تاریخ و شجرہ قبیلہ موشانی۔


تعارف؛

مشانی قبیلہ نیازیوں کا ایک بہت بڑا قبیلہ ہے جوکہ دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر آباد ہے. اس کے علاقے کو کمرمشانی بھی کہتے ہیں..

تاریخ؛

نیازی قبیلے کی یہ شاخ اپنے جد امجد کے موسی خان نیازی کے نام پر پہلے موسیانی کہلائی پھر رفتہ رفتہ یہ موسیانی موشانی ہوا اور اب یہ مشانی لکھا اور پڑھا جاتا ہے..
موشانی کب ضلع میانوالی میں داخل ہوئے اس پر اختلاف ہے.. اقبال خان نیازی صاحب کے مطابق مشانی بھی سرہنگ نیازیوں کے ساتھ لکی مروت سے بیک وقت اکھٹے آباد ہوئے. لیکن میری رائے کے مطابق مشانی عیسٰی خیل نیازیوں کے بعد جبکہ سرہنگ نیازیوں سے قبل یہاں آکر آباد ہوئے.. موشانی غالباً سولہویں صدی کے زمانے میں یہاں آکر آباد ہوئے جب یہاں پر سنبل نیازیوں کی حکومت تھی خیال اغلب ہے سنبل نیازیوں نے اپنی قوت بڑھانے کیلئے انھیں ٹانک سے براہ راست یہاں نقل مکانی کی دعوت دی ہو. سنبل نیازیوں کی ریاست کے آثار مرزا بیات کی کتاب اور مبارک سوری کے قتل سے بھی ملتے ہیں.. یہ سنبل ریاست امتداد زمانہ اور ہیبت خان نیازی اور اورنگزیب عالمگیر کی کارروائیوں اور شمال میں خٹکوں کی ریاست ٹیری کی مضبوطی کے سبب روبہ زوال ہوکر ختم ہوئی..

حاجی غلام رسول خان شادی خیل

بہرحال رفتہ رفتہ یہاں کی لوکل اقوام جٹ، اعوان، للی اور بیلہم کو نکال کر خود قابض ہوگئے.. قبیلہ داؤد خیل،مندا خیل، گندا، ٹھٹھی کے موندی خیل اور سالار بھی دراصل موشانی ہی ہیں لیکن ان کا بیان الگ کیا جائے گا.
موشانی قبیلے کی کل چھ شاخیں مرکزی ہیں جن سے تمام موشانی قبیلے پھیلے. وہ بالاترتیب یہ ہیں.
١. الہہ خیل، ٢. عمر خیل، ٣. مندا خیل، ٤.آکاہے، ٥.کمال زئی، ٦.نینو زئی
کمر دراصل پشتو کا لفظ ہے جس کی معنی ہیں کونہ یا کنارہ کیونکہ یہ ایک کونہ سا دریا کی کروٹ میں بنتا تھا تبھی مشانی قبیلے کی وجہ سے یہ کمر مشانی کہلایا..
قدیم کمر مشانی سنہ1800ء میں سیلابی پانی کی وجہ سے دریا برد ہوگیا. جس کے بعد موشانی قبیلے کے سردار جنگی خان موسی مرغہ اور علی اللہ خان (جد قبیلہ الہہ خیل) نے ایک نئے موضع ترپی کی بنیاد رکھی۔ مگر سکھا شاہی دور میں یہ آپس میں لڑ پڑے اور یوں وہ قصبہ خانگی دشمنیوں کے سبب ویران ہوگیا. اور موجودہ کمر مشانی وجود میں آیا. لیکن 1905ء میں آنے والے سیلاب نے تباہی مچائی اور قصبہ دریا برد ہوگیا. 1910ء میں دریا پیچھے ہٹ گیا اور پرانا علاقہ پھر نکل آیا. مگر انگریزی سرکار نے اس کو سرکاری اراضی میں شامل کرلیا. بہر حال مشانی قبیلے کے بزرگوں کی سر توڑ کوششیں رنگ لائیں اور انگریز کو یہ زمین 1944ء میں واپس مشانیوں کو دینا پڑی.

1860ء کے لگ بھگ حیات افغانی کتاب کے مطابق مشانی قبیلہ کا سردار  دراز خان جعفر خیل تھا۔کیونکہ یہ عیسیٰ خیل کے خوانین میں سے شیر خان کا قریبی رشتے دار تھا تبھی ضلع بنوں کے کمشنر مسٹر کاکس نے دراز خان کو گورنر پنجاب کے دربار میں بھی باریابی کا شرف حاصل کیا۔

حاجی عبیداللہ خان شادی خیل

علاقہ واپس ملنے پر مشانی قبیلہ کے معززین نے اس کی چار وڑھیاں (محلے) بنائیں اور انکی تقسیم مندرجہ ذیل طریقہ سے کی.

١. وڑھی دادی خیل ؛

اس میں چار قبیلے آباد ہوئے

لعل بیگ خیل، دھنائی خیل، تانی خیل، سرمست خیل

٢. وڑھی استان خیل؛

اس میں آباد مشانی قبائل کے نام درج ذیل ہیں.

گڈو خیل، شادی خیل، جلو خیل، موسی خیل، تاز خیل، راجمیر خیل، المی خیل اور مندر خیل شامل ہیں

٣. وڑھی لوہان خیل ؛

اس میں یہ قبائل آباد ہیں.

لوہان خیل ،ختو خیل اور کمالزئی

٤. اللہ خیل؛

اس میں اللہ خیل اور مرغہ نیازی آباد ہیں.

٥. وڑھی سلطان المعروف تانی خیل؛

اس وڑھی میں درج ذیل شاخیں آباد ہیں.

دریا خیل، شہباز خیل، عبدی خیل، سلیمے خیل، ارباز خیل،سبی خیل اور سالار نیازی آباد ہیں.

یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ احمد شاہ ابدالی کے دور سے لیکر سکھوں کے دور تک مشانی نیازیوں نے لگان یا مالیہ ادا کسی بھی حاکم وقت کو ادا نہیں کیا. جب کوئی حکومتی افسران مالیہ وصولی کیلئے آتا تو یہ سب کچھ چھوڑ کر پہاڑوں پر چلے جاتے. ہاں البتہ جب مالیہ وصولی کا اختیار نوابین عیسٰی خیل کے پاس ہوتا تو یہ مالیہ ادا کرتے. کیونکہ نیازی قبیلے کی بھائی بندی بیچ میں آ جاتی.. جب سکھوں کے دور میں دیوان مانک رائے نے کالاباغ کے نوابین کو مالیہ وصولی کا اختیار دیا. جس پر مشانی قبیلہ کے لوگوں نے مالیہ ادا کرنے سے انکار کردیا حالانکہ دیوان مانک رائے نے ان پر کافی سختی کی اور لشکر کشی بھی کی.. 

مرغہ دراصل دری اور پشتو زبان کا لفظ ہے جس کے معنیٰ سرسبز چراگاہ کے ہوتے ہیں جیسے کہ اردو میں ہم عموماً لفظ پڑتے ہیں مرغزار جس کے معنی وسیع باغ کے ہیں.. پس مرغہ کا اردو یا پنجابی کے مرغے(کُکڑ) سے کوئی تعلق نہیں..

انکے ساتھ ہی قبیلہ خدوزئی بھی آباد ہے جس کے بارے میں محققین کی مختلف آراء ہیں. اقبال خان نیازی صاحب کے مطابق یہ مشانی قبیلے کی شاخ الہہ خیل قبیلہ سے ہیں..

شاداب خان نیازی

مندہ اور گندہ:سینہ بہ سینہ روایت کے مطابق مندہ اور گندہ بھائی تھے۔مندہ دریا سندھ کے مغربی کنار آباد ہوا جبکہ گندہ کی اولاد مشرقی کنارے پر آبادی ہوئی۔میری تحقیق کے مطابق مندہ کا اصل نام میداد خان تھا جوکہ کثرت استعمال اور علاقائی زبان کے زیر اثر آکر مندہ ہوگیا، جبکہ گندہ دارصل گداء خان تھا (جو کہ فارسی زبان کا لفظ ہے۔جس کا مطلب سوالی یا درخواست گزار ہوتا ہے)۔لیکن یہ بھی کثرت استعمال اور علاقائی زبان میں بگڑ کر گندہ بن گیا۔حالانکہ یہ اردو یا پنجابی کے الفاظ گندہ(میلا،بُرا) یا مندہ(بُرا،ظالم) سے کوئی تعلق نہیں۔کیونکہ نیازیوں کی اصل زبان پشتو تھی جسکی وجہ سے ہمارے کافی قبائلی نام پشتو والے ہیں جوکہ ہندکو اور سرائیکی زبان میں بگڑ گئے لیکن لوگوں کو حقیقت کا علم نہیں۔تبھی قصبہ گندہ خیل کا نیا نام اب تو حیدآباد رکھ دیا گیا ہے،جوکہ کم فہمی کا نمونہ ہے۔انگریز کے زمانے میں جب مختلف  علاقوں کی حد بندی کی گئی تو گندا کو دریا کی دوسری سمت واقع ہونے کے باوجود داؤد خیل کی بجائے مندا خیل میں رکھا گیا کیونکہ اس وقت کے بزرگ بھی جانتے تھے کہ گندہ دراصل مندہ خیل ہی کا حصہ ہے۔مندہ خیل قبیلہ پر الگ آرٹیکل اپلوڈ ہوچکا ہے۔

اسی طرح انکے قریب مندوری بھی آباد ہیں جوکہ مردان، سوات وغیرہ میں بھی آباد ہیں. یہ کون ہیں انکے بارے میں کوئی واضح معلومات نہیں ہیں. اقبال خان نیازی صاحب نے بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا اور نہ ہی کسی مؤرخ نے ان پر کوئی موقف لکھا ہے. البتہ یہ سوات وغیرہ میں یوسفزئی اور میانوالی میں خٹکوں کے زیر اثر والے علاقے میں خٹک کہلاتے ہیں جبکہ کمر مشانی کے نزدیک والے نیازی کہلاتے ہیں. مگر ہر تینوں اقوام کے مؤرخین نے انکو اپنی اپنی قوم کے میں شمار نہیں کیا..

امانت اللہ خان شادی خیل

جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ پٹھانوں کی اکثریت سنی مسلک کی پیروی کرتی ہے بلکل اسی طرح نیازی بھی سنی مسلک سے جڑے ہیں البتہ مشانی قبیلے کی شاخ درازی خیل شیعہ مکتبہ فکر کو اب اپنا چکی ہے. مرغہ بھی اب شیعہ مسلک کے زیر اثر آرہے ہیں..
مشانی قبیلہ بہت بڑا قبیلہ ہے جسکی حدود شمال میں کوٹ چاندنہ ڈیڈوال، ناصری وانڈھا خراسان اور ترگ شریف تک ہیں.
کمرمشانی قبیلے کے لوگ تجارت پیشہ ہیں، ٹرانسپورٹ اور ترکاری کے کاروبار میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔یہ بات یاد رہے کہ کمر مشانی کا ہر فرد مشانی نہیں ہے۔

شخصیات؛

مشانی قبیلہ نے لاتعداد نامور، نیک اور دلیر شخصیات کو جنم دیا ہے ، مثلاً ، محمد حیات خان دھنائی خیل ، سعادت حیات خان
نمبردار احمد یار خان ، ثناء اللہ خان درازی خیل ، غلام حسن خان کچھو خیل ، امیر محمد خان ذیلدار ، عبد الستار خان کچھو خیل ، حاجی عنایت خان شادی خیل ، عبد الرحمن سندھی نزری خیل ، سعداللہ خان جلو خیل ، عبداللہ خان جلو خیل ، عبداللہ خان اللہ خیل برادر سرفرازی اللہ خیل ، غلام حبیب خان شادی خیل ، مہر خان ننزئی ، انور خان برزی ، اکرم خان نمبردار تانی خیل ، حاجی اظہر نیازی ، سرمست خیل ، عبداللہ خان شاھو خیل ، اشتیاق خان مہار ، مظفر خان درازی خیل ، عالم خان ممبر اللہ خیل ،
جیلان خان اللہ خیل ، عالم خان ماسٹر سرمست خیل ، فاروق خان ماسٹر ، لیاقت حیات خان دھنائی خیل ، ڈاکٹر سعادت حیات خان ، محمد اسلم خان بیوروکریٹ شادی خیل سیف اللہ خان درازی خیل ، عبد الستار خان ننزئی
محسن خان درازی خیل ، فؤاد خان مہار ، عطاء اللہ خان شادی خیل ، حقدار خان شادی خیل ، حکیم محمد امیر خان علمی خیل ،حاجی غلام رسول خان شادی خیل (سابقہ ایم پی اے)، حاجی عبدالستار خان کچو خیل،خان حبیب اللہ خان شادی خیل ،حاجی عبیداللہ خان شادی خیل، امانت اللہ خان شادی خیل، شاداب خان (کرکٹر)، افضل عاجز(شاعر)،غلام یاسین خان نیازی (ڈائریکٹر آف ایجوکیشن) وغیرہ شامل ہیں یہ لوگ کمرمشانی کے مشہور و معروف لوگ ھیں ، ان میں کئی لوگوں کی شرافت دلیری اور اخلاق و غریب پروری کو مدنظر نظر رکھا گیا ھے حالانکہ ان لوگوں میں غریب لوگوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے بھی شامل ھیں ، امید ھے یہ خود اپنے رویے پر غور کریں گے ، اچھے لوگوں کو مرنے کے بعد اچھے لفظوں میں یاد کیا جاتا ھے

۔

ذیلی شاخیں؛

الہہ خیل، مرغہ، درازی خیل،مندا خیل،گندا خیل، لعل بیک خیل، شہباز خیل، دھنائی خیل، سرمست خیل، لوہانڑ خیل، تانی خیل، کمالزئی، گڈو خیل، جلو خیل، شادی خیل، تاڑ خیل، المی خیل، ماندر خیل، دریا خیل، سلمے خیل، شاہو خیل،جعفر خیل،ربزئی، ظافر خیل،بیلزئی(بلزئی)، نینو زئی(ننزائی) وغیرہ شامل ہیں.

نوٹ:

مشانی بہت بڑا قبیلہ ہے جسکی آبادی ہزاروں افراد پر مشتمل ہے لیکن بدقستمی سے اس قبیلے کے شجرے ترتیب نہیں دئیے جا سکے۔یہ بات یاد رہے کہ زیر دستیاب شجرہ جات صرف وہ ہیں جو تاریخ نیازی قبائل کتاب کے مؤلف حاجی اقبال خان نیازی صاحب مرحوم نے اپنی کوشش سے اکھٹے کئے یا جن لوگوں نے ذاتی دلچسپی لیکر کر شجرے بنا کر ان تک پہنچائے.ان شجروں کو قطعی طور پر مکمّل نہ سمجھا جائے کیونکہ یہ چند سو افراد کے شجرے ہیں جبکہ قبیلے کی آبادی ہزاروں افراد پر مشتمل ہے.. اگر کسی کا زیر دستیاب شجرے میں نام موجود نہیں تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ نیازی نہیں یا مشانی نہیں. بلکہ یہ انتہائی محدود افراد کے شجرے ہیں جو مؤلف کو دستیاب ہوئے وہ شامل کردیئے۔اگر کوئی آرٹیکل میں مزید معلوت کا اضافہ کروانے کا متمنی ہے یا کوئی تصحیح درکار ہے یا کسی معروف شخصیت کی تصویر شامل کروانا چاہتا ہے تو ہمیں نیچے کمنٹ کریں یا فیس بک پیج نیازی پٹھان قبیلہ پر انبکس کریں شکریہ

ایڈمن نیازی پٹھان قبیلہ

www.NiaziTribe.org

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

13 تبصرے “تاریخ و شجرہ قبیلہ موشانی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں