گزشتہ دنوں ہم نے پوسٹ کی تھی کہ ہمیں ہندوستان کے علاقے ناگپور سے ایک نیازیوں کا ایک قدیمی شجرہ اپنے ایک کرم فرما جناب محترم مکرم ڈاکٹر رضی الدین صدیقی صاحب کے توسط سے مؤصول ہوا ہے.
یہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہے. ہم جیسے تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے افراد ہی اس کی قدر جان سکتے ہیں.
بہرحال ایک ہفتے کی محنت کے بعد ہم نے اس فارسی زبان کے شجرہ کو اردو زبان میں جدید شجرہ نویسی کے اصول کے مطابق تیار کر لیا ہے جو کہ آپ کی خدمت میں پیش کررہے ہیں.
چونکہ یہ شجرہ نواب محمد خان نیازی، متوفی 1626ء کی آٹھویں پُشت تک تھا. اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شجرہ لگے بھگ سترہ سو ساٹھ کی تحریر ہے. مطلب یہ ہے کہ یہ شجرہ تقریباً اڑھائی سو سال پرانا ہے.
اس شجرہ نسب کے مالک جناب شکیل احمد نیازی صاحب نے بھی اس شجرہ کو کمپیوٹر میں کمپوز کرایا اور ساتھ ہی ساتھ اس شجرہ میں موجود پیڑھی تک اس کی تجدید بھی کی ہے. پس زیر نظر قدیمی شجرہ کے ساتھ ساتھ تجدید شدہ شجرہ نسب بھی شامل ہے.
اس شجرہ نسب پر بحث کو ہم نے چار حصوں میں تقسیم کیا ہے. اول سادات سے تعلق، دوم نیازی کی اولاد، سوم محمد خان نیازی کی اولاد کا قدیمی شجرہ ،چہارم بعد کی نسل کا اضافہ شدہ شجرہ
اب ہم چاروں حصوں پر تفصیلی بحث کا آغاز کرتے ہیں
سادات سے تعلق؛
اس شجرہ نسب کے مطابق لودھی، غلزی اور سروانی دراصل سادات ہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آل سے ہیں.
اس بات کا دعویٰ مخزن افغانی کے مصنف نعمت اللہ ہراتی نے بھی محبت خان نوحانی کے حوالے سے کیا.
صفحہ نمبر چار سو پچاس پر لکھتے ہیں کہ
محبت خان نوحانی جو کہ علاقہ روہ کی ایک معتبر اور تمام نوحانی قبائل کے سربراہ ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارا نسب نامہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تک جا پہنچتا ہے. جس کے بعد وہ شجرہ بھی بیان کرتے ہیں.
پس مخزن افغانی میں درج وہ شجرہ اور ناگپور کے مخطوطہ والا شجرہ سو فیصد ہو بہو ہے.
آپ کو بتاتے چلیں کہ محبت خان نوحانی کون تھا؟
مخزن افغانی کے بیان کے مطابق وہ کٹی خیل سردار تھا. مطلب وہ نوابین ٹانک کے اجداد میں سے تھا.
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شاید ناگپور کے مخطوطہ بنانے والے نے مخزن افغانی کو پڑھ کر یہ شجرہ لکھ دیا ہو؟؟
لیکن یہاں پھر سوال اٹھتا ہے کہ اگر اس نے مخزن افغانی سے یہ شجرہ نقل کیا ہوتا تو نیازی سے آگے کے شجرہ میں پھر فرق کیونکر موجود ہے؟
مزید یہ کہ مغل عہد کی کتاب ذخیرہ الخونین کا مصنف جب محمد خان نیازی کا تذکرہ کرتا ہے تو وہ لکھتا ہے کہ محمد خان نیازی کو تمام افغانوں کے نسب نامہ زبانی یاد تھے وہ افغانوں کی تاریخ پر عبور رکھتا تھا اور اس میں کافی دلچسپی لیتا تھا.
پس اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ ناگپور کے مخطوطہ والا شجرہ دراصل مخزن افغانی کا چربہ نہیں ہے بلکہ یہ وہی زبانی معلومات جو محمد خان نیازی نے اپنی اولاد کو منتقل کیں اس پر تیار کردہ ہے.
اب پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ لودھی و غلزیوں کا سادات ہونا کیا واقعی درست ہے؟
اس سلسلے میں ہم نے سادات کے انساب پر دلچسپی رکھنے والے جناب محترم مظہر کاظمی صاحب سے رجوع کیا. وہ بتاتے ہیں کہ اس شجرہ میں کچھ نقائص ہیں یہ درست نہیں. مزید ہم نے تفصیلی کھوج کیلئے جناب آصف خان نیازی صاحب نے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اوچ شریف کے سادات جو کہ پورے ہندوستان میں سب سے قدیم ترین سادات ہیں ان کے خدمات میں یہ شجرہ رکھیں گے اور ان سے اس بابت راہنمائی لیں گے. جیسے ہی اچ شریف کے سادات کا کوئی نقطہ نظر سامنے آئے گا ہم آپ قارئین کے سامنے پیش کر دیں گے. مزید اگر کوئی سادات کے قدیم شجرہ پر عبور رکھتا ہے تو ان سے بھی تعاون کی اپیل ہے.
نیازی کی اولاد؛
دوسرے حصے میں ہم نیازی کی اولاد کا جائزہ لیں گے جو اس شجرہ میں بیان کی گئی ہے.
اس شجرہ نسب اور دیگر قدیمی کتب کے شجرہ نسب میں اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ نیازی کے تین بیٹے تھے ایک خاکو، دوسرا جمال اور تیسرا باہی لیکن ناگپور کے اس مخطوطہ میں جمال اور خاکو تو موجود ہیں البتہ یہاں باہی کو بازید لکھا گیا ہے.
مزید یہ ناگپور کے شجرہ میں بازید یا باہی کو بے اولاد بتایا گیا ہے حالانکہ یہ بات درست نہیں باہی کی اولاد آج تک موجود ہے..ناگپور کے شجرہ میں خاکو کی اولاد کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا. فقط فوت شدہ لکھا گیا ہے. جہاں تک جمال کی اولاد کی بات ہے تو جمال کے دو بیٹے بکا اور نصیر بتائے گئے ہیں.. جبکہ مخزن افغانی میں جمال کی دو شاخوں کا بیان کرکے مختلف خیل لکھ دئے گئے ہیں البتہ ان میں ایک جگہ بکا کا بھی زکر ہے لیکن مزید تفصیل موجود نہیں. اسی طرح اگر ہم حیات افغانی سے موازنہ کریں تو وہاں پر بھی جمال کے دو بیٹوں کا ذکر موجود ہے ایک بکا دوسرا وگن جبکہ ناگپور شجرہ میں بکا اور نصیر ہیں.
ہاں البتہ حیات افغانی نے بکا کی اولاد میں سے ایک نصر خیل کا ہونا بیان کیا ہے.
مزید اگلی پشت پر جائیں تو بکا کی اولاد ناگپور کے شجرہ میں چار بیٹے ہونے کا بیان ہے.
جبکہ حیات افغانی بھی اس بات کی تائید کرتی ہے.
ناگپور شجرہ کے مطابق چار بیٹوں کے نام یہ تھے تقی، نقی، حسن اور مرحل جبکہ حیات افغانی کے مطابق چار بیٹوں کے نام یہ تھے نصر، خان، جگے اور مڑھل.
یعنی اس بات میں فرق مڑھل یا مرحل کے نام پر اتفاق رائے پیدا ہوتا ہے. بقیہ پر اختلاف ہے. شاید حیات افغانی کا خان ہی دراصل حسن خان ہو. واللہ اعلم.
اس کے آگے پھر مخزن افغانی اور حیات افغانی کے شجرہ جات میں مختلف معلومات ہیں. خان خیل پر اس آگے معلومات دستیاب نہیں. اس کے بعد فقط سنبل، عیسٰی خیل اور افغانستان کے نیازیوں پر معلومات درج ہیں.
محمد نیازی کی اولاد کا قدیمی شجرہ ؛
جیسا کہ اوپر بیان کیا ہے کہ ناگپور سے دستیاب ہونے والا مخطوطہ محمد خان نیازی کی آٹھ پُشت تک پر مشتمل ہے. اس کا اگر حساب کیا جائے تو خیال ہے کہ یہ شجرہ سترہ سو چالیس سے سترہ سو ساٹھ کے زمانے میں لکھا گیا ہے.
اس شجرہ میں محمد خان نیازی کے بیٹوں پر کچھ معلومات میں تضاد ہے. چونکہ ہم تک مخطوطہ کا یہ صفحہ کم ریزولوشن میں پہنچا ہے تبھی ہم فی الحال شکیل نیازی صاحب کے کمپوز شدہ شجرہ نسب کی روشنی میں بات کریں گے.
اس شجرہ کے مطابق محمد خان نیازی کے پانچ بیٹے تھے جن کے نام کچھ یوں ہیں.
احمد خان نیازی، مبارک خان نیازی، مظفر خان نیازی، محمود خان نیازی اور دیوان حسن خان نیازی.
لیکن معاصر کتب کے ریکارڈ میں جو ڈاکٹر رضی الدین صدیقی صاحب نے بیان کئے ہیں ان پانچ بیٹوں کے نام کچھ اسطرح ہیں.
احمد خان نیازی، اسمعیل خان نیازی، مظفر خان نیازی، رسول خان نیازی، عبدالعزیز خان نیازی
احمد خان نیازی اور مظفر خان نیازی کے ناموں پر اتفاق ہے جبکہ دیگر تین ناموں پر اختلاف ہے.
مزید یہ کہ ماثر امراء کے مصنف نے مبارک خان نیازی کو مظفر خان نیازی کا بیٹا لکھا ہے. لیکن ناگپور کے شجرہ میں مظفر خان کو بے اولاد اور مبارک خان نیازی کو محمد خان کو پوتا ہونے کی بجائے بیٹا ہونا بیان کیا ہے.
پس اس پر مزید تحقیق ہونا باقی ہے لیکن اس کیلئے ذخیرہ الخونین کتاب کے مکمل حصول اور ناگپور کے شجرہ کے متعلقہ صفحہ کی ہائی ریزولوشن میں دستیابی اشد ضروری ہے.
بعد کی نسل کا شجرہ؛
آٹھویں پشت کے بعد کا شجرہ کون لکھتا رہا ہے ہمیں اس بارے میں کوئی معلومات نہیں پہنچ سکیں. اس بارے میں ہم شکیل نیازی صاحب سے گزارش کریں گے کہ وہ ہمیں اس بارے میں راہنمائی دیں. مزید بعد کے شجرہ میں کچھ جگہوں پر مکمل شجرہ موجود بھی نہیں ہے. پس اس بارے میں ان سے گزارش کریں گے کہ وہ ان نیازی خانوادوں کو تلاش کرکے ان سے رابطہ قائم کریں اور انکے شجرہ جات کو مکمل کرکے شامل کریں.
مزید یہ کہ شکیل نیازی صاحب نے بعد میں اضافہ شدہ شجرہ کو بھی پرانے فارسی اندز میں ترتیب دیا ہے جس کی وجہ سے ہمیں نئی جدید تقویم میں شجرہ بناتے ہوئے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور خدشہ ہے کہ غلطیاں بھی ہم سے ہوئی ہونگی. پس ان سے گزارش ہے کہ وہ شجرہ کے اس حصے کا بغور جائزہ لیں اور غلطیوں کی نشاندہی کریں تاکہ شجرہ کو اغلاط سے پاک کیا جائے….
شکریہ
تحریر، تحقیق اور ترتیب؛
محمد زبیر خان نیازی
پاکستان
Amin Khel qabila ka koi zikar nai hay
Humara qabila bi Adds Kro
السلام علیکم ۔آپ کا امین خیل قبیلہ کہاں رہتا ہے کوئی معلومات بھیجیں