پٹھان قبیلہ سمین کی تاریخ


تعارف:

سمین دراصل پشتونوں کے ایک غیر معروف قبیلہ کھیتران کی ذیلی شاخ ہے۔کھیتران قبیلہ پاکستان کے تین صوبوں پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بکھرا ہوا ہے۔ اس قبیلہ کا موجودہ زمانے میں مرکز صوبہ بلوچستان کا ضلع بارکھان ہے۔ لیکن اس قبیلہ کے لوگ ڈیرہ اسمعیل خان،کوہاٹ،ڈیرہ غازی خان، ساہیوال، سبی اور بھکر میں بھی آباد ہیں۔کھیترانوں کی شاخ سمین کے لوگ بھی بھکر، بارکھان اور ڈیرہ جات میں پھیلے ہوئے ہیں۔

سمین کی تلاش:

یہ گزشتہ سردیوں کی بات ہے کہ مجھے پرانے نیازی پٹھان قبیلہ فیسبوک پیج پر ایک بردار ساجد خان صاحب کا پیغام موصول کہ وہ سمین/ سمینڑ قبیلہ بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں.
چونکہ یہ نام پہلی بار سنا تھا اس لیے اس بارے میں میرے پاس کوئی معلومات موجود نہیں تھیں حتیٰ کہ اس نام کی ادائیگی بھی مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی…
خیر ان سے تھوڑی بہت گفتگو ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ درست لفظ سُِمین (سومین) (Soomen/Sumin) ہے جو کہ خود کو پٹھان کہتے ہیں اور اپنا تعلق نیازیوں سے جوڑتے ہیں. اس سے زیادہ انھیں کچھ معلومات نہیں تھیں.
میں نے بھی سوچ بچار شروع کی بھکر کے متعلقہ کتابوں گزٹیر آف ڈیرہ اسماعیل خان، گزٹیر آف میانوالی وغیرہ کو سرسری طور پر دیکھا تو وہاں پر ایسی کوئی قوم نہیں ملی. پھر پشتون قبائل کی تاریخ پر موجود حیات افغانی و خورشید جہاں کو ملاحظہ کیا لیکن وہ بھکر کے گردونواح میں سوائے بلچ پٹھانوں  اور ملتانی پٹھانوں کے کسی کا تذکرہ نہیں ملا.
چونکہ اس موضوع  پر ساجد خان صاحب نے بھی  پیروی نہیں کی اور میرے بھی ذہن سے جاتا رہا
ابھی گزشتہ ماہ نظروں سے ایک تحریر گزری جس میں احوال سیمن پٹھان درج تھا. وہ تحریر کس نے لکھی مجھے کوئی علم نہیں.. اس میں سمین پٹھانوں کو نیازیوں کے شجرے میں درج قبیلہ اسمعیل  خیل سے جوڑ دیا گیا.. اسمعیل خیل قبیلہ کے لوگ آجکل ہنگو کوہاٹ میں آباد ہیں.


اچھا بتاتے چلیں کہ مخزن افغانی ہو یا حیات افغانی. ان کتابوں میں درج شجرہ جات میں کئی ایسے قبائلی شاخوں کے نام موجود ہیں جو سرے سے نابود ہیں. اب کوئی اگر اٹھ کر ان نابود یا عنقا شاخہائے سے تعلق ہونے کا دعویٰ کر دیتا ہے تو اس کو قاطع براہین دینا ہونگی. کیونکہ ایک چیز جس کا تسلسل ٹوٹ چکا قوم قبیلہ بھی اس سے غیر مانوس ہوگیا تو. اب ثابت کرنے کیلئے سلطانی گواہی چاہیے… جیسا کہ کوہاٹ کے ان اسمعیل خیلوں نے سرکاری ریکارڈ دیکر ثابت کیا.. بہرحال سمین کو نیازیوں سے جوڑنے والے سے غلطی یہ ہوئی کہ وہ قدیمی اردو کو پڑھنے سے قاصر تھا. اس نے اسمعیل  خیل کو سمیعن سمجھ لیا تھا. دوسرا اگر سمین نیازی قوم سے ہوتے تو یقیناً ان کے قدیم اراضی ریکارڈ پر سمین کی جگہ نیازی افغان لکھا ہوتا. جبکہ نیازیوں کو بھی تو معلوم ہوتا کہ ہماری قوم سے ہیں جیسے ہوشیارپور جالندھر کے نیازیوں کے متعلق میانوالی کے نیازی مانتے ہیں اور جانتے ہیں. بلکل اسی مثال کے مطابق جب جالندھر والے نیازی اتنے دور جا کر بھی نیازی شناخت کو نہیں بھلا سکے تو یہ ہمارے بغل میں بیٹھے کیسے اپنی نیازی شناخت فراموش کرکے سمین لکھواتے رہے..
پس انکے نیازی ہونے میں شکوک و شبہات بہت زیادہ تھے.
دوسرا میں حیران تھا کہ انگریزوں نے ہر علاقہ کے چپے چپے میں آباد چھوٹی چھوٹی برادری کا ذکر بھی ہر جگہ کیا لیکن انکا کیونکر ذکر نہ ہوا؟..
خیر سمین پٹھانوں کے متعلق اس نامعلوم تحریر پر کمنٹس کئے سوال کیا کہ صاحب تحریر کون ہے؟ اور اس تحریر کا ماخذ کیا ہے لیکن کسی نے کوئی جواب نہیں دیا.
اسی ضمن میں ایک اور معلومات بھی فراہم کرتا چلوں کہ جب عمران خان کی حکومت ختم ہوئی تو خبروں میں سنا کہ نئی حکومت کے آنے کے بعد ایڈووکیٹ جنرل پاکستان نیاز اللہ خان نیازی کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے.
اب یہ کون ہیں تلاش کرنے پر پتہ چلا کہ یہ کلورکوٹ بھکر کے علاقے نامدار ڈیلی کے رہائشی ہیں اور خروٹا خیل ہیں . مجھے یاد آیا کہ اس خروٹا خیل کا ذکر کسی نے ویکی پیڈیا پر نیازیوں کے آرٹیکل میں بھی لکھا ہوا تھا. جس میں خروٹا خیل کو نیازی کی ذیلی شاخ بتایا گیا. ان خروٹا خیلوں کے متعلق پوسٹ کی تھی لیکن کسی نے کوئی خاطر خواہ معلومات نہیں دی تھیں. میرا قیاس تھا کہ شاید یہ غلجی قوم خروٹے کے کچھ خاندان ہیں جو بھکر میں آباد ہوگئے اور اب انھوں نے خود کو خروٹا خیل بنا دیا. چونکہ یہ اپنے بڑے قبیلہ سے بچھڑ چکے ہیں تو انھوں نے خود کو نیازیوں سے جوڑ لیا کیونکہ آخر کار نیازی بھی تو غلجی کی شاخ سمجھے جاتے ہیں.. خیر دوبارہ واپس آتے ہیں پوسٹ احوال سمین پر…

اس پوسٹ کے کمنٹس پر  میری سمین قوم کی تاریخ کے متلاشی جنید خان فتح خیل سے گفتگو ہوئی. جنید خان فتح خیل بھی دراصل سمین قوم سے ہیں انھوں نے بہت ہی زیادہ اس معاملہ میں دلچسپی کا مظاہرہ کیا. چونکہ یہ نوجوان دلچسپی رکھتا تھا تو میں نے بھی سمین کے موضع پر اس سے گفتگو کا آغاز کیا اور کافی سوالات پوچھتا رہا جس کا اس نوجوان نے خندہ پیشانی سے جواب دیا. اس طرح اس سے میری گفتگو کئی ہفتے تک جاری رہی. جیسا کہ قبل بتایا سمین پٹھانوں کو اپنی تاریخ بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں… یہ کہاں سے آئے، کب آئے کس قوم قبیلہ سے تعلق ہے کچھ معلوم نہیں. سوائے مفروضہ جات کے..
بہرحال میں نے تحقیقات کا سلسلہ شروع کردیا. اس سلسلے میں اپنے سرکل میں موجود پشتون تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے محترم افراد مثال کے طور جناب امان اللہ خان بلچ، جناب ناصر خان بلچ، جناب علی محمد دوتانی، جناب عطاء اللہ خان نیازی و دیگر اصحاب سے گفتگو ہوئی.
حاصل بحث یہ تھا کہ سمین کی پٹھان ولی میں رتی برابر شک نہیں یہ کھرے اور خالص پٹھان ہیں لیکن اپنی تاریخ سے نابلد  و ناواقف… سمین کی تاریخ بارے میں ان سبھی معزز افراد کو بھی کوئی خاطر خواہ معلومات نہیں ہیں..
اب مزید پریشان کن صورتحال تھی کہ اہل علم افراد کی نظروں میں بھی ایسی کوئی پٹھانوں کی شاخ نہیں گزری اوپر سے جنید خان کا جستجو کا جذبہ.


سمین پٹھانوں کا اپنے اصل بارے میں مؤقف..


جیسا کہ قبل بتایا کہ سمین پٹھان زیادہ تر خود کو نیازی کہلواتے ہیں. اس کے علاوہ کچھ سمین خود کو بلچ پٹھانوں کی ذیلی شاخ سمجھتے ہیں. اسی طرح ایک اور نظریہ یہ بھی پڑھا جو کہ کسی پڑھے لکھے ذہن کی اختراع معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ سمین دولت خیل لوہانی پشتونوں کی شاخ ہیں. یعنی نوابین ٹانک کے قرابت دار ہیں.
ابھی تک ہمارے سامنے یہ تین متضاد دعویٰ ہمارے موجود ہیں۔البتہ اس بات پر متفق ہیں کہ سمین ڈیرہ اسمعیل خان سے بھکر میں آئے۔


باقاعدہ تحقیقات کا آغاز؛


چونکہ سمین کا احوال اب تک کی سرسری تحقیقات سے دستیاب نہیں ہوا تھا. تبھی تحقیقات کا دائرہ کار وسیع کرنا پڑا..
اس کیلئے اب پشتون قبائل پر لکھی گئی دستیاب کتب کو کھنگالا شروع کردیا. جس میں مخزن افغانی، حیات افغانی، ڈکشنری آف پٹھان ٹرائبز، خورشید جہاں، شوکت افغانی، صولت افغانی وغیرہ دیگر کتابوں میں کافی تلاش بسیار کی. لیکن وہاں سمین کا کوئی کھرا نہیں ملا. ایک قبیلہ سمین خیل معلوم ہوا جو کہ احمد زئی غلجیوں کی شاخ ہے جو ننگرهار افغانستان میں آباد ہیں. جبکہ ایک سمین خیل قبیلہ اندڑ کی شاخ کا معلوم ہوا
اب سوال یہ پیدا ہوا کہ وہ سمین خیل ہیں اور یہ فقط سمین. یہ کیسے ممکن ہے کہ لفظ خیل متروک ہوگیا ہو یہ ناممکن امر تھا. دوسری بات یہ بھی سامنے آئی کہ احمد زئی یا اندڑ غلجی قبائل کبھی بھی دامن میں پاوندہ گری کرتے نہیں ریکارڈ ہوئے…دامان میں غلجیوں کی شاخ سلیمان خیل و دیگر آتے ہیں.
پس یوں یہ سمین خیل ہمارے دائرے تحقیقات سے باہر ہوئے.

اس کے بعد ہمیں قبیلہ داوڑ میں “سیمن” نظر میں آئے لیکن یہ سمین نہیں بلکہ سیمن تھے ۔ویسے بھی انکے بارے میں مزید کوئی معلومات دستیاب نہیں ہو سکی۔
اسی دوران یہ خیال ہوا کہ یہ کہیں پشتو کے لفظ سپین سے بگڑ کر سمین تو نہیں بنا؟
اس کھوج میں ہمارے سامنے لوہانی کا قدیم تفرقہ سپین گند اور تور گند تھا. لیکن یہ بھی اس بات پر خارج از امکان ہوگیا کیونکہ سپین گند میں مروت قبیلہ تھا. اگر یہ مروت ہوتے تو سپین کی جگہ مروت شناخت کو ترجیح دیتے کیونکہ مروت شناخت اس علاقے کیلئے کوئی غیر معروف شناخت نہ تھی. دوسرا مروتوں کا یہاں پر امکان اس وجہ سے بھی بعید از قیاس تھا چونکہ انکے روایتی حریف نیازی اور بلچ پٹھانوں کا یہاں پر اثر زیادہ تھا…

لیکن اسی سپین پر چونکہ میری سوچ کی سوئی اٹکی ہوئی تھی پھر خیال سمایا کے شاید یہ ترینوں کے طائفے سپین، تور اور بولر میں سے سپین سے تعلق رکھتے ہونگے. کیونکہ ترین میں سپین ایک باقاعدہ قبیلہ ہے. یہ قیاس ممکن تھا کیونکہ ترین کے اندر تو سبھی ترین ہیں وہ تو محض سپین اور تور کے لحاظ سے پہنچان ہوتی ہے. دوسری دلچسپ بات یہ بھی کہ سپین ترین کی ایک شاخ کا نام سمانی ہے. تو نظریہ بنا کہ یہ لوگ سپین ترین کی شاخ سمانے سے ہونگے. جو سپین یا سمانے دونوں صورتوں میں بگڑ کر سمین بن گیا.
یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی کیونکہ جب ملتان پر سدوزئی حکمرانوں کی حکومت تھی تو بلوچستان سے ملیزئی، باروزئی، علی زئی،خاکوانی و دیگر پٹھان ملتان بسلسلہ ملازمت آئے اور یہیں ملتان کے ہو کر رہ گئے. جب منکیرہ پر سدوزئی نواب محمد خان سدوزئی نے فتح کیا تو میرے خیال میں  یہ سپین /سمانے (جو بگڑ کر سمین بنا) ملتان سے یہاں  ہجرت کر آئے ہوں. اس بتدریج ہجرت (لورالائی، پشین سے ملتان اور پھر ملتان سے منکیرہ کلور کوٹ) نے انکا نام بدل کر رکھ دیا ہو.


میری ذاتی رائے میں جب نواب محمد خان سدوزئی نے اس علاقے پر قابو پا لیا تو انھوں نے سمین پٹھان خانوادوں کو پہلے سے آباد بلچ پٹھانوں کے ساتھ آباد کاری کا کہا ہو.
یہاں ایک اور بات بھی اہم ہے کہ یہ سمانے قبیلہ کے لوگ کاروبار کرنے جھنگ تک آتے تھے. اگر وہ جھنگ آ سکتے ہیں تو بھکر کچھ دور نہیں.
بہرحال اس ساری تھیوری پر ابھی تک دل مطمئن نہیں تھا. مزید تلاش جاری رکھی. ترین قبیلہ کی تاریخ جاننے کیلئے مزید کتب کا مطالعہ شروع کردیا.

سمین قبیلہ کی دریافت:


اس سلسلے میں صوبہ بلوچستان کے اضلاع کے گزٹیر کھنگلانے شروع کردیئے. جیالے جنید خان فتح خیل نے فیس بک پر سمین ڈھونڈنے شروع کر دئے. اس کو ایک بندہ ملا جس نے بتایا کہ سمین پٹھان ڈیرہ غازی خان اور بارکھان میں بہت آباد ہیں.


پس اسی تناظر میں گزٹیر آف ڈیرہ اسماعیل خان اور گزٹیر آف ڈیرہ غازی خان بھی شامل تحقیقات کر لئے.
انھی تحقیقات کے دوران خیال آیا کہ بھکر کی پر لکھی گئی نور محمد تھند مرحوم کی کتاب بیش قیمت کتاب تاریخ بھکر سے بھی استفادہ حاصل کیا جائے. اس سلسلے میں تاریخ بھکر کو پڑھنا شروع کیا تو پتہ چلا کہ مرحوم نور محمد تھند صاحب نے تاریخ بھکر کی جلد اول مکمل کر لی تھی جبکہ جلد دوم پر کام کررہے تھے کہ دار فانی چھوڑ کر چلے گئے. وگرنہ جلد دوم کی فہرست سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھکر میں آباد اقوام و قبائل کے باب میں سمین پٹھانوں پر ضرور قلم کشائی کرتے. پس یہ ذمہ داری اب ہمارے کندھوں پر آن پڑی۔ تاریخ بلوچستان ہیتو رام کا مطالعہ کرنے پر معلوم ہوا کہ سمین دراصل پٹھانوں کے ایک کم معروف قبیلہ کھیتران کی ذیلی شاخ ہے .  جب اس سمت میں مزید کھوج کی اور گزٹیر آف لورالائی دیکھا تو وہاں پر بھی سمین مل گئے…اس طرح دیگر کتابیں جو اس علاقے کی اقوام و قبائل پر لکھی گئیں تھی دیکھتے گئے تو سمین پٹھان ریکارڈ پر ملتا گیا.
یوں ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے.


اب لوگوں کا سوال ہوگا کہ آخر آپ کو کیسے لگا کہ یہ کھیتران کے سمین ہی دراصل وہی سمین ہیں جن کی تلاش تھی.
اس کا سادہ سا یہی جواب ہے کہ ڈیلی نامدار وغیرہ سمین پٹھانوں کے مرکز واہوا سے کچھ دور نہیں. تونسہ شریف کے پیر پٹھان بھی کھیتران قبیلہ سے ہیں.
اس کے علاوہ اور کوئی سمین پٹھان قبیلہ پشتونوں میں موجود ہی نہیں.


کھیتران پٹھانوں کی تاریخ ؛


کھیتران دراصل سربنی افغانوں کی شاخ میانہ کی ذیلی شاخ سے ہیں.کچھ لوگ انھیں کاسی پٹھانوں کی شاخ بھی بتلاتے ہیں.
بتاتے چلیں کہ میانہ پٹھان بھی ڈیرہ اسماعیل خان میں آباد ہیں جو بھکر کا پڑوسی ضلع ہے.. میانہ پٹھانوں نے ہندوستان میں بہت نام کمایا ہے وسطیٰ ہند میں انکی ایک مشہور خود مختار چھوٹی سی سلطنت تھی.
قدیم روایات کے مطابق جب غوڑہ مرغہ سے سربنی افغان عازم سفر ہوئے تو آدھے سربنی شمال میں کابل کی طرف چلے گئے جبکہ آدھے بلوچستان کی طرف. کھیتران بھی دیگر سربنی افغانوں کے ساتھ یہاں  دامان چلے آئے. یہاں پر شیرانی جنوب میں کوہ قیس پر چلے گئے جبکہ میانہ افغان نے دامان میں بودوباش  اختیار کی…

گزٹیر آف لورالائی میں لکھا ہے کہ اکبر بادشاہ کے زمانے میں  کھیتران قبیلہ نے واہوا پر ہلہ بول دیا اور وہاں پر آباد سیال اور مگسی قبائل کو شکست دیکر قابض ہوگئے. لیکن مفتوح شدہ قبائل نے اکبر بادشاہ تک اس بات کی شکایت پہنچائی. جس کے سبب مغل افواج نے کھیتران پر تاخت کی یوں کھیتران وہاں کے میدانوں کو چھوڑ کر بارکھان کی پہاڑیوں میں چھپ گئے.موجودہ زمانے میں واہوا پر قیصرانی بلوچوں کا اخیتار ہے ۔لیکن کھیتران آج بھی اس علاقے میں قیصرانی اور بزدار بلوچ قبائل کے ساتھ آباد ہیں۔


چونکہ بارکھان  بلوچستان کا علاقہ تھا. تبھی کھیتران پشتونوں کی بلوچوں کے ساتھ بودوباش نے ان پر کافی اثرات مرتب کئے. کھیتران قبیلہ کی پشتو جاتی رہی جس کے نتیجے میں ایک نئی زبان کھیترانی نے جنم لیا جو پشتو، بلوچی اور ملتانی یعنی سرائیکی/شمالی سندھی زبان کا حسین امتزاج ہے. یہ زبان آج بھی ڈیرہ غازی خان کے متصل علاقوں میں بولی جاتی ہے. اور پاکستان میں ایک رجسٹرڈ زبان ہے. جہاں تک بارکھان کے کھیتران کی بات کریں تو وہ اب مکمل طور پر بلوچی زبان بولتے ہیں. جس کے سبب لوگ انھیں بلوچ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ درحقیقت  پشتون ہیں. جس کا ثبوت کئی تاریخ کتابوں میں دستیاب ہے. اس بات کی تائید بلوچ قبائل کی تاریخ بھی کرتی ہے کہ کھیتران افغان ہیں. لیکن سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر  بارکھان کے کھیتران آجکل خود کو بلوچ کہلوانے لگ گئے ہیں. کھیتران قبیلہ کی تاریخ پر سردار سعد اللہ خان کھیتران نے ایک مفصل کتاب لکھی ہے جس میں انھوں نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ بلاشبہ کھیتران بلوچی زبان بولتے ہیں لیکن درحقیقت یہ بلوچ نہیں بلکہ پشتون ہیں.

کھیتران قبیلہ کی شاخیں:

کھیتران بنیاد طور پر  تین شاخوں میں منقسم ہیں.
اول دھاڑ، دوم پھلیت، سوم اسپانی جس کو گنجورہ بھی کہتے ہیں . جبکہ اس کے علاوہ دیگر بلوچ و پشتون اقوام کی کچھ شاخیں بھی وصلی طور پر کھیتران سے جڑی ہیں جن میں حسنی، ناہڑ اور مزرانی وغیرہ شامل ہیں. دھاڑ شاخ کو دھڑیوال بھی کہتے ہیں. دھاڑ کی مشہور ترین شاخ چچہ ہے جس سے نواب خاندان کا تعلق ہے تبھی دھاڑ کو چچہ سے بھی جانا جاتا ہے. سمین دراصل اسی دھاڑ کی ایک اور چھوٹی شاخ ہے.

سمین پٹھانوں کی کلور کوٹ ضلع بھکر میں آمد


اکبر بادشاہ کے لشکر کی تاخت عارضی تھی رفتہ رفتہ  کھیتران  پہاڑوں سے نکل کر واہوا، تونسہ اور بھکر تک تلاش معاش میں پھیل گئے.
جو سمین یہ بات کہتے ہیں کہ وہ ڈیرہ اسماعیل خان سے آئے ہیں درست کہتے ہیں. یہ لوگ واہوا سے ہوتے ہوئے ڈیرہ اسماعیل خان پہنچے وہاں سے یہ اٹھارہویں صدی میں بلچ پٹھانوں کے اس وقت حلیف بنے. جب بلچ پٹھان جسکانی بلوچوں سے الجھے ہوئے تھے. انکی آمد کو بلچ پٹھانوں نے غنیمت جانا اور ان سمین پٹھانوں کو اپنے ایک اور حلیف پشتون قبیلہ خیسور کے ساتھ اپنی زمینات سے آگے کی زمینات بسانے کیلئےموقع دیا. اسی وجہ سے جیسے ہی بلچ پٹھانوں کی زمینات ختم ہوتی ہیں تو سمین اور خیسور پٹھانوں کے موضعات شروع ہوجاتے ہیں..
چونکہ بھکر پہلے ضلع میانوالی  کی تحصیل تھی اور کافی دیر تک میانوالی میں یہ علاقہ شامل رہا جس کی وجہ سے آج بھی بھکر کے لوگوں کو بھی باہر کے علاقوں کے لوگ نیازی سمجھتے ہیں. کیونکہ میانوالی کے ساتھ ساتھ بھکر میں بھی نیازی قبیلہ کی کافی تعداد آباد ہے. دوسرا اس علاقے میں چونکہ نیازیوں کی ڈومینس مشہور ہے تبھی سمین پٹھان قبیلہ کے لوگوں نے بھی اپنے پڑوسی قبیلہ بلچ کی طرح اپنی بڑی شناخت یعنی سمین کو پس پشت ڈال کر خیلوں کو زیادہ اہمیت دی. جس کی وجہ سے بلچ اور سمین دونوں کے قبائل کے لوگ خود کو نیازی کہلوانے اور سمجھنے لگ گئے. بہرحال بلچ اور خیسور پٹھانوں کا مرکز پنیالہ چونکہ انکے قریب واقع تھا تبھی انکی شناخت اتنی زیادہ مسخ نہیں ہوئی. لیکن سمین جو تعداد میں بھی انتہائی کم تھے اور مرکز بھی قدرے فاصلے پر تھا انکی شناخت مخدوش ہو کر رہ گئی. حتیٰ کہ سمین پٹھانوں کی کچھ خیلیاں نیازی کے علاوہ بلچ پٹھان ہونے کی دعویٰ دار تو ہوئے ہی ہوئے ساتھ ہی ساتھ سمین پٹھان کی شناخت سے بھی انکاری ہوگئے..
حالانکہ نیازی و بلچ قبائل کے مؤرخین واضح طور پر اس چیز کا انکار کر چکے ہیں کہ سمین پٹھان نہ تو بلچ ہیں اور نہ ہی نیازی..


چونکہ ضلع بھکر میں پٹھانوں کی تعداد کم ہے اور غیر پٹھان اقوام کے ساتھ بودوباش کے سبب ان لوگوں میں وہ قبائلی شدت نہیں رہی تبھی لوگوں کو زیادہ دلچسپی نہیں رہی ہے کہ وہ کون ہیں نہ وہ پشتون ولی کا ڈھانچہ  قائم رہا. بھلا ہو جناب امان اللہ خان بلچ صاحب کا جنھوں نے میانوالی و بھکر کے بلچ قبیلہ کے لوگوں کو خواب غفلت سے بیدار کیا. اسی طرح جنید خان کے دل میں بھی خود کو جاننے کی جستجو پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں الحمد للہ رب العالمین ہم یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ہم نے کلور کوٹ کے سمین پٹھانوں کو پشتون لڑی سے دوبارہ جوڑ دیا ہے جس سے وہ صدیوں پہلے ٹوٹ چکے تھے..

ضلع بھکر کے سمین:

قیاس ہے کہ سمین قبیلہ کے لوگوں کی کل آبادی پانچ ہزار افراد سے زائد  ہوگی اور یہ ضلع بھکر کی تحصیل کلورکوٹ کے علاقوں  ڈیلی نمدار، جنڈانوالہ، سمین آباد ، ڈیلی کراس خدایار والا، ڈاکی چارگل، ہیتو بنڑنگا وغیرہ میں آباد ہیں..
سرکاری ریکارڈ کیا کہتا ہے؟
میں نے جنید خان فتح خیل کو درخواست کی ہے کہ وہ اپنی جدی پشتی اراضی کا ریکارڈ نکلوا کر مسٹر ٹکر کا بندوبست اول دیکھیں جو اٹھارہ سو بہتر میں ہوا تھا جب بھکر ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل تھی.
مزید سنا ہے کہ جناب محترم نیاز اللہ خان نیازی صاحب کی فیملی  نے اپنا ریکارڈ نکلوایا ہے اس پر نیازی لکھا ہوا ہے. واللہ اعلم چونکہ وہ اب تک میں نے دیکھا نہیں ہے. پس دیکھ کر ہی حتمی رائے دی جا سکتی ہے.
لیکن میرا ایک گمان یہ بھی ہے کہ ممکن ہے کہ وہاں نیازی لکھ دیا ہو.


اس کی وجہ یہ ہے کہ انگریز جب ریکارڈ بنا رہے تھے تو اس وقت کچھ بلچ پٹھانوں کو بھی مغالطہ ہوا کہ وہ نیازی ہیں جس کا ثبوت حیات افغانی پر موجود ہے جہاں وہ لکھتے ہیں کہ کچھ بلچ خود کو نیازی کی شاخ سمجھتے ہیں بلکل اسی طرح سمین پٹھانوں کی آبادی جو اس وقت محض چند سو ہوگی انھیں بھی غلطی کی بنیاد پر نیازی لکھا دیا ہو…لیکن میری ذاتی رائے ہے کہ سمین قوم کو انگریزوں ملتانی پٹھانوں کی فہرست میں رکھا ہوگا.
سمین قبیلہ کی  کلور کوٹ ضلع بھکر میں بڑی شاخیں؛
بڈر اور چلو خیل سب سے بڑی لڑیاں ہیں
اخروٹا خیل ، فتح خیل ، شاہ عالم خیل ، جاڑا سمین ، خدیئے خیل وغیرہ بھی شامل ہیں.

ضلع بارکھان کے سمین؛

ضلع بارکھان میں سمین خود کو بلوچی زبان سؤمن/سوئمن کہتے اور لکھتے ہیں.. ان کے چار درج ذیل گاؤں ہیں
کرم سمین، نوران سمین، شادو سمین  اور میران سمین ہیں
جہاں انکی کل آبادی پانچ ہزار کے لگ بھگ ہے. بارکھان میں سمین قوم کی درج ذیل شاخیں موجود ہیں.
آمانی، بگڑا، بھٹیانی، بھمبیانی، مزید ڈیرہ غازی خان، راجن پور، ڈیرہ اسماعیل خان، سبی اور موسیٰ خیل اضلاع میں بھی سمین بکھرے ہوئے ہیں

نوٹ:

یہ تحریر خالصتا اچھی نیت اور تحقیق کی نیت سے لکھی گئی ہے۔گمشدہ یا مخففی اشیاء پر تحقیات کے دروازے کبھی بھی بند نہیں ہوتے ۔پس درج بالا تحقیات حرف آخر نہیں۔بلکہ تحقیقاتی سلسلہ بدستور جاری رہے گا۔ اگر کسی صاحب کے پس اس سے زیادہ مستند اور ٹھوس ریکارڈ موجود ہو تو ہم خوش آمدید کہیں گے اور اس ریکارڈ کو اس تحریر کا نہ صرف حصہ بنایا جائے گا بلکہ خلاصتہ الکلام پر رجوع بھی کیا جائے گا۔


حوالہ کتب؛
١.گزٹیر آف لورالائی
٢. گزٹیر آف ڈیرہ اسماعیل خان
٣. گزٹیر آف ڈیرہ غازی خان
٤. تاریخ بلوچستان از ہیتو رام
٥. دی پٹھان برگیڈیر ہارون رشید
٦. نوٹس آن تھل چوٹیالی
٧. تاریخ کھیتران از  سردار سعد اللہ خان کھیتران

دیگر استفادہ کردہ کتب؛
١.گزٹیر آف میانوالی ١٩١٥ء
٢. گزٹیر آف ڈیرہ اسماعیل خان ١٨٨٣ء
٣. حیات افغانی ١٨٦٤ء
٤. تاریخ خورشید جہاں ١٨٩٢ء
٥. تاریخ افغانستان سدوزئی حکمران
٦. دی ڈکشنری آف پٹھان ٹرائب
٧. تاریخ بھکر از نور محمد تھند
٨. ٹرائب ایک کاسٹس آف این ڈبلیو ایف اینڈ پنجاب
٩. ترین او ترینو
١٠. گزٹیر آف ڈیرہ غازی خان
١١. گزٹیر آف کوئٹہ اینڈ پشین
١٢. گزٹیر آف ژوب
١٣. دی پنجاب کاسٹس
١٤. نومیڈز آف افغانستان
١٥.سینس آف انڈیا ١٩٠١ جلد پنجم
١٦. تاریخ نیازی قبائل کتاب
١٧. نوٹس آن افغانستان اینڈ بلوچستان
١٨. سینٹرل ایشیا مکگوریگر
١٩. حیات لودھی شوکت افغانی
٢٠ مخزن افغانی
٢١. صولت افغانی

تحریر و تحقیق:

نیازی پٹھان قبیلہ ٹیم

WWW.NIAZITRIBE.ORG

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں