شجرہ و تاریخ قبیلہ عیسٰی خیل.

تعارف ؛

قبیلہ عیسٰی خیل نیازیوں کا سردار قبیلہ ہے جو ضلع میانوالی کی تحصیل عیسٰی خیل،بنوں،لکی مروت، جڑانوالہ (فیصل آباد.)،کچہ کھوہ خانیوال، شاہ پور (سرگودھا)، کوٹ سامبا (رحیم یار خان) کے علاوہ لاہور، ملتان اسلام آباد، کراچی حتیٰ کہ کینیڈا، امریکا و برطانیہ تک  آباد ہے.

تاریخ ؛

جتنی شاندار و طویل تاریخ عیسٰی خیل قبیلہ رکھتا ہے اس کیلئے ایک مکمّل کتاب کی ضرورت ہے. مگر بدقسمتی سے خوانین عیسٰی خیل کے لوگ جو مالی و علمی لحاظ سے لبریز ہیں کسی نے آج تک اس طرف کوئی توجہ نہیں دی کے عیسٰی خیلوں کی تاریخ اور ورثہ کو محفوظ کیا جا سکے. سننے میں آیا ہے کہ کرنل (ر)احمد خان نیازی صاحب کے پاس ریکارڈ ہے اور وہ اس میں دلچسپی رکھتے ہیں. مگر وہ ریکارڈ کبھی منظر عام پر فی الحال لایا نہیں گیا. بلکہ شیشے کی الماریوں میں ٹھنڈے اور عالی شان کمروں میں بس دور سے دیکھنے کیلئے شاید موجود ہو جہاں میرے جیسے سادہ بندے کو قدم بھی رکھنے کی کوئی اجازت نہ دے چہ جائیکہ اس کو دیکھنا اور پڑھنا تو دور کی بات.. یہ گلہ شکوہ اس لئے کے ابھی بھی وقت ہے خوانین عیسٰی خیل اس بارے متوجہ ہوں اور ریکارڈ کو محفوظ کریں..

انیسیویں صدی میں عیسٰی خیل کا نقشہ

اب ہم عیسٰی خیل قبیلہ کی تاریخ پر بیان کرتے ہیں جو یقیناً بہت طویل ہے لیکن ہم کوشش کریں گے کہ مختصراً اس آرٹیکل میں جتنا ممکن ہو الفاظ کے قالب میں ڈھال کر قارئین تک پہنچا دیں..
پشتونوں کی تاریخ پر سب سے اولین کتاب مخزن افغانی(زمانہ تالیف 1612ء) کے مطابق نیازی بابا کے بڑے بیٹے جمال کی اولاد میں کم و بیش تین عیسٰی خیل قبیلوں کا ذکر کیا گیا ہے.
لیکن حیات افغانی(زمانہ تالیف1864ء) کے مصنف نے مخزن افغانی کے برعکس ایک نیا ہی شجرہ بنا کر پیش کیا.

مخزن افغانی میں درج شجرہ


جس میں عیسٰی خیل کا شجرہ ہی کچھ منفرد ہوگیا. اس کے ساتھ ایسے ایسے قبائل کے نام بھی لکھ دیئے جن کے وجود کے شواہد آج تک کہیں اور نہیں ملے اور نہ ہی اس جدید دور میں اتنی چھان پھٹک کرنے کے باوجود نہ تو انکا کوئی ریکارڈ اقبال خان نیازی صاحب کو ملا نہ ہمیں افغانستان میں ملا. جبکہ آج ہم افغانستان کے نیازیوں سے مسلسل رابطے میں ہیں..

ہندوستان میں وارد ہونے والا پہلا پٹھان قبیلہ؛

یوں تو افغانوں کی ہندوستان آمد کا سلسلہ محمود احمد غزنوی کے حملوں کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا. میجر ریوارٹی کے مطابق محمود احمد غزنوی کا ایک افغان سردار جس کا نام ملک خاکو تھا دراصل وہی خاکو بن نیازی تھا۔لیکن افغانوں کی ہندوستان آمد اور آباد کاری کے آثار ہمیں غیاث الدین بلبن کے عہد سے ملنا شروع ہوتے ہیں جب اس نے ترک امراء کی طاقت میں توازن قائم کرنے کیلئے افغان امراء کو مقرر فرمانا شروع کیا. جس کے نتیجے میں دہلی کے قریب افغان پورہ نام کی بستی قائم ہوئی. لیکن یہ سب لوگ انفرادی حیثیت میں آئے تھے.

حیات افغانی میں درج عیسیٰ خیلوں کا شجرہ


مگر ہمیں مخزن افغانی سے پتہ چلتا ہے کہ جب 1398ءمیں تیمور نے دہلی پر حملہ کیا تو اس زمانے میں درہ گومل کے نواح میں نیازی قبیلے کے لوگ موجود تھے جہاں سے ایک نیازی سردار ملک  حبیب نیازی کی قیادت میں نیازی لشکر بھی تیمور کی فوجوں میں شامل ہوکر دہلی پر حملہ آور ہوا.
یقیناً اس کے بعد نیازی جو اس وقت خانہ بدوش زندگی گزارتے تھے درہ گومل سے براستہ ٹانک آگئے جہاں سے وہ مزید آگے بڑھ کر موجودہ لکی مروت میں دریائے گمبیلہ و دریائے کرم کے درمیانی زرخیز علاقے میں آباد ہوگئے. میرے خیال میں یہاں آمد اور آباد کاری بہلول لودی بادشاہ کے ایما پر کی گئی ہوگی جس نے افغانستان میں افغان سرداروں کو خطوط لکھ کر ہندوستان آنے کی دعوت دی. اور نیازیوں کو یہاں آباد کیا تاکہ وہ ہندوستان پر آنے والے حملہ آوروں کو پہلی دفاعی لائن کے طور پر روک سکیں.
جب 1505ء میں بابر بادشاہ کوہاٹ سے ادھر کو آیا تو یہاں پر اس کا سامنا عیسٰی خیلوں سے ہوا.
جس کو مغل بادشاہ بابر کچھ اسطرح بیان کرتا ہے.

“بنگش (یعنی کوہاٹ کی حدود) سے نکلتے ہی ہمیں بنوں دکھائی دیا یہ مقام صاف میدان ہے اس کے شمال میں بنگش (کوہاٹ) اور بنوں کا پہاڑ ہے. بنگش کی ندی (دریائے کرم) بنوں سے ہوتی ہوئی آتی ہے. بنوں کا علاقہ اسی دریا سے سیراب ہوتا ہے. اس کے جنوب میں چوبارہ (یعنی کوہ نیلہ) اور دریائے سندھ ہے. مشرق میں دینکوٹ (یعنی کالاباغ) مغرب میں دشت ہے جس کو دارو تاک (غالباً یہاں داوڑ و ٹانک مقصود تھا) بھی کہتے ہیں. اس ملک میں کرانی، کیوی، سورانی، عیسٰی خیل و دیگر نیازی قبیلے کے افغان آباد ہیں.”

مزید آگے چل کر لکھتا ہے کہ۔۔۔

“جب بنوں پر ہم قبضہ کر چکے تو واقف کار لوگوں نے عرض کی کہ ایک دشت (صحرائی علاقہ) قریب ہے. (موجودہ لکی مروت جو صحرائی علاقہ ہے). وہاں کے لوگ خوشحال ہیں جگہ اچھی ہے. یوں دشت پر حملہ کرنے کی صلاح منظور ہوئی اور صبح ہی ہم نے دشت کی طرف سفر شروع کیا. اسی دریا (یعنی کرم) کے کنارے پر موضع عیسٰی خیل میں اترے. عیسٰی خیل کے لوگ ہماری (یعنی بابر بادشاہ کے لشکر کی) آمد سن کر چوبارہ (یعنی کوہ نیلہ) کے پہاڑوں میں بھاگ گئے. اس موضع سے کوچ کرکے ہم پہاڑ کے دامن میں جا اترے. جہاں فوج کا ایک دستہ پہاڑ میں داخل ہوگیا اور عیسٰی خیلوں کے ایک مورچہ کو فتح کرکے واپس آگیا. عیسٰی خیلوں کی بکریاں و دیگر اسباب لوٹ کر لے آیا. اسی رات عیسٰی خیلوں نے شب خون مارنا چاہا. لیکن وہ ناکام رہے. اسی خطرے کے ڈر سے بطورِ پیش بندی تمام فوج رات کو مسلح و ہتھیار بند رہی اور رات کو حفاظتی گشت بھی جاری رکھا. پوری رات کوئی سو نہیں پایا. “

اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہاں عیسٰی خیل و دیگر نیازی اقوام موجود تھیں جنھوں نے بابر بادشاہ کی جارحیت کا نہ صرف مقابلہ کیا بلکہ پلٹ کر وار بھی کیا. یقیناً کوئی بھی شخص وہ بھی جبکہ بادشاہ ہو اپنی ناکامیوں کا بیان نہیں کرتا ہوتا. یہ جو بابر بادشاہ کا بیان ہے کہ پوری رات چوکس و ہوشیار رہے اور عیسٰی خیلوں کا حملہ ناکام بنایا یہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ بابر بادشاہ عیسٰی خیلوں کے جوابی حملہ سے کتنا خوفزدہ تھا اور پھر یقیناً جب عیسٰی خیلوں نے حملہ کیا ہوگا تو شدید نقصان بھی پہنچایا جس کے سبب اگلے ہی روز بابر بنا کسی جوابی کارروائی کے یا عیسٰی خیلوں کو تباہ کرنے کے جلد سے یہاں سے نکل گیا. کیونکہ اس کو پتہ تھا یہاں مزید الجھا تو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے. کیونکہ یہی بابر جب بنوں پرحملہ آور ہوا تو وہاں پر بیچارے بنوچیوں کا قتل عام کیا اور انکے سروں سے پہاڑ بھی بنوائے.
یاد رہے کہ اس زمانے میں سنبل نیازی بھی ہندوستان آ چکے تھے جو کہ عیسٰی خیلوں کے بھائی بند تھے. ان بھی یہاں آبادی موجود تھی. جن کا ذکربعد کی کتابوں میