مکڑوال تاریخ کے آئینہ میں۔۔۔


عروج و زوال کی ایک سبق آ موز داستان۔۔

سلطان خیل شہر کے مغرب میں 3 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع مکڑوال ایک صنعتی یونٹ اور جدید سہولیات سے آراستہ خوبصورت تفریحی مقام ہے۔گوکہ مکڑوال ، موضع سلطان خیل کی ہی ایک قدیم بستی ہے مگر جدید انفرااسٹرکچر ، معاشی سرگرمیوں کا مرکز اور شعبۂ کانکنی و مائینگ پروفیشنلز کی آباد کاری نے اسے غیرمعمولی شہرت عطا کی ۔میانوالی کی سطح پر تو مکڑوال کو عرصہ دراز سے ایک ممتاز مقام حاصل تھا مگر قیام پاکستان کے بعد 1954ء میں جب یہاں کی کانیں پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن (PIDC) کے حوالے کی گئیں اور درسی کتب میں معدنی کوئلے کے ذخائر رکھنے والے مقام کے طور پر اس کا ذکر ہوا تو مکڑوال کو ملک گیر شہرت ملی۔

مکڑوال میں واقع کوئلہ کی کان کا ایک منظر

1956ء میں پی آئی ڈی سی نے یو ایس ایڈ (USAID)کے فنڈ ​​سے یہاں ایک دس سالہ بڑا ترقیاتی پروجیکٹ شروع کیا تو مکڑوال کی شہرت عالمگیر سطح پر پہنچی ۔مکڑوال کی اس عالمگیر شہرت اورغیر معمولی ڈویلپمنٹ کے سامنے سلطان خیل نامی بستی گمنامی میں چلی گئی۔سچ تو یہ ہے کہ موضع سلطان خیل میں جو تھوڑے بہت ترقیاتی کام ہوئے وہ بھی مکڑوال کالریز ہی کے مرہون منت تھے ۔

مکڑوال نام کی وجہ تسمیہ:

مکڑوال نام کی وجہ تسمیہ مکڑی ہر گز نہیں ہے اور نہ ہی یہاں مکڑیوں کا کوئی بسیرا تھا۔یہ ایک غیر آباد علاقہ تھا اور سلطان خیل کے مختلف برادریوں کی ملکیت تھا مگر یہاں آبادی نہیں تھی ۔اس مقام کے قریب سے ایک پہاڑی برساتی نالہ گذرتا ہے جو آگے جا کر سلطان خیل شہر کے درمیان سے ہوتا ہوا زرعی زمینوں کو سیراب کرتا ہے اس برساتی نالے کا منبع پہاڑ کے جس مخصوص مقام پر واقع ہے اسے اہل علاقہ نے مکوڑ کا نام دیا۔

مکوڑ دراصل غزنی کے نواح میں واقع ایک مشہور جگہ کا نام ہے جہاں نیازی قبیلے کے بھائی بند دوتانی آباد ہیں ۔سلطان خیلوں نے موضع سلطان خیل آمد پر یہاں کی بہت سی جگہوں کو اپنے سابقہ مسکن افغانستان اور ہندوستان میں موجود علاقوں کے ناموں سے منسوب کیا جیسے خراساں ،ڈب خیسور ، بڑوچ اور گڑانگ وغیرہ۔

کوئلہ کی لوڈنگ کا ایک منظر

اسی طرح برساتی نالہ مکڑوال جس مقام سے شروع ہوتا ہے اہلیان سلطان خیل نے غزنی کے علاقے مکوڑ کی نسبت س اسے مکوڑ نام دیا جو مکوڑ سے مکڑ اور بعد میں یہاں کوئلے کی دریافت اور ہندو لیز مالکان اور غیر مقامی لوگوں نے اسے مکڑوال بنادیا۔

مکڑوال کی ایک اور وجہ تسمیہ بھی ہے مگر وہ تاریخی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی ۔کہتے ہیں کہ ہندوؤں کی معروف اور طاقتور قوم اروڑہ میانوالی سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں میں آباد تھی ہندو اروڑہ قوم میں ” مکڑ ” نام کی ایک ذیلی شاخ یا گوت بھی پائی جاتی ہے اور قیاس ہے کہ مکڑوال کو ہندو گوت مکڑ کی نسبت سے یہ نام ملا ہو لیکن تاریخی طور پر یہاں ہندوؤں کی آباد کاری کے کوئی شواہد نہیں ملتے۔ ۔

سلطان خیل غر جو گوروں کے دور میں کوہ خٹکاں اور سرکاری ریکارڈ میں سور غر درج ہے یہاں کوئلہ کی تلاش میں پہلے پہل (غالباً 1885میں) ایک انگریز اور ہندو سرمایہ کار آئے اور 1913ء میں انہیں برٹش سرکار نے سور غر کی لیز دی ۔

سرکاری ریکارڈ میں اس ہندو سرمایہ کار کا نام لالہ ایسرداس درج ہے جس کی کاسٹ پتائی تھی اس لئے ہندو کاسٹ مکڑ کی نسبت سے مکڑوال کا نام پڑنا تاریخی شواہد سے میل نہیں کھاتا۔

مکڑوال کا تاریخی پس منظر

مکڑوال کو تاریخی طور پر تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے

  • ۔ برٹش دور

مکڑوال کالری لمیٹڈ ،( 1878تا 1947)

  • قیام پاکستان کے بعد کا دور

پی آئی ڈی سی اور پی ایم ڈی سی (1947 تا 1995)

  • مکڑوال کا موجودہ دور

مکڑوال کالری کی نجکاری MCL اور MWC (1995 تا حال )

برٹش دور:

مکڑوال کالری لمیٹڈ (1878ء تا 1947)

برطانوی دور حکومت میں پہلا بندوبست 1878ء میں ہوا جس کے تحت ملکیتِ اراضی کا سرکاری ریکارڈ مرتب ہوا اور سلطان خیل کی مختلف برادریوں نے سلطان خیل کلی سے نکل کر اپنی اپنی ملکیتی اراضی پر آباد ہونا شروع کیا سلطان خیل کے مضافات میں وانڈھا جات کا قیام اسی دور میں ہوا۔مکڑوال کی اراضی کا بڑا رقبہ خاگو خیل قوم کے جد امجد خاگو کے حصے میں آیا۔مکڑوال کا مشرقی حصہ ہندال خیل قوم کے اٹلی خیل شاخ کی ملکیت ٹھہرا ۔

جامع مسجد اور مارکیٹ والا ایریا میانہ برادری کو ملا جبکہ باقی ایریا شمالات دیہہ میں شامل کیا گیا ۔ مکڑوال میں ایم سی بی بنک اور سروے کالج والی اراضی عیسٰی خیل کے صلاح الدین خان کی بتائی جاتی ہے واللہ اعلم۔

ایک اخبار میں لکھے مضمون کا عکس

اٹلی خیل برادری پہلے بندوبست 1878 کے بعد اپنی ملکیتی زمین پر آباد ہوئی جو اب مکڑوال کی کچی کالونی کہلاتی ہے ۔کچی کالونی میں آباد دیگر برادریاں جن میں بازید خیل ، چھرال ، جخور ، میانے ، شیخ وغیرہ شامل ہیں یہ لوگ اراضی خرید کر کچی کالونی میں رہائش پذیر ہوئے ۔1885ء میں بیٹسمن نامی ایک انگریز اور لالہ ایسر داس نامی ہندو یہاں کوئلے کی تلاش میں آئے ۔ان دونوں نے مکڑوال کالری لمیٹڈ کے نام سے کمپنی قائم کی اور اس کمپنی کو برٹش سرکار سے اس پہاڑ(کوہ نمک) کی لیز ملی جو سرکاری ریکارڈ میں سور غر (سرخ پہاڑ) درج ہے ۔میانوالی کو 1901ء میں ضلع کا درجہ ملا اور اس کمپنی کو یہ لیز میانوالی کے ضلع بننے سے پہلے ملی۔زبانی روایات کے مطابق علاقہ عمائدین نے مالکانہ ٹیکس ،فراہمی آب اور جنگلی حیات کو نقصان نہ پہنچانے کی شرط پر اس لیز پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔

اس وقت ملاخیل ، کرندی ، گولاخیل اور چاپری کی طرف کوئلے کی تلاش کا کام شروع نہیں ھوا تھا یہ سلسلہ صرف مکڑوال تک محدود تھا ۔اور مکڑوال کالری لمیٹڈ کی حدود لمشیوال سے نیلے (خجی) تک تھی ۔

مکڑوال کالری لمیٹڈ نے پہلے پہل خجی ( اولڈ سیکشن بی ) کے مقام پر مائینگ شروع کی۔اور 1913ء میں کوئلے کی باقاعدہ پیداوار اور ترسیل شروع ہوئی اس دوران مکڑوال کالری کا ہیڈ آفس ماڑی میں تھا اور کانوں سے نکلنے والا کوئلہ اونٹوں کے ذریعے ماڑی پہنچایا جاتاتھا۔مکڑوال کے حدود میں بڑے بڑے مائن ہندو اور انگریزوں کے ناموں پر تھے جیسے رام چند ، دھلو رام( بسم اللہ مائن) ،پرتاب ، چارلس، لمشیوال ، دھنی وال ، گودھڑا ، دل باغ ، چوہنی لعل وغیرہ ۔ 1928ء میں ماڑی کو کالاباغ سے ملانے والا کالاباغ پل تعمیر ہوا تو مکڑوال کالری کا ہیڈ آفس ماڑی سے مکڑوال منتقل ہوا اور لالہ ایسرداس کے بھانجے چوہنی لعل کا بطور کمپنی ڈائریکٹر تقرر ہوا جس کے نام پر ایک کان آج بھی موجود ہے۔

جامع مسجد مکڑوال

جب مکڑوال کالری لمیٹڈ کا ہیڈ آفس مکڑوال منتقل ہوا تو کمپنی مالکان نے یہاں کی اراضی خاگو خیلوں اور میانہ برادری سے خرید لی معتبر ذرائع کے مطابق مکڑوال کالری کے مالک ایسرداس نے موجودہ پولیس تھانے سے لیکر غفور ٹوبے تک کا علاقہ خرید لیا اور شمالات دیہہ پر بھی قبضہ کیا ۔اس دوران مکڑوال میں کافی تعمیرات ہوئیں جن میں موجودہ مکڑوال کالری کے ہیڈ آفس والی عمارت ویلیم بیٹنر نامی جرمن جیولوجسٹ کا بنگلہ برٹش دور کی یادگار ہے۔ترگ سے مکڑوال تک مال بردار چھوٹے گیج کی ریلوے ٹریک بھی برٹس دور کے آخری ایام میں بچھائی گئی۔

قیام پاکستان کے بعد کا مکڑوال:

پی آئی ڈی سی اور پی ایم ڈی سی (1947 تا 1995)

قیام پاکستان کے بعد 1949ء میں مکڑوال کالری لمیٹڈ قومی اثاثہ ٹھہرا اور اسے پاکستان کی وزارت صنعنت و پیدوار کی تحویل میں دیا گیا ۔ 1952 ءمیں وزات صنعت و پیدوار کے تحت پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن کا قیام عمل میں آیا ۔

اور مارچ 1954ء میں مکڑوال کالری لمیٹڈ کو پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن (PIDC) کی تحویل میں دیا گیا اس کے پہلے پروجیکٹ ہیڈ کے طور پر ڈاکٹر انوارالحق کا تقرر ہوا ۔ پی آئی ڈی سی نے سب سے پہلے مٹھہ خٹک سے تندر خیل (کالاباغ ) تک 30 کلو میٹر طویل پہاڑی ایریا کی لیز حاصل کی۔اس دور میں پی آئی ڈی سی نے یو ایس ایڈ کی16.7ملین روپے فنڈنگ سے دس سالہ (1956 تا 1965ء )ترقیاتی پروگرام شروع کیا کوئلے کی پیداوار بڑھانے کے لئے غیر ملکی ماہرین بلائے گئے جیساکہ چیف مائینگ انجئینر ہائمن ، 1954ء سے 1959ء تک اور ڈبلیو ۔شیرر 1959ء سے 1964ء تک مکڑوال کالری کے پروجیکٹ ہیڈ رہے ۔ یو ایس ایڈ ترقیاتی پروگرام کے تحت کوئلہ کے پیداوار کا ہدف 3 لاکھ ٹن سالانہ رکھا گیامگر یہ ہدف حاصل نہ ہوسکا اور کچھ تکنیکی وجوہات کی وجہ سے کوئلہ کی پیداوار کا ہدف صرف 2 لاکھ ٹن سالانہ تک رہا ۔ترقیاتی فنڈ سے مطلوبہ ہدف تو حاصل نہ ہوسکا مگر مکڑوال کالری نے کوئلے کی تلاش اور مکڑوال سے گولا خیل و چاپری تک جا بجا کانوں کی ایک جال بچھا دی ۔اسی دور میں مکڑوال کالری کے زیرانتظام علاقہ وار5 مختلف سیکشن اے ، بی ،سی،ڈی اور ای کی تشکیل ہوئی اور ہر سیکشن میں درجنوں کول مائینز اور اس کے لئے لیبر کی بھرتی کی گئی ایک اندازے کے مطابق اس وقت مکڑوال کالری میں ریگولر لیبر کی تعداد 3 سے 4 ہزار تک تھی اور 80کے لگ بھگ کانیں تھیں۔ یو ایس ایڈ سے جہاں کوئلے کی پیداوار میں بہتری کی کوشش کی گئی وہاں مکڑوال میں بہت سی کمرشل اور رہائشی تعمیرات ، ویلفئیر انفرااسٹرکچر اور دیگر بہت سی ڈویلپمنٹ بھی ہوئیں ۔

ایم سی ایل کا مرکزی دروازہ

ان ڈویلمپمنٹ پر تفصیلی روشنی تو بعد میں ڈالوں گا سردست اتنا کہوں گا کہ ان تعمیراتی اور ترقیاتی کاموں نے مکڑوال کی ہیئت بدل کر رکھ دی اور مکڑوال جدید سہولیات سے آراستہ اور معاشی سرگرمیوں کا حب بن گیا اور اسے عالمگیر شہرت ملی۔یہی وہ دور تھا جب مقامی لوگوں نے اسے ٹیسن (اسٹیشن) کا خطاب دیا۔مکڑوال کو ٹیسن دراصل ریلوے اسٹیشن کی نسبت سے کہا گیا جہاں ہر وقت لوگوں کی چہل پہل ہوتی ہے ۔1959ء میں صدر ایوب خان کا دور شروع ہوا جو صنعتی اعتبار سے پاکستان کا سنہرا دور سمجھا جاتا ہے اور اس وقت مکڑوال کالری، ایوب خان کے دست راست اور گورنر مغربی پاکستان نواب آف کالاباغ ملک امیر محمد خان کے کنٹرول اور زیر اثر تھا ۔مکڑوال کالری 1954 ء سے 1974ء تک پی آئی ڈی سی کے زیر انتظام رہا۔جولائی 1974ء میں پی آئی ڈی سی طرز کا ایک اور ادارہ پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن (پی ایم ڈی سی) وجود میں آیا جس کے دائرہ کارمیں معدنیات کا شعبہ اور ہر قسم کی ۔معدنی کانیں تھیں ۔سو 1974ء میں مکڑوال کالری کو بھی پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن کی تحویل میں دیا گیا ۔ان دنوں مکڑوال کالری کے پروجیکٹ کے ہیڈفراست علی شاہ تھے جو 5 سال تک اس عہدے پر رہے ۔فراست علی شاہ کا دور مکڑوال کالری کا سب سے سنہرا اور خوشحال دور سمجھا جاتا ہے ۔اس دور میں پی ایم ڈسی میں دو مرتبہ بھاری بیرونی سرمایہ کاری ہوئیپہلی بار پرانی اور بوسیدہ مشینری کو تبدیل کرنے کے لیے 24.308 ملین روپے کی بیرونی سرمایہ کاری ہوئی اور دوسری مرتبہ18.089 ملین روپے کی مزید بیرونی سرمایہ کاری ہوئی جو نئے کانوں کی تلاش و کھدائی اور کوئلہ کی پیداوار میں بہتری کے لئے تھی۔اس سرمایہ کاری سے جہاں مزید مائینگ ہوئی وہاں لیبر کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا اس دور میں رگولر لیبر کی تعداد پانچ ہزار سے تجاوز کرگئی او کانوں کی تعداد 100 تک پہنچ گئی ۔اس بھاری بیرونی سرمایہ کاری کا بھی کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہواالبتہ فراست علی شاہ کا دور لیبرز کے لئے ایک سنہرے دور کے طور پر ضرور یاد کیا جاتا ہے۔مکڑوال کالری کے مختلف سیکشن میں مقامی اور غیر مقامی دونوں طرح کے محنت کش آٹھ آٹھ گھنٹے کی تین شفٹوں میں کام کرتے تھے مزدور آسودہ حال تھے۔

لیبر کے لئے اوور ٹائم ، عید پر بونس ، لیبر کا ای او بی آئی کے ساتھ رجسٹریشن، لیبر ویلفئیر ڈیپارٹمنٹ کا قیام ، لیبر کے بچوں کے لئے بوائز و گرلز ہائی اسکول اور بچوں کی مفت یونیفارم اور کتابیں، مائینز لیبر ویلفئیر اسپتال کا قیام اور مزدوروں کا بلا معاوضہ علاج ومعالجہ ، راشن شاپ سے سستی چیزوں کا حصول ، مائنز ریسکیو اینڈ سیفٹی سنٹر اور مکڑوال مائینز لیبر سروے انشٹیٹیوٹ جیسی مراعات و سہولیات دی گئیں ۔اس دور کی مالی خوشحالی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ مکڑوال میں بیک وقت تین مختلف بنکوں کے برانچز تھے نیشنل بینک ، ایم سی بی ،یو بی ایل اب تو صرف ایم سی بی بنک کی ایک برانچ رہ گئی ہے ۔خواتین کے مینا بازار اسی دور میں لگتے تھے ، ہاکی اور والی بال کے نیشنل لیول کے ٹیمیں اور میچز کا انعقاد ، ہر ہفتے بڑی اسکرین پر پاکستانی فلموں کی نمائش ، قومی تہواروں پر تقریبات اور خٹک ڈانس ، آفیسر کلب میں ان ڈور گیمز اور خوش گپیاں ، آفیسر میس میں لذت کام و دہن یہ سب کچھ اسی دور زرین کی یادگاریں ہیں ۔ 13 ہزار ایکڑ رقبہ پر پھیلے مکڑوال کالریز میں صرف مکڑوال کالونی 16 سو کنال رقبے پر مشتمل ہے جس پر فراست علی شاہ کے دور میں دیوار چین طرز کی ایک 10 فٹ اونچی دیوار تعمیر کی گئی دیوار کے اوپر خاردار جنگلہ لگایا گیا یہ باؤنڈری وال آج بھی موجود ہے۔ باؤنڈری وال کے اندر ایک نئی دنیا آباد تھی باہر کی دنیا سے مختلف ,، ماڈرن و مہذب اور جدت آشنا دنیا ۔ چہار سو کول تار روڈوں کے جال ، جن پر نصب بجلی کے پول اور روشن بلب ، پھل دار اور سایہ دار درختوں کے جھنڈ اور ان پر پرندوں کا بسیرا ، بنگلوں کے آگے پھول کلیوں سے مہکتےباغیچے ۔ ہر طرف مالی ، خاکروب اور وسل و بندوق بردار چوکیدار ۔اسپتال میں دو ایمبولنس ہمہ وقت تیار،تین درجن دکانوں پر مشتمل جامع مسجد کی جدید طرز پر بنی مارکیٹ جس میں ضروریات زندگی کی ہر چیز دستیاب تھی۔ تازہ پھل اور سبزیاں تک ملتی تھیں ۔ چائے خانے ، ہوٹل ، خورد نوش کے اسٹالز ، کریانہ اسٹور ، حمام ، شوز میکر حتّی کہ نسوار مینوفیکچر فیکٹریاں تک موجود تھیں۔بنوں کے بعد سب سے زیادہ نسوار مکڑوال میں تیار ہوتی تھی جو تاثیر کے لحاظ سے ملک بھر میں مشہور تھی ۔

سروے انسٹیٹیوٹ مکڑوال میں طلباء کا ایک منظر

کوئلہ اٹھانے روزانہ مال بردار ریل گاڑی اور سینکڑوں ٹرکوں کی آمدو رفت اور انہیں لوڈ کرنے والے محنت کش جن کی اولادیں آج بڑے بڑے ٹرانسپورٹر ہیں ۔غیر مقامی لوگوں کی آباد کاری اس کثرت سے ہوئی کہ مکڑوال کے لیبر کواٹرز کا حصول سفارش کے بغیر ناممکن تھا۔یہ دور بھٹو کا مزدور دوست دور تھا اور مزدور یونینز شتر بے مہار بنی ہوئی تھیں ۔مکڑوال کالری پر بھی یونین کی مکمل اجارہ داری تھی یونین والوں کے منظور نظر لوگ گھروں میں بیٹھ کر تنخواہ اور مراعات لیتے تھے۔لوٹ مار ، بندر بانٹ اور کام چوری کا دور دورہ تھا ۔کول کٹر (خرکاروں) کو مائن کے اندر جو جگہ پسند نہ ہوتی وہاں آگ لگا دیتے جسے یہ لوگ فال (فالٹ) کہتے مجبوراً وہ کان بند کرنی پڑتی اور کوئلہ کا بڑا ذخیرہ جل کر ضائع ہوجاتا۔ افیسروں کی شاہ خرچیاں اور عیاشیاں عروج پر تھیں لوٹ کھسوٹ میں آفیسرز لیبر سے بھی دو ہاتھ آگے تھے۔مکڑوال کالری کے سربراہ فراست علی شاہ مغل حکمراں محمد شاہ رنگیلا بن کر خرمستیوں میں مگن رہے دیگر سی ایم ای ایک سال کے لئے آتے اور مال بناکر لوٹ جاتے۔ آفیسرز بنگلوں کی تزئین و آرائش ، پیڑ پودوں کی دیکھ بھال کے لئے سینکڑوں مالی ، آفیسرز کے لئے ڈرائیوروں کے ریل پیل ، صفائی کے لئے خاکروبوں کی فوج ظفر موج ، اس سنہرے دور کی یہ وہ بے اعتدالیاں تھیں جو مکڑوال کالری کو اندر سے کھوکھلا کرتی رہیں اور اس ادارے کے زوال کے لئے نوشتۂ دیوار تھیں ۔یوں 1990ء تک یہ مکڑوال کالری سفید ہاتھی بن کر ملکی معیشت پر بوجھ بن گیا اور پی ایم ڈی سی نے اس سے جان چھڑانے کا فیصلہ کیا ۔اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔۔

مکڑوال کا موجودہ دور:

مکڑوال کالری کی نجکاری ایم سی ایل اور ایم سی ڈبلیو (1995 تا 2024)

مکڑوال کالری کو 1980ء سے مسلسل خسارے کا سامنا تھا ۔1990 ء میں انٹرنیشنل مالیاتی اداروں کے دباؤ پر خسارے میں چلنے والےصنعتی یونٹوں کی نجکاری کا فیصلہ ہوا اور اس مقصد کے لئے نجکاری کمیشن کا قیام عمل میں آیا ۔

مکڑوال کالری لمیٹڈ بھی ان صنعتی یونٹس میں شامل تھا جو قومی خزانے پر بوجھ تھے ۔مکڑوال کالری کو اس نہج پر پہنچانے میں کان کن (کول کٹر) سے لیکر سی ایم ای تک ، یونین کے بلیک میلروں سے لیکر بندوق بردار بدمعاشیہ تک اور کلی مشران سے لیکر بے شعور عوام تک سب کا ہاتھ اور حصہ ہے ۔ میں اس قضئے میں پڑنا نہیں چاہتا کہ میرا موضوع کچھ اور ہے ۔بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت (1993-1996) میں نجکاری کمیشن نے اس قیمتی اور منافع بخش قومی اثاثے کی نجکاری کا فیصلہ کیا ۔اس دور میں کمر مشانی کے سیاسی خانوادے شادی خیل کے عبیداللہ خان نیازی موجودہ حلقہ89 سے آزاد حیثیت میں ایم این اے منتخب ہوئے اور بےنظیر بھٹو کی دعوت پر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔جب مکڑوال کالری کی نجکاری ہونے لگی تو عبیداللہ خان کے والد گرامی اور سابق ایم پی اے مرحوم غلام رسول خان شادی خیل نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا باعث سعادت سمجھا اور اس موقع سے سیاسی فائدہ اٹھانے کا فیصلہ ہوا۔بے نظیر بھٹو غالباً 1994 میں عبیداللہ خان کی دعوت پر شادی خیل ہاؤس کمر مشانی آئیں اور کہتے ہیں کہ محترمہ کو عبیداللہ خان نے اس موقع پر ہیرے یا گولڈ کا قیمتی ہار تحفے میں پیش کیا جس کے عوض یہ قیمتی اثاثہ کوڑیوں کے بھاؤ عنایت ہوا مگر یہ سب بے بنیاد اور لغو پروپیگنڈہ ہے ۔

البتہ اس بات میں وزن ہے کہ جب عبیداللہ خان نے پیپلز پارٹی میں شامل ہوکر اپنے ووٹ سے محترمہ شہید کو وزیر اعظم کے منصب پر بٹھایا تو ممکن بے نظیر نے سیاسی رشوت کے طور پر انہیں مکڑوال کالری سے نوازا ہو ۔بہر کیف پرائیویٹائزیشن کمیشن کے زیر اہتمام 31 جنوری 1995ء کو ہالیڈے ان اسلام آباد میں مکڑوال کالری کا آکشن ہوا اور خوش قسمتی سے ایم سی ایل کامیاب بولی دہندہ کے طور پر سامنے آیا۔

تیرہ جون 1995 ء ہماری تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جب نجکاری کمیشن نے ، مکڑوال کالری کو کوڑیوں کے دام 100 سالہ لیز پر ایم سی ایل کے حوالے کیا ۔واضح رہے کہ پرئیویٹائزیشن کے وقت اس قومی اثاثے کی قیمت 54 ارب روپے سے زیادہ تھی جو صرف 54 لاکھ کے عوض بیچی گئی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سودے کا ایگریمنٹ 4 روپے والے اسٹامپ پیپر پر ہوا اور اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ پرئیویٹائزیشن کے وقت 54 لاکھ روپے کی مالیت سے زیادہ تو یہاں صرف کوئلہ کا اسٹاک موجود تھا گاڑیاں ، میشنری ،آلات اور اسکریپ اس کے علاوہ تھا۔

مائینز لیبر ویلفئیر سروے انسٹیٹیوٹ مکڑوال

اسٹامپ پیپر پر مکڑوال کالری لمیٹڈ کے منیجنگ پارٹنر مرحوم غلام رسول شادی خیل اور غنی گلاس لمیٹڈ کے آنر شیخ انوار کے بھائی شیخ اعتزاز کے دستخط بطور خریدار جبکہ پرئیویٹائزیشن کمیشن کے جوئینٹ سیکریٹری احمد وقار کے دستخط فروخت کنندہ کے طور پر ثبت ہیں ۔مکڑوال کالری لمیٹڈ کے شیئر ہولڈرز میں غنی گلاس لمیٹڈ کے آنر شیخ انوار ، جی آر سی کے آنر مرحوم غلام رسول شادی خیل ، سیٹھ محمد عبداللہ نوید لاہوری، سیٹھ اشفاق الرحمٰن صوابی وال اور شاکر بشیر خوشاب والے شامل تھے۔ پرئیویٹائزیشن کے وقت مکڑوال کالری کے حدود میں پانچ مائین سیکشنز تھے۔جن میں کل مائینز کی تعداد 96 تھی ۔مکڑوال کالری 13 ہزار ایکڑ پر محیط تھا صرف مکڑوال کالونی کا ایریا 16 سو کنال ہے ۔اسٹامپ پیپر میں خیبر پختونخوا کے 6 ہزار ایکڑ رقبہ کا بھی ذکر ہے جس کے بارے میں میرے پاس معلومات نہیں ہے ۔مکڑوال کالری میں تقریباً %47 شئیر شادی خیل گروپ کے جبکہ 53 فیصد لاہوری گروپ( شیخ انوار و دیگر پارٹنر) کے تھے ۔کسی بھی صنعتی یونٹ کی پرویٹائزیشن کے وقت حصص پر پہلا حق وہاں کام کرنے والے لیبر کا ہوتا ہے مگر یہاں تو معاملہ ہی اندھیر نگری چوپٹ راج والا تھا.

پرئیویٹائزیشن کے وقت مکڑوال کالریز میں مختلف شعبہ جات میں رجسٹرڈ لیبر کی کل تعداد 4400 تھی جنہیں پی ایم ڈی سی نے گولڈن ہینڈ شیک( پنج گنا) دے کر فارغ کیا۔پنج گنے کی صورت میں یکمشت ایک بڑی رقم ملنے پر محنت کشوں نے مارے خوشی کے بھنگڑے ڈالے ان کے ٹھاٹھ دیکھ کر بقول شاعر کے۔

وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

ان پیسوں سے کسی نے حج کی سعادت حاصل کی تو کسی نے بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کئے، کسی نے بیٹوں کے سر پر سہرے سجائے تو کسی نے پکے اینٹوں والے مکان کھڑے کردئے اور کچھ لاریاں خرید کر رل گئے ۔پرئیویٹائزیشن کے وقت مزدور یونین کے صدر عبدالقیوم خان باہی تھے جنہوں نے ہمیشہ مزدوروں کے حقوق کی جنگ لڑی مگر حیرت ہے کہ پرئیویٹائزیشن کے وقت ان کی طرف سے کسی قسم کی مزاحمت دیکھنے کو نہیں ملی ۔پرویٹائزیشن کے بعد مکڑوال اجڑ گیا غیر مقامی لوگ یہاں سے کوچ کرگئے۔ رہائشی کالونیاں ویران اور گلیاں سنسان ہوگئیں بنگلے بھوت بنگلوں کا منظر پیش کرنے لگے ۔

واحد بچ جانے والا بنک

نئی کمپنی مکڑوال کالری لیمٹڈ نے چارج سنبھالا تو مرحوم غلام رسول خان شادی خیل کا اس میں بطور مینجنگ ڈائریکٹر تقرر ہوا وہ ایک جہاندیدہ انسان تھے انہوں نے ایم سی ایل کا چارج سنبھالتے ہی ٹھیکیداری نظام متعارف کرایا کیونکہ وہ خود ایک کامیاب ٹھیکیدار سے پنجاب اسمبلی تک پہنچے تھے ۔انہوں نے تمام کانوں کو ٹھیکے پر دے دیا مرحوم نے ” اپنا ایم سی ایل اپنی مرضی ” کے تحت ٹھیکوں کے ایگریمنٹ تحریری طور پر نہیں بلکہ زبانی زبانی کئے آخر زبان بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔مرحوم نےکانوں کے ٹھیکے اپنے منظور نظر، سیاسی حلیف اور بااعتماد لوگوں کو دئے۔

۔ٹھیکیداروں نے نہ صرف کم اجرت پر مزدور رکھے بلکہ کانوں میں سیفٹی و سیکیوریٹی کے انتظامات کو پس پشت ڈالکر محنت کشوں ( کان کنوں) کی زندگی کو خطرے میں ڈالا اور یوں کول مائینز موت کے گڑھے بنتے چلے گئے۔ دوسری طرف ایم سی ایل میں دفتری اور کچھ دیگر کھاتوں میں مستقل ملازم رکھے گئےمگر انتہائی کم مشاہرے پر جن کی تعداد 200 سے زیادہ نہیں ملازمین سے 12 گھنٹے ڈیوٹی لی جانے لگی۔ ایم سی ایل میں کسی لیبر یونین کا وجود رہا نہ ملازمین کو ملازمت کا تحفظ اور انشورنس یوں ایک طرف مزدوروں کا استحصال تو دوسری طرف لیز مالکان ، ٹھیکیدار اور کمیشن مافیا مالا مال ۔ کانوں میں خرکاری کرنے والے ٹھیکیدار بہت جلد کاروں کے مالک بن گئے ۔ غلام رسول خان شادی خیل کی رحلت کے بعد ان کے بیٹے عبیداللہ خان ایم سی ایل کے مالک و مختار ٹھہرے۔ عبیداللہ خان نے ایم سی ایل کا نظم و نسق نذیرکالیا کے ہاتھ میں دے دیا۔ بیس پچیس سال تک ایم سی ایل کے معاملات خوش اسلوبی سے چلے پھر نہ جانے کیا ہوا کہ 2021 میں نذیر کالیا شادی خیل گروپ سے ناراض ہوکر لاہوری گروپ کے شیخ انوار کے پاس پہنچے اور شادی خیل گروپ کے خلاف ان کے کان بھرے ۔ پرنٹ میڈیا کے مطابق شادی خیل گروپ نے جب شیخ انوار لوگوں (لاہوری گروپ) کو کئی سالوں سے منافع نہیں دیا تو انہوں نے اپنا حصہ الگ کر نے کا فیصلہ کیا اور شادی خیل گروپ سے اس کا مطالبہ کردیا ۔ ایم سی ایل کے بٹوارے پر دونوں گروپ کے درمیان مذاکرات ہوئے مگر یہ مذاکرات بے نتیجہ ثابت ہوئے ۔ لاہوری گروپ نے مکڑوال کالری ورکر کے نام سے الگ کمپنی رجسٹرد کی اور بٹوارے کا معاملہ ضلعی انتظامیہ کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی۔اسٹنٹ کمشنر عیسٰی خیل نے مکڑوال کالری کا کچھ حصہ تقسیم تو کردیا ہے مگر اس حصےپر قبضہ بدستور شادی خیل گروپ کے پاس رہا ۔اسٹنٹ کمشنر عیسٰی خیل نے لمشی وال سے مٹھہ خٹک تک کا لیز ایریا شیخ انوار کو جبکہ ملاخیل اور کڑدی کا لیز ایریا شادی خیل کو دے دیا۔

اسی طرح ای سیکشن سیکشن ملاخیل سے گلا خیل تک شیخ انوار کو اور گلاخیل سے چاپری تک کا لیز ایریا شادی خیل گروپ کو ملا ۔اس تقسیم کو شادی خیل گروپ نے تسلیم نہیں کیا اور کانوں کا قبضہ نہیں چھوڑا ۔شیخ انوار نے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کو اپروچ کیا اور تمام صورت حال سے اگاہ کرکے دادرسی چاہی۔شیخ انوار گروپ کو قانون کے مطابق حصہ دلانے کے لئے وزیراعظم نے احکامات جاری کئے اور 11 جنوری 2022ء کو ڈپٹی ڈائریکٹر معدنیات نوید بٹ اور اسٹنٹ کمشنر عیسٰی خیل پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ مکڑوال پہنچے اور شادی خیل گروپ سے قبضہ چھڑواکر لاہوری گروپ کے حوالے کیا شادی خیل گروپ اس کاروائی کے خلاف کمپنی آرڈینس کورٹ (لاہور ہائی کورٹ ) گئے۔

اخبارات کی زینت بنا تنازعہ

عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد جون 2022ء میں لاہور ہائی کورٹ نے شادی خیل گروپ کے حق میں فیصلہ دے دیا ۔موجودہ وقت میں کیا صورت حال ہے مجھے نہیں معلوم مگر اس تمام قضئیے میں اب تک پانچ چھ قیمتیں جانیں ضائع ہوچکی ہیں جن میں ایک خاتون بھی شامل ہے ۔ لاہوری گروپ اور شادی خیل گروپ کے درمیان وسائل اور مفادات کی اس جنگ میں کلی مشران اور ٹھیکیداران کہاں کھڑے تھے بتانے کی ضرورت نہیں سب کو پتا ہے ۔ آخر میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ اللہ پاک نے ہمیں کوئلے جیسے معدنی دولت سے نوازالیکن ہم نے اس نعمت کی قدر نہیں کی اور اپنوں کی مہربانیوں اور غیروں کی بدعنوانیوں سے یہ دولت ہمارے ہاتھ سے نکل گئی ۔آج چند لوگ اس دولت سے تجوریاں بھر رہے ہیں اور باقیوں کو حلوے کھانے پر لگا رکھا ہے ۔

تحریر:

عطاء اللہ خان میداد خیل (ریٹائرڈ انسپکٹر اے ایس ایف) حال کراچی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں