تعارف؛
قبیلہ پائی خیل میانوالی میں آباد نیازیوں کا مشہور قبیلہ ہے جو یونین کونسل پائی خیل میں آباد ہے.
تاریخ؛
پائی خیل قبیلہ دراصل سلطان خیل ،بوری خیل، ڈوڈے خیل (گولیوالی) قبائل کا ہم جد قبیلہ ہے جس کا شجرہ کچھ یوں ہے.
پائی خان بن میرا خان بن بھرت خان بن سرہنگ بن خاکو بن نیازی.
پائی خیل قبیلہ کی ابتدائی تاریخ بھی دیگر سرہنگ قبائل کے ساتھ یکساں ہے.
سرہنگ قبیلہ دو مرکزی شاخوں میں منقسم ہے جو میں ایک ادریس (جس میں تاجہ خیل، وتہ خیل، بلو خیل، شہباز خیل، یارو خیل وغیرہ آتے ہیں) جبکہ دوسرا بھرت . بھرت کی اولاد آگے پھر تین شاخوں میں منقسم ہے ایک زکو (جس میں تری خیل، محب خیل اور ممکزئی آتے ہیں) جبکہ دوسرا دے پلار (جس میں موسی خیل، تارو خیل، عیدو خیل وغیرہ شامل ہیں) جبکہ تیسرا بیٹا میرا خان عرف طوطی خان تھا. اس میرا خان عرف طوطی خان کے چار بیٹے تھے پہلا سلطان، دوسرا پائی، تیسرا بوری اور چوتھا سعداللہ عرف ڈوڈا…
پس قبیلہ پائی خیل دراصل سلطان خیل ،بوری خیل اور گولیوالی کے نیازیوں کا بھائی بند قبیلہ ہے.
نیازیوں نے پھر سے ہندوستان کا رخ کیا دامان سے نکلنے کی ایک وجہ لوہانی افغانوں کا زور بھی تھا جو اس وقت وہاں آباد تھے. تبھی نیازی ٹانک سے موجودہ لکی مروت کے علاقے میں دریائے کرم اور دریائے گمبیلہ کے درمیانی دوآب کے زرخیز خطہ پر آباد ہوگئے. اسی زمانے میں لوہانی قبیلہ کی آپسی خانہ جنگی سے شکست خوردہ مروت بھی دولت خیل و میاں خیل لوہانیوں کے ہاتھوں سے بیدخل ہوکر نیازیوں کے پاس پناہ گزین ہوئے جنھیں نیازیوں نے کھلے دل سے قبول کیا.. لیکن کچھ عرصے بعد مروتوں کی للچائی نظریں نیازیوں کے اس خطے پر پڑیں جو کہ سرہنگ کے دوسرے بیٹے ادریس نے چھوڑا تھا جسکی اولاد میانوالی میں مشانی اور عیسیٰ خیل نیازیوں کے پاس آ کر آباد ہوئے جو بعدازاں دریائے سندھ کے مشرقی کنارے کے ساتھ ساتھ پھیل گئی. ادریس کی اولاد یعنی (وتہ خیل، تاجہ خیل، بلو خیل وغیرہ) کی چھوڑی گئی جگہ دراصل مہیار نیازیوں کو ملنا تھی. جو کہ جرگہ میں طے پایا تھا۔
مگر بعدازاں سرہنگ کے بیٹے بھرت خان کی اولاد (یعنی موسی خیل، تری خیل، پائی خیل، سلطان خیل، بوری خیل وغیرہ) نے اپنے عہد سے روگردانی کرتے ہوئے اس جگہ پر قبضہ کر لیا اور مہیار نیازیوں کو دینے سے انکاری ہوگئے.
مہیار نیازیوں نے مچن خیلوں سے جا کر درخواست کی کہ وہ بھرت بن سرہنگ نیازیوں کو سمجھائیں. لیکن بھرت بن سرہنگ نیازیوں نے مچن خیلوں کی بھی بات نہ سنی. حالانکہ مچن خیل قبیلہ کو فقیر گھرانہ ہونے کی وجہ سے تمام پشتون قبائل میں احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا.
اس طرح مچن خیلوں نے بھرت بن سرہنگ نیازیوں کو بدعا دی اور مہیار نیازی، مچن خیل نیازی، اور وزیرستان کے بیٹنی قبائل مروتوں کے حلیف بن گئے. جبکہ بھرت بن سرہنگ نیازیوں کو اپنی طاقت و دولت پر گھمنڈ لے ڈوبا. مدی خان نامی مشہور سردار مارا گیا. جو کہ شاید مندی خیلوں کا جدامجد تھا.
اس طرح بھرت بن سرہنگ کی اولاد لکی مروت سے براستہ درہ تنگ میانوالی میں ہجرت کر آئی. یہاں پائی خیلوں نے بھی دیگر بھرت بن سرہنگ کی اولاد کے ساتھ اولین پڑاؤ موجود سلطان خیل کے میلہ والی جگہ پر ڈالا.
لیکن جگہ کی قلت اور جانوروں اور انسانوں کیلئے خوراک کی قلت کے باعث دیگر بھرت بن سرہنگ نیازیوں کے ساتھ پائی خیل بھی دریائے سندھ عبور کرکے مشرقی کنارے پر نکل آئے. جہاں پہلے سے ہی موشانی قبیلہ کی شاخ داؤد خیل اور ادریس کی اولاد (تاجہ خیل ،بلو خیل، وتہ خیل) وغیرہ آباد تھے..
پہلی آباد کاری:
پائی خیل اور بوری خیلوں نے تو داؤد خیل اور تاجہ خیلوں کے درمیانی علاقے میں آباد کاری شروع کی. جبکہ سلطان خیل اور ڈوڈا کی اولاد آگے نکل گئے. سلطان خیل موجودہ موسی خیل سے اوپر پہاڑی چشموں پر آباد ہوئے جبکہ ڈوڈے کی اولاد بھی چھدرو کے آس پاس.
بہرحال کچھ عرصہ بعد بوری خیل دریائے سندھ کی طغیانی کے سبب نقل مکانی کرکے موسی خیل کے پاس موجودہ جگہ پر جا آباد ہوئے جبکہ کچھ گھرانے بدستور یہیں آباد رہے. پائی خیلوں کے شروع میں تاجہ خیلوں سے تعلقات بہتر تھے. تبھی انھیں یہاں آبادکاری میں کوئی مسئلہ نہیں ہوا. لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جب پائی خیلوں نے اپنے قدم مضبوط کئے تو وہ مزید جگہ کو قابو کر کے پھیلنے کی کوشش کرنے لگے جس کے نتیجے میں پائی خیلوں کو تاجہ خیلوں نے اچھی نگاہ سے نہ دیکھا اور انھیں تنگ کرنا شروع کردیا.
اقبال خان نیازی صاحب کے مطابق یہ پائی خیلوں کی پہلی آباد کاری والی جگہ پائی خیل ریلوے اسٹیشن کے سامنے مشرقی جانب پیر معصوم شاہ والی جگہ تھی. مگر میرے خیال میں یہ درست نہیں کیونکہ یہ جگہ آج بھی بے آب و گیاہ اور صحرائی ہے. غالباً پائی خیل کی پہلی آبادکاری موجودہ کچہ کے علاقے میں وانڈھا بوری خیل والے کے آس پاس دریائے سندھ کی اس شاخ کے پاس تھی جو جناح بیراج کے بننے سے پہلے تک یہاں سے گزرتی تھی.
بہرحال تاجہ خیلوں سے آئے روز جھگڑوں سے تنگ آکر پہاڑ کی طرف موجودہ لعل شاہ مزار کے پاس آ کر ویال کے کنارے آباد ہوگئے.
علاقہ نمل میں آباد کاری کی کوشش:
لیکن بعدازاں یہاں سے اٹھ کر نئے علاقے کی تلاش میں سلطان خیلوں اور بوری خیلوں کو عبور کرتے ہوئے ڈھک پہاڑ کے پار نمل جھیل کے پاس جا پہنچے. لیکن وہاں کے باسی جٹ اور اعوان جو پہلے ہی نیازیوں کی پیش قدمی سے نالاں تھے اس عمل کو سنگین خطرہ جانا اور سرتوڑ کوشش شروع کر دیں تاکہ یہاں پائی خیل آباد نہ ہو سکیں. کیونکہ پائی خیل اگر کامیاب ہوجاتے تو نیازیوں کیلئے ڈھک پار کے بھی راستے کھل جاتے. بہرحال وہاں پائی خیل قبیلہ کو شدید مزاحمت کے سبب نقل مکانی کرنا پڑی اور وہاں سے اٹھ کر چھدرو و گولیوالی کے علاقے میں جا پہنچے. جہاں پہلے سے ہی انکے ہم جد قبائل آباد تھے. کیونکہ ان دونوں جگہوں کے مکین بھی پہاڑی چشموں کے رحم کرم پر تھے اوپر سے ایک اور قبیلے کی آمد نے مسائل کھڑے کر دئیے. کچھ عرصہ گزرنے کے بعد بالآخر پائی خیلوں نے حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ واپس لعل شاہ کے مزار کے پاس آباد کاری کریں کیونکہ اس کے علاوہ کوئی اور راہ نظر نہیں آتی. اس دور تک احمد شاہ ابدالی کے حملوں کے سبب میانوالی سے گکھڑوں کا خاتمہ ہوچکا تھا،
لعل شاہ مزار کے پاس آبادکاری اور تاجہ خیلوں سے جنگ:
نیازی قبائل اپنی قوت کے مطابق زمینات پر قابض ہونے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے. یوں پائی خیلوں نے لعل شاہ کو مرکز بناتے ہوئے دوبارہ پرانی اور اولین جگہ کو جو بر لب دریائی شاخ کے کنارے تھی دسترس میں لانی شروع کردی. تاجہ خیل نے بشمول سوانس کے عباسی خیلوں، الیاسی خیلوں کے اتحاد نے ہر طرف پائی خیلوں کو پریشان کرنا شروع کردیا. جس کے نتیجے میں بالا آخر پائی خیل افرادی قوت کے کم ہونے کے باوجود میدان میں اترا اور تاجہ خیلوں سے بمعہ انکے کے حلیفوں سے کھلی لڑائی لڑی. جس پائی خیلوں کو شدید جانی نقصان پہنچا.اس جنگ میں مرنے والوں کی قبریں آج بھی دامن پہاڑ میں موجود ہیں۔
بچ جانے والے پائی خیل اپنے مرکز لعل شاہ جا پہنچے جن کا تعاقب تاجہ خیلوں نے کیا اور منصوبہ بنایا کہ تازہ دم ہوکر پائی خیلوں کا مکمّل صفایا کرتے ہیں.
اس نازک صورتحال میں پائی خیلوں کے مشران نے سر جوڑ لئے. ان کے دماغ میں ایک خیال آیا کہ کسی طرح اپنے بھائیوں سلطان خیل اور بوری خیل سے اعانت طلب کی جائے. لیکن بوری خیل اور سلطان خیل دونوں دور تھے. سلطان خیل تو اس زمانے میں دریا پار کرکے موجودہ جگہ جا چکے تھے.
تبھی بوری خیلوں کی طرف تو گھوڑے پر سوار بھجوائے گئے ،جبکہ تاجہ خیلوں کو ڈرانے کیلئے کہ بوری خیل، پائی خیل کی اعانت کو آن پہنچے ہیں ۔۔۔ کہتے ہیں کہ جانوروں کی کمر پر چھوٹے چھوٹے مشعلیں باندھ دیں اور انھیں بوری خیلوں کی سمت سے ہانکتے ہوئے لائے جس سے تاجہ خیلوں کو ایسا لگا کہ بوری خیل پائی خیلوں کی مدد کو ان پہنچے ہیں جس کے نتیجے میں تاجہ خیلوں نے دوبارہ حملہ کا منصوبہ ترک کردیا. پہاڑ پر لگی اس آگ کی روشنی کو دریا پار سلطان خیلوں نے جب دیکھا تو وہ پریشان ہوئے کہ لگتا ہے پائی خیلوں پر کوئی مشکل آن پڑی ہے. پس اس صورت حال میں اگلے روز تک بوری خیل لشکر اور سلطان خیلوں کے چنیدہ لوگ پائی خیل آن پہنچے. اس طرح بوری خیلوں اور سلطان خیلوں نے بیچ میں پڑ کر تاجہ خیلوں اور پائی خیلوں کے بیچ حد بندی کو طے کرا کر عارضی صلح کروائی.
موندی خیلوں سے جنگ:
وقت گزر گیا پائی خیلوں نے اپنی حدود کو وسعت دینے کیلئے اپنے دوسر طرف پڑوس میں آباد مشانی کی شاخ موندی خیلوں کیلئے پیش قدمی شروع کی جس پر انھوں نے مزاحمت کی. لیکن اب پائی خیل جنگوں کے عادی ہوچکے تھے تبھی چٹہ نالے کے اوپر ایک خون ریز جنگ ہوئی جس میں موندی خیلوں کو شکست ہوئی جو وہاں سے پیچھے ہٹ کر موجودہ ٹھٹھی میں جا آباد ہوئے. جہاں پر فقط ایک معذور شخص جہان خان ہٹنے سے انکار رہا جس کی اولاد نے قصبہ جانو خیل آباد کیا. یہ جنگ تیمور شاہ درانی کے زمانے کی معلوم ہوتی ہے.
تاجہ خیلوں سے دوسری جنگ:
انھی دنوں میں جب پائی خیل پیر معصوم شاہ پر آباد ہوئے تو تاجہ خیلوں کے کچھ لوگ پائی خیلوں کے ساتھ چھیڑ خانی کرتے کیونکہ تاجہ خیلوں کو اپنی افرادی قوت پر زعم تھا آئے روز پائی خیلوں کے مویشی ہانک کر لے جاتے. اس باہم تکرار سے پھر سے پرانی دشمنی کے بیج ہرے ہونے لگ گئے. ایک بار ایسا ہوا کہ تاجہ خیل قبیلہ کے لوگوں نے کچہ میں آباد بوری خیلوں کے بھی جانور چرا لئے. جس پر بوری خیلوں کے سردار تورباز خان نیکہ بوری خیل سے یہاں وانڈھا بوری خیل کچہ میں آیا. جس پر اس نے پائی خیلوں اور بوری خیلوں کو یکجا ہو کر تاجہ خیلوں کو سبق سکھانے کا منصوبہ بنایا. سردار تورہ باز خان نیکہ بوری خیل بندوق کا بہت زبردست نشانہ باز تھا. جس کی ہیبت بہت مشہور تھی. بوری خیلوں اور پائی خیلوں نے بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے تاجہ خیلوں کے مویشیوں پر دھاوا بولا اور چرا کر لے گئے بلکہ ایک تاجہ خیل سردار کے بیٹےکا سر کاٹ کر قتل کردیا.
جس کو تاجہ خیلوں نے اپنی سخت توہین سمجھا. تمام تاجہ خیل سردار موہانہ خان کی سرکردگی میں پائی خیلوں پر حملہ آور ہوئے لیکن اب کی بار پائی خیل ہوشیار اور مکمل تیار تھے. لڑائیاں لڑ لڑ کر جنگ دیدہ اور جانباز بن چکے تھے. پس اس شدید خون ریز جنگ میں تاجہ خیلوں کو شدید نقصان پہنچا اور سردار موہانہ خان بھی شدید زخمی ہوا. کیونکہ انھی دنوں سردار تاجہ خیلوں پر سکھوں کے بھی چھاپہ جاری تھے. تبھی تاجہ خیلوں کو اتنی فرصت نہ ملی کے وہ پائی خیلوں سے اس شکست کا بدلہ لیتے.
یوں یہ پائی خیلوں اور تاجہ خیلوں کے بیچ آخری جنگ تھی. اس کے بعد تاجہ خیلوں میں اندرونی طور پر بھی اتحاد میں دراڑ پیدا ہوچکی تھی. تبھی اسی زمانے میں سردار عباس خان تاجہ خیل نے پائی خیلوں سے رشتہ داری جوڑنے اور صلح کیلئے ہاتھ بڑھایا. اس طرح پائی خیلوں اور تاجہ خیلوں کے بیچ ایک اچھے تعلقات کا دور شروع ہوا.
پائی خیل پیر معصوم شاہ والی جگہ کو آج بھی جنگ آلی زمین کے نام سے یاد کرتے ہیں. بعد ازاں پائی خیل وہاں سے اٹھ کر موجود جگہ پر ایک اونچے ٹیلہ پر آباد ہوگئے.
داؤد خیلوں کے ساتحھ چیغزہ کی پہاڑی پر لڑائی:
لیکن اب موشانیوں کے ساتھ تعلقات درست نہیں ہو پائے تھے. موشانی یعنی موندی خیل اور داؤد خیل پائی خیلوں سے حد بندی کے تنازع پر آئے روز جھگڑتے رہتے تھے.
جن کا حتمی اختتام انگریزوں کی آمد کے بعد انگریزوں کی طرف سے کی گئی حدبندی سے ہوا.
چیغزہ کی پہاڑی پر پر جھگڑا.؛
چیغزہ دراصل پشتو زبان کے دو الفاظ چیغہ اور غزہ پر مشتمل ہے.. چیغہ دراصل ایک لشکر کو کہتے ہیں جو کسی عسکری کارروائی کیلئے قبیلہ سے اکھٹا کیا جاتا ہے. جبکہ غزا اس اعلان ڈھنڈورا یا منادی کو کہا جاتا ہے جو اس لشکر کو اکھٹے کرنے کیلئے کی جاتی ہے..
کیونکہ اس پہاڑی کے تنازع کیلئے پائی خیلوں نے چیغہ ترتیب دیا تھا تبھی اس پہاڑی کو چیغہ غزہ (چیغزہ) والی پہاڑی کہتے ہیں.
میجر ریورٹی اپنی کتاب نوٹس آن بلوچستان اینڈ افغانستان میں لکھتے ہیں کہ میانوالی میں دو نیازی قبائل پائی خیل اور داؤد خیل زمینی ارضی کو لیکر آپس میں دست و گریبان تھے.
