آج ہم آپ کو چند مشہور اشخاص کے بارے بتائیں گے جو اپنے نام کے ساتھ نیازی کا تخلص استعمال کرتے ہیں جسکی وجہ سے اکثریت غلط فہمی کا شکار ہوکر انھیں پشتونوں کے نیازی قبیلہ سے تعلق دار سمجھ لیتی ہے.
ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش کے مشہور علاقے بریلی (جہاں سے مولانا احمد رضا خان بڑیچ) کا تعلق بھی ہے. بریلی شہر میں ایک بہت بڑا آستانہ ہے. وہاں پر اللہ تعالیٰ کے ایک برگزیدہ شخصیت مدفن ہیں جن کا اسم گرامی سید نیاز علی شاہ ہے. جن کے لاکھوں معتقدین ہیں. جبکہ آپکو یہ بھی معلوم ہوگا شمالی ہند میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور قوالی کی بنیاد بھی مسلمان صوفیا نے رکھی. پاکستان میں اکثر آپ کو نعت خواں قادری، چشتی، ہجویری، وغیرہ کے القابات سے ملتے ہونگے اسکی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں قوالی کی بجائے نعت خوانی زیادہ سنی جاتی ہے اور یہ القابات نعت خواں اپنے بیعت شدہ سلسلہ اور مرشد سے عقیدت کے باعث لکھتے ہیں. ویسے ہی سید نیاز علی شاہ کے مریدین اپنے آپ کو نیازی اور اس صوفیا کے سلسلے کو سلسلہ نیازیہ کہا جاتا ہے. ان کا سالانہ عرس چھ جمادی الثانی کی تاریخ کو منایا جاتا ہے.
سلسلہ نیازیہ کے مریدین کا حلقہ ملتان اور کراچی میں موجود ہے. جبکہ کراچی کے علاقےحسن سخی میں انکی خانقاہ بھی واقع ہے جہاں پر پیر معین عالم نیازی صاحب سلسلہ نیازیہ کے خلیفہ ہیں۔
طفیل نیازی؛
یہ مشہور گائیک گزرے ہیں. انکی پیدائش جالندھر میں گائیکی کے مشہور گھرانے شام چوراسی کے قریبی گاؤں میں ہوئی. انکا خاندان پکھی واس تھا. جبکہ خاندان کے کچھ افراد طبلہ نوازی بھی کرتے تھے. سکھوں میں گھرے ہونے کے باعث اکثر خاندان کے بزرگوں کے ہمراہ گوردوارہ میں سکھوں کے مذہبی کلام گایا کرتے تھے.
طفیل نیازی کا اصل نام محمد طفیل تھا جبکہ لوگوں میں ماسٹر طفیل یا طفیل ملتانی مشہور تھے (کیوں قیام پاکستان کے وقت وہ ملتان ہجرت کر آئے). پی ٹی وی کے پروڈیوسر اسلم اظہر نے ماسٹر طفیل کو طفیل نیازی کا نام اسلئے دیا کہ ماسٹر طفیل سلسلہ نیازیہ کے مرید تھے. طفیل نیازی مرحوم کے بیٹے بابر نیازی اور جاوید نیازی آجکل قوالیاں گاتے ہیں.آپ نے بہت مشہور غزلیں گائیں ۔اسلام آباد میں آپ کے نام سے ایک سڑک بھی منسوب ہے۔آپ کو اپنے پیر سید نیاز علی شاہ سے بہت انسیت تھی ان کی نسبت کی وجہ سے آپ نے اپنے نام کے ساتھ “نیازی ” کا لاحقہ لگایا ۔آپ کا پٹھانوں کے نیازی قبیلہ سے کوئی تعلق نہیں ۔۔
منظور نیازی قوال؛
منظور نیازی قوال دہلی میں پیدا ہوئے اور انکا تعلق قوال بچوں کا گھرانہ سے تھا. انکے دادا میر قطب بخش آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے دربار کے متصل ایک قوال تھے انھیں بہادر شاہ نے تنورس خاں کا خطاب دیا.
منظور احمد قوال نے بھی اپنے مرشد کی عقیدت میں نیازی کا تخلص استعمال کرنا شروع کیا. منظور نیازی کو انیس سو سینتیس میں ممبئی میں قائد اعظم نے بلبل دکن کا خطاب دیا..
عبداللہ منظور نیازی قوال؛
عبداللہ منظور نیازی قوال منظور نیازی قوال کے بیٹے ہیں اور انھوں نے بھی اپنے والد کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے سلسلہ نیازیہ سے بیعت یافتہ ہونے کے ناطے نیازی کا لقب استعمال کیا۔
ڈاکٹر سرفراز خاں نیازی؛
یہ ماہر طبعیت ہیں، اردو ادب کے مشہور شخصیت مولانا نیاز احمد خاں فتح پوری کے صاحبزادے ہیں۔انکے بارے میں کھوج لگانے کی بہت کوشش کی ہے۔
مگر کہیں سے اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی کہ مولانا نیاز احمد فتح پوری نیازی پٹھان تھے۔پس خیال اغلب ہے کہ یہ اپنے والد کی عقیدت میں اپنے نام کے ساتھ نیازی کا تخلص استعمال کرتے ہیں۔
پیر معین عالم نیازی( سلسلہ نیازیہ)؛
ان کا مزار کراچی کے علاقے سخی حسن میں واقع ہے۔اصل وجہ نیازی لکھنے کی یہ ہے کہ پیر معین عالم کا تعلق حضرت شاہ نیاز احمد رضی اللہ عنہ سے منسلک ہے
یہ سلسلہ قادریہ، چشتیہ کی ایک شاخ ہے۔اور یہ پیر شاہ نیاز احمد کے سلسلہ نیازیہ کے خلیفہ تھے۔ حضرت شاہ نیاز احمد رح کا مزار بریلی شریف انڈیا میں واقع ہے۔اور ان کے آگے سلسلہ کے خلفاء اور مریدین بعقیدت اپنے نام کے ساتھ نیازی لکھتے ہیں ۔۔
سید نذیر نیازی؛
اقبالیات پر ایک سند رکھنے والی شخصیت تھے. انھوں نے علامہ اقبال صاحب کے ساتھ رحلت سے قبل کے دو سال گزرے اور علامہ اقبال کی وفات کے بعد مکتوبات علامہ اقبال بنام نذیر نیازی نام سے کتاب لکھی جس میں علامہ اقبال سے ہونے والی گفتگو وغیرہ شامل ہے.
سید نذیر نیازی دراصل سادات تھے وہ انیس سو میں سید عبد الغنی کے گھر قادیان میں پیدا ہوئے. علامہ اقبال کے استاد شمس العلماء سید مولوی میر حسن صاحب کے بھتیجے تھے. اسلامی کالج کے نوجوان تحریک خلافت سے اس قدر متاثر تھے کہ انھوں نے فاتح قسطنطنیہ عظیم ترک جرنیل نیازی بئے کی نسبت سے نیازی کا لاحقہ اپنے نام سے جڑ لیا.
(بحوالہ اقبالیات نذیر نیازی)
سردار عبد القیوم خاں نیازی؛
انکا تعلق آزاد جموں کشمیر کے علاقے پونچھ سے ہے. یہ اصل میں دُلی مغل ہیں.انھوں نے بھی نیازی کا تخلص کشمیر میں ایک صوفی شخصیت سے عقیدت کے باعث لگایا ہوا ہے۔
کشمیر کے علاقے کے متحرک سیاست دان ہیں جہاں سے یہ شاید دو بار ایم ایل اے بھی منتخب ہوئے ہیں اور آجکل وزیراعظم آزاد کشمیر ہیں.
عبدالستار نیازی؛
عبدالستار ایک مشہور نعت نگار شخصیت ہیں۔جنھوں نے بہت سی شہرہ آفاق نعتیں لکھیں۔ فصیح الدین سہروردی نے بھی انکی لکھی نعتیں پڑھی ہیں.
دھیان رہے یہ الگ شخصیت ہیں جبکہ مولانا عبد الستار خان نیازی الگ شخصیت ہے. ہم یہاں نعت نویس عبد الستار نیازی کی بات کررہے ہیں. آپ اتر پردیش میں آباد ایک مغل گھرانے میں پیدا ہوئے قیام پاکستان کے بعد آپکا خاندان پاکستان منتقل ہوا اور پیر نیاز علی شاہ کی عقیدت میں اپنا نعتیہ تخلص نیازی اختیار کیا..
مولانا عبد السلام نیازی؛
مولانا صاحب ہندوستان کے مشہور عالم دین تھے۔نصراللہ خاں اپنی خاکوں کی کتاب ’’کیا قافلہ جاتا ہے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جب مولانا عبدالسلام نیازی سے جو دہلی سے اجمیر آتے جاتے رہتے تھے میری زیادہ ملاقاتیں ہوئی تو میں نے انھیں شرع کا پابند پایا۔ وہ عابد شب زندہ دار تھے لیکن انھوں نے اپنے اردگرد ایسی دیواریں اٹھا لی تھیں کہ کوئی آسانی سے ان کے قریب نہیں آ سکتا تھا۔ اس نے ان کی شخصیت کے گرد پراسراریت کا ایک ہالہ سا بنا دیا تھا۔مولانا ابو الاعلیٰ مودودی جنھوں نے مولانا عبدالسلام سے اکتساب علم کیا تھا لکھتے ہیں ’’ان کا مزاج قلندرانہ تھا۔ بے نیاز طبیعت کے مالک تھے، کسی سے کچھ غرض نہیں رکھتے تھے۔ خلوص اور محبت کے ساتھ ملنے والوں سے ان کا برتاؤ نہایت مشفقانہ ہوتا تھا اور وہ ان کی ناز برداری تک کر لیتے تھے لیکن کسی کی اکڑ وہ برداشت نہ کر سکتے تھے۔ بڑائی کا زعم رکھنے والوں کے ساتھ ان کا برتاؤ کچھ اور ہوتا۔ اپنے قلندرانہ مزاج کی وجہ سے بظاہر وہ لوگوں کو آزاد منش نظر آتے تھے لیکن ان کے اندر گہری دینداری پائی جاتی تھی۔
مولانا عبدالسلام نیازی اپنی نجی زندگی کے بارے میں کبھی گفتگو نہیں کرتے تھے۔ خلیق انجم لکھتے ہیں ’’کوئی نہیں جانتا کہ مولانا کہاں کے رہنے والے تھے۔ اس سلسلے میں ان کی قریبی دوستوں کے مختلف بیانات ہیں۔ یہ بھی ایک راز ہے کہ مولانا کس خاندان سے تھے۔ ان کے والد کون تھے، ان کا کیا نام تھا۔ مولانا کی آمدنی کا ذریعہ بھی بہت پراسرار تھا۔ بظاہر ان کی آمدنی اس عطر سے ہوتی تھی جو وہ اپنے معتقدوں کے ہاتھ فروخت کرتے تھے۔ بقول شہاب اس عطر کی شیشی کئی سو روپیہ کی ہوتی تھی اور اسی سے ان کا گزارا ہوتا تھا۔ تاہم عوام و خواص میں مشہور یہ تھا کہ انھیں عطائے دست غیب ہے۔ وہ خوش لباس اور خوش خوراک تھے۔ عمدہ صاف ستھرے کپڑے پہنتے تھے اور اچھی غذا کھاتے تھے۔‘‘
مولانا عبدالسلام نیازی جس طرح اپنے نسب کا حال اپنے ساتھ لے گئے اسی طرح ان کی ابتدائی تعلیم اور کسب کمال کی تفصیلات بھی ایک راز ہیں۔ مسعود حسن شہاب کہتے ہیں کہ صرف اتنا معلوم ہے کہ ان کا علمائے فرنگی محل کے سلسلہ درس سے تعلق تھا۔ مولانا کو تصوف اور اسلامی فلسفے پر غیرمعمولی قدرت حاصل تھی۔ ان کا پسندیدہ موضوع وحدت الوجود تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ دنیا کے ہر علم سے اسے ثابت کر سکتے ہیں یہاں تک کہ ریاضی سے بھی اس کی حقیقت واضح ہو سکتی ہے۔
مگر راشد اشرف صاحب اپنی کتاب مولانا عبدالسلام یادیں اور خاکے میں دعوی کرتے ہیں کہ مولانا صاحب نے اپنے نام کے ساتھ نیازی تخلص کا استعمال اپنے مرشد مولانا شاہ نیاز احمد بریلوی کی وجہ سے کیا۔
روبی نیازی؛
روبی نیازی اداکارہ کے آباء بھی ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان کے شہر کراچی آباد ہوئے ۔روبی نیازی نے کیونکر نیازی کا تخلص استعمال کیا معلوم نہیں۔
تحریر و تحقیق: سرہنگ نیازی
ناہید نیازی بھی فنون لطیفہ کے حوالے سے ایک جانا پہچانا نام ہے کیا و نیازی ہیں؟
جی وہ نیازی ہیں اور معروف براڈکاسٹر سجاد سرور خان نیازی پنوں خیل کی صاحبزادی اور خان سلطان خان نیازی آنریری مجسٹریٹ کی پوتی ہیں۔