نیازی اور ترکوں میں مماثلت۔۔۔


یہ تو آپ سب جانتے ہیں کہ نیازی کے دادا شاہ حسین غوری تھے جو غور کے ایک شہزادے تھے جس کا شجرہ نسب شنسب تک کچھ یوں ہے
نیازی بن ابراہیم لودھی بن شاہ حسین بن شاہ معزالدین بن جمال الدین بن بہرام بن شنسب
ان میں سلطان بہرام کو غور کی حکومت کا فرمان حضرت علی ؓ کے دست مبارک سے عطاء ہوا تھا۔ خلافت راشدہ کے بعد جب اموی برسر اقتدار آئے تو اہل بیت سے محبت اور حمایت پر سلاطین غور بھی زیر عتاب آئے اور یہ شاہی خاندان جانیں بچاتا ہوا بکھر گیا ۔
ان ہی میں سے ایک شہزادہ شاہ حسین بن معزالدین پٹھانوں کے جد امجد قیس عبدالرشید کے بیٹے بیٹن بابا کے ارادت مندوں میں شامل ہوا واضح رہے کہ بیٹن نیکہ اس وقت ایک بڑے بزرگ اور زہد و تقویٰ کے اعلٰی مقام پر فائز تھے (بیٹنی قوم اسی بیٹن بابا کی اولاد ہے )
شاہ حسین نے اپنے حسن اخلاق سے بہت جلد بیٹن بابا کے دل میں جگہ بنائی اور انہیں اپنا گرویدہ بنا لیا ۔
بیٹن بابا نے اس نوجوان کے حسن اخلاق سے متاثر ہوکر انہیں اپنی فرزندی میں لے لیا اور اپنی بیٹی متو بی بی اس کے عقد میں دے دی جن سے اللہ تعالٰی نے انہیں دو بیٹے عطاء کئے
غلیزئی اور ابراہیم لودھی
جبکہ تیسرا بیٹا کاغ دوڑ کی بیٹی مہی کے بطن سے پیدا ہوا جس کا نام سروانی رکھا گیا ۔
ان تینوں بیٹوں کی اولاد بعد میں پشتون کہلائی اور انہیں پانچ پشتون طائفوں میں
متی یا متوزئی کے طور پر شناخت ملی اور اس وقت سے شاہ حسین کی اولاد اپنی ماں متو بی بی کی مناسبت سے متو زئی یا متی کہلاتی ہے ۔
شاہ حسین ترک النسل شہزادہ تھا یا بنی اسرائیلی اس پر مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے مگر متو بی بی سے شادی کے بعد وہ اپنے پشتون سسرال کا ہی بن کر رہ گیا اور ان کی اولاد نہ صرف پشتون شمار ہونے لگی بلکہ تمام پشتون قبائل کی سرخیل اور باعث افتخار ٹھہری ۔
کچھ مورخین کے نزدیک شنسب اور قیس عبدالرشید نہ صرف ہمعصر تھے بلکہ شنسب قیس کا عمزاد بھائی تھا واللہ اعلم
نیازی بنی اسرائیلی ہیں یا ترک نسل اس کے بارے میں وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے مگر ان میں ان دونوں قوموں سے مماثلت پائی جاتی ہے اور آج میں آپ کی معلومات اور دلچسپی کے لئے نیازیوں کی ترکوں سے مماثلت کی چند مثالیں پیش کرنے لگا ہوں جو کسی تاریخی کتب یا گوگل میں نہیں ملیں گی ۔آرٹیکل تھوڑا طویل ہے اس لئے پیشگی معذرت ۔
1۔ ناموں میں مماثلت
(نیازی ، خان اور بی بی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
👈 نیازی ۔
نیازی جو ابراہیم لودھی کا بڑا بیٹا اور شاہ حسین کا پوتا تھا ان کے نام نیازی کی تین وجہ تسمیہ نظروں سے گذری پہلی یہ کہ
نیازی کا نام نیاز تھا جس کے معنی ہیں چہیتا ، لاڈلا یا چانجلا ۔
نیاز کی اولاد شروع میں نیاز زوئے کہلائی زوئے کا مطلب بیٹا اور نیاز زوئے کا مطلب نیاز کا بیٹا
یہ نیاز زوئے نام وقت کے ساتھ ساتھ نیاز زئے اور پھر نیازی بنا
دوسری وجہ تسمیہ یہ ہے کہ نیازی کا اصل نام تو کچھ اور تھا مگر وہ اپنی دادی بی بی متو کا چہیتا تھا اور دادی سے بہت زیادہ قربت (attech) رکھنے کی وجہ سے نیا زوئے کہلایا۔
نیا پشتو میں دادی کو کہتے ہیں جبکہ زوئے کا مطلب بیٹا نیا زوئے کا مطلب دادی کا بیٹا
نیا زوئے سے بعد میں نیازی بنا ۔
تیسری وجہ تسمیہ یہ ہے کہ نیازی ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں
” بھڑکتی ہوئی آگ “
یعنی نیازی کا نام شروع ہی سے نیازی تھا جو ایک ترک نام ہے اور اس نام میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی
نیازیوں کی سرخ سفید رنگت بھڑکتی ہوئی آگ سے مشابہ ہے اور مزاج میں تو سو فیصد بھڑکتی ہوئی آگ ہے
لہذہ یہ ترکی نام والی وجہ تسمیہ کچھ دل کو لگتی ہے اور نیازیوں اور ترکوں میں تعلق کا پتا دیتی ہے ۔
👈 خان
کسی اور پشتون کا ہو نہ ہو مگر خان کا لاحقہ نیازی پشتون کے نام کا لازمی حصہ ہے اور ہمارے ہاں خان کے بغیر نام کا تصور محال ہے
خان دراصل ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ” سردار “
یہ نام شروع میں ترک اپنے لئے استعمال کرتے رہے بعد میں یہ نام دیگر قوموں میں رائج ہوا اور بادشاہوں کی طرف سے خطاب کے طور پر بھی دیا جانے لگا مگر ہم نیازی پیدائشی خان ہیں اور خان کے ساتھ آج بھی ہمارا مضبوط بندھن برقرار ہے ۔
یہ خان سے والہانہ وابستگی ترک النسل ہونے کا اشارہ دیتی ہے ۔
👈 بی بی
اسی طرح ہمارے ہاں زنانہ نام کے ساتھ بی بی کا لاحقہ بھی ضروری ہے شائستہ کےآخر میں خان لگ جائے تو وہ مردانہ نام بن جاتا ہے اور آخر میں بی بی لگ جائے تو زنانہ نام بن جاتا ہے
یہ بی بی بھی ترکی زبان کی دین ہے اور خاتون بھی ترکی زبان کا لفظ ہے ہمارے ہاں خاتونہ بن گیا ۔
کچھ اور نام بھی ترکی زبان یا ترک مشاہیر کی وجہ سے ہمارے ہاں آئے ہیں جیسے

  • بہلول ۔
    یہ نام لودھی سلطنت کے بانی بہلول لودھی کا تھا جس کا مطلب ہے حکمراں
  • سنجر ۔
    سلجوقی دراصل ترک تھے اور سلجوقی سلطنت ایک مشہور حکمران سنجر جس نے خراسان پر حکمرانی کی اور ہمارے ہاں اس نام سے ایک قبیلہ ہے
    سنجر لفظ کا اصل فارسی ہے اور مطلب بادشاہ ہے ۔
  • ایاز ۔
    یہ ترک نام بھی ہمارے ہاں رائج ہے
    محمود غزنوی کے ایک چہیتے غلام کا نام ایاز تھا ۔
    علامہ اقبال نے ان ہی کے بارے میں کہا ہے
    ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
    نہ بندہ رہا نہ بندہ نواز
    ایاز کا مطلب ٹھنڈی ہوا
  • ارسلان ۔
    الپ ارسلان ترک سلجوق سلطنت کا بانی تھا
    اس نام سے ہمارے ہاں ارسلا خان ایک مقبول نام ہے ارسلان ترکی میں شیر کو کہتے ہیں اسی طرح الپ خان نام بھی ہمارے ہاں مستعمل ہے ۔
  • زنگی ۔
    زنگی سلطنت کے بانی عمادالدین زنگی ترک تھے ان کے بیٹے نورالدین زنگی (1146ء تا1174ء) کا تاریخ میں بڑا نام ہے جس نےبیت المقدس آزاد کرایا اور صلاح الدین ایوبی ان کا ہی سپہ سالار رہا جو ان کے مرنے پر حکمران بنا ۔
    زنگی کے نام سے ہمارا ہاں ایک قبیلہ ہے
    زنگی لفظ کا اصل فارسی ہے جس کا مطلب بتانے سے پہلے زنگی خیلوں سے معذرت
    زنگی کا مطلب ہے
    حبشی ، شیدی ، سیاہ فام ، تک تور
    مخمت ۔
    ہمارے ہاں محمد نام کو مخمت کہتے تھے جبکہ ترکی میں بھی محمد کو محمت کہا جاتا ہے۔
    اس کے علاوہ توران ، تراکئی سہاک ، بابک اور مندک جو متوزئی طائفے کی شاخیں ہیں یہ سب ترک نام ہیں ۔
    2۔ فطرت اور مزاج میں مماثلت
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نیازی ایک جنگجو قبیلہ ہے اور تاریخ ان کی عسکری کارناموں سے بھری پڑی ہے آج بھی نیازی نوجوان کا آرمڈ فورس جوائن کرنا پہلی ترجیح ہے ۔
    ملک بھر میں نیازیوں کو ایک جھگڑالو قوم کے طور پر شمار کیا جاتا ہے
    اور پشتونوں کے پانچ بڑے گروپ میں متی طائفے سے تعلق رکھنے والے لودھی ، سوری اور ہوتک قبیلے کے پشتونوں نےمختلف ادوار میں ہندوستان اور افغانستان میں بزور شمشیر اقتدار حاصل کیا نیازی ان سب حکمرانوں کے فتوحات میں شانہ بشانہ شامل رہے ۔
    ترک بھی ایک جنگجو اور بہادر قوم ہے اور مختلف فاتحین نے ترک فوج کے بل بوتے پر فتوحات پائی ہیں محمود غزنوی ، شہاب الدین غوری ہندوستان کی تسخیر کے لئے اپنے ساتھ ترک جنگجو لائے ۔
    سلطان محمد فاتح اور نورالدین زنگی بھی ترک تھے سلطان صلاح الدین ایوبی نورالدین زنگی کا سپہ سالار تھا جو ان کی وفات پر حکمران بنا کرد تھا اور کردوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ترک ہیں
    ارطغرل اور ان کے بیٹے عثمان جس نے دولت عثمانیہ جیسی عظیم سلطمت کی بنیاد رکھی اور چھ سو سال تک مسلمانوں کی قیادت کی جس کے نام سے کفر کے ایوانوں میں ہلچل مچ جاتی تھی، ترک تھے ۔
    3۔ بھیڑیا /لیوو
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    بھیڑیا جسے ہم پشتو میں لیوو( Levo)کہتے ہیں ایک وفا شعار ،اولعزم اور غیرت مند جانور ہے ہر جانور کو غلام بنایا جاسکتا ہے مگر بھیڑئے کو نہیں
    وہ ایک نیک خصلت درندہ ہے ہمیشہ اپنی مادی تک محدود اور اس کاوفادار رہتا ہے اور بوڑھے والدین کی خدمت کرتا ہے بھیڑئے کو عربی میں ابن البار یعنی نیک بیٹا کہا جاتا ہے ۔
    بھیڑئے کی انہی خوبیوں کی وجہ سے
    ہم شیر کے ساتھ ساتھ بھیڑے کو بھی بطور اسم صفت استعمال کرتے ہیں ۔ جیسے محنتی شخص کو “چارے لیوو” کہتے ہیں ۔
    یہی بھیڑیا ترکوں کا قومی جانور ہے ترک خود بھی بھیڑئے کی طرح دلیر ، جفاکش اور وفا شعار ہوتے ہیں ان کے ہاں بھی بھیڑیا اچھے لفظوں میں یاد کیا جاتا ہے اور وہ اپنی اولاد کو شیر کے بجائے بھیڑئے سے تشبیہ دیتے ہیں ۔
    جبکہ اردو ، فارسی ادب میں بھیڑیا (گرگ ) کو ایک ظالم اور خونخوار درندے کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جیسے فارسی کا ایک شعر ہے
    در جوانی عبادت کردن شیوۂ پیغمبری
    وقت ضعیفی گرگ ظالم می شیود پرہیگار
    (جوانی میں عبادت کرنا پیغمبروں کا شیوہ ہے
    بڑھاپے میں تو ظالم بھیڑیا بھی ہرہیز گاری اختیار کر لیتا ہے ۔
    4۔ ثقافتی اور مذہبی مماثلت ۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ایک اور دلچسپ مماثلت ثقافتی پکوان اور مشروب کے حوالے سے پائی جاتی ہے ۔
    ہمارے ہاں میلاد ہو یا سیاسی گیدرنگ ، شادی بیاہ کی تقریب ہو یا سوئم اور چہلم ، دلہن کا دریمہ ہو یا میڑیں اور منت ایک خاص سوغات جسے حلوہ کہتے ہیں کے بغیر ادھوری اور پھیکی رہتی ہے
    میں نے اس پکوان کو ترکوں میں تلاش کیا تو حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہ بھی ہماری طرح حلوے کے بہت شوقین ہیں
    ترک لوگ میٹھے کو بہت زیادہ پسند کرتے ہیں ترک کہاوت ہے کہ
    “زندگی کا آغاز بھی میٹھے سے ہونا چاہیے اور اختتام بھی”
    ان کے ہاں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو حلوہ بنایا جاتا ہے اور جب کوئی مر جائے تو اس کے جنازے کے بعد بعد حلوہ کھایا جاتا ہے ۔
    کہتے ہیں ترکی میں عثمانیوں نے حلوے کو اپنایا اور ترقی دی۔
    اس کے علاوہ ترک ہماری طرح چائے کے بھی بڑے رسیا ہیں
    کسی گھر یا دفتر جانے پر ہماری طرح مہمان کو چائے پیش کی جاتی ہے اور تو اور کاروباری ڈیلنگ کے دوران بھی چائے کا دور ضرور چلتا ہے
    ترکی دنیا میں سب سے زیادہ چائے پینے والا ملک ہے ہر آدمی دن میں 5 سے 10 بار چائے پیتا ہے اور ترکی کی 96 فیصد آبادی دن میں ایک دفعہ لازمی چائے پیتی ہے جو کہ کسی بھی ملک سے سب سے زیادہ تعداد ہے ترکی دنیا میں چائے پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے
    ایک اور رسم جو حیرت انگیز طور پر ہم سے مماثلت رکھتی ہے
    اگر پڑوس میں کوئی مر جائے تو اس سوگوار خاندان سے اظہار یکجہتی اور غمگساری کے ساتھ ساتھ سوگوار خاندان اور ان کے مہمانوں کے لئے کھانے کا بندوبست بھی ان کے پڑوسی کرتے ہیں یعنی ہماری طرح سوگوار خاندان کے گھر کھانا بھیجا جاتا ہے ۔
    اس کے علاوہ ان کی بزرگ خواتین ، ہماری خواتین کی طرح ایک جگہ جمع ہو کر حالات حاضرہ پر گفتگو و تبصرہ جات سے دل کا بوجھ ہلکا کرتی ہیں ۔
    مذہب کی بات کی جائے تو ہماری طرح ان کے دینی تعلیمات پر بھی تصوف و طریقت کی گہری چھاپ ہے جس کی وجہ مولانا جلال الدین رومی ہیں جن کا مزار قونیہ(ترکی) میں ہےاور جو علامہ اقبال کے روحانی مرشد تھے مولانا رومی کا عرس ہر سال دسمبر میں منایا جاتا ہے ۔
    اس کے علاوہ نقشبندی سلسلے کا آغاز بھی ترکستان سے ہوا۔
    ان کے قومی شاعر یونس ایمرے کی شاعری بھی تصوف سے بھری ہے ۔
    جس طرح ہمارے ہاں مسجدیں بنانے کا رحجان زیادہ ہے یہ اور بات کہ مسجدوں میں نمازی نہیں ملتے ۔
    ترکوں میں بھی خوبصورت مساجد تعمیر کرنے کا رحجان پایا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ مساجد ترکی میں ہیں صرف استنول شہر میں تین ہزار سے زائد مساجد ہیں
    ایک مماثلت کھیل کی صورت میں پائی جاتی ہے ہمارے ہاں ماضی میں کشتی اور کبڈی مقبول کھیل تھے ترکوں کا ثقافتی کھیل بھی کُشتی ہے ۔
    5۔ زبان میں مماثلت
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    زبان کی بات کی جائے تو یہاں بھی حیرت انگیز طور پر ایک بات مشترک ہے
    ہم جس طرح ” د ” کو “ت ” میں بدلتے ہیں جیسے ہادی کو ہاتھی ، مدد کو مدت اور زیادہ کو زیاتا کہتے ہیں اسی طرح ترک بھی د کو ت میں بدل دیتے ہیں جیسے محمد کو محمت وغیرہ
    ہم بکری کے شیر خوار بچے کو” کوچوکے” کہتے ہیں اور کونپل کو کوچک جبکہ ترکی زبان میں چھوٹے کو “کوچُک” کہتے ہیں
    اس طرح سلطان خیل رضائی کو ” شے رک ” کہتے ہیں اور ترک ” توشک ” کہتے ہیں
    ہم میلے کچیلے کو سلطان خیل کی پشتو میں ” چیرن ” کہتے ہیں اور ترکی میں ” چرکن ” اس کے علاوہ
    ارمان ، چاقو ، کاشک (چمچہ)، بیلچہ اور چالاک وغیرہ بھی ترک زبان کے الفاظ ہیں
    اور بھی بہت سے مماثل الفاظ ہیں
    مگر پوسٹ کافی لمبی ہوگئی اور میرے نازک اور چانجلے فالوور لمبی پوسٹیں افورڈ نہیں کرتے باقی پھر کبھی سہی
    اگر آپ چاہیں تو اگلی پوسٹ یہودیوں سے مماثلت کے بارے میں پیش کی جاسکتی ہے ۔

تحریر:عطاء اللہ خان نیازی سلطان خیل

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

12 تبصرے “نیازی اور ترکوں میں مماثلت۔۔۔

  1. ترکوں کیساتھ یہ مماثلت صرف نیازی ہی نہیں بلکہ تمام پاکستانیوں میں پائ جاتی ہے سب پاکستانی حلوے کے شوقین ہیں سب پاکستانی چندے جمع کر کر کے مسجدیں بناتے ہیں ۔کوچک لفظ بلوچی اور فارسی زبان میں بھی وہی معنی رکھتا ہے جو ترکی میں ۔سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ تدکوں کیساتھ ہماری شکل ہی نہیں ملتی ہمارے شکل اسرائلوں سے ملتی جلتی ہے اور ترکی ملک میں رہنے والے ترکوں کی شکلیں یورپین لوگوں جیسی ہوگئ ہیں اصل ترک بالکل چینیوں جیسے ہوتے ہیں ۔جیسے کہ ازبکستان ترکستان اور ترکمستان کے ترک۔

    1. نیازی سو فیصد پٹھان ہیں ان کا نسب شاہ حسین غوری سے جلال الدین شنسب مایہ سوری تک جاتا جس کے بارے میں پرانی کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر مسلمان ہوا غور کا بادشاہ رہا جو کہ شہاب الدین خان غوری تک سلسلہ جاری رہا۔ اب بات کرتے ہین انکے ترک ہونے یا تاجک ہونے کی پرانی کتابوں میں ان کو نہ ترک لکھا گیا نا تاجک لکھا گیا یہاں تک کہ ان کی زبان کو ترک تاجک زبانوں ترکی اور دری عربی زبان ست مختلف کہا گیا مطلب کہ وہ پشتون ہوسکتے ہیں ۔۔ جہاں تک مماثلت کی بات ہے اب نیازی سرائیکی مہاجری پشتو زبانیں بولتے ہیں تو کیا یہ مختلف ہوئے ایک دوسرے سے کیا یہ مہاجر ہیں یا سرائیکی یا پشتون نسل کا تعلق زبان سے نہی

  2. کیساتھ یہ مماثلت صرف نیازی ہی نہیں بلکہ تمام پاکستانیوں میں پائ جاتی ہے سب پاکستانی حلوے کے شوقین ہیں سب پاکستانی چندے جمع کر کر کے مسجدیں بناتے ہیں ۔کوچک لفظ بلوچی اور فارسی زبان میں بھی وہی معنی رکھتا ہے جو ترکی میں ۔سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ تدکوں کیساتھ ہماری شکل ہی نہیں ملتی ہمارے شکل اسرائلوں سے ملتی جلتی ہے اور ترکی ملک میں رہنے والے ترکوں کی شکلیں یورپین لوگوں جیسی ہوگئ ہیں اصل ترک بالکل چینیوں جیسے ہوتے ہیں ۔جیسے کہ ازبکستان ترکستان اور ترکمستان کے ترک۔

    1. متفق علیہ۔۔جیسے موجودہ پاک و ہند کے مغل کہلانے والوں کی قدیم مغلوں سے نہیں ملتی۔۔بہرحال یہ بات جدید تحقیق سے بھی واضح ہوئی ہے کہ غلجی قبائل ترکوں کے شراکت دار ہیں اور اسرائیلی نظریہ صرف افسانوی داستان ہے حقیقت نہیں۔۔

  3. تُرکی میں تُرک نسل نیازیوں سے میری اپنی مُلاقات ہے بلکہ ایڈمن فیس بُک پیج کو تصاویر بھی بھیج چُکا ہوں ۔ وہ اپنے نام کے ساتھ پہلے نیازی لگاتے ہیں ۔ اور باقی رہی چاے کی بات تُرکی چاے بہت زیادہ پیتے ہیں لیکن آپ سے تھوڑی چُوک ہوی وہ یہ کہ ترک بغیر دودھ کے قہوا کو چاۓ کہتے ہیں ۔ دودھ والی چاے کو وہ انگریزی چاے کہتے ہیں جسے وہ سخت ناپسند کرتے ہیں ۔ اور اسی چاے اور ہمارے قہوا میں کوی فرق نہی اور ہم اسے گُڑ ساتھ۔ رکھ کے پیتے ہیں اور وہ چینی کی ٹُکریوں کے ساتھ ۔ اور کھانے میں بھی ہماری طرح بغیر مسالوں کے مٹن اور بیف کے دلدادہ ہیں
    باقی آپ کی تحریر بہت عُمدہ اور قابل فہم ہے اللَہ پاک آپ کے عِلم عمل میں برکتیں نصیب فرماے

  4. محترم: آپ نےترک اور نیازیوں میں مماثلت تلاش کرنے میں ایڑٰی چوٹی کا زور لگایا ہے اور کافی حد تک کامیاب بھی ہیں۔ لیکن کچھ نقاط توجہ طلب ہیں۔
    1: ناموں میں مماثلت:
    جناب ذبان اور معاشرتی علوم کے عالم یہ بات جانتے ہیں کہ جب کچھ اقوام کسی ایک جگہ پر لمبے عرصے کے لیے رہائیش پزیر ہوتے ہیں توانکی زبان اور رسوم آہستہ آہستہ ایک دوسرے میں منتقل ہو جاتی ہیں۔
    تو جناب ترک اور پٹھان طویل عرصے سے پڑوسی رہے ہیں۔ دونوں اقوام کی ذبان اور رسوم کا امتزاج کوئی اچھنبا نہیں ہے ۔
    2: فطرت اور مزاج:
    جناب من: 200 سال پیچھے چلے جائیں کون سا قبیلہ آپ کو پر امن نظر آ رہاہے اور کونسی جگہ ہے جہاں لمبے عرصے تک سکون رہا ہے ۔
    افغانستان میں سبھی تو نیازی نہیں ہیں وہ لوگ گزشتہ 40 سال سے حالت جنگ میں ہیں اور وہ بھی سپر پاورز کے ساتھ ۔ تو کیا وہاں سبھی ترک ہیں؟
    بھائی میرے جب بھی جہاں بھی ظلم ہوا ہے وہاں لوگ اسکے مقابلے میں کھڑے ہوئے ہیں اور بہادری سے مقابلہ کیا ہے۔
    تو جناب انسانی فطرت اور مزاج اس معاملے میں تقریباً ایک سی ہی ہے ۔

    1. جی بالکل افغانستان کی 51فی صد آبادی تاجک اور ازبک ترکوں پر مشتمل ھے۔ افغانستان اور ایران علاقے کی نسبت ترک علاقوں میں شمار ھوتے ھیں۔ افغان آبادی 38 فیصد ھے اور 11 فی صد بلوچ ھزارہ اور دیگر لوگ ھیں۔

  5. تحقیق کے دوران یہ نکتہ ضرور یاد رکھیے گا کہ آج کا ترکی اور سلطنت عثمانیہ کا ترکی بہت مختلف تھا۔سلطنت عثمانیہ کے ترکی میں کئی قومیں آباد تھیں۔
    حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولادیں سامی کہلاتی ہیں جو ایک خدا کو پہچانتے تھے اور ان کی دو واضع شاخیں بنی اسر ائیل اور بنی اسماعیل ہیں۔ان میں سے نارتھ ویسٹرن ترکی میں بنی اسرائیلی سامی قبائل بھی آباد تھے۔ زیادہ تر فتوحات اور جنگیں انہی قبائل کا خاصہ رہی ہیں اور یہی سامی قبائل ہماری پرانی شکل ہیں۔یعنی موجودہ ترکی یا پرانا ترکی ہماری اصل نہیں ہے ہماری اصل سامی النسل بنی اسرائیل ہونا ہے۔جو قدیم ترکی میں بھی آباد تھے۔قدیم ترکی صرف ہمارا جغرافیہ تھا جیسا کہ افغانستان ہندوستان یا پاکستان ہمارا
    موجودہ جغرافیہ ہے اور افغانستانی پاکستانی یا انڈین ہونا ہماری شہریت ہے۔اور ان تینوں ممالک میں کئی نسلیں اور ذاتیں آباد ہیں۔جس میں ہم بھی شامل ہیں۔
    یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ آج سے ایک ہزار سال بعد ہماری پٹھان نسل امریکہ میں یہ کہتی پائی جائیں کہ امریکن پٹھانوں کی افغانیوں پاکستانیوں اور انڈین سے مماثلت۔

  6. بھای جان، 21ویں صدی ھے، براءے مہربانی انگریزی کی بورڈ سے لکھنے کی اجازت دے دیں۔۔۔ اور کاپی پیسٹ کا بھی اجازت دیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے نام کو آپ کے اس علم کے شعبے سے ہمیشہ منسلک اور اس میں اور برکت عطا فرماےٰ۔ آمین سم آمین!!

اپنا تبصرہ بھیجیں