جس کی وجہ سے انگریزی سرکار نے مداخلت کرکے ان کے بیچ زمینات کی پیمائش کرکے از سرنو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا. تقسیم کے دوران چیغزہ پہاڑی پر ایک انگریز سروئیر پیمانے سے پیمائش کررہا تھا کہ نیچے آن گرا اور نیچے گرتے ہی اس کا زور سے پاد نکل گیا. جس پر وہاں موجود عوام نے زور زور سے قہقہہ لگا کر لوٹ پوٹ ہونا شروع ہوگئے. انگریز آفیسر اس سنجیدہ صورتحال میں اس تماشے کو سمجھ نہ سکا اور پائی خیلوں کے سردار کو بلا کر کہا کہ یہ کیا ماجرا ہے لوگ کیوں دیوانہ وار ہنس رہے ہیں.. تو پائی خیل سردار نے بتایا کہ آپ کے سرویئر کا جو پاد نکلا یہی وجہ بنا ہے اس تماشے کا. پائی خیل سردار نے کہا کہ ہمیں آپکا پاد قبول ہے. ہم اپنا دعویٰ واپس لیتے ہیں آپ پہاڑ بھلے داؤد خیلوں کو دے دو. تاکہ آپ کو دوبارہ محنت اور جھکنا نہ پڑے جس سے پھر پاد نکلنے کا اندیشہ ہو. بہرحال بعدازاں پائی خیلوں اور داؤد خیلوں کی بد عقیدگی و سادہ لوحی و پیر پرستی کے سبب اور انگریزوں کی چاپلوسی سے ڈھیر کے سادات ان زمینوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔لیکن دین کے لبادے میں چھپے ان فراڈیوں کے خلاف خان مظفر خان فتح خان خیل نے قانونی جنگ لڑ کر اپنی زمینوں کا کچھ حصہ لینے میں کامیاب ہوگئے..
سردار سمند خان خلو خیل کا واقعہ؛
کہتے ہیں کہ قبیلہ پائی خیل سے سردار سمند خان اور قبیلے داؤد خیل سے خان گل خان دلیل خیل دو بہت ہی گہرے دوست اور زبردست قسم کے نیزہ باز تھے. اس کے ساتھ ساتھ سونا تورے خیل سردار سمند خان خلو خیل پائی کا ایک جانثار تھا.
اس سے پہلے پائی خیل اور داؤد خیل کے بیچ لڑائی جھگڑوں میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے نہیں آتے تھے. عموماً کنی کترا جاتے تھے. لیکن جب چٹہ نالے پر لڑائی ہوئی تو بدقسمتی سے دونوں ایک دوسرے کے سامنے آگئے. دونوں نے اپنے اپنے قبیلہ کی شان کیلئے للکارا جس سے ان دو عظیم جنگجوؤں میں لڑائی چھڑ گئی. بقیہ لڑائی ایک طرف اور ان دو اشخاص کی لڑائی ایک طرف. قدرت کا کرشمہ دیکھیے کہ یکا یک دونوں نے ایک دوسرے پر ایسا وار کیا کہ دونوں کی برچھیاں ایک دوسرے کے سینے میں پار ہوگئیں. جس سے خان گل خان موقع پر ہی دم توڑ گیا جبکہ سردار سمند خان تاوقتیکہ جنگ اختتام کو نہ پہنچی اور پائی خیلوں کو فتح کی خبر سن کر اپنے گھر جا کر فوت ہوا. سردار سمند خان کی سانگ (یعنی نیزہ بازی) اور اسکی نیلی گھوڑی کے چرچے آج بھی حجروں بیٹھکوں میں بڑے بوڑھے سناتے نظر آتے ہیں..
ریلوے لائن بچھانے اور اسٹیشن بنانے پر انگریزوں سے تنازعہ؛
کہتے ہیں کہ جب 1880ء میں انگریزوں نے اٹک تا کوٹری دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ پٹڑی بچھانے کا آغاز کیا تو جب پائی خیل پہنچے تو پائی خیلوں نے ریلوے پٹڑی اپنی زمینوں سے گزرانے سے انکار کردیا. لیکن انگریزوں نے پٹڑی بچھا دی. لیکن پائی خیل آئے روز پٹڑی کی پلیٹیں اکھاڑ کر لے جاتے. جبکہ دوسری طرف انگریزوں نے پائی خیل کے قریب واقع جگہ گھنڈیاں والے فقیر کے سامنے بنانے کا منصوبہ بنایا. لیکن پائی خیلوں میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ انگریز اس وجہ سے یہاں ہمارے گھروں کے قریب اسٹیشن بنا رہا ہے تاکہ ہمارے بچوں اور خواتین کو اغواء کرکے لے جا سکے.
بہرحال اس بات کو لیکر مزید معاملات بگڑ گئے..
اس ساری صورتحال میں سردار جہانگیر خان ولد غازی خان جو کہ ایک سلجھے ہوئے اور قابل شخص تھے انھوں نے انگریزوں کو اس سارے معاملے سے آگاہ کیا. اور تجویز دی کہ آپ اسٹیشن یہاں سے تھوڑا دور موجودہ جگہ پر لے جائیں کیونکہ پائی خیلوں کا اصل گاؤں بھی وہیں ہے.
اس تجویز سے موچھ کے ہندو جو اس وقت علاقے کے بڑے کاروباری تھے وہ بھی متفق ہوئے ہندو افسران سے انگریز سرکار کو اس بات کیلئے راضی کرلیا. لیکن کیونکہ یہ جگہ تقریباً ویرانے میں تھی. اور انگریز پہلے ہی پائی خیلوں کی حرکتوں سے نالاں تھے تبھی یہ قلعہ نما ریلوے اسٹیشن بنانے کا سوچا گیا. جو کہ پورے پنجاب کا واحد قلعہ نما چھوٹا سا اسٹیشن ہے جو پائی خیلوں کی مزاحمت کو یاد دلاتا ہے. دوسری طرف انگریزوں نے پائی خیلوں سے یہ وعدہ کیا کہ جب کبھی عوامی ٹرین چلے گی آپ لوگوں کا کرایہ معاف ہوگا.
یوں اسطرح 1930ء سے لیکر قیام پاکستان تک پائی خیل کے لوگ ریلوے میں مفت سفر کرتے رہے. حتیٰ کہ قیام پاکستان کے بعد بھی کافی عرصہ تک وہ ریلوے عملہ سے الجھتے رہتے کہ ہمیں سرکار نے ٹکٹ معاف کیا ہے ہم نے زمین دی ہے ریلوے پٹڑی کیلئے.
یہ ریلوے اسٹیشن1891ء میں مکمل ہوا اور پہلی ٹرین ایک مال بردار تھی جو کہ 1893ء میں یہاں آئی. یہاں سے ایک پٹڑی اوپر پہاڑوں کی طرف سوانس کے قریبی علاقے تک جاتی ہے جو پہاڑوں سے پتھر نکالنے اور اس کو ہندوستان کے دیگر علاقوں میں بھجوانے کیلئے بچھایا گیا تھا.
تھل نہر سے پائی خیلوں کا انگریز سے پانی کا حق طلب کرنا؛
جناح بیراج سے قبل تک پائی خیل کچہ میں دریائے سندھ کی ایک شاخ بہتی تھی جو موچھ سے پہلے دوبارہ دریائے سندھ میں مل جاتی تھی. لیکن جناح بیراج بننے کے بعد دریا کو رخ تھوڑا تبدیل ہوگیا جسکی وجہ سے وہ شاخ بھی سوکھ گئی. ادھر انگریز نے تھل کینال کی کھدائی شروع کر دی. انگریز چونکہ داؤد کچہ کیلئے پانی دینے کیلئے پل دس ہزار سے ایک نالہ کی سکیم بنا چکا تھا. جبکہ پائی خیلوں کیلئے کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا تھا. اس صورت حال میں قبیلہ پائی خیل کے زعما خان شیر علی خان و دیگر مشران کے ہمراہ انگریز سے بات چیت کرنے پہنچے لیکن وہاں کا سکھ مترجم انگریز کو کچھ الٹا ہی بتاتا جس سے انگریز ان کی باتوں پر توجہ نہیں دیتا تھا. انھی دنوں میں خان سلطان خان راجو خیل جو کہ بی اے پاس تھا گھر میں موجود تھا. جو اس ساری صورتحال میں اپنے سرداروں کے ساتھ گیا اور پائی خیلوں کا مقدمہ انگریز کے سامنے لڑا جس سے انگریز پائی خیلوں کو کچہ و پکہ دونوں زمینات کیلئے پانی دینے کیلئے راضی ہوگیا. پائی خیل کچہ کیلئے پانی پل دس ہزار سے منظور ہوا جبکہ پائی خیل پکہ کیلئے پانی جانو خیل کے پاس سے منظور ہوا جو کافی عرصہ تک چلتا رہا پھر ساٹھ کی دہائی میں بند کردیا گیا. بعدازاں حاجی اکرام اللہ خان پائی خیل کے دور میں پھر بحال ہوا جس کا پانی آج بھی ایڈمرل کرامت رحمان نیازی کی زمینات کو لگتا ہے..
پائی خیلوں کی بس کا حادثہ؛
سنہ اٹھاسی میں جب مولانا عبدالستار خان نیازی صاحب اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل تھے تبھی قبیلہ تاجہ خیل کا ایک شخص جسکا اصل نام محمد نواز خان تھا مگر شہرت اچھی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اس کو بگیاڑہ بولتے تھے. وہ مولانا کا زبردست حامی تھا. انھی دنوں میں اسلامی جمہوری اتحاد نے پہیہ جام ہڑتال کی پورے پاکستان میں کال دی ہوئی تھی. جبکہ دوسری طرف پائی خیلوں کی مشہور شخصیت ٹھیکیدار حاجی عزیز اللہ خان جو کہ ٹرانسپورٹ کا کام بھی کرتے تھے. ایک ضدی، سخت گیر اور جرات مند آدمی تھے. جن سے کوئی بھی الجھنا اپنے لیے خطرہ سمجھتا تھا.
اس دن جب ٹرانسپورٹ ہڑتال کی وجہ سے بند تھی. لیکن حاجی عزیز اللہ خان نے اپنے عملہ کو کہا کہ وہ گاڑیاں چلائیں. جب انکی گاڑی خواجہ آباد پہنچی تو جمہوری اتحاد والوں نے گاڑی کو روک لیا اور ڈرائیور کو مارا پیٹا جب یہ اطلاع حاجی عزیز اللہ خان کو پہنچی تو وہ وہاں جا پہنچے جہاں پر انکا جھگڑا بڑھ گیا اور محمد نواز عرف بگیاڑہ نے ان پر فائرنگ کی جس کے جواب میں حاجی عزیز اللہ خان کے ساتھیوں نے جوابی فائرنگ کرکے بگیاڑہ کو قتل کردیا..
اس قتل کا میانوالی میں بہت چرچا ہوا. بہرحال حاجی اکرام اللہ خان پائی خیل جو کہ صلح جو اور امن پسند شخص تھے انھوں نے صلح کیلئے کوششیں شروع کردیں کیونکہ حاجی عزیز اللہ خان انکے چچا تھے. پس پائی خیل ننواتے بن کر روغہ کیلئے جب پائی خیل سے نکلے تو ایک بس کے ڈرائیور نے لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹرین کو نظر انداز کردیا. لیکن عین پٹڑی پر پہنچ کر اس کی بس بند ہوگئی اور اگلے ہی لمحے ٹرین بس سے آ ٹکرائی. بس کے پرخچے اڑ گئے تیس آدمی اس حادثے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے..
لیکن بعد میں صلح ہوگئی.
کیونکہ تاجہ خیلوں سے پائی خیلوں کے تعلقات میں پھر دراڑ پیدا ہوچکی تھی. تبھی جب حاجی اکرام اللہ خان ممبر صوبائی اسمبلی بنے تو انھوں نے بھرپور کوششوں سے پائی خیلوں کیلئے الگ تھانہ اور پٹوار خانہ منظور کروایا. تاکہ پائی خیلوں کو موچھ جانے کی ضرورت ہی نہ رہے..
شخصیت؛
حاجی اکرام اللہ خان (سابقہ جنگلات، مال)؛
یوں تو پائی خیل قبیلہ نے کئی نامور شخصیات پیدا کیں میں
جناب حاجی اکرام اللہ خان پائی خیل ضلع میانوالی کی سیاست کی جانی اور مانی ہوئی شخصیت تھے. آپ ٹھیکیدار عطاء اللہ خان کے فرزند تھے. بیسویں صدی کے اخری عشرہ میں آپ میانوالی کے آسمان سیاست پر ایک چاند بن کر ابھرے اور روکھڑیوں کی سیاست کو چلینج کیا. حالانکہ اس زمانے میں روکھڑیوں کا طوطی بولتا تھا. آپ ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے تھے مگر آپکی سحر انگیز شخصیت اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی خداداد صلاحیتوں نے آپکو عوام میں مقبول بنا دیا. اور ترانوے میں گل حمید خان روکھڑی کو پہلی بار الیکشن لڑ کر دھول چٹا دی جب ستانوے میں پھر انتخابات ہوئے تو آپ نے ایک بار پھر گل حمید خان روکھڑی کو شکست دی. آپ کی مقبولیت دن بدن بڑھتی جا رہی تھی جوکہ میانوالی کے جدی پشتی سیاسی خانوادوں کیلئے بلخصوص روکھڑیوں کیلئے ایک بھیانک خواب بن چکا تھا. جس کے وجہ سے آپکو ایک تنازعہ میں الجھا کر سازش کے تحت شہید کروا دیا گیا..
آپ دونوں مرتبہ صوبائی وزیر رہے کئی سڑکوں، صحت کے مراکز، تعلیمی اسکول وغیرہ بہت سے کام کروائے. لیکن پائی خیل لفٹ اریگیشن جیسا عظیم شان منصوبہ آپ کی لیڈر شپ کی یاد دلاتا ہے. حاجی اکرام اللہ خان پائی خیل کا خواب تھا جس کے تحت پائی خیل لفٹ اریگیشن سے موسی خیل تک جنوب میں اور داؤد خیل تک شمال میں سارا پہاڑ سے متصل بنجر علاقہ شاداب ہوجاتا مگر بدقسمتی سے وہ شہید کر دئیے گئے اور آج تک وہ منصوبہ ادھورا پڑا ہے اور کسی جرات مند لیڈر کا منہ تک رہا ہے جو اس کو مکمّل کرسکے..
اس کے علاوہ پائی خیل قبیلہ کی مشہور شخصیات یہ ہیں، ٹھیکیدار عطاء اللہ خان نیازی، ٹھیکیدار حاجی عزیز اللہ خان، ٹھیکیدار شیر علی خان نیازی، سلیم اللہ خان (ایم پی اے)، نجیب اللہ خان، حاجی ضیاء اللہ خان (پائی خیل فلور ملز)، امان اللہ خان نیازی، انسپکٹر شیر دل خان (جس نے محمد خان ڈھرنالیئے کا بھائی گرفتار کیا)، کونسلر لال خان، نیوی کمانڈر صاحب خان، صوفی اکبر خان، نور خان قتل خیل، اقبال خان ایڈووکیٹ، شیر داد خان، عطر خان، انسپکٹر عبدالقیوم خان نیازی، افضل خان (ریلوے پولیس)، ڈاکٹر عزیزالرحمن خان، اقبال خان نیازی (ڈائریکٹر فیسکو) عصمت اللہ خان ناظم، حنیف خان (رجسٹرار بلوچستان یونیورسٹی)، علی خان پائی خیل (سیاسی راہنما)، دلبر خان، ڈاکٹر جہانزیب خان،ڈاکٹر بہادر خان،اسلم خان نیازی(ڈپٹی چیف واسا)،کونسلر اکبر خان، گلوکار عمران نیازی، گلوکار امیر نواز نیازی وغیرہ شامل ہیں
ذیلی شاخیں؛
پائی خیل قبیلہ کی ذیلی شاخ درج ذیل ہیں.
خلو خیل، فتح خان خیل، شیر خیل، کبی خیل، نواب خیل، چنن خیل، راجو خیل، قتال خیل، مندی خیل، تور باز خیل، زمان خیل، گوگے خیل، در وخیل، تویت خیل، علی خان خیل، داؤد خیل، قلندر خیل، خواص خیل، ملو خیل، سرمست خیل، حیات خیل، شہالم خیل، دمو خیل،پہلوان خیل، مواز خیل، رنباز خیل، زبرو خیل، درانی خیل، ہرنے خیل، نور الہہ(نرولے) خیل ،گلبازی خیل، خواص خیل، احمد خانی خیل، انزلا خیل، وغیرہ وغیرہ شامل ہیں
دیگر پٹھان قبائل؛
اس کے علاوہ دیگر نیازی قبائل میں باہی، مچن خیل، سنبل اور مہیار شامل ہیں.
جبکہ پشاوری پٹھانوں کے کچھ گھرانے بھی آباد ہیں.
:ہمسایہ اقوام
ہمسایہ اقوام میں باجوہ،ورالی،آہیر،کنیرے،جٹ،اعوان،عمر خیل(جٹ)،مصری خیل(جٹ)،اور کسبگر اقوام شامل ہیں۔
نوٹ؛
یہ بات یاد رہے کہ زیر دستیاب شجرہ جات صرف وہ ہیں جو تاریخ نیازی قبائل کتاب کے مؤلف حاجی اقبال خان نیازی صاحب مرحوم نے اپنی کوشش سے اکھٹے کئے یا جن لوگوں نے ذاتی دلچسپی لیکر کر شجرے بنا کر ان تک پہنچائے.ان شجروں کو قطعی طور پر مکمّل نہ سمجھا جائے کیونکہ یہ چند سو افراد کے شجرے ہیں جبکہ قبیلے کی آبادی ہزاروں افراد پر مشتمل ہے.. اگر کسی کا زیر دستیاب شجرے میں نام موجود نہیں تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ نیازی نہیں یا پائی خیل نہیں. بلکہ یہ انتہائی محدود افراد کے شجرے ہیں جو مؤلف کو دستیاب ہوئے وہ شامل کردیئے۔
ایڈمن نیازی پٹھان قبیلہ
www.NiaziTribe.org
اسلام وعلیکم!بھای جان پای خیل قبیلے میں ایک خیلوی کا نام درست کر دیں آپ نے دلے خیل لکھا ھے اسل میں یہ دلیل خیل ھے پای خیل کی نمبرداری انھی کے پاس تھی شکریہ
پائی خیل کے آرٹیکل میں کسی دلے خیل قبیلہ کا کوئی نام درج نہیں۔دوسرا پائی خیل میں کوئی دلیل خیل نامی قبیلہ بھی موجود نہیں۔جبکہ پائی خیل میں نمبرداری کبی خیل،چنن خیل،خلو خیل ،شیر خیل اور نواب خیل کے پاس تھی۔۔
بھاہی پائی خیل کی ایک شاخ مغلی خیل ھے