پشتون ثقافت کا طرٌہ امتیاز۔۔۔ طرّہ و دستار


دستار ہماری ثقافت کا اہم جزو اور خوبصورت رنگ ہے ۔
دستار کو شملہ ، پگ ، پگڑی، عمامہ منڈاسا ، سر پوش اور سرپیچ بھی کہتے ہیں
دستار فارسی زبان کا لفظ ھے جبکہ پشتو زبان میں دستار زبر کے بجائے پیش کے تلفظ سے ادا ہوتا ھے یعنی دُستار ۔
دستار چونکہ سر کے اوپر باندھا جاتا ہے لہٰذا یہ لباس کا سرخیل سمجھاجاتا ہے۔
دستار صرف ہماری ثقافت کا حصہ ہی نہیں بلکہ ایک پہچان اور عزت و وقار کی علامت بھی ہے
دستار جو کبھی پشتون معاشرے میں شرفا کا امتیازی نشان اور عزت و وقار کی علامت سمجھا جاتا تھا اب اس سے پشتون کا ناطہ تقریباً ٹوٹ چکا ھے اور آج کا پشتون نوجوان دستار کو معیوب سمجھتا ھے کیونکہ ہم لوگ اب ماڈرن ہو چکے ہیں اور اس نام نہاد ماڈرن زندگی کے ساتھ چلتے چلتے اس طرح کی روایات بھی آہستہ آہستہ قصہ پارینہ بنتی جا رہی ہیں.
مگر بہت سے پشتون علاقوں خصوصاً قبائلی علاقوں میں دستار اور لونگئے آج بھی لباس کا ایک لازمی حصہ ہے۔
سر پر دستار رکھنے والے کو پشتون معاشرے میں عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ماضی میں پشتون معاشرے میں دستار صرف قبیلے، گاؤں یا گھر کے سربراہ کو یا پھر اُس فرد کے سرباندھتے تھے جِس نےکوئی کارنامہ سر انجام دیا ہوتا ۔


آج بھی پشتون معاشرے میں آپ کو جرگہ کے شرکاء بغیر دستار کے نظر نہیں آئیں گے۔۔
بادشاہوں کے سر پر تاج سجانے کاعمل یا رسم تاجپوشی بھی دستار کی جدید شکل ھے قبل از اسلام دستار بندی کا دستور بادشاہوں نے وضع کیا۔ بادشاہوں کے علاوہ سر پر دستار اورکوئی نہ رکھتا تھا۔ صرف وہ لوگ دستار باندھنے کے مجاز ہوتے جنہیں بادشاہ کی طرف سےیہ اعزاز عطا کیا جاتا ان کے علاوہ اورکسی کی مجال نہ تھی کہ دستار باندھے۔
پشتو کےایک نامور ادیب، پروفیسر ڈاکٹر راج والی شاہ ، تاریخ میں دستار کی اہمیت کو اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں: “پشتوں تاریخ میں جتنے بھی بادشاہ یا امیر گزرے ہیں اُنھوں نے کبھی سر پر تاج نہیں رکھے بلکہ دستار کو تاج کا درجہ دیا ھے ۔
’قاتل کو کوئی قتل کے آداب سکھائے،
دستار کے ہوتے ہوئے سر کاٹ رہا ہے‘
ماضی میں اگر کسی سے معافی مانگنی ہوتی یا رنجش ختم کرنی ہوتی تو مخالف فریق کے قدموں میں اپنے عزت اور وقار کی سب سے بڑی علامت دستار یا شال(دوبٹہ) رکھ دی جاتی جس کے بعد مخالف فریق کے پاس رنجش ختم کرنے کے علاؤہ کوئی چارہ نہ ہوتا اور ایک شقی القلب دشمن بھی ان کی لاج رکھتے ہوئے بڑے سے بڑا قصور معاف کردیتا دستار سے جڑی ایک اور روایت جو ایران سے ہمارے ہاں چل کر آئی ھے وہ ھے دستار بدل دوست۔
تاریخ میں نادرشاہ نے اسی دستار بدل دوستی کی آڑ میں اس وقت کے مغلوب مغل حکمران محمد شاہ سے کوہ نور ہیرا اینٹھ لیاتھا اس کہانی پر میں ایک مکمل پوسٹ دے چکاہوں ۔
پشتون معاشرے میں جب دو دوست آپس میں دستار بدل دیتے ہیں تو ان کی دوستی لازوال بندھن کا روپ دھار لیتی ہے دستار بدل دوست نہ صرف ایک دوسرے کی عزت کے رکھوالے ہوتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے لئے جان نثار کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور بڑے فخر سے کہتے ہیں
” فلاں میرا دستار بدل دوست ہے “
سرائیکی میں دستار بدلنے کو شاید ” پگ وٹائی ” کہتے ہیں ۔
پشتون جب اپنے مہمان کی قدرافزائی یا اسے احترام دیتے ہیں تو اس کے سر پر دستار باندھتے ہیں کیونکہ یہ عزت و احترام کی علامت ہے۔


ہمارے ہاں شادی کی تقریب میں اپنے خاص مہمانوں کو دستار باندھنے کا رواج تھا اور آج بھی کوئی سیاسی لیڈر یا سرکاری افسر پشتون خطے میں چلا جائے تو اسے وہاں کی روایتی پگڑی باندھی جاتی ھے ۔
ہمارے خطے پر جب انگریزوں کی حکمرانی تھی تو وہ بھی دستار کی قدر اور اس کا احترام کرتے تھے۔
دینی مدارس اور خانقاہوں میں تو آج بھی رسم دستار بندی اپنی تمام تر رعناؤں کے ساتھ موجود ھے ۔
دستار کوجہاں پشتو کے نامورشاعررحمان بابا اورخوشحال خان خٹک نےاپنی شعر وشاعری کا موضوع بنایا ہے، وہاں پشتو موسیقی میں بھی اِس کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔
خوشحال خان خٹک کے تو ایک شعری مجموعہ کا نام بھی “دستار نامہ ” ھے اس کتاب میں موصوف نے جن لوگوں کو دستار کا اہل گردانا ہے ان کی اہلیت کے 20 شرائط گنوائے ہیں ۔
صاحب سیف و قلم خوشحال خان خٹک کے دستار پر اس شعر کو ضرب المثل کی حیثیت حاصل ھے ۔
؎ چی دستار تڑی ہزار دی
د دستار سڑی پہ شمار دی
ترجمہ ۔
دستار کا اہتمام کرنے یا باندھنے والے تو ہزاروں میں ہیں لیکن اس کے اہل گنتی کے چند لوگ ہی ہوتے ہیں
دستار کی عظمت پر ایک اور مشہور پشتو شعر ہے
؎ چی شملی سرا ایمان آو پشتو نہ وی
لنگوٹی خو داسیکانو ھم پہ سر وی
ترجمہ ۔
دستار تو وہ ھے جس کے ساتھ ایمان اور پشتون روایات جڑی ہوں
وگرنہ سر پر تو سکھوں کی بھی پگڑیاں ہوتی ہیں ۔
پشتون روایات میں ایک دستار ھے اور دوسرا لونگئے یا پٹکے ۔
پگڑی کا اوپر کا سرا جو اٹھا رہتا ہے اسے شملہ کہتے ہیں جسے ہماری پشتو میں ” طرہ ” کہتے ہیں جیسے طرہ امتیاز وغیرہ
لونگئے اور پٹکی کے برعکس دستار میں طرہ ہوتا ھے اسلئے دستار کو پشتو میں شملہ بھی کہتے ہیں ۔
یہاں ایک اور دلچسپ تاریخی معلومات دیتا چلوں کہ
طرہ صرف وہ شخص لگاسکتا جس نے کوئی بہادری دکھائی ہو یا شمشیرزنی میں جوہر دکھائے ہوں یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ماضی قریب تک میں بچوں کا نام ” طرہ باز ” رکھنے کا عام چلن تھا۔
بات دستار کی ہو اور دو نیازی مشاہیر کا تذکرہ نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے
مولانا عبدالستار خان نیازی اور اجمل خان نیازی
میں نے ان دونوں کو بغیر دستار کے نہیں دیکھا
عبدالستار خان نیازی نے دو چیزوں پر کبھی آنچ آنے نہیں دی
ناموسِ رسالت اور ناموسِ دستار
جبکہ صحافی اجمل نیازی نے تو دستار پر پورا کالم لکھ ڈالا جس میں دستار کی روایت کو دوبارہ زندہ کرنے پر زور دیا ھے جو نوائے وقت میں چھپ چکا ھے ۔


ا تاریخی شواہد کے مطابق نیازی قبیلے کے افراد سیاہ لونگئے باندھتے تھے جو ایک طرح سے نیازی قبیلے کی پہچان تھی ۔
اس کے علاوہ نواب آف کالاباغ ملک امیر محمد خان جو آکسفورڈ یونیورسٹی کے سند یافتہ تھے تاحیات کلاہ روایت کے آمین رہے ۔سنا ہے کہ کالاباغ کے نواب خاندان کو یہ پشتون دستار بانگی خیل خٹکوں نے ملک امیر محمد خاں کے جد ملک سرخرو خاں کو باندھی تھی ۔جس کے بعد پشتون کلہ والی دستار کالاباغ کے نواب سر پر سجائے چلے آتے ہیں۔
نسل در نسل چلی آرہی ہماری یہ ثقافتی علامت اب معدومی سے دوچار ہے
نئی نسل نے زمانے کے ساتھ نیا فیشن اپنالیا اور باپ دادا کی اس میراث، شملہ و دستار کو بھلا دیا ہے۔
ورنہ تو بقول شاعر
سر سے دستار گری ہاتھ سے ہتھیارگرے
مصلحت اوڑھ کے جب قوم کےسردارگرے

تحریر بہ شکریہ عطاء اللہ خان نیازی سلطان خیل

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں