کونڈی نیازیوں کی تاریخ۔۔۔


نیازی قوم میں باہی، کُونڈی ، مچن خیل، اور سنبل شاخوں نے دنیا میں اپنی الگ سے شناخت حاصل کی۔ان قبیلوں سے تعلق رکھنے والے عموماً نیازی کی بجائے اپنے قبیلے کا ذکر کرتے ہیں۔یہ قبائلی تقسیم نہ صرف قدیم ہے بلکہ انکی تعداد بھی کافی زیادہ ہے اور بکھری ہوئی ہے۔
باہی اور سنبل خود تو نیازی ہونے سے انکاری نہیں مگر میانوالی کے کچھ لوگ جو تاریخ سے ناواقفیت کی بناء پر انھیں نیازی نہیں سمجھتے جو کہ سراسر لاعلمی کا نتیجہ ہے اسکے سوا اور کچھ نہیں۔ جبکہ بقیہ دو اقوام مچن خیل اور کُونڈی پر ہم بحث کریں گے-
پہلے ہم بات کرتے ہیں مچن خیل قبیلہ پر۔۔۔۔
میانوالی میں مکمّل جبکہ بنوں، لکی مروت میں تقریباً اپنے آپ کو نیازی ہی کہلواتے ہیں مگر چند لوگ ایسے ہیں جنکی زیادہ تر تعداد بلوچستان میں آباد ہیں ۔ جو لاعلمی کی بناء پر اپنا تعلق مختلف پشتون اقوام سے جوڑتے ہیں۔پشتونوں پر لکھی گئی تمام تر تاریخی کتابیں اس بات پر متفق ہیں کہ مچن بابا ایک ملنگ دوریش صفت شخص تھا۔جنکی تفصیل ہر کتاب میں عموماً درج ہے اور نیازی قوم سے تعلق رکھتے تھے ۔انکی اولاد مچن خیل کہلائی جو پاکستان افغانستان میں پھیلی ہوئی ہے۔آج تک مچن بابا کے بعد کوئی دوسرا مچن نامی شخص نہیں ہوا ۔نہ ہی پشتونوں کی تاریخ میں کسی دوسری مچن نامی شاخ کا ذکر ملتا ہے اور نہ ہی اسکے علاوہ کسی اور مچن خیل قوم کا ذکر کہیں موجود ہے۔ تمام مچن خیل کہلانے والے بھی اس بات پر متفق ہیں کہ مچن بابا ایک ہی تھا

مزار مچن بابا،وانا جنوبی وزیرستان

جسکامزار شریف وانا میں واقع ہے اور اسی کی طرف اپنی نسبت کرتے ہیں۔
پس مچن خیل نیازی ہی ہیں ان کا قومی لحاظ سے اپنے آپ کو علاقہ لکی مروت میں مروت کہلانا اور بلوچستان میں ناصر کہلانا وغیرہ کم علمی ہے۔ لکی مروت کے مچن خیلوں، مہیار قبائل کو تو جناب شریف خان نے اپنی کتاب “تاریخ مروت “میں بھی نیازی لکھ چکے ہیں اور مروت بھی اس بات پر متفق ہیں کہ انکا کوئی قبیلہ مچن خیل یا مہیار خیل نامی نہیں بلکہ یہ نیازیوں کی شاخیں ہے۔اس بات پر تمام مؤرخین کا بھی اجماع ہے۔


کُونڈی نیازی:
تاریخ میں سب سے پہلے جس کُونڈی شخص کا ذکر ملتا ہے وہ شیخ ایاز نیازی نام کا تھا جو کہ شیر شاہ سوری کے مصاحبین میں شامل تھا جس نے شیرشاہ سوری کے دادے ابراہیم سوری کے مقبرہ کو تعمیر کرایا۔ اس مقبرہ کے تعمیراتی کام کی نگرانی شیخ ایاز نیازی کے بیٹے ابوبکر خان نے کی۔مقبرہ کی تعمیر کے اختتام پر ایک تختی آویزاں کی جس پر یہ تحریر بزبان فارسی لکھی جسکا اردو ترجمہ یہ ہے۔


“اگر کوئی تم سے پوچھے کہ اس عمارت کو کس نے تعمیر کیا، تو اسے جواب دینا اگر تم راز جانتے ہو تو۔۔۔۔
یہ مقبرہ اس کا ہے جس کا جنت میں اعلیٰ مقام ہے۔اس کو ملک ہند کے عظیم فاتح بادشاہ شیر شاہ نے بنوایا ہے۔
بادشاہوں کے بادشاہ، جو اقلیمِ ہفتم کا مالک ہے،جس کی تلوار کی چمک آسمانی بجلی سے زیادہ روشن ہے۔
فرید، حسن سوری کا بیٹا، جو کہ ابراہیم سور کا بیٹا ہے۔ اس نے اپنے دادا کی قبر پر خوبصورت مقبرہ کی تعمیر کا حکم دیا۔
اگر تم مجھ سے پوچھو کہ اس تعمیرات کا نگران کون تھا، تو میں بتاؤں گا۔ وہ ابوبکر تھا، شیخ احمد نیازی کا بیٹا۔۔۔۔
اگر میں آسان الفاظ میں کہوں، تو اسے نیازی پکاروں گا۔ اگر مخصوص (قبائلی شاخ کا نام بتاؤں) نام سے نامزد کروں تو میں لازمی کہوں گا وہ ایک کونڈی ہے۔اور یہ بات اس کےخالص کردار سے (اعلیٰ نسب) فخر کی عکاسی کرتا ہے۔”


پشتون اقوام کی تاریخ پر سب سے پہلے نعمت اللہ ہروی نے “سترھویں صدی میں کام کیا انھی کی کتاب “مخزن افغانی پشتون قوم کی تاریخ کی بنیاد بنی اسکے بعد جتنی بھی کتابیں لکھی گئی اس کتاب کے حوالے ضرور دئیے گئے۔اسکے بعد انیسویں صدی میں بنوں کے ڈپٹی کمشنر حیات اللہ خان کھٹھڑ نے اپنی کتاب “حیات افغانی” اور شیر محمد خان گنڈاپور نے اپنی کتاب”خورشید جہاں” تحریر کی۔اسی زمانے میں سرکار انگلشیہ نے سرکاری گزٹیرز کا کام شروع کیا اور سر ڈینزل ابٹسن نے اپنی کتاب “پنجاب کی ذاتیں” تحریر کی۔کیونکہ اس وقت تک سکھوں سے حاصل کئے گئے تمام علاقوں کو پنجاب کہا جاتا تھا اسلئے انھوں نے بھی پشتونوں پر اپنی کتاب میں کام کیا۔سر ڈینزل ابٹسن تو کُونڈی قوم کے بارے صفحہ نمبر 79 پر تحریر کرتے ہیں کہ “کُونڈی ایک مختصر سا پاوندہ قبیلہ ہے جو نیازی کی اولاد ہونےکے دعوے دار ہیں” پھر بیسویں صدی میں اولف کیرو کی شہرہ آفاق کتاب” دی پٹھان” اور بہادر شاہ ظفر کاکاخیل کی کتاب “پشتانہ دہ تاریخ پہ رانڑہ کشے ” لکھی گئیں اور اکیسویں صدی میں برگیڈیر ہارون رشید کی کتاب “ہسٹری آف پٹھان” تحریر کی گئی۔مزید سیال مومند صاحب کی کتاب “د پشتنو قبیلو شجرے” بھی اہم کتاب ہے۔ ان تمام کتابوں میں کُونڈی قبیلہ کو نیازی قوم کی شاخ کے طور پر پیش کیا گیا۔(نوٹ: یہ بات یاد رہے کہ درج ذیل میں دیئے گئے تصویری شجروں میں لفظ “کندی” لکھا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام کتب فارسی زبان میں لکھی ہوئی ہیں جبکہ فارسی زبان میں ٹ،ڈ،ڑ الفاظ نہیں ہوتے)۔


اب ایک تیسری بات کی طرف آتے ہیں وہ ہے کندیاں۔۔۔۔
جی ہاں میانوالی کا علاقہ کندیاں۔۔۔
آپکو ہم ایک اور مزے کی بات بتاتیں ہیں کہ ہوشیار پور میں میں بھی ایک بستی کا نام کندیاں ہے اور وہاں پر بھی نیازی قوم کے لوگ آباد تھے جو قیام پاکستان کے وقت پاکستان ہجرت کر آئے۔جسکا ذکر محمد ایوب خان کی کتاب “افاغنہ ہوشیارپور ” میں موجود ہے۔
ہم جناب حاجی محمد اقبال خان نیازی مرحوم کی اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں کہ حالیہ کندیاں دراصل کُونڈی (جسے کُنڈی بھی لکھا جاتا ہے اور اسی وجہ سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے تبھی ہم نے اس تحریرمیں کُونڈی استعمال کیا) قوم کی آبادی تھی۔جیسے اقوام کے نام پر قصبے ہیں پائی خیل ،بلو خیل، کمر مشانی ویسے اس کو بسانے والے بھی اصل میں کُونڈی قبیلہ تھا۔ شروع میں کُونڈی قوم کی وجہ سے پشتو میں کُنڈیانوں کہا جاتا ہوگا ( جیسے ہندوستان میں واقع لدھیانہ دراصل لودی پشتونوں کی آبادی کی وجہ سے لودیانو تھا)۔ مگر پھر کُونڈی قوم کی نقل مکانی کے باعث یہاں کی پنجابی زبان بولنے والی اقوام نے وقت اور زبان کے اثرات کے باعث “کُندیاں” میں بدل دیا۔کُونڈی کیونکر نقل مکانی کر گئے اس پر بھی قیاس آرائی سے کام لیا جائے گا کیونکہ مستند کوئی معلومات نہیں۔ شاید دریائے سندھ کی تباہی ہو یا پھر گکھڑوں کا زور جو کہ قدیم زمانے سے لیکر سترھویں صدی تک اس علاقے پر قابض رہے یا پھر اور کوئی لڑائی جھگڑا ویسے بھی جب سوری سلطنت میں نیازیوں پر حالات تنگ ہوئے تو نیازیوں کی اکثریت نے واپس اپنے وطن افغانستان کی راہ لی تاکہ شہزادہ سلیم سوری کےعتاب سے بچا جا سکے اسی وقت کُنڈی بھی بطور حفاظت دریا کے مغربی کنارے پر نقل مکانی کرگئے ہوں۔ہمارے خیال کے مطابق ہوشیار پور میں جس نیازی بستی کا نام کُندیاں ہے وہ بھی دراصل کُونڈی نیازیوں کی ہی آباد کردہ ہوگی۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر جو آج کل کندیاں میں کُندی (کُنڈی سے ملانا نہیں ہے) قوم آباد ہے۔اور جو دعویٰ کرتی ہے کہ کُندیاں کی وجہ بنیاد وہ ہیں تو اس بارے کیا خیال ہے؟؟
دیکھیں پاکستان میں ایک رواج ہے کہ جسکو کوئی اور راہ نظر نہ آئے یا پھر معاشرے میں اپنی سطح کو بلند کرنا چاہتا ہو وہ عموماً اپنی قوم کو عربوں سے جوڑنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ بطور مسلمان ہمارے معاشرے میں عربوں کی اولاد ہونے کے دعویداروں کومعاشرے میں ایک خاص مقام حاصل ہوجاتا ہے۔ اسلئے محترم سلطان کُونڈی صاحب نے بھی بناء تحقیق کئے اپنا نسب عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے کے مشہور شاعر اشعت بن قیس کندی سے جوڑنے کی کوشش کی اسی طرح کُندیاں کے کُندی بھی اپنا نسب بنو امیہ کے دور کے ایک ریاضی دان یعقوب بن اسحاق کندی سے جوڑتے ہیں۔
حالانکہ اگر اس نقطہ نظر کے لوگ مزید تحقیق کرتے تو پتہ چلتا کہ اشعت بن قیس اور یعقوب بن اسحاق کے ناموں کے ساتھ لکھا “کندی” جسے عربی میں “الکندی” بھی لکھا جاتا ہے وہ اصل میں لفظ ” کِندی ” (Kindi) تھا۔ جبکہ انکے قبیلہ کا نام “الکِندہ”تھا.
کُندیاں کے کُندی دراصل جٹ ہیں اور شہر کی نسبت سے انھوں نے اپنے آپ کو علاقہ کی مناسبت سے آؤائل میں کُندی کہلوانا شروع کیا ہوگا بعدازاں یہ الگ کُندی قوم بن گئی۔ وگرنہ پنجاب اور پورے ہندوستان میں نہ تو جٹوں میں کوئی کُندی نام کی گوت ملتی ہے نہ راجپوتوں میں نہ گوجروں میں نہ اور کسی جگہ ۔اگر کسی کے پاس کوئی معلومات ہیں تو فراہم کریں ۔۔پس علاقہ کے نام کی مناسبت سے یہاں آباد جٹ قوم نے اپنا الگ تشخص قائم کیا۔اور کُندی کہلانے لگے۔واللہ اعلم


اب آتے ہیں ناصر پشتونوں کی طرف جن سے بلوچستان میں آباد مچن خیل اور کُونڈی نیازی اپنا تعلق جوڑتے ہیں۔اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ افغانستان میں نیازی اور ناصر دونوں ہی دیگر پشتون قبائل کی طرح خانہ بدوش زندگی بسرکرتے ہیں جنوبی افغانستان میں یہ دونوں قبائل تقریباً اکھٹے ہی رہتے ہیں۔
ناصر پشتونوں کی ایک قوم ہے جسکی اکثریت خانہ بدوش زندگی گزارتی ہے۔جبکہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شمالی اضلاع پشین لورالائی وغیرہ میں آباد ہیں۔یہ بھی دیگر پاوندہ قبائل کے ساتھ پہلے ڈیورنڈ لائن کے آر پار نقل مکانی کرتے رہتے تھے۔پاکستانی صدر جنرل ایوب خان نے انھیں پاکستانی شہریت دی جبکہ روس افغان جنگ کے بعدکچھ نے پاوندہ طرز زندگی ترک کردی اور مستقل سکونت اختیار کرلی۔انکے ساتھ کئی نیازی قبائل اور خاندان بھی آباد ہیں جن میں مُسات خیل، کُلی خیل، عبدالرحمن خیل، مچن خیل اور کُونڈی بھی ہیں۔ناصروں کے ساتھ بودوباش اختیار کرنے کی وجہ سے کُونڈی اور مچن خیل اپنے آپ کو لاعلمی کی بناء پر وہاں ” ناصر “کہلواتے ہیں۔جسکی تصیح لازمی ہے جس کیلئے یہ آرٹیکل لکھا ہے۔


ناصر نامی پشتون قوم کا کوئی شخص ماضی قدیم میں نامور گزرا ہو ،ایسے کوئی ثبوت نہیں ملتا حتیٰ کہ پشتونوں پر لکھی گئی باقاعدہ اولین کتاب مخزن افغانی بھی انکے بارے میں خاموش ہے ۔اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ناصر قوم قطعاً مچن خیلوں یا کُونڈی قوم سے قدیم نہیں بلکہ یہ دونوں اقوام ناصر قوم سے قبل کا وجود رکھتی ہیں۔ ناصر قوم کا ذکر پہلی بار کب ہوا اس بارے ہمارے پاس جو معلومات ہیں وہ حیات اللہ کھٹر کی کتاب حیات افغانی ہے۔جس میں ان کا ذکر یوں ہے
“انکے مورث اعلیٰ کے بارے میں کوئی قدیم معلومات دستیاب نہیں جسقدر ہوئی اسکا اوپر شجرہ میں لکھ دیا۔ ناصر لوگ اپنا تعلق غلزئی قوم کی شاخ ہوتک سے جوڑتے ہیں حالانکہ ہوتک انھیں اپنی رعایا بتاتے ہیں نہ کہ ہم قوم۔ بعض ناصر اپنے آپ کو سادات بتلاتے ہیں جبکہ بعض اپنا نسب غلزئی کی شاخ خروٹے سے ملاتے ہیں جبکہ خروٹے انکاری ہیں۔ایسی اختلاف کی حالتیں ہیں کہ مصنف کچھ حتمی نہیں کہہ سکتا۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ ناصر بلوچ قوم سے الگ ہوجانے والا بلوچ گروہ ہے جس نے پشتو سیکھ لی پشتونوں کے ساتھ بودوباش کے باعث پشتونوں میں خلط ملط ہوگیا۔چہرہ اور اشکال بالخصوص غلزئی کے موافق نہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی کھوئی ہوئی قوم کا حصہ ہیں جو غلزئی میں بطور وصلی شامل ہوگئے”. “
یہ ہے تاریخ ناصر قوم کی مزید کسی نے ان پر کام کیا ہے تو ہمارے علم میں نہیں ،اگر کسی نے کیا ہے تو براہ کرم راہنمائی فرمائیں۔
پس یہ بات ثابت ہوئی کہ کُونڈی دراصل نیازی قوم کی شاخ ہے۔اور ناصر قوم سے زیادہ قدیم بھی ہے زیادہ شہرت بھی رکھتی ہے اورکئی نامور لوگ بھی پیدا کئے ہیں ۔
دیکھئیے حوالہ جات و کتاب:

  1. ابرہیم سوری کا مقبرہ ،واقع نارونول،ریاست ہریانہ،ہندوستان
  2. Annual Progress Report,Archelogical Survey of India,P34
  3. مخزن افغانی
  4. حیات افغانی
  5. تاریخ خورشید جہاں
  6. The Pathan by Olaf careo,P
  7. پشتانہ دہ تاریخ پہ رانڑہ کشے
  8. د پشتنو قبیلو شجرے سیال مومند
  9. تاریخ نیازی قبائل

    تحریر و ترتیب :نیازی پٹھان قبیلہ فیسبک پیج ٹیم

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

5 تبصرے “کونڈی نیازیوں کی تاریخ۔۔۔

  1. کندیاں میں بسنے والی کندی قوم کے متعلق ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ جو کندی لوگ عیسی خیل سے میانوالی میں وارد ہوئے وہ نیازی قبیلہ کی شاخ ہیں۔ جبکہ کندیاں کے رہنے والے ایک بزرگ ولی اللہ، میاں اسماعیل جو کہ غالباً اعوان تھےان کی اولاد ہیں۔ واللہ اعلم ۔بہرحال کندی قبیلہ ایک بااثر زمین دار قبیلہ ہے اور غالب گمان ہے کہ انکا تعلق اعوان یا بنو کندہ سے ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں