ھیدر(حضر) نیازی قبیلہ کی ایک معدوم شاخ۔۔۔
آج نیازیوں کے ایک معزز ، معتبر اور معروف مگر گمشدہ قبیلے کی کھوج میں نکلا ہوں ۔ نیازیوں کے اس قبیلے کی سلطان خیل کے ساتھ صدیوں پرانی رفاقت اور ہم پر ڈھیروں احسانات ہیں یہ قبیلہ سلطان خیل
آج نیازیوں کے ایک معزز ، معتبر اور معروف مگر گمشدہ قبیلے کی کھوج میں نکلا ہوں ۔ نیازیوں کے اس قبیلے کی سلطان خیل کے ساتھ صدیوں پرانی رفاقت اور ہم پر ڈھیروں احسانات ہیں یہ قبیلہ سلطان خیل
نیازی قبیلے کا تاریخی جائزہ لیں تو ان کا ابتدائی مسکن افغانستان کی سنگلاخ چٹانیں ھیں جہاں یہ ابتدائی طور پر تین پیشوں سے منسلک رھے ۔1-بھیڑ بکریاں پالنا(گلہ بانی)2۔ تجارت3۔ سپہ گریکچھ مورخ یہ سمجھتے ھیں کہ نیازی قبیلے
تاریخ کے جھروکوں سے ۔ تاریخی کتب کے مطابق شاہ حسین غوری بن معزالدین بن جمال الدین غوری کے دوبیٹے غیلزئی اور ابرہیم لودھیبی بی متو دخترِ شیخ بیٹن کے بطن سے سے ھیں جبکہ تیسرا بیٹا سروانی ایک کنیز
سولہویں صدی کی معروف روحانی شخصیت۔۔ سولہویں صدی عیسوی میں جہاں ہیبت خان نیازی اور عیسٰی خان نیازی شہرت اور طاقت کی بلندیوں پر تھے تو دوسری طرف ایک مرد قلندر اور درویش صفت نیازی نے ” علائی تحریک” کو
توغ سرا ئے خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو کا ایک خوبصورت ،پرفضا، اہم اور مشہور گاؤں ہے۔یہ ہنگو سے بارہ کلومیٹر دور ٹل پاڑاچنار روڈ پر واقع ہے۔ اس گاؤں میں اور اسکے پڑوس میں واقع بڑھ عباس خیل اور
دستار ہماری ثقافت کا اہم جزو اور خوبصورت رنگ ہے ۔دستار کو شملہ ، پگ ، پگڑی، عمامہ منڈاسا ، سر پوش اور سرپیچ بھی کہتے ہیںدستار فارسی زبان کا لفظ ھے جبکہ پشتو زبان میں دستار زبر کے بجائے
سلام اس مردِ جری پرجس نے اپنی دھرتی کومتحدرکھنے کی خاطر اپنے جانثاروں کے ہمراہ مسلسل دس ماہ تک ایک مہلک ترین گوریلا وار کا سامناکیا، قربانیاں دیں،قیدو بندکی صعوبتیں کاٹیں اور ہم وطنوں کی جانب سے اپنی انتہائی توہین
اپریل 1975 میں لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی (اے کے نیازی) وہ آخری جنگی قیدی تھے جنھیں انڈین فوج نے ضلع لاہور کی واہگہ چوکی کے مقام پر پاکستان آرمی کے حوالے کیا تھا۔جنرل نیازی کے بھتیجے شیر افگن
مرد میدان، مقابل بحران۔۔۔ ہمارے ہاں دوطرح کے لوگ پائے جاتے ہیں ایک وہ جواپنے عہدے اورعہد پربوجھ ہوتے ہیں اوردوسرے وہ جن کیلئے عہدہ ایک بوجھ ہوتاہے تاہم عہدحاضر میں دوسری قسم کے لوگ ناپیدہیں۔تخت وتاج سے بے نیازکچھ
In 1877 the number of these traders which passed into the district of Dera Ismail Khan was 76400, of which nearly half war grown men. In the year of the census, the number of was 49392. These Pawindha tribes speak
اکبر نے اپنے عہد کے آخری آیام میں افغانوں کے بعض قبائل پر اعتماد کرنا شروع کردیا تھا اور ان کو عہدے اور منصب دینے لگا تھا. ان میں نیازی افغان بھی تھے. اورنگ زیب عالمگیر کے عہد تک افغانوں
فتح خان نیازی جوکہ مسند اعلیٰ عیسٰی خان نیازی کے بھائی اور شیر خان نیازی کے بیٹے تھے۔شیر شاہ سور کے معتمد ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ افسانہ شاہان میں درج ہے کہ۔۔۔ کہتےہیں کہ میاں فتح خان نیازی اورمیاں
بہادرشاہ ظفر کاکا خیل یوں لکھتے ہیں شیرشاہ کے یہ ارمان اس کی پالیسی اور اس کے منصوبوں کے آیئنہ دارہیں شیرشاہ ایک پشتون حکمران تھا اور بڑی گہری نظر رکھتاتھا وہ پشتونوں کے قومی خصائص سےبخوبی واقع تھا
Associated with the Bangashes are large numbers of Niazis, who are now hardly to be distinguished from them. The Niazis are by origin Pawandahs, the general name for the migratory tribes who carry on the trade between Afghanistan and the
مچن خیل اصل میں افغان پشتون ہیں ان کا شجرہ نسب ابراہیم لودھی (یہاں مراد تمام لودھی قبائل کا جد امجد ہے ناکہ آخری لودھی بادشاہ) کے بیٹے نیازئی سے ملتا ہے۔ ان کے آباو اجداد افغانستان سے وانا جنوبی
You cannot copy our Website content