شجرہ و تاریخ قبیلہ محب خیل

تعارف؛

قبیلہ محب خیل میانوالی میں آباد نیازی پٹھانوں کا ایک مشہور و معروف قبیلہ ہے اس نے کافی نامور شخصیات کو پیدا کیا ہے. کیونکہ اس قبیلے کے لوگ روکھڑی گاؤں میں رہتے ہیں اور جناب خان بہادر محمد حیات خان سمند خیل نے اپنے نام کے ساتھ اپنے گاؤں روکھڑی کا لاحقہ لگا کر اسے شہرت عطاء کی تبھی اب زیادہ تر اس قبیلے کے لوگ اپنے نام کے ساتھ عموماً روکھڑی کا لاحقہ لگاتے ہیں۔

تاریخ؛

تری بن زکو بن بھرت کے دو بیٹے تھے ایک بھرت ثانی دوسرا محب خان..
بھرت ثانی کی اولاد پر ہم ممکزئی اور تری خیل قبائل کے آرٹیکلز میں روشنی ڈال چکے ہیں
یہاں پر صرف محب خیلوں کے بارے میں بحث ہوگی..
اقبال خان نیازی صاحب کے مطابق جب دیگر سرہنگ قبائل لکی مروت سے براستہ درہ تنگ مشرق کی طرف نکلے تو تری خیلوں(بشمول محب خیلوں) نے اولین پڑاؤ عیسٰی خیلوں سے شمالی جانب پہاڑوں کے دامن میں ڈالا یہیں سے کچھ لوگ ہجرت کرکے موجودہ کرک، ہنگو اور کوہاٹ تا پشاور چلے گئے. بعد میں تری خیل قبیلہ نے دریائے سندھ کو عبور کیا جہاں پر تری خیل قبیلہ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا. محب خان نیازی جو کہ دراصل تری خان نیازی کا پڑ پوتا تھا اسکی اولاد نے اپنی الگ راہ لیتے ہوئے ایک قبل از مسیح کے زمانہ سے آباد گاؤں جس کے کھنڈرات آج بھی آرکیالوجیکل ڈیپارٹمنٹ والوں کی راہ تک رہا ہے میں اپنی نئی آباد کاری کی. جبکہ بقیہ تری خیل قبیلہ کوہ نمک میں بمقام غنڈی آباد ہوئے.
یہ قدیمی گاؤں روکھڑی اس وقت کس نام سے منسوب تھا یہ معلوم نہیں ہوسکا لیکن گزشتہ تین سو سال سے تو اس کا نام روکھڑی ہی چلا آتا ہے.
اس زمانے میں روکھڑی پر ہندو، گکھڑ، جٹ، اعوان و دیگر پنجابی و سرائیکی بولنے والی اقوام کا قبضہ تھا.. لیکن احمد شاہ درانی کے حملوں کے دوران کیونکہ نیازی پشتون اس کے حلیف اور لشکری تھے تبھی یہاں سے پیش رو اقوام کی بالادستی کو ختم کردیا گیا اور روکھڑی کا علاقہ بھی محب خیلوں کی عملداری میں آگیا.
تری خیل قبیلہ میں اٹھارہویں صدی میں سردار ہاتھی خان اور سردار دلیل خان نامور ہوئے جنھوں نے درانی حکومت کے زمانے میں تری خیلوں کے وجود کو یہاں پر استحکام بخشا..
بعدازاں سکھا شاہی کے زمانے میں سردار سمند خان نے محب خیل قبیلہ کی سرداری سنبھالی. سمند خان  جفاکش اور نڈر شخصیت کے مالک تھے جب سکھوں نے درانی سلطنت کی کمزوری کو دیکھتے ہوئے دیگر علاقوں کی طرح میانوالی پر حملہ کردیا. تو سردار سمند خان نیازی نے بھی سکھوں کے خلاف جہاد کا عَلم بلند کیا. باوجود ہر قسم کی تحریص اور لالچ کے انھوں نے سکھوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا. حالانکہ سکھ راجہ کی طرف انھیں بڑی جاگیر دینے کی خواہش ظاہر کی گئی. اس زمانے میں کئی اپنے لوگ سکھوں کے ہمنوا بھی بنے ہوئے تھے لیکن حریت پسند سردار سمند خان نیازی نے مزاحمت کی راہ نہ چھوڑی. کیونکہ سکھوں کی باقاعدہ سلطنت تھی او ایک منظم فوج تھی تبھی جبکہ دوسری طرف سردار سمند خان ایک چھوٹے سے قبیلہ کے سردار تھے جس کے پاس نہ کوئی منظم فوج تھی نہ ہی کوئی قلعہ لہذا وہ سکھوں کے خلاف گوریلا جنگ لڑتے رہے. انھوں نے اپنی جدی پشتی زمین پر ایک پانی کا کنواں بھی کھدوایا جسکے ساتھ ایک اونچا سا نگرانی والا چبوترہ بھی بنوایا جہاں سے سکھوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جاتی تھی. اس کنوئیں کے آثار آج بھی موجود ہیں.جو آج بھی موضع سمند والا کہلاتا ہے۔امیر عبداللہ خان روکھڑی نے ۔اسی اپنے جد کے نام پر ایک ریلوے اسٹیشن سمند والا بنوایا
جب سردار سمند خان کا انتقال 1860ء میں ہوا تو اب سردار سمند خان کا بیٹا سردار شیر خان قبیلہ میں نامور ہوا.
سکھوں کی پٹھانوں سے دشمنی کوئی چھپی ہوئی نہیں تھی تبھی جب سکھ میانوالی میں آئے تو انہوں نے نیازی پٹھانوں کے برخلاف کالاباغ کے اعوانوں اور میانوالی شہر کے میانوں کو مقابل کھڑا کرنے کیلئے مضبوط کیا ادھر سے خوشاب کے ٹوانے بھی ساتھ ساتھ تھے.
یہ میانے اور ٹوانے پٹھانوں کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں لگے رہتے جب سکھوں کی حکومت ختم ہوئی تو یہ میانے، اعوان اور ٹوانے انگریز کی چھتری کے نیچے پہنچ گئے.

 

قبر سردار شیر خان شہید

سردار شیر خان کی ان ٹوانوں اور میانوں سے کسی بات پر ان بن ہوگئی. بات سرکار تک پہنچ گئی. سرکار نے ٹوانوں کے ایما پر سردار شیر خان کو گرفتار کرنے کیلئے سپاہی بھیجے. لیکن شیر خان نے ان سپاہیوں کو قتل کر دیا اور خود علاقہ لکی مروت فرار ہوگیا. جہاں وہ روپوش ہوکر رہنے لگا. وہاں پر سردار شیر خان نے مروتوں میں شادی بھی کر لی. لیکن اس کا تعلق کیونکہ روکھڑی میں اپنے گاؤں سے بھی جڑا ہوا تھا.
پس مخبروں نے آپکے دشمنوں کو خبر دی جسکے نتیجے میں آپ شہید ہوگئے.

شخصیات؛

اس قبیلے نے کئی نامور شخصیات پیدا کیں جیسا کہ اوپر ہم نے سردار سمند خان، سردار شیر خان، سردار ہاتھی خان، سردار کرم داد خان و سردار آدم خان وغیرہ.

 

ڈسٹرکٹ بورڈ میانوالی کت ممبران، بائیں سے دائیں پہلی قطار میں ساتویں نمبر پر داڑھی والے محمد حیات خان نیازی،جبکہ چھٹے نمبر پر خان آف عیسی خیل غلام قادر خان نیازی موجود ہیں۔

انگریزوں کے زمانے میں خان بہادر محمد حیات خان روکھڑی نے کافی نام کمایا ضلع میانوالی کے معززین میں آپکا شمار ہوتا تھا اور ایک بہت بڑے جاگیر دار تھے. آپ نے جنگ عظیم اول کے دوران سپاہیوں کی بھرتی کیلئے کافی کردار ادا کیا. حکومت برطانیہ نے آپکو آنریری مجسٹریٹ کا عہدہ دیا. اس کے علاوہ نمبردار خان زمان خان بھی انگلش سرکار کے عہد میں نامور شخصیت کے طور پر گزرے ہیں۔

خان امیر عبداللہ خان روکھڑی

خان صاحب 10 جون 1916ء کو خان بہادر خان محمد حیات خان کے گھر پیدا ہوئے. امیر عبداللہ خان روکھڑی نے تحریک پاکستان اور پاکستانی سیاست کا ایک معروف نام ہے. دوسری جنگ عظیم کے دوران آپکو انگریزی سرکار نے اعزازی ریکروٹنگ آفیسر بھی تعینات کیا عمدہ کارکردگی کے عوض آپکو خان صاحب کا خطاب بھی عطاء کیا. جبکہ آپ نے سیاست کا آغاز اپنے دور طالبعلمی سے کرتے ہوئے مسلم اسٹوڈنٹ فیڈریشن کو جوائن کیا. 1946ء میں جب کلکتہ میں مسلم ہندو فسادات میں سینکڑوں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا تو مسلم لیگ نے 16 اگست 1946ء کو قیام پاکستان کے حصول کی کوششوں کو تیز کرنے کیلئے یوم راست اقدام منانے کا فیصلہ کیا.

 

امیر عبداللہ خان روکھڑی جوانی کی ایک تصویر

اس ردعمل کے طور پر پورے ہندوستان میں مسلمانوں نے زبردست مظاہرے شروع کئے. اسی وجہ سے میانوالی میں بھی زبردست مظاہرے شروع ہوگئے کئی افراد کو پکڑ کر قید کر دیا گیا لیکن امن عامہ کی صورت حال مخدوش ہوتی جا رہی تھی. اسی دوران ضلع میانوالی کی کچہری کے باہر مسلم اسٹوڈنٹ فیڈریشن نے احتجاج کیا اسی دوران خان امیر عبداللہ خان روکھڑی اچانک جوش و ولولہ سے لبریز ہوکر ڈپٹی کمشنر آفس کی چھت پر جا پہنچے اور انگریزی جھنڈا اتار کر پاکستان کا جھنڈا لہرا دیا.
یہ انگریزی حکومت کی سخت توہین تھی. جسکی وجہ سے انگریز آپکے پیچھے پڑ گئے اور آپ کو گرفتار کر کے آپکے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا. لیکن کیونکہ یہ پورے ہندوستان میں ہونے والی جلسوں کی شدید لہر تھی تبھی آپ بھی بطور سیاسی قیدی بعد میں رہا ہوگئے.
امیر عبداللہ خان روکھڑی نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے 1946ء کا الیکشن بھی لڑا لیکن وہ اپنے ہم نام خان صاحب امیر عبداللہ خان بلچ (سردار سبطین خان کے دادا) سے محض چند سو ووٹوں سے ہار گئے. لیکن جب ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی درخواست دی تو جیت آپ کی ہوئی اسطرح آپ پہلی بار پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے.
جب ایوب خان نے ون یونٹ کا قیام کیا تو اس وقت آپ مغربی پاکستان اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے. لیکن جب ایوب خان نے ایبڈو ایکٹ لگایا تو دیگر جاگیر سیاستدانوں کی طرح آپ بھی کسی بھی سیاسی سرگرمیوں کیلئے نااہل قرار دے دیئے گئے.
آپ نے 1970ء کے انتخابات میں فنکشنل لیگ کے پلیٹ فارم سے صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور پنجاب اسمبلی کے ممبر بننے میں کامیاب ہوئے. 1977ء میں آپ نے آزادانہ حیثیت سے انتخاب لڑا اور قومی اسمبلی کے ممبر بننے میں کامیاب ہوئے اس انتخابات میں آپکو پیپلزپارٹی کی حمایت حاصل تھی جبکہ مقابلہ میں مولانا عبدالستار خان نیازی تھے جنھیں شکست ہوئی.
ان انتخابات کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک چلی جس کے نتیجے میں ملک میں مارشل لاء نافذ ہوگیا. سیاسی نظام جمود کا شکار ہوگیا.

 

امیر عبداللہ خان روکھڑی بڑھاپے میں

جب 1985ء میں غیر جماعتی الیکشن ہوئے تو آپ نے سینٹ کا الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے. جبکہ 1988ء میں دوبارہ سینٹ کے الیکشن ہوئے تو آپ اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ سے ایک بار پھر سینٹر منتخب ہوئے. جب 1991ء میں سینٹ کے انتخابات ہوئے تو پھر اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے تیسری بار پھر سینٹر مقرر ہوئے. جب 1994ء میں سینٹ کے انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے چوتھی بار پھر سینٹر بنے جو کہ 1997ء تک ممبر رہے. بعدازاں آپ نے خرابی صحت کے باعث سیاست سے کنارہ کشی کر لی اور 02 دسمبر 2001ء میں وفات پائی.
آپ نے اپنے حلقے میں کافی سیاسی و سماجی کام کروائے جس میں تری خیل لفٹ ایریگیشن جیسا ایک زبردست منصوبہ ہے جسکی وجہ سے ہزاروں ایکٹر رقبے کو نہری اپنی میسر آیا جس سے ہزاروں افراد کے روزگار میں اضافہ ہوا
اس کے علاوہ آپ نے خوانین عیسٰی خیل کے مقابلے میں ایک نئی ٹرانسپورٹ کمپنی کی نیو خان کی بنیاد رکھی.

 

عامر حیات خان روکھڑی

اس نام کا مقصد عیسٰی خیلوں اور اہلیان میانوالی کو ایک پیغام تھا کہ فقط یہاں سرداری صرف عیسٰی خیل خوانین کی نہیں ہے بلکہ ایک اور نیا خان یعنی سردار بھی ابھر چکا ہے. اس کا پس منظر یہ ہے کہ نواب آف کالاباغ، خوانین عیسٰی خیل کی سیاسی قوت کے آگے بے بس تھے تبھی انھوں نے خوانین عیسٰی خیل کی سیاسی قوت کو کم کرنے کیلئے امیر عبداللہ خان روکھڑی کا بھرپور ساتھ دیا. یہ نیو خان بس سروس ایشیا کی سب سے بڑی ٹرانسپورٹ کمپنی بنی. جب تک خان صاحب خود منتظم رہے نیو خان پورے پاکستان کی سڑکوں پر راج کرتی تھی. لیکن جب انکے بیٹے عامر حیات خان نے انتظام سنبھالا تو خوشامدی ٹولا نے انھیں گھیر لیا. آہستہ آہستہ فقط ایک عشرے کے اندر ہی نیو خان محدود ہوکر میانوالی تک رہ گئی. خان صاحب کے پوتے عادل عبداللہ نے کوشش کی لیکن وہ کوششیں فی الحال کارگر نظر نہیں آتیں. لگتا ہے اب نیو خان ماضی کا حصہ بن چکی ہے..

جس روکھڑی گروپ کی بنیاد امیر عبداللہ خان روکھڑی کے والد محمد حیات خان نے رکھی تھی. امیر عبداللہ خان روکھڑی کی وفات کے بعد اس کو امیر عبداللہ خان روکھڑی کے بھانجے گل حمید خان روکھڑی نے سنبھالا. کیونکہ امیر عبداللہ خان روکھڑی کے صاحبزادے جناب عامر حیات خان روکھڑی زیادہ عوامی طبعیت نہیں رکھتے تھے. اور انکی صحت بھی کچھ خراب رہتی تھی 2012ء میں عامر حیات خان روکھڑی بھی عارضہ قلب کا شکار ہوکر وفات پا گئے.عامر حیات خان روکھڑی سابق صدر ایوب خان کے بیٹے اختر ایوب خان کے داماد تھے. عامر حیات خان روکھڑی کی وفات کے بعد انکے صاحبزادے عادل عبداللہ خان روکھڑی نے خاندانی سیاست کو سنبھالا اور والد کی سیٹ پر ضمنی انتخاب لڑ کر کامیابی حاصل کی. اسکے بعد وہ دو مرتبہ الیکشن لڑ چکے ہیں لیکن عمران خان کے سیاسی سحر کی وجہ سے فی الحال انکا سورج بھی گہنایا ہوا ہے. اور کوشش میں ہیں کہ پی ٹی آئی کا ٹکٹ مل جائے.

گل حمید خان روکھڑی؛

جناب گل حمید خان روکھڑی خان صاحب امیر عبداللہ خان روکھڑی کے بھانجے تھے اور سردار شیر خان کی اولاد سے تھے
آپ 01 جنوری 1936ء میں پیدا ہوئے.

 

گل حمید خان روکھڑی جوانی میں

آپ نے قانون کی ڈگری حاصل کی کچھ عرصہ سرکاری ملازمت بھی کی. جب ایوب خان نے امیر عبداللہ خان پر سیاسی سرگرمیوں کی پابندی لگائی تو امیر عبداللہ خان روکھڑی نے میدان سیاست میں روکھڑی گروپ کی طرف سے اپنے بھانجے گل حمید خان روکھڑی کو اتارا. جس کے نتیجے میں وہ میانوالی سے بی ڈی ممبر منتخب ہوئے.
بعدازاں آپ نے 1965ء کے انتخابات میں مغربی پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کا الیکشن جیتا اور ممبر منتخب ہوئے.
جب 1985ء میں انتخابات ہوئے تو آپ پنجاب اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے. 1988ء میں ایک بار پھر جیت کر پنجاب اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور صوبائی وزیر خوراک مقرر ہوئے
آپ نے 1990ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی و صوبائی دونوں نشستوں کا الیکشن لڑا جسکے میں کامیابی حاصل کی. صوبائی اسمبلی کی سیٹ چھوڑ کر قومی اسمبلی کی نشست کو برقرار رکھا. اسکے بعد آپکے مقابلے میں حاجی اکرام اللہ خان پائی خیل جیسی عوامی شخصیت مقابلے میں آئی جس نے آپکو لگاتار دوبار شکست دی جس کے قتل محرکات میں آپکا نام آتا ہے کیونکہ وہ آپکے سیاسی کیریئر کیلئے ایک بھیانک خواب بن چکے تھے. ان کے قتل کے بعد آپ ایک بار پھر2001ء میں دو صوبائی اسمبلی حلقوں کا الیکشن لڑا دونوں میں کامیاب ہوئے بعد ازاں پی پی چوالیس کا حلقہ چھوڑ کر پی پی پینتالیس کی نشست اپنے پاس رکھی. اور وزیر مال مقرر ہوئے. اس کے بعد آپکے سیاسی کیریئر پر عمران خان کا سایہ پڑ گیا جسکے نتیجے میں آپکو پھر دو بار الیکشن میں شکست ہوئی. لیکن آپ نے سیاسی عقل کا استعمال کرتے ہوئے 2018ءمیں ضلع کونسل کے چیئرمین مقرر ہوئے. باوجود اس کے کہ ضلع کونسل میں اکثریت پی ٹی آئی ممبران کی تھی. آپ کا انتقال84 برس کی عمر میں23 جولائی 2020 کو ہوا.

 

گل حمید خان روکھڑی

آپ مفاہمت کی سیاست کرنے کے قائل تھے میانوالی کے ایک منجھے ہوئے سیاستدان تھے
روکھڑی گروپ کی جڑوں کو مضبوط کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا. آپ نے میانوالی میں عوامی سیاست کو رواج دیا اور بطور ممبر اسمبلی سینکڑوں اجتماعی کام کروائے. کئی دشمنیوں کو دوستیوں میں بدلا. کوآپریٹو بینک کے تاحیات صدر کے طور ذمہ داریاں بھی سرانجام دیتے رہے.

 

بیرسٹر حمیر حیات خان روکھڑی

گل حمید خان روکھڑی کی ایک دختر چوہدری ظہور الٰہی کے فرزند اور چوہدری شجاعت حسین کے بھائی چوہدری شفاعت حسین کی زوجہ ہیں. جبکہ آپ کا واحد بیٹا حمیر حیات خان روکھڑی اس وقت آپکا سیاسی جانشین اور روکھڑی گروپ کا روح رواں ہے.

 

1903 خان مہر خان،خان شاہنواز خان

اس کے علاوہ قبیلہ محب خیل نے کافی اور بھی نامور شخصیات پیدا کیں جن میں
اصغر عزیز خان روکھڑی،خان مہر خان،خان شاہنواز خان، خان حمید اللہ خان(ایس پی)، امیر عمر خان (ڈی ایس پی)، عبدالعزیز خان نیازی (بانی قرطبہ یونیورسٹی پشاور)، حاجی امان اللہ خان نیازی، سردار ربنواز خان، سردار حاکم خان، سردار ربنواز خان ثانی،

 

خان حمیداللہ خان نیازی علیگ،ایس پی

میجر خرم حمید خان روکھڑی ،حضرت مولانا احمد خان نیازی، حاجی اسلم خان نیازی، عطاء اللہ خان روکھڑی، حکمت یارخان روکھڑی، کبریا خان (ڈپٹی ڈائریکٹر ایگریکلچر کشمیر)، شاہنواز خان شہید (تمغہ جرات)، شفاء اللہ خان روکھڑی (گلوکار)، ڈاکٹر فاروق خان، حبیب اللہ خان (شہید کشمیر)، ڈاکٹر یزدانی خان، وغیرہ شامل ہیں.

ذیلی شاخیں؛

سمند خیل، ہاتھی خیل، سیدو خیل، کلہ خیل، شیر خیل، کورٹانے خیل، مظفر خیل، نجابت خیل، عیسب خیل، دریہ خیل، ملوک خیل شامل ہیں.

نوٹ؛

یہ بات یاد رہے کہ زیر دستیاب شجرہ جات صرف وہ ہیں جو تاریخ نیازی قبائل کتاب کے مؤلف حاجی اقبال خان نیازی صاحب مرحوم نے اپنی کوشش سے اکھٹے کئے یا جن لوگوں نے ذاتی دلچسپی لیکر کر شجرے بنا کر ان تک پہنچائے.ان شجروں کو قطعی طور پر مکمّل نہ سمجھا جائے کیونکہ یہ چند سو افراد کے شجرے ہیں جبکہ قبیلے کی آبادی ہزاروں افراد پر مشتمل ہے.. اگر کسی کا زیر دستیاب شجرے میں نام موجود نہیں تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ نیازی نہیں یا محب خیل نہیں. بلکہ یہ انتہائی محدود افراد کے شجرے ہیں جو مؤلف کو دستیاب ہوئے وہ شامل کردیئے۔

ایڈمن نیازی پٹھان قبیلہ

www.NiaziTribe.org

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

4 تبصرے “شجرہ و تاریخ قبیلہ محب خیل

      1. شہباز خان کاشجرہ آپ نے نہیں دیا اس کا سلسلہ نمبر 2 موجود نہیں ۔آگر موجود ہے تو اس نمبر پہ بیھج دیں۔03469620446

اپنا تبصرہ بھیجیں