ہیبت خان نیازی اور چاکر رند کے مابین تعلقات۔۔۔


میر چکر رند: افسانے کو تاریخ سے الگ کرنا

لکھاری   برمازید

جدید زمانے کے مؤرخین میر چاکر رند کو “بلوچستان کا بادشاہ” کہتے ہیں  جبکہ اس کے  نام کے ساتھ جاتا ہے “چاکر اعظم” جیسے لقب کو  منسلک کرتے ہیں۔تاہم ، تاریخ کے محتاط مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ، میر چاکر  نامی شخص کسی بھی علاقے کا  کسی بھی زمانے میں بادشاہ نہیں گزرا۔ لوک داستانوں اور  افسانوی کہانیوں کو  بڑھا چڑھا کر اورتاریخ سمجھ کر نقل کیا گیا ہے۔حتی کہ بلوچ  لوک داستانوں  اور قصوں میں بھی ، چاکر رند محض ایک قبائلی سردار سے بڑھ کر اور کچھ  نظر نہیں آتے۔یہاں تک کہ  وہ  لشاری قبیلے کے  سردار  سے زیادہ طاقتور  نہیں تھے جس کو وہ  تیس سالہ طویل قبائلی جنگ میں  بھی شکست نہیں دے سکا۔اگر  کچھ دیر کیلئے بلوچ  لوک قصوں  اور داستانوں پر یقین کر بھی لیا جائے اور  انھیں سنجیدگی سے لیا جائے تو  پتہ چلتا ہے کہ چاکر رند  اپنے   چالیس ہزار سواروں  کی معیت میں  مغل بادشاہ  ہمایوں کے ساتھ  شامل ہوکر دہلی  فتح  کرنے گیا ۔ مگر کسی بھی تاریخی ثبوت کے ذریعہ اس بات کی تائید نہیں ہوتی۔گلبدن بیگم اور جوہر آفتابچی جو ہمایوں بادشاہ کے ساتھ اس سفر میں شامل تھے اور تمام واقعات کے چشم دید گواہ ہیں۔ لیکن انھوں نے اپنی کتابوں میں اتنے بڑے لشکر یا میر چاکر کا کہیں بھی ذکر نہیں کیا ۔ جو کہ حیران کن امر ہے۔ ابو الفغل جوکہ  مغل بادشاہ اکبر کے دربار کا ایک اہم درباری تھا بلکہ اس کا نورتن  بھی تھا۔اس نے بھی  ہمایوں بادشاہ کی  دہلی فتح کرنے  کی داستان میں کہیں بھی کسی میر چاکر رند کا ذکر نہیں کیا ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چاکر رند  نامی کوئی  شخص نہیں تھا اور  ہمایوں کے لئے  ایک غیر اہم شخص۔

لونگ ورتھ کی نقل شدہ  بلوچ رزمیہ  داستانوں  سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ   ، میر چاکر اور اس کے افراد  دہلی کے ترکوں کے خلاف لڑے تھے۔مگر مستند شدہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمایوں 1555ء میں دہلی کیلئے افغانوں سے لڑا۔لانگ ورتھ ڈیمز کی   ریکارڈ کردہ ایک اور بلوچ لوک روایت  میں ، چاکر رند  کو مغل بادشاہ شہنشاہ ہمایوں کے ساتھ جنگ کرتا  دکھایا گیا ہے [4]۔ یہ رزمیہ داستان بھی مغل تاریخ کے ساتھ میل نہیں رکھتی۔

مقبرہ چاکر رند واقع ستگھرہ ،اوکاڑہ

تو پھر آکر  یہ تاریخی  شخصیت  میر چاکر رند کون تھا کون؟

 خواجہ نظام الدین احمد کی کتاب طبقات اکبری  (1593-94 تکمیل شدہ) ، میر چاکر رند16 ویں صدی کے ابتدائی  زمانہ میں  سیوی(موجودہ سبی ) کے  نواح سے   اپنے دو بیٹوں میر اللہ داد  اور میر شاہ داد کے ساتھ ملتان آیا۔

رند نے ملتان کے سلطان محمود لنگاہ کے دربار  میں باریابی   کی کوشش کی لیکن وہ  سلطان محمود لنگا ہ کے ایک مقرب درباری  ملک سہراب دودائی بلوچ   کی مخالفت کے سبب اس میں ناکام رہا۔  میر چاکر رند   نے مایوس   ہوکر   ملتان  کو چھوڑ دیا اور شور کوٹ (ضلع  جھنگ  ) کے جام بایزید سمہ  کے زیر سایہ جائے پناہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔جام بایزید دراصل  لنگا ہ سلطنت کا ایک  منحرف شدہ وزیر تھا۔ جس کو  سلطان سکندر لودھی نے شور کورٹ کا نیم خودمختار حاکم تعینات کیا تھا اور ساتھی ہی جاگیردار (غالبا  ستگھرہ  کا) مقرر کیا۔

طبقات اکبری میں اس بارے یوں درج ہے کہ

“اس وقت کے بارے میں میر چاکر زند (” میر چاکر رند “پڑھیں) ملتان  میں اپنے دو بیٹوں میر اللہ داد  اور میر شاہ داد کے ساتھ  سبی کے نواح سے آئے تھے۔میر شاہ داد   وہ  پہلا آدمی  تھا جس نے ملتان میں شیعہ مذہب کو فروغ دیا۔  ملک سہرب دودائی جو کہ  لنگاہوں کے ہاں بڑا مرتبہ و  اعزاز میں رکھتا  تھا ، جس کے سبب  میر چاکر رند وہاں نہیں رہ سکتے تھے۔ اور جام بایزید کے پاس   پناہ کی تلاش کی۔ چونکہ  وہ ایک قبیلہ  کا سردار  تھا، تبھی جام بایزید نے اس کا  بہت اعزاز کے ساتھ استقبال کیا ، اور اسے اور اس کے بیٹوں  کو  خالصہ سرکار میں سے زمین عطا کی۔”]

پس اس طرح ہمیں معلوم ہوا کہ میر چاکر رند ، سلطان سکندر لودھی کے عہد میں ،جام بایزید کے  ماتحت ایک معمولی جاگیردار  سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔

طبقات اکبری کا مصنف میر چاکر کو  بادشاہ کی بجائے  ایک قبیلے کے سربراہ بتاتا ہے۔

میر چکر رند کا ذکر  ایک اور تاریخی کتاب تحفہ اکبر شاہی” میں بھی  آیا ہے ، جس کو  شیر شاہ سور کی سوانح حیات سمجھا جاتا ہے۔جس کا مصنف عباس خان سروانی ہے۔

عباس خان سروانی  یہ کتاب  مغل شہنشاہ اکبر کے احکامات پر  1580 ء میں مرتب کی۔ اس  ماخذ ہمیں پتہ چلتا ہے کہ چاکر رند، شیر شاہ سور کے حکم پر  محض ایک پرگنہ  یعنی چھوٹے  سے علاقے ستگھرہ (ضلع اوکاڑہ)کے منتظم  کی حیثیت  رکھتا  تھا۔

 شیر شاہ  سور کے گورنر  پنجاب  ، ہیبت خان نیازی نے ایک بار چاکر رند کے علاقے  کا دورہ کیا۔

اس دورہ کے دوران میر چاکر رند عدم تیاری کے سبب گھبرایا ہوا نظر آتاہے۔

اس واقعہ کو عباس خان سروانی اپنی کتاب تحفہ اکبر شاہی میں کچھ یوں بیان کرتا ہے

“جس وقت  شیر شاہ نے  رائے سین  کے قلعے کا محاصرہ کیا  تو اسے خواص خان کی جانب سے  ایک خط موصول ہوا ، جس میں خواص خان نے لکھا کہ اس  کے  اور  ہیبت خان نیازی کے مابین کچھ اختلافات پیدا  ہوچکے  ہیں۔اس خط میں شیر شاہ سور سے  درخواست  کی گئی کہ  ہیبت خان یا پھر خواص خان  دونوں میں سے ایک کو  واپس طلب کرلیں۔ خواص خان  کے ان  خطوط   کے بعد ، شیر شاہ  نے پنجاب  سے خواص  خان ، عیسیٰ خان نیازی اور حبیب خان کو  واپس طلب کرلیا۔ جس کے بعد  پورے پنجاب  پر ہیبت خان نیازی کو حکمران بنا دیا گیا اور ہیبت خان نیازی کو حکم دیا گیا کہ ملتان   پر  ریاست کی  عملداری کو بحال کرکے بلوچوں کی غارت گری کا خاتمہ کرتے ہوئے  امن و عامہ کو بحال    کیا جائے  ۔ ساتھ ہی یہ بھی حکم دیا گیا کہ  فتح خان  جاٹ سکنہ قبولہ سے بھی نپٹا  جائے جس نے  مغلوں کے عہد میں ملتان تا پانی پت تباہی پھیلا رکھی تھی۔ جیسے ہی ہیبت خان کو یہ احکامات موصول ہوئے ، اس نے  فورا  چاکر رند جوکہ  ستگھرہ   کا  ناظم تھا  اسکو طلب کیا۔

 ایک قاصد  میر چاکر رند کی جانب یہ اطلاع لیکر روانہ ہوا کہ ہیبت خان نیازی ان علاقوں کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔پس چاکر رند  پیشگی معائنہ  کیلئے ایک فوجی دستہ کو چاک چوبند کرکے تیار  رکھے۔ یہ واقعہ سنانے والا  شخص   چاکر رند کا وہی قاصد ہے۔ جو ہیبت خا نیازی کے دربار میں چاکر رند کا تسلیم نامہ لیکر حاضر ہوا اور جس کو ہیبت خان نیازی نے یہ پیغام دیکر  واپس بھیجا جس کا نام فتح خان کمبوہ تھا۔ وہ یہ بتاتا ہے کہ جب  میں یہ پیغام لیکر چاکر رند کے پاس پہنچا تو چاکر رند مہمان داری کیلئے تیاریاں کرنے لگا۔ مگر اگلے ہی دن یہ اطلاع پہنچی کہ  ہیبت خان نیازی ستگھرہ سے بارہ کوس فاصلہ پر آن پہنچا ہے۔ اس صورت حال میں چاکر رند گھبرا گیا  کیونکہ معائنہ کا فوجی دستہ اور مہمانوازی کیلئے  بندوبست ابھی تک مکمل نہیں ہوا تھا۔اگلے روز صبح تڑکے خبر پہنچی کہ ہیبت خان نیازی پہنچنے والا ہے۔ میر چاکر بدحؤاسی میں گھوڑے پر سوار ہوکر ہیبت خان نیازی کے استقبال کیلئے روانہ ہوا۔جیسے ہی چاکر رند ، ہیبت خان نیازی کا استقبال کیلئے پہنچا تو ہیبت خان نیازی نے کہا کہ اے چاکر میں تمھاری فوج کا معائنہ دیپالپور میں کروں گا۔ مبادا یہاں وقت ضائع ہوجائے اور فتح خان جاٹ ہاتھ سے نہ نکل جائے۔”

اسی طرح ایک اور ہمعصر کتاب مقامات داؤدی از مصنف عبدالباقی بن جان محمد جنھوں نے یہ کتاب 1643ء کے لگ بھگ اپنے پیر و مرشدحضر شیخ داؤد کرمانی(متوفی 1575ء) کے احوال و کرامات پر لکھی جن کی پوری عمر ساہیوال و اوکاڑہ کے نواح میں دعوت و تبلیغ میں گزری۔

اس کتاب میں عبد الباقی رقمطراز ہیں کہ

“حضرت کا جہاں قیام تھا وہاں پر شیر خان افغان کے عہد میں اس کے ماتحت میر چاکر بلوچ کے لوگوں کی ایک جماعت راہداری کے طور پر اس جگہ بیٹھا کرتی تھی۔یہ لوگ ملتان سے آنے جانے والوں کی نگرانی و حفاظت پر معمور تھی۔یہاں انھوں نے کچی چار دیواری میں اپنا ایک ٹھکانہ بنا رکھا تھا۔جس کو اپنے بادشاہ شیر خان افغان کے نام کی وجہ سے شیر “گڑھ نام سے منسوم بھی کیا ہوا تھا۔اس زمانے میں اعلیٰ مراتب پر تمام افغان امراء تعینات ہوتے تھے۔

تحفہ اکبر شاہی و مقامات داؤدی کے مذکورہ بالا بیانات سے ثابت ہوتا ہے کہ چاکر رند  ایک خودمختار ریاست کا بادشاہ ہونا تو دور بلکہ وہ گورنر پنجاب ہیبت خان نیازی کے ماتحت  ستگھرہ  نامی علاقہ  کا  ایک  معمولی   جاگیردار تھا۔ مستند تواریخ سے یہ بات بھی مشاہدہ میں آتی ہے کہ وہ بلوچ  قوم پرست ہیرو  تشخص سے بھی بہت دور تھا کیونکہ وہ  دیگر ہم قوم بلوچوں کے ساتھ افغانوں کا حلیف بن کر  عرصہ دراز تک لڑتا رہا۔ اس کے بعد چاکر رند تاریخ کے  صفحات سے اوجھل ہوجاتا ہے مگر ستگھرہ کی جاگیر بدستور اس کے پاس رہتی ہے جہاں اس کا انتقال ہوتا ہے اور وہیں اس کی تدفین ہوتی ہے۔

ترجمہ :

نیازی پٹھان قبیلہ ویبسائٹ ٹیم

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں