تعارف؛
قبیلہ موسیٰ خیل میانوالی سے مشرقی جانب اکیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک گاؤں موسٰی خیل اور اسکے نواح میں واقع قصبہ جات ابا خیل میں آباد ہے جبکہ کچھ گھرانے چھدرو اور کالاباغ میں بھی آباد ہیں.
تاریخ؛
اگر ہم حیات افغانی کا مطالعہ کریں تو پتہ چلے گا کہ موسٰی خان کا شجرہ نسب کچھ اسطرح ہے
موسٰی خان بن درے پلار بن بھرت بن سرہنگ اور اسطرح آگے خاکو بن نیازی سے شجرہ جا ملتا ہے.
نیازی قبیلے کی داستان کے مطابق جب ہیبت خان نیازی کی اسلام شاہ سوری کے خلاف بغاوت ہوئی تو نیازی قبیلے کا کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا حتیٰ کہ انھیں سمٹ کر واپس دامان کوہ سلیمان میں پناہ لینا پڑی جہاں آج نیازیوں کی ایک شاخ کونڈی آباد ہے جو کہ دراصل میانوالی کے گاؤں کندیاں کی بانی تھی. جب سوری افغانوں کی سلطنت اپنی نااہلیوں سے اختتام کو پہنچی تو نیازیوں نے ایران سے واپس آنے والے بادشاہ ہمایوں کا ساتھ دیا جسکی گواہی ہمایوں بادشاہ کا ملازم خاص جوہر آفتابچی اپنی کتاب میں دیتا ہے.
اسطرح نیازیوں نے پھر سے ہندوستان کا رخ کیا دامان سے نکلنے کی ایک وجہ لوہانی افغانوں کا زور بھی تھا جو اس وقت وہاں آباد تھے. تبھی نیازی ٹانک سے موجودہ لکی مروت کے علاقے میں دریائے کرم اور دریائے گمبیلہ کے درمیانی دوآب کے زرخیز خطہ پر آباد ہوگئے. اسی زمانے میں لوہانی قبیلہ کی آپسی خانہ جنگی سے شکست خوردہ مروت بھی دولت خیل و میاں خیل لوہانیوں کے ہاتھوں سے بیدخل ہوکر نیازیوں کے پاس پناہ گزین ہوئے جنھیں نیازیوں نے کھلے دل سے قبول کیا.. لیکن کچھ عرصے بعد مروتوں کی للچائی نظریں نیازیوں کے اس خطے پر پڑیں جو کہ سرہنگ کے دوسرے بیٹے ادریس نے چھوڑا تھا جسکی اولاد میانوالی میں مشانی اور عیسیٰ خیل نیازیوں کے پاس آ کر آباد ہوئے جو بعدازاں دریائے سندھ کے مشرقی کنارے کے ساتھ ساتھ پھیل گئی. ادریس کی اولاد یعنی (وتہ خیل، تاجہ خیل، بلو خیل وغیرہ) کی چھوڑی گئی جگہ دراصل مہیار نیازیوں کو ملنا تھی. جو کہ جرگہ میں طے پایا تھا
مگر بعدازاں سرہنگ کے بیٹے بھرت خان کی اولاد (یعنی موسٰی خیل، تری خیل، پائی خیل، سلطان خیل، بوری خیل وغیرہ) نے اپنے عہد سے روگردانی کرتے ہوئے اس جگہ پر قبضہ کر لیا اور مہیار نیازیوں کو دینے سے انکاری ہوگئے. جس کے بعد مہیار مروتوں اور بیٹنی قبیلہ کے پاس مدد خواہ ہونے کیلئے گئے. مروت تو کب سے اس موقع کا انتظار کررہے تھے. حیات افغانی لکھتا ہے کہ اس زمانے میں نیازیوں کا سردار مدی خان سرہنگ تھا. جس کے بارے میں نیازی قبیلے کی داستان کے منصنف کا دعویٰ ہے کہ وہ موسٰی خیل قبیلہ کی شاخ مدی خیل کا جد امجد تھا. مگر یہاں سوال اٹھتا ہے کہ مدی/مندی خیل قبیلہ تو پائی خیل قبیلہ کی بھی ایک شاخ ہے. اسی طرح عطاء اللہ خان سلطان خیل کے مطابق قیاس ہے کہ وہ میداد قبیلہ کا جدا امجد ہو جوکہ سلطان خیل قبیلہ کی ذیلی شاخ ہے. اسی طرح ایک مداد خیل قبیلہ موسی خیل کے نواح میں بھی آباد ہے جس کے بارے میں اقبال خان تاجہ خیل کا دعویٰ ہے کہ وہ بلو خیل کی ذیلی شاخ ہے لیکن میں اس سے اتفاق نہیں کرتا..
بہرحال مدی خان سرہنگ ایک مالدار اور معتبر شخص تھا. جب مروتوں نے مہیار نیازیوں کے ایما پر سرہنگ نیازیوں سے چھیڑ چھاڑ شروع کی اور کچھ خفیف سی لڑائیاں بھی ہوئیں تو نیازیوں نے انھیں جنوبی چراگاہوں کے علاقے دے کر صلح کر لی. مگر مروتوں کے ایک ذیلی قبیلہ جسکا نام بھی موسی خیل تھا اسکے سردار قتال خان نے صلح نہ مانی اور سرہنگ نیازیوں پر اچانک حملہ کردیا جسکے باعث نیازیوں شکست ہوئی. اس جنگ میں مدی خان نیازی بھی مارا گیا. لیکن بعدازاں سرہنگوں نے قتال خان مروت کو مار کر اپنا بدلہ پورا کیا.
جب سرہنگ نیازیوں کی یہ شاخ درہ تنگ عبور کرکے میانوالی میں اپنے ہم جد عیسٰی خیل اور موشانیوں کے پاس آئی تو انھیں شروع میں وہ علاقہ ملا جہاں آج مکڑوال اور سلطان خیل گاؤں آباد ہے. کیونکہ وہ ایک بے آب و گیاہ علاقہ تھا مجبوراً بھرت کی اولاد کو نئے علاقے تلاش کرنا پڑے دریا سندھ کے کناروں پر پہلے ہی ادریس کی اولاد قابض ہوچکی تھی تبھی کوہ نمک کی پہاڑیوں کے ساتھ ساتھ یہ گھومتے رہے. موسٰی خیل قبیلہ نے مکڑوال سے اٹھ کر پہلا پڑاؤ کالاباغ کے مقام پر لگایا جو کسی زمانے میں سنبل نیازیوں کی راجدھانی تھی اور اس وقت بھی سنبل نیازی مکھڈ سے لیکر کالاباغ تک کے علاقے پر حاکم تھے.
موسٰی خیل قبیلہ موجودہ موسٰی خیل میں کب آیا؟
روایت کے مطابق سب سے پہلے اس علاقے میں عبدالکریم باہی اور لدھو خیل قبیلہ آئے جنکے فوراً بعد سلطان خیل بھی یہاں آکر چشمہ کے پاس این ایل سی کے ڈپو کے اوپر پہاڑوں پر آباد ہوگئے. جہاں آج بھی سلطان خیلوں کے کھنڈرات موجود ہیں.
بعدازاں دیکھا دیکھی موسی خیل بھی آگئے. بلکہ دیگر سدوزئی، تارو خیل، عیدو خیل، بوری خیل حتیٰ کہ پائی خیل بھی آگئے لیکن سارے یہاں سے گزر کر آگے یا پھر پیچھے چلے گئے فقط موسی خیل اور سلطان خیل ہی آباد رہے.
شروع شروع میں یہاں پر اعوانوں، کھوکھروں و جٹوں کی آبادیاں تھیں. لیکن جب احمد شاہ ابدالی کے دور میں گکھڑ شکست کھا کر تباہ حال ہوئے تو نیازیوں نے اپنی افغان سلطنت کے باعث یہاں پر خانہ بدوشی کی بجائے باقاعدہ آباد کاری شروع کرتے ہوئے زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کردیا اور قدیم باسیوں کو یہاں سے مجبوراً بیدخل ہونا پڑا.. یہاں پر کسی زمانے میں ڈھک پہاڑی کے اوپر ایک قلعہ موجود تھا جوکہ کھوکھروں کے زمانے میں قائم ہوا تھا مگر سکھوں نے سردار خلاص خان کی مزاحمت کے باعث گرا دیا. یہ کھوکھر لوگ زیادہ تر خوشاب اور سرگودھا چلے گئے.
سلطان خیل اور موسٰی خیل قبیلہ کی لڑائی؛
سلطان خیل اور موسٰی خیل قبیلہ کچھ عرصہ تک بڑے پرامن اور اتفاق سے رہے. لیکن پھر ایک ایسا تنازعہ پیدا ہوا جسکی بدولت دونوں قبائل میں دشمنی کی آگ بھڑک اٹھی.
جیسا کہ قبل بتایا سلطان خیل قبیلہ یہاں پہلے آکر آباد ہوا تبھی چشمہ پر کنٹرول بھی انھی کا تھا. جبکہ موسٰی خیل قبیلہ کی خواتین اسی چشمہ سے پانی بھرنے اور جانوروں کو پلانے لیکر جاتی تھیں.. جہاں پر لدھو خیل قبیلہ کے چند نوجوانوں نے منچلے انداز میں موسٰی خیل کی عورتوں سے چھیڑ چھاڑ شروع کردی. انکے نشانہ بازی کے طور پر مٹکے بھی توڑ دیتے تھے. اس صورتحال میں موسٰی خیل قبیلہ کے معززین نے باہی قبیلے کے بزرگوں کو جو کہ تمام نیازیوں کیلئے قابل احترام و تعظیم سمجھے جاتے تھے شکایت کی. کیونکہ ایک تو سلطان خیل وہاں دفاعی لحاظ سے مضبوط پوزیشن پر آباد تھے دوسرا سلطان خیل قبیلہ کی عسکری طاقت بھی زیادہ تھی تیسرا پڑوس میں سلطان خیل قبیلہ کے ہم جد قبائل بھی موجود تھے.
جب باہی قبیلے کے بزرگوں نے سلطان خیل کے مشران سے یہ مسئلہ اٹھایا تو انھوں نے اس کو درخورد اعتناء سمجھا اور لدھو خیلوں سے منسلک سمجھ کر چھوڑ دیا. حالانکہ لدھو خیل خود انتہائی کم تھے وہ سلطان خیلوں طاقت کے بل پر یہ حرکتیں کرتے تھے. بہرحال اس ساری صورتحال میں باہی بزرگ شیخ عبدالکریم باہی کے بیٹے نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور بدعا دی. کہ آج سے تم (سلطان خیل) خربوزے ہو اور موسٰی خیل چھریاں.
اب موسٰی خیل قبیلہ ان حرکتوں سے عاجز ا چکا تھا لیکن وہ براہ راست جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا جیسا کہ قبل بتایا تبھی موسٰی خیلوں نے کسی تقریب کا اہتمام کیا اور تمام سلطان خیل کے معززین و سرکردہ شخصیات کو کھانے کی دعوت دی. جبکہ قریب ہی موجود جانوروں کے باڑے میں اپنے ہوشیار اور چابک جنگجوؤں کو بٹھا دیا. جیسے ہی کھانا شروع ہوا اچانک یکبارگی میں بیلوں کے اس باڑے سے موسٰی خیل قبیلہ کے نوجوانوں نے سلطان خیل کے نہتے مہمانوں پر حملہ کردیا. یہ حملہ اتنا شدید اور کارگر تھا کہ سلطان خیل قبیلہ کے تمام لوگ مارے گئے. اس طرح ایک ولی کی بدعا اور رعونت کے باعث سلطان خیل قبیلہ کے دیگر افراد میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوگئی. وہاں سے یہ سلطان خیل قبیلہ کے لوگوں نے واپسی کی راہ لی اور ٹھیک اسی مقام پر جہاں سے چلے تھے اور جہاں آج آباد ہیں وہیں آکر آباد ہوگئے. کہتے ہیں کہ سلطان خیلوں نے اپنے معززین کو موسٰی خیل باہی قبیلے کے پاس بھیجا تاکہ وہ باہی بزرگوں کو راضی کرکے آئیں پس اسی زمانے میں میاں عبدالغفور باہی نے آکر یہاں سلطان خیلوں کی آبادکاری کیلئے خصوصی دعا کی. اور خود بھی یہاں آباد ہوئے.
موسٰی خان کی اولادیں:
شجرہ کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ موسٰی خان کا ایک ہی فرزند تھا جس کا نام احمد خان تھا. جسکو اللہ تعالیٰ نے حیات افغانی کے مطابق سات بیٹے جبکہ نیازی قبیلے کی داستان کے مطابق آٹھ بیٹے جبکہ تاریخ نیازی قبائل کتاب کے مصنف کے مطابق نو بیٹے عطاء کئے
جن کے نام یہ ہیں
کنڈی، خدر، دادی، استان، عیسب، بویا پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے جبکہ بقیہ مموں، خڑ پر دو مصنفین متفق ہیں جب کہ شادو، اور جھانڈی کا ذکر فقط اقبال خان نیازی صاحب نے کیا ہے.
نیازی قبیلے کی داستان کتاب کے مصنف نے احمد خان بن موسٰی خان کی بیٹے مموں سے ہیبت خان نیازی کا شجرہ وضع کرکے انھیں موسٰی خیل بنا دیا جبکہ ہیبت خان نیازی کے باپ کا نام عمر خان لکھا ہے. جبکہ ہیبت خان نیازی کے باپ کا نام نیک میر تھا ملاحظہ ہو یحییٰ کبیر حزیانی کی کتاب افسانہ شاہان جو کہ آج سے قریب چار سو سال پہلے لکھی گئی. دوسری بات یہ کہیں سے بھی شواہد نہیں ملتے کہ ہیبت خان نیازی موسٰی خیل تو درکنار سرہنگ کی اولاد سے بھی تھا. سچ یہ ہے کہ اس وقت تک ہندوستان میں فقط جمال کی اولاد آئی تھی سرہنگ قبیلہ کے چند لوگ آئے بھی تو وہ خود کو سرہنگ خانی کہتے تھے.. اسی کتاب کے مطابق مموں بن احمد بن موسٰی کی اولاد سوریوں سے جنگوں میں ماری گئی..
جبکہ تاریخ نیازی قبائل کتاب کے مطابق اس وقت موسٰی خیل میں دادی، کَنڈی اور عیسب کی اولادیں موجود ہیں جبکہ بویا کی اولاد بنوں میں آباد ہے جس کا ہم الگ سے تذکرہ کر چکے ہیں. جبکہ استان، خڑ اور خدر کی اولادیں کہاں گئیں علم نے. قیاس ہے کہ داؤد خیل اور کالاباغ میں آباد خدر خیل دراصل موسٰی خیلوں کی اولاد ہیں کیونکہ قبیلہ داؤد خیل کی کوئی شاخ خدر خیل نہیں ہے اور داؤد خیل بھی خدر خیلوں کو اپنے شجرے میں شریک نہیں کرتے.
اسی طرح اقبال خان کے بیان کردہ اضافی بیٹے شادو اور جھنڈی کی اولادیں کہاں ہیں اس بارے میں بھی تاریخ خاموش ہے.
سلطان خیلوں کے چلے جانے کے بعد قبیلہ موسٰی خیل اس پورے علاقے میں سب سے طاقتور قبیلہ کے طور پر ابھرا. جسکی وجہ اس کی آبادی اس علاقے میں پھیل گئی.
سردار خلاص خان نیازی کا زمانہ؛
اٹھارہویں صدی میں جب اونگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد برصغیر میں عملاً کوئی مستقل حکومت نہیں رہی مغل شہزادے آپس میں دست و گریبان تھے مغلوں کے سورج کو گرہن لگ گیا. مقامی راجے مہاراجے اور مغل حکومت کے تعینات کردہ حاکم خود سر ہوچکے تھے. اسی زمانے میں میانوالی تا ہزارہ ڈویژن سارا علاقہ گکھڑ سرداروں کی عملداری میں تھا. میانوالی میں اس زمانے میں ایک گکھڑ سردار سلطان سارنگ گکھڑ کی حکمرانی تھی.
سردار خلاص خان ایک سخت گیر لیکن بہترین سردار تھے کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی لڑکا قبیلہ میں پیدا ہوتا تو سردار خلاص خان کے سامنے لایا جاتا اگر بچہ نحیف و ناتواں ہوتا تو اسکو زندہ درگور کردیا جاتا.
لیکن جس چیز نے سردار خلاص خان کو موسٰی خیل قبیلہ کیلئے زندہ و جاوید شخصیت بنا دیا وہ خلاص خان اور ساگری کا قصہ ہے.. کہتے ہیں کہ سردار سلطان سارنگ گکھڑ جسکو مختصر نام ساگری سے بھی لوگ جانتے تھے مغل حکومت کی طرف سے علاقے کا حکمران تھا. یہ سردار سلطان سارنگ گکھڑ میانوالی، سرگودھا، خوشاب، جہلم، چکوال وغیرہ کے علاقے سے ٹیکس وصول کرتا تھا. لیکن یہ ایک مکروہ طبعیت کا بدقماش آدمی تھا جو ٹیکس نہ دینے کی پاداش میں لوگوں کے جانور اور انکی نوجوان لڑکیاں بھی اٹھا لیتا تھا.
اسی طرح موسٰی خیل قبیلہ میں ٹیکس نہ دینے پر سلطان سارنگ گکھڑ نے لڑکی بطور ٹیکس مانگ لی. جس سے سردار خلاص خان نے انکار کردیا. جس پر سردار سلطان سارنگ گکھڑ نے علاقے کے دیگر سرداروں کو خوشاب کے نواح میں طلب کرلیا. وہاں اس نے ٹیکس کی عدم ادائیگی کے بدلے سردار خلاص خان سے لڑکی بطور خراج مانگ لی. جس پر سردار خلاص خان بھڑک اٹھے. سردار سلطان سارنگ نے سردار خلاص خان کو کہا کہ اگر وہ اپنے قبیلہ کی کوئی لڑکی نہیں دے سکتا تو کوئی بات نہیں کسی اور قبیلے کی کوئی لڑکی بطور خراج دے دو. جس پر سردار خلاص خان نے جواب دیا کہ میں تمھیں کوئی اپنی یا کسی دوسرے قبیلہ کی لڑکی تو درکنار اپنی کمیوں کی لڑکی بھی نہ دوں.. جس پر سردار سلطان سارنگ گکھڑ کے شہرت کو شدید دھچکا لگا. جس پر سلطان سارنگ نے اپنے لوگوں کو کہا کہ سردار خلاص خان کو گرفتار کر کے قتل کر دو.
اسی وقت اس مجمع میں ایک تاجہ خیل سردار بھی موجود تھا جس کے ساتھ کافی جمعیت تھی. اس کو مدد کے اشارے کے طور پر سردار خلاص خان نے اپنی پیٹی کھول کر اس کی طرف پھینک دی. لیکن وہ نوجوانی کے باعث اشارہ نہ سمجھ سکا اور پیٹی باندھ کر گھر آگیا. جبکہ سردار خلاص خان شہید ہوگیا. جب مذکورہ تاجہ خیل سردار اپنے گھر آیا اور اپنے والد کو سارا ماجرا سنایا تو اس کو اسکے باپ نے سخت برا بھلا کہا اور سردار خلاص خان کی مدد نہ کرنے پر لعنت و ملامت کی.. کہتے ہیں کہ خلاص خان کے قتل کا بدلہ میرا خان (جد امجد قبیلہ میرا خیل) نے تلہ گنگ کے قریب سردار سارنگ گکھڑ کو قتل کر کے پورا کیا.
سردار خلاص خان آج بھی پورے نیازی قبیلے بلخصوص موسٰی خیلوں کیلئے مشعل راہ ہے جس کے قصے موسٰی خیل قبیلہ کے بزرگ بچوں کو سناتے ہیں.. جو جرات و بہادری کا نشان ہے..
موسٰی خیلوں اور بلچ پٹھانوں کی لڑائی:
بلچ پٹھانوں کا ایک چھوٹا سا نیازی کا ہم جد لودھی قبیلہ ہے۔جوکہ ڈیرہ اسماعیل خان ،پیپلاں اور بھکر میں آباد ہے۔اُس زمانے میں بلچ پٹھانوں کا سردار اغر خان ہوا کرتا تھا۔جو کہ ایک وجیہہ اور دلیر شخص تھا۔
بلچ تھل کو عبور کرکے بھچروں کا مال اسباب لوٹ کے لے جاتے تھے ایک بار بھچروں کا اطلاع ملی کے بلچ لشکربھچروں پہ حملے کی تیاری کر رہا ہے۔تو انھوں نے اپنے پڑوسی موسٰی خیلوں سے مدد مانگی۔
اس وقت سردار نور خان موسٰی خیل کا سردار تھا اس سے پہلے کے بلچ پہنچ پاتے موسٰی خیل پہنچ گئے اس لڑائی میں بلچ سردار اغر خان شدید زخمی حالت میں شکست کھا کرجان بچا کر واپس نکل گیا اور اس کا تمام چنگی سامان مطلب گھوڑے وغیرہ بھی موسٰی خیلوں کے ہاتھ لگے
جب وہ اپنے گھر شکست خوردہ پہنچا تو اس کی ماں نے کہا کہ جب تک وہ بندہ نہیں دیکھوں گی جس سے شکست کھا کر واپس آئے ہو تو میرا دودھ تمہہاے لئے حرام ہے اور اس کی بیوی نے بھی کہا کہ اگر تمھیں شکست دینے والا شخص جرات مندی و دلاوری میں تم سے کم تر شہرت یافتہ ہوا تو میں بھی تم پر حرام ہوں۔کیونکہ انکے خیال میں سردار اغر خان کو شاید بھچروں نے شکست دی ہے ۔لیکن معاملہ یہاں برعکس تھا۔
اس کے بعد وہ دونوں خواتین موسٰی خیل آئیں اور سردار نور خان کو دیکھا
اس کی والدہ نے کہا اب مجھے کوئی دکھ نہیں میرا بیٹا کسی جواں مرد سے شکست کھا گیا
سرادر نور خان نے تمام گھوڑے اور اپنی طرف سے جانور اور سر کی چادریں دے کر یہ کہہ کر ان کو واپس روانہ کر دیا کہ آج سے اغر خان کی طرح تم میری بھی ماں ہو اور اغر خان کی بیوی میری بہن ہے۔
برہ اور گل بیگ کا تنازعہ؛
موسٰی خیل قبیلہ کی دو بڑی شاخیں یاری خیل اور خنجری خیل کہلاتی ہیں. برہ خان یاری خیل قبیلہ کی سرکردہ شخصیت تھا جبکہ گل بیگ خان خنجری خیل قبیلہ کا ایک سردار تھا.
نامعلوم وجوہات کی بنا پر دونوں میں تکرار ہوگی جو کہ دشمنی میں بدل گئی. جس پر برے کو شکست ہوئی اور اس کی اراضی گل بیگ خان نے چھین لی. جس سے برہ علاقہ بدر ہوگیا. اس وقت چونکہ پنجاب پر سکھوں کی حکومت تھی. برہ خان نے گل بیگ سے بدلہ لینے کی خاطر سکھوں کے ہاں ملازمت شروع کر دی. سکھوں کی حمایت حاصل کرنے کے بعد برہ خان نے گل بیگ اور اسکے حلیف لوگوں پر چڑھائی شروع کردی. جس کے نتیجے میں گل بیگ خان اپنے ساتھیوں سمیت مارا گیا. جن کی قبور پار وانڈھی موسٰی خیل میں موجود ہیں. خنجری خیل آج بھی گل بیگ شہید بابا کے نام سے اسکو یاد کرتے ہیں. اس واقعہ کے بعد خنجری خیلوں اور یاری خیلوں میں نا ختم ہونے والی دشمنی شروع ہوگئی جس کی بھینٹ کئی نوجوان چڑھے.. حالات کی تبدیلی کے ساتھ البتہ دشمنی اب اپنا اثر کھو چکی ہے لیکن مخاصمت و مخالفت کے جراثیم آج بھی باقی ہیں..
موسٰی خیل کا ادبی منظرنامہ:
موسی خیل قبیلہ نے بہت بڑے نام، شاعر، ادیب اور مفکر پیدا کیے۔ موسی خیل کی دھرتی ادب کا گہوارہ تھی اور ہے اور انشاءاللہ رہے گی۔موسی خیل قبیلہ ادبی سرگرمیوں کی تاریخ محمد خان نیازی کی کتاب ،،شہید عشق،، سے باقاعدہ شروع ہوتی ہے۔ محمد خان نیازی کا تخلص خار موسی خیلوی تھا۔انکی یہ کتاب 1934 میں پبلشر ہو گئی، یقینا شاعری تو انہوں نے 10،15 سال پہلے شروع کی ہوگی۔ ان کا کمال علم یہ ہے، کہ انہوں نے اس دور میں کتاب چھپوائی اور لفظ خیلوی نام کے ساتھ لگایا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں، کہ علمی فضیلت میں ڈسٹرکٹ میانوالی ہمیشہ صفحہ اول میں رہا، مگر ہم موسی خیل بہت پسماندہ تھے، مگر اس کے باوجود انہوں نے اس دور میں کتاب چھپوائی، یہ ان کی شاعری کی خوبصورت دلیل اور عکاسی ہے۔ یقینا اس کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہوں گے، چونکہ یہ انسانی نیچر ہے، اس لیے میں اسے پہلا گلدستہ کہوں گا۔
بعد ازاں سابق وفاقی وزیر جناب مولانا کوثر نیازی، جناب حضرت مولانا حافظ احمد خان نیازی، جناب ماسٹر عباس خان نیازی اور تھوڑے عرصے بعد جناب ڈاکٹر اجمل نیازی، جناب ماسٹر ظفر اقبال خان نیازی موسی خیل کے خوبصورت اور نامور شعراء کی طور پر ابھرے، جبکہ مولانا کوثر نیازی ایک نامور سیاسی نام بھی تھے۔ بے شک مولانا کوثر نیازی سیاسی مصروفیت میں موسی خیل کو ٹائم نہ دے سکے، ماسٹر عباس خان نیازی دشمنی کی بھینٹ چڑھ گئے، جناب مولانا حافظ احمد خان دینی اور سیاسی خدمات میں مصروف ہو گئے، جناب ڈاکٹر اجمل نیازی نے تھوڑا سا عرصہ موسی خیل گزارا اور لاہور شفٹ ہو گئے اور جناب ظفر اقبال نیازی موسی خیل کی تنہائی سے میانوالی کی ادبی تنظیم فروغ اردو میانوالی میں ضم ہو گئے۔ جناب مولانا کوثر نیازی، جناب حافظ احمد خان، جناب ڈاکٹر اجمل نیازی، جناب ظفر اقبال نیازی موسی خیل کی ایک شاخ لقی خیل قبیلے سے تھے۔ جناب ماسٹر عباس خان نیازی کا تعلق موسی خیل کے شیرخیل قبیلے سے تھا۔شیر خیل قبیلہ خلاص خیل قبیلہ کی ذیلی شاخ ہے،اسے میں موسی خیل کا دوسرا گلدستہ کہوں گا۔ بعد ازاںامان اللہ خان نیازی کریسنٹ ماڈل سکول فیصل آباد سے واپس موسی خیل آئے اور شاعر و ادب کی سرگرمیوں کا سلسلہ بحال کیا۔ احمد سعید خان، مخدوم قیصر شاہ اور ملک اقبال نے امان اللہ خان کی زیر صدارت بزم امان اللہ نام کی اکیڈمی کا آغا کیا جس اکیڈمی کا نام اج بزم کوثر نیازی ہے۔ مخدوم قیصر شاہ پہلے دن سے ہی شاعری کی بحر، وزن، حتی کہ دھن تک صرف جانتے نہیں، باباۓ وزن، بابائے بحر اور بابائے دھن تھے۔ یہ علم انہیں اللہ رب العزت کا عطا کردہ تھا۔ وہ 1980 یعنی میٹرک میں نظم، غزل، گیت اور دوہڑا کہنے کی جہاں پوری قدرت رکھتے تھے، وہاں انتہائی خوبصورت اور بامقصد بھی لکھتے تھے۔ حتی کہ 1983 /84 میں ان کے گیت اور ان کی اپنی دھنیں، بشیر احمد چوکی بھاگھٹ، شفیع اختر وتہ خیلوی، شفاء اللہ خان روکھڑی، یونس شہزاد، شوکت اللہ خان عیسی خیلوی، عبدالستار زخمی، محمد حسین بندیالوی، حتی کہ اس وقت کے تمام فنکاروں نے ان کا کلام اور ان کی دھنیں گائیں، وہ موسی خیل کے صرف عظیم نہیں، بہت منفرد شاعر تھے۔ جناب محمد اقبال ملک کا خاندان نمل سے ہجرت کر کے موسی خیل ایا تھا، وہ بھی بہت بڑے شاعر اور خاص کر دوہڑے کے تو بہت منفرد شاعر اور انہوں نے ہزاروں کی تعداد میں دوہڑے لکھے۔ جناب احمد سعید خان شاکری کا تعلق موسی خیل کے باہی قبیلے سے ہے، وہ بھی میری طرح موسی خیل 1980 کے بعد ائے، چونکہ ان کے والد ارمی میں تھے اور ان کی فیملی ہمیشہ ان کے ساتھ رہی۔ وہ مخدوم قیصر شاہ کی طرح پہلے دن سے مکمل شاعر تھے، جو کہ دوہڑا،گیت ان کا طرہ امتیاز تھا۔ بعد ازاں انہوں نے غزل کو اپنایا اور تخلیق غزل کا ایک بڑا نام بن کر ابھرے۔ بے چین فاروق ابادی صرف موسی خیل نہیں، میانوالی کا وہ نام ہے، کہ جس پر جتنا فخر کیا جائے، کیا جا سکتا ہے۔ وہ فطرتی شاعر ہیں، اردو غزل، اردو نظم، سرائیکی غزل، سرائیکی نظم، اردو نعت، سرائیکی نعت کے جہاں بہت بڑے اور مایہ ناز شاعر ہیں، وہاں انہیں دنیا کی کوئی صنف لکھنے کو کہا جائے، وہ لمحوں میں پوری کتاب تخلیق کر دیں گے۔ وہ دوہڑا، گیت لکھنا اپنی توہین سمجھتے ہیں، مگر انہیں کہا جائے، تو وہ گھنٹوں میں سینکڑوں دوہڑے اور گیت لکھ دیں گے اور انتہائی منفرد لکھیں گے۔ انہیں یہ بھی اعزاز ہے، کہ ویسے تو انہوں نے ہر موضوع پر لکھا ہے، مگر ان کا معاشرتی برائیاں اور وڈیرا ازم خوبصورت موضوع ہے۔ وہ جہاں خوبصورت شاعر، خوبصورت رائٹر، وہاں مزاح کے بھی خوبصورت رائٹر ہیں۔ جناب اکرم زاہد نیازی کا تعلق یاری خیل قبیلے کے ایک ہائی ایجوکیٹڈ خاندان سے ہے، جنرل ضرار عظیم نیازی، کمشنر امتیاز خان نیازی، کرنل ڈاکٹر عظیم خان نیازی، رخسانہ نیازی سابق پرنسپل گورنمنٹ وومن کالج میانوالی اپ کے کزن اور کرنل ڈاکٹر عظیم خان نیازی چچا ہیں۔ اپ کھاد انڈسٹری میں ایک بڑے افیسر اور لکی خیل قبیلہ ہی کے نواسے ہیں۔ اپ بنیادی طور پر غزل کے عظیم شاعر ہیں،مگر نظم، دوہڑا اور گیت بھی بہت منفرد انداز میں بیان کرتے ہیں، بلکہ اکرم زاہد نیازی کا یہ طرہ امتیاز ہے، کہ وہ جس صنف میں بھی لکھیں، کوئی بھرتی کا شعر نہیں کہتے۔ وہ اج کل شہنشاہ گیت کا اعزاز بھی حاصل کر چکے ہیں، چونکہ ان کے گیت سرائکی،جھنگوچی،، پوٹھوہاری، شاہ پوری، تھلوچڑی، میانی بلکہ ہر زبان کے فنکار گانے کے لیے بے تاب نہیں بلکہ فنکاروں کی مجبوری، اور ان کے گیتوں کے لیے فنکار لائنوں میں لگ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ میانوالی بے شک پورے پاکستان میں گیت کی خوبصورت دھرتی ہے۔ مجبور عیسی خیلوی، فاروق روکھڑی، مظہر نیازی، محمد محمود احمد ہاشمی، عمران اداس، افضل عاجز بلکہ ہر خوبصورت گیت کا جنم دھرتی میانوالی ہے، مگر اکرم زاہد نیازی پہلے ناموں میں شامل ہیں۔ جناب ڈاکٹر محمد سخی خان نیازی دھرتی موسی خیل کے ایک اور خوبصورت مولانا کوثر نیازی اور ڈاکٹر اجمل نیازی ہیں۔ اپ غزل، نظم، نعت، گیت، دوہڑا، حتی کہ ہر صنف کے شہنشاہ بلکہ اب تو انہوں نے منظوم افسانوں میں بھی ایک بے مثال کتاب تخلیق کر ڈالی ہے۔اعلی پائے کے محقق، مفکر اور انتہا کے مہذب، معزز، شریف انسان اور ہسٹری اف میانوالی اور میانوالی زبان کی تخلیق کار بھی ہیں۔ اپ نے ہی میانوالی کی زبان کو میانی زبان کا نام دیا ہے، مگر صرف نام رکھ نہ دیا، بلکہ پوری تحقیق سے اس نام کو اجاگر کیا۔ انہوں نے اس نام کی نسبت کے سینکڑوں حوالے دیے۔ اپ جیسے شاعر، رائٹر صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں،اپ کا تعلق بھی لکی خیل قبیلے سے ہے۔جناب صائم جی دھرتی موسی خیل کہ وہ شاعر ہیں، جو کہ سب سے چھوٹے اور سب سے بعد میں انے والے، مگر گلدستہ سوم میں پہلے صاحب کتاب ہیں۔
موسٰی خیل گاؤں میں آباد دیگر نیازی و پشتون اقوام ؛
موسی خیل گاؤں میں موسی خیل قبیلہ کے علاوہ نیازیوں کی ایک شاخ باہی نہیں تعداد میں آباد ہے اسکے علاوہ غورنی، ڈھیڈی بھی آباد ہیں جن کے بارے میں مؤرخین کا خیال ہے کہ وہ پٹھان تو ضرور ہیں لیکن شاید نیازی نہیں ہیں.
کالاباغ میں آباد ہندالی خیل، باجو خیل اور خدر خیلوں کے بارے میں قیاس ہے کہ وہ بھی موسٰی خیل قبیلہ کی ذیلی شاخ ہیں۔
شخصیت؛
مولانا کوثر نیازی:
آپ کا پیدائشی نام محمد حیات خان تھا مگر عام طور پر مولانا کوثر نیازی کے طور پر جانا جاتے تھے۔
ان کا جنم21 اپریل 1934ء موسٰی خیل گاؤں میں ہوا۔ ٰآپ ذیلدار جہان خان کے پوتے تھے۔آپ کے والد فتح خان نیازی لقی خیل اور چچا مظفر خان نیازی لقی خیل بھی علاقے کے معروف افراد میں سے تھے۔ آپ ایک مذہبی اسکالر اور مقرر تھے اور سیاست میں اپنا نام بنایا ۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ایک پاکستانی سیاست دان اور مذہبی رہنما تھے۔ نیازی، بھٹو کی وزارت عظمی کے کابینہ میں،1974ء سے 1977ء کے دوران پاکستان میں سب سے زیادہ طاقتور وفاقی وزیر تھے۔ نیازی بھٹو کے قریبی مددگاروں میں سے ایک تھے اور بھٹو کا مکمل اعتماد جو موت تک بھٹو کے وفادار رہے۔ بھٹو کی وفاقی کابینہ کے رکن بھی تھے۔ ایک وزیر کی حیثیت سے انھوں نے خدمات انجام دیں اور 6 سال تک بھٹو کے مددگار بھی رہے۔ وہ پاکستان ممبر پارٹی کے رکن بھی رہ چکے تھے۔ انہوں نے 1976ء تک مذہبی اور اقلیتی امور کے وزیر کے طور پر خدمات انجام دیں اور اس کے بعد انہیں وفاقی وزیر اطلاعات مقرر کیا گیا تھا۔آپ 1985ء تا 1988ء سینیٹر بھی رہے۔ مولانا کوثر نیازی کا کہنا ہے کہ ضیاء الحق نے ذو الفقار علی بھٹو کو معزول اور بالآخر تباہ کر دیا تھا۔ اس کے بعد کے سالوں میں، مولانا کوثر نیازی کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دوران اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کے طور پر خدمت کرنے کے لیے نامزد کیا گیا تھا ۔
کوثر نیازی نے ہفت روزہ ’’شہاب‘‘ کا اجرا کیا جس کا دفتر داتا دربار مارکیٹ، لاہور میں تھا۔
مولانا نے 19 مارچ 1994ء کو اسلام آباد میں وفات پائی۔
مولانا کوثر نیازی بلند پایہ شاعر ہونے کے علاوہ ایک بہترین نعت گو بھی تھے۔ فتح اللہ کے لختِ دل محمد حیات کو دنیا مولانا کوثرؔ نیازی کے نام سے جانتی ہے۔ شاعری میں کوثرؔ تخلص کرتے ہیں۔ 21 اپریل 1934ء کو موسیٰ خیل ضلع میانوالی میں پیدا ہوئے۔ میٹرک یہیں سے کیا۔ حالات سازگار نہ ہونے کے سبب میٹرک کے بعد اسکول ٹیچر بھی رہے۔ بعد میں پنجاب یونیورسٹی سے عربی، فارسی اور اردو میں بی اے آنرز کیا۔ قدرت نے اُنھیں ہمہ وقت بے شمار خداداد صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ بیک وقت شاعر، ادیب، خطیب،صحافی، محقق، پارلیمنٹیرین، معروف سیاسی رہنما اور جیّد مذہبی اسکالر تھے۔ ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر ماہرین سیاست اور نقادان علم و ادب اظہار خیال فرماتے رہے ہیں۔
مولانا کوثرؔ نیازی کی شخصیت بڑی پہلودار تھی۔ جس کی وجہ سے شاید ان سے کسی معاملے میں اختلاف ممکن ہوسکتا ہے۔ انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز جماعت اسلامی سے کیا۔ بعدازاں مولانا مودودی مرحوم سے اختلاف کی بنیاد پر جماعت اسلامی کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ دیا۔ اور پھر پاکستان پیپلزپارٹی سے رشتہ استوارکرلیا۔
مولانا کو جن موضوعات سے زیادہ شغف تھا۔ اس میں فلسفہ، تاریخ، مذہب اور سیاست خاص طور پر شامل ہے مولانا کوثر نیازی بحیثیت غزل گو بھی ملک کے طول و عرض میں معروف تھے۔ ان کی ابتدا بھی غزل گوئی سے ہوئی اور یہ بچپن میں شاعری کے اسیر ہوچلے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی ذوق میں مولانا کی شاعری کو اوّلیت حاصل ہے۔مولانا انعت گوئی میں بھی ممتاز نظر آتے ہیں۔ کہ انہوں نے نعتیہ کتب یا دیوان ’’ نعتیہ ادب‘‘ میں یادگار نہیں چھوڑے۔ بلکہ صرف چند نعتیں کہی ہیں۔ ان چند نعتوں میں اتنا جذب و اثر ہے کہ یہ اپنے پڑھنے والوں سے آنسوؤں کا نذرانہ وصول کرتی ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر اجمل نیازی
ڈاکٹر اجمل نیازی 16 ستمبر 1946ء کو موسٰی خیل (ضلع میانوالی) میں پیدا ہوئے، گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی لاہور میں طالبعلمی کے دوران راوی اور محور کی ادارت کی، مختلف مجالس سے وابستگی رہی،
گارڈن کالج راولپنڈی اور گورنمنٹ کالج میانوالی میں لیکچرار رہے، بعد ازاں گورنمنٹ کالج لاہور اور ایف سی کالج میں تعینات رہے، روزنامہ نوائے وقت میں بے نیازیاں کے عنوان سے کالم لکھتے رہے ہیں، 45 سال صحافتی و ادبی خدمات انجام دیں۔آپ کا انتقال 18 اکتوبر 2021ء کو لاہور میں ہوا۔
پروفیسر ڈاکٹر غلام اکبر خان نیازی
جناب پروفیسر ڈاکٹر غلام اکبر خان نیازی1937ء میں پیدا ہوئے. جب کہ 1960ء میں نشتر میڈیکل کالج سے ڈاکٹری کی ڈگری مکمّل کی۔
بعدازاں سرکاری ہسپتال میں ملازمت کرتے رہے.1963ء میں جب سعودی وزرات صحت نے پاکستان سے ڈاکٹر بھرتی کیے تو آپ بھی اس بھرتی میں شامل ہونے کے بعد سعودی عرب چلے گئے. جہاں آپ نے اپنی قابلیتوں کا لوہا منوایا. بہت جلد ڈائریکٹر جنرل بن گئے بعدازاں آپ سعودی افواج کی میڈیکل شعبہ میں تعینات ہو گئے. آپکی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے سعودی بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے معالج خصوصی مقرر ہوئے. 1986ء میں آپکو سعودی عرب کے بادشاہ کی طرف سے مستقل شہریت عطاء کی گئی. آپ برطانوی شہزادہ چارلس اور لیڈی ڈینا کے بھی معالج خصوصی رہ چکے ہیں.
2004ء میں آپ نے پاکستان میں اسلام آباد میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی بنیاد رکھی. اسکے علاوہ آپ مکہ فاؤنڈیشن کے بھی ممبر ہیں..
لیفٹیننٹ جنرل ضرار عظیم خان نیازی
لیفٹیننٹ جنرل ضرار عظیم نے 1970ء میں کمیشن کے بعد ایلیٹ گائیڈز کیولری رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے اپنی 34 سال کی کمیشنڈ سروس کے دوران مختلف باوقار کمانڈ اینڈ اسٹاف تقرریاں کیں۔ انہوں نے آرمر سکول اور نیشنل ڈیفنس کالج میں بطور انسٹرکٹر خدمات انجام دیں۔
انہوں نے آرمرڈ ڈویژن اور پاک رینجرز پنجاب کی بھی کمانڈ کی۔ جنرل ضرار نے بطور کور خدمات انجام دیں۔ کمانڈر لاہور اور جی ایچ کیو میں انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ ایویلیوایشن کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ انہوں نے اسٹاف، آرمڈ فورسز وار اور نیشنل ڈیفنس کورسز میں شرکت کی۔اکتوبر 2005 سے اکتوبر 2008 (3 سال 1 ماہ) تک آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کے منیجنگ ڈائریکٹر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ “جوہری عدم پھیلاؤ کے نظام” پر ان کی تحقیق NDC جرنل میں شائع ہوئی تھی۔ ان کا تعلق موسیٰ خیل سے ہے۔ اس وقت وہ جنوری 2009ء سے Zanaash International Pvt Ltd کے CEO ہیں۔
قبیلہ موسٰی خیل نے اس کے علاوہ بھی کئی نامور شخصیات کو جنم دیا ہے جن میں خان صاحب ربنواز خان تھے جو کہ انگریزی دور میں صوبائی درباری مقرر تھے مگر بعدازاں خلاص خیلوں کی آپسی ناچاقی کے سبب خان عیسب خان نے اپنے تعلقات کے اثرو رسوخ پر خان ربنواز خان کی جگہ اپنے داماد خان جہان خان کو زیلدار بنوا دیا جس پر دشمنی کی آگ بھڑک اٹھی کافی جانی نقصان بھی ہوا بعدازاں سردار عبد عبدالکریم پسر ربنواز خان قبائلی عداوتوں کے باعث نقل مکانی کرکے ضلع بھکر ہیتو میں اپنی جاگیر پر آباد ہوگئے. جناب خان جہان خان نے جنگ عظیم اول میں فوجیوں کی بھرتی میں کردار ادا کرکے کافی نام کمایا اور اعلیٰ افسران تک رسائی رکھتے تھے. جب1937ء میں پیر مہر علی شاہ صاحب آف گولڑہ شریف کا انتقال ہوا تو انکی وصیت کے مطابق ذیلدار خان جہاں خان بھی غسل دینے والوں میں شامل تھے.
اسکے علاوہ شخصیات یہ ہیں ظفر خان (چئیرمین)، کرامت حسین خان نیازی (سیکرٹری جسٹس اینڈ لاء منسٹری)حبيب آللہ خان مقرب خان (ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان)، لالا احمد نواز خان (ریڈیو پاکستان یونین لیڈر) سردار کریم خان (بھکر) صوفی بہادر خان، حسن سردار خان نیازی (ایس ایس پی سندھ پولیس)،اکرم زاہد خان (لکھاری) وغیرہ شامل ہیں
ذیلی شاخیں؛
موسٰی خیل قبیلہ کی ذیلی شاخ درج ذیل ہیں..
خلاص خیل، میرا خیل، خنانی خیل، ابا خیل، کَنڈی خیل، خنجری خیل، لقی خیل، سمند خیل، مقرب خیل، جوری خیل، راجو خیل، بھریم خیل، دادی خیل، خدر خیل، ہندالی خیل، شیر خیل، مدی خیل، رامی خیل اور مچھر خیل وغیرہ..
رامی خیل قبیلہ کے جد امجد کا اصل نام رحم خان تھا لیکن بگڑ کر رامی خیل ہوگیا. اسی طرح مچھر خیل قبیلہ کے جد امجد کا اصل نام مشر خان تھا پشتو زبان میں مشر سردار یا سرکردہ شخص کو کہتے ہیں. جو میانوالی کی زبان میں بگڑ کر مچھر بن گیا ہے..
:نوٹ
موسٰی خیل بکھرا ہوا قبیلہ ہے جسکی آبادی ہزاروں افراد پر مشتمل ہے لیکن یہ بات یاد رہے کہ زیر دستیاب شجرہ جات صرف وہ ہیں جو تاریخ نیازی قبائل کتاب کے مؤلف حاجی اقبال خان نیازی صاحب مرحوم نے اپنی کوشش سے اکھٹے کئے یا جن لوگوں نے ذاتی دلچسپی لیکر کر شجرے بنا کر ان تک پہنچائے.ان شجروں کو قطعی طور پر مکمّل نہ سمجھا جائے کیونکہ یہ چند سو افراد کے شجرے ہیں جبکہ قبیلے کی آبادی ہزاروں افراد پر مشتمل ہے.. اگر کسی کا زیر دستیاب شجرے میں نام موجود نہیں تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ نیازی نہیں یا موسٰی خیل نہیں. بلکہ یہ انتہائی محدود افراد کے شجرے ہیں جو مؤلف کو دستیاب ہوئے وہ شامل کردیئے۔اگر کوئی آرٹیکل میں مزید معلوت کا اضافہ کروانے کا متمنی ہے یا کوئی تصحیح درکار ہے یا کسی معروف شخصیت کی تصویر شامل کروانا چاہتا ہے تو ہمیں نیچے کمنٹ کریں یا فیس بک پیج نیازی پٹھان قبیلہ پر انبکس کریں شکریہ
ایڈمن نیازی پٹھان قبیلہ
www.NiaziTribe.org
افسوس لکھنے والے نے صرف 50 فیصد معلومات لکھی۔باقی موسی خیل کی آدھی آبادی کو شجرہ سے نکال کر باہر پھینک دیا۔مثال کے طور پے بتاتا چلوں موسی خان کے بیٹوں کے آگے دیکھیں کتنے بیٹوں کی آگے نسلیں غاہب کر دیں ۔یہ اقبال خان کو کس نے یہ حق دیا کہ من پسند قبیلے لکھے اور کچھ اپنی طرف سے گھڑ کے انکو نیازی پٹھان ثابت کرے اور اصل تاریخ اور قبیلوں کو نظر انداز کرے ۔۔
کچھ قبیلے یہاں میں بتاتا ۔۔گلانی خیل۔۔قلندر خیل۔۔سمندی خیل۔۔روزی خیل۔۔شیرو خیل۔۔سمند خیل۔۔خان بیگ خیل۔۔ حیات خیل۔۔قتالی خیل۔۔رتاس خیل۔۔شیر خیل۔۔بیگو خیل۔۔دلییلی خیل۔۔دادی خیل۔۔عباس خیل۔۔طریے خیل۔۔بگے خیل۔۔یار بیگے خیل۔۔لدھو خیل۔۔اور بہت سارے قبیلے جو نظر انداز کیے ۔۔برا لگے میرا کچھ لکھنا تو معذرت
آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے اپنی رائے دی۔پہلی بات تو یہ ہے کہ مرحوم اقبال خان نیازی 1998ء تا 2018ء عرصہ بیس سال تک نیازی قبائل کی تاریخ اور شجرہ جات پر بلامعاوضہ کام کرتے رہے۔انھوں نے ہر قبیلہ کے پاس جا کر بھی ریکارڈ اکھٹا کیا اور کافی لوگوں نے خود دلچسپی لیکر بھی ریکارڈ کتاب میں شامل کروایا۔اگر ان بیس سال تک درج بالا قبائل نے اپنی تاریخ اور شجرے میں دلچسپی لی ہوتی تو یقیناً یہ سب بھی شامل ہوتے۔جہاں تک ہماری بات ہے تو ہم نے ہر قبیلہ پر آرٹیکل لکھنے سے پہلے پوسٹ لگائی کہ فلاں قبیلہ کی تاریخ اور شجرہ پر اگر کسی کے پاس معلومات ہیں تو ہمارے ساتھ تعاون فرمائیں ۔موسٰی خیل کے آرٹیکل میں ایک خلاص خیل نے تعاون بھی فرمایا۔بہر حال پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں۔ہم نے اسی وجہ سے آرٹیکل کے نیچے نوٹ درج کیا یے کہ اگر آرٹیکل میں کچھ رہ گیا ہو تو یمیں بھیج دیں تاکہ آرٹیکل کا حصہ بن جائے۔ پس آپ سے امید ہے کہ جس جذباتی انداز میں آپ نے کمنٹ کیا ہے اسی جوش و جذبہ کے ساتھ رات دن ایک کرکے آپ درج بالا موسیٰ خیل کی شاخوں کے شجرہ اور تاریخ اکھٹے کرکے جلد از جلد بھیجیں گے۔آپ کے جواب کے منتظر رہیں گے۔۔۔
اقبال تاجے خیل کے مطابق اباخیل موسیٰ خیلی ہیں حالانکہ موسیٰ خیل کے شجرہ نسب میں اباخیل کا ذکر تر نہیں آتا اباخیل کے بزرگوں کا کہنا ہے کہ اباخیلی بنوں کی ایک قوم ہے جو شاہد سید ہیں اور کچھ کے نزدیک پٹھان
آپ اباخیل کے لوگوں سے رابطہ کر کے فرق واضح کریں شکریہ
بہت شکریہ برادر علی خان۔بلکل اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ابا خیل کا ذکر اقبال خان کے بنائے گئے شجرہ میں موجود نہیں ہے۔دوسری بات ضلع بنوں میں کوئی ابا خیل نامی قبیلہ موجود نہیں ہے۔البتہ لکی مروت میں موجود ہے جس کے بارے میں حیات افغانی میں لکھا ہے کہ وہ کسی سید کی اولاد ہیں۔لیکن علاقائی معلومات کے مطابق موسی خیلوں یا ابا خیلوں نے ایک دوسرے سے فرق نہیں رکھا۔ حلانکہ موسی خیل کے ساتھ سلطان خیلوں کی لڑائی،خلاص خان کے سکھوں سے محاربوں،بلو خیل، بلچ پٹھانوں سے جھگڑوں کے واقعات آج بھی سنے جاتے ہیں لیکن ابا خیل اگر باہر کی کوئی قوم ہوتی تو انکا تذکرہ بھی ملتا،جیسے غورانی ہیں وہ بعد میں آئےہیں،اسی طرح چھدور پر تارو خیل کے ساتھ میرے خیل جو مسی خیل ہیں آباد ہیں یا پڑوس میں بوری خیل جو الگ تشخص رکھتے ہیں۔ بہرحال ابا خیل اور مداد خیل پر تحقیقات ہونی چاہیں ۔اس کیلئے ابا خیلوں کو آگے آنا ہوگا۔محمکمہ مال سے ابا خیل کا بندوبست ریکارڈ 1878 نکلوانا ہوگا۔۔کیونکہ اس میں مکمل تاریخ موجود ہے۔۔۔
یاری خیل کا شجرہ نسب ہے تو ہمیں ضرور آگاہ کریں
اور آپ نے بہادر خان کا نام لکھا ہوا ہے انکا پورا نام صوفی بہادر خان یاری خیل ہے میرے پاس انکی تصاویر بھی ہیں
آپ نے قوم شیرخیل کا پورا شجرہ نصب نیں لکھا اگر آپکے پاس موجود ہے تو ہمیں ضرور آگاہ کریں اگر نیں ہے تو برائے کرم بتادیں تاکہ آپکو ہم معلومات اکھٹی کر کے دے سکیں شکریہ
جی بھائی اگر آپ معلومات اکھٹی کرکے فراہم کریں گے تو ہم اس لو یہاں شامل کر دیں گے۔ہم آپ کے قیمتی تعاون کے منتظر ہیں۔ شکریہ
اپ کی نیازی قبیلے کے بارے میں اتنی زیادہ معلومات اور دلچسپی رکھنے اور محنت کرنے پر بہت زیادہ خوشی محسوس ہوئی لیکن اپ نے اوپر کی طرف یاری خیل اور خنجری خیل قبیلے کا ایک واقعہ بھی بیان کیا ہوا ہے لیکن اپ نے نیچے ذیلی شاخوں میں یاری خیل قوم کا نام نہیں لکھا
آپ لوگوں اس سلسلے میں تعاون درکار ہے۔شکریہ
اسلام و علیکم میں خلاص خیل قبیلے کا ایک فرد ہوں اور میری یہ رائے ہے کہ سردار خلاص خان کا صرف ایک ہی قصہ یا دو ہی لکھے ہیں سر آپ کی مہربانی ہو گی کہ سردار خلاص خان کی پوری زندگی کا احوال لکھیں اور اس کی زندگی کے سارے قصے ہیں سب شیئر کرے مہربانی ہو گی اور ایک شجرا بھی میں آپ کو بتاتا ہوں جو کتاب میں شائع کرنا ہے
خلاص خیل کی شاخ
سہراب خان کے دو بیٹے
1 سردار خان ،2 حاجی خان
سردار خان کے بھائی دو بیٹے
1 احمد نواز خان ،2 ربنواز خان
احمد نواز کے 4 بیٹے
ربنواز کے 5 بیٹے
احمد نواز کے بیٹوں کے نام،
ظفر اقبال خان ، ممتاز خان،جاوید خان،امتیاز خان۔
ربنواز کے بیٹوں کے نام،
مقبول خان، جابر خان، عبدالرحمن خان، حسن سردار خان، زین خان
Ok
برادر وقاص خان بہت شکریہ کہ آپ نے دلچسپی لی۔ دیکھٰیں اگر آپ سردار خلاص خان کی زندگی پر کتاب لکھنا چاہتے ہیں تو ہمارا تعاون آپ کے ساتھ ہے۔
السلام علیکم بھائی یہ جو آپ نے لکھا ہے نہ کہ ڈھیڈی اور غور نی شاید پٹھان ہیں بلکہ نیازی نہیں ہیں تو یہ آپکو بتاتا چلوں کہ یہ ڈھیڈی اور غور نی دونوں نیازی پٹھان میں آ جاتی ہیں سو پلیز اپڈیٹ 💝
آپکی معلومات درست نہیں ہیں۔۔۔دونوں نیازی کی شاخ نہیں ہیں
صفحہ نمبر 826 پر شیرخان (شیرخیل) قوم لکھی ہوئی ہے اور اسکے ساتھ لکھا ہوا ہے کہ شجرہ مطلوب ہے اس میں میں آپکی کوئی مدد کر سکتا ہوں کیا ؟
جی بلکل آپکا تعاون ہمارے لئے بہت اہم ہے۔نیازی پٹھان قبیلہ فیس بک پیج پر رابطہ کریں ۔شکریہ