتھ ہی دانے بھوننے کی دانگی تھی – اب وہاں شاید دکان ہے – اور اس کے ساتھ والی گلی مصباح الحق کے گھر کو جاتی ہے – نانا نواز ، فتح محمد سٹریٹ کے آغاز پر بائیں ہاتھ پر ایک کمرے کے مکان میں رہتا تھا جو مرحوم محمد اکبر خان خنکی خیل نے انہیں عاریتا” دے رکھا تھا – اب وہاں بھی دکانیں ہیں – نانا نواز بہت بوڑھا ہونے کے باوجود کھوتے پر محلے کے گھروں میں آٹے کی بوریاں ڈھوتا تھا اور انتہائی پرہیز گار انسان تھا – میری عمر کے سارے کم عمر نواز کو نانا کہتے تھے اور سخت پردے کے ماحول کے باوجود اس محلے کی کوئی بھی خاتون اس سے پردہ نہیں کرتی تھی – وہ سب گھروں میں اندر جاکر آٹا پہنچاتا تھا – موقع پاکر ہم اس کے مسکین سے گدھے پر سواری کا صحن میں ہی ایک آدھ پھیرا بھی لگا لیتے تھے – وہ روکھڑی کا مچن خیل تھا اور بتاتا تھا کہ ان کے خاندان کو سانپ نہیں کاٹتے – اس کا ایک ہی بیٹا تھا جو عین جوانی میں فوت ہوگیا تھا – نواز بہت ضعیف ہونے کے باوجود مزدوری سے گھر چلاتا تھا – اسے ہر وقت با وضو اور مطمئن دیکھا – کبھی کبھار اس کے گھر میں کھانا دینے جاتا تھا تو بعض اوقات معلوم ہوتا تھا کہ نانا نواز کل سے بیمار تھا اور آج دن بھر میاں بیوی فاقے سے تھے – اس کے باوجود ان کے لب پر الحمد لللہ ہوتا تھا —
اللہ اکبر ، کیسے کیسے لوگ چھوٹے روپ میں عظیم درشن والے نظر آئے —

تحریر: جناب محترم ظفر نیازی مرحوم (سابقہ اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان راولپنڈی)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

5 تبصرے “باہی نیازی اور مچن خیل۔۔۔بابا تور باہی اور بابا مچن

  1. میانوالی کے لوگ تو ڈھک پہاڑی سے دوسری طرف رہنے والوں کو سب ملک سمجھتے ہیں جیسے میانوالی کے سب لوگوں کو نیازی سمجھتے ہیں🤔🤔

  2. بہت عمدہ لکھا
    جناب مجھے بائی خاندان کا شجرہ سینڈ کر دیں مہربانی ہوگی
    WhatsApp number
    03232580536

اپنا تبصرہ بھیجیں