روکھڑی کا نام روکھڑی کیوں ہے؟



ایک دو روز پہلے انٹرنیٹ پر ایک صاحب نے روکھڑی کے بارے میں اظہار خیال کیا جو حقیقت سے بہت دور تھا اور محض خیال آرائی کی تعریف میں ہی آسکتا ہے میں نے ضلع میانوالی کے مشہور گاؤں موضع روکھڑی کے بارے میں پرانے اعدادو شمار کے ذریعے اس گاؤں کا احوال “میانوالی جو میں نے سنا،دیکھا اور پڑھا” کے زیرعنوان اپنے طویل سلسلہ ء کلام میں روکھڑی کا ذکرانٹر نیٹ پر کر دیا ہواہےسوائے روکھڑی کے نام کی وجہ ء تسمیہ کے جسے میں نے تب اتنی ضروری نہ سمجھا تھا مگر اب روکھڑی کے نام کے بارے میں کچھ لکھ دینا بروقت و بر موقعہ لگتا ہے۔ روکھڑی گو ایک چھوٹا سا قصبہ اور گاؤں ہی ہے مگرا پنی سیاسی شہرت کی وجہ سے کہ یہ پٹھانوں میں سمند خیل پٹھانوں کے بزرگ و مورث اعلیٰ میر عبداللہ خان روکھڑی کے خاندان کی وجہ سے اپنی خاص اہمیت رکھتا ہےاگرچہ روکھڑی پر یہاں کے کئی مقامی وغیر مقامی نام نہاد مؤرخین اور دانشوروں نے بڑی طول طویل تحریرات کی ہیں جو مختلف کتابوں میں درج ملتی ہیں مگر افسوس یہ کسی رہنمائی کے قابل نہیں ہیں ایسے لگتا ہے کہ وہ روکھڑی سے کہیں زیادہ اپنی شہرت کے خواہاں تھےاور ایسی ایسی باتیں کر گئے کہ جن کو زمین و آسمان کے قلابے ملانے کے سوا کوئی اور نام دے ہی نہیں سکتے کم ازکم روکھڑی کی وجہ تسمیہ پر ہی کچھ فرما دیتے تو اچھا ہوتا جبکہ روکھڑی کے آثارِ قدیمہ پر بھی انہوں نے سیر حاصل مگر بے نتیجہ مبحث کی ہیں ۔وہ کوئی آسان سی روکھڑی کی قائل کن توجیہہ ہی دے دیتے تو اچھا تھا جیسے موہنجودڑو کے مشہور آثار قدیمہ کے بارے میں مؤرخین نے موہنجودڑو کے نام کا آسان ترجمع سندھی زبان میں “مرنے والوں کا مرگھٹ یا موئن جودڑو” یعنی موہنجودڑوکے نام کے ساتھ کیا ہے۔ آئیے روکھڑی پر اپنے بحث کا آغاز روکھڑی ہی کے ایک سپوت،مشہور سیاستدان میرعبداللہ خان روکڑی ہی کی خود نوشت کتاب “میں اور میرا پاکستان ” میں سے ایک اقتباس کو میں یہاں پر ہو بہو نقل کر کے کرتا ہوں ۔وہ خان فرماتے ہیں ،” ہماری ثقافت و معاشرے میں رسم و رواج کا اثر ہندو قوموں نے بھی قبول کیا اور یہاں پر ان کے قبیلے بھی خیلی کے نام پر شناخت ہوتے ہیں مثلاً ٹھاکر خیل، چندن خیل، رام خیل ، رچی خیل وغیرہ ۔اسی رواج سے میرے پردادے کا نام چونکہ سمند خان تھا اسلیے ہم سمندخیل کے نام سے شناخت ہوتے ہیں ” اُن کے اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ روکھڑی یا روکھڑی گاؤں میں کثیر ہندو آباد تھے ان میں رام خیل ہندو گویا ہندوؤں کے برہمن پیر ہوا کرتے تھے اور روکھڑی میں راکھڑی کے نام سے ہندو یہاں پر ہر سال ایک تہوار منایا کرتےتھے جیسے ہولی ،راکھی یا یہ راکھڑی کا میلہ یہ ہندوؤں کی رہن سہن کے تہوار تھے اور اسی ہی نوشت و ساخت کی عین بین تھے ہندو برہمنوں کے راکھڑی کے تہوار کی خاص بات یہ تھی کہ وہ ہندو جاتریوں اور جوانوں کی کلائی میں سوتی دھاگے سے ایک گانا (band) بطور راکھڑی یا راکھی کے نام سے دم کر کے باندھا کرتے تھے جسے آپ تعویذ کہ سکتے ہیں انگریزی میں جس کو ایمولیٹ (Amulet) کہتے ہیں جس کا مطلب ہوتا ہے کسی چیز کو حفاظتی تالا لگا دینایا رکھ ہے۔ بعد میں مسلمان مولوی صاحبان بھی اسی قسم کا تعویذ رکھ یا راکھی کے طور پر اپنی قوم کے مسلمانوں میں “تیغ بند” کہہ کر ان کے بازوؤں پر بطور تعویذ باندھا کرتے تھے جومتعلقہ شخص کی تلوار کی کسی ضرب سےحفاظت کی رکھ میں رکاوٹ کا ذریعہ بنتا تھا یہی ہندو راکھڑی یا روکھڑی، روکڑی میں مقیم تھے اور یہ گاؤں اس حوالے سے روکھڑی کے نام سے موسوم ہے۔ یہ اپنی ہی سرائیکی یا ہندکو زبان کا اصل اور مستند ایک نام ہی ہے ۔ ہمارے محترم سرائیکی شاعر فاروق روکھڑی مرحوم اپنی ذات سے ہندو شیخ روکھڑی خیل ہی تھےجن کے قبیلےنے بعد میں قبول اسلام کر لیا۔ اسی موضوع کو آگے لے کر چلتے ہوئے اس کو مزید نکھار نے کی کوشش کرتے ہیں۔ گھنڈی سنبل پٹھانوں کا آبائی جائے مقام ہے جو کندیاں کے قریب ہےسنبلوں کے جائے مقام کو آبائی طور پر بان یا بھانڑکہ کر پکارنے کا ایک خاص رواج ہےاور کانٹوں کی کوئی باڑھ مال مویشیوں کی حفاظت کے لیے کھڑی کرنے کے نام کو بھی باڑھ رکھنا کہتے ہیں اور آگے چلیے پٹھانوں کا ایک دوسرا مشہور قبیلہ خیسور ہے جو جنوب میں موجودہ چشمہ بیراج کے پار ڈیرہ اسماعیل کی جانب ایک پہاڑی پر آباد ہے اس کا پورا نام ہے ” رکھ خیسور “جسے مختصراً “کیڑی خیسور” کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں تو یوں لفظ ‘ر’ کی پڑھت کو آگے بڑھاتے ہوئے رکھ ،راکھی ،راکھڑی ،روکھڑی، روکڑی یہ سب ایک سے ہم جنس و ہم جان الفاظ ہیں جو ایک دوسرے کے متبادل بھی مستعمل ہوتے ہیں۔ ویسے تو قدیم تاریخی ادوار میں روکھڑی نکبی یا نک کپی کا میں اپنے پچھلے سلسلہ ء مضامین”میانوالی جو میں نے سنا،دیکھا اور پڑھا” میں پہلے ہی ذکر کر چکا ہوں مگر یہ بہت قدیم زمانہ تھا جب اس علاقے میں پوتھ یا پوتھی نام کی کوئی قوم آباد تھی۔ مرحوم میرے استاد عمر حیات خان شیرمان خیل برادر کیپٹن انور خان شیرمان خیل مرحوم ایم بی ہائی سکول میانوالی میں میرے سائنس ٹیچر رہے وہ میانوالی کی مقامی تاریخ میں بڑا شغف اور شوق رکھتے تھے اور تاریخی کتب کا تا دمِ آخر ان کے پاس ایک کافی بڑا ذخیرہ تھا اسی روکھڑی کے نام کےبارے میں وہ مجھ سے مکمل اتفاق رکھتے تھے۔اجازت چاہتا ہوںباقی رہے نام سائیں کا۔
حوالہ جات :
۱- میں اور میرا پاکستان از میر عبداللہ خان روکھڑی خودنوشت کتاب
۲- پاکستان کے سیاسی وڈیرے از کتاب عقیل جعفری (صفحہ ۳۰۳)
۳- کتاب الانساب از مولوی جناب غلام یٰسین الکلوروی
۴- پنجاب کے رسم و رواج کی انسائیکلو پیڈیا مصنفہ انگریز مؤرخ
فیروز شاہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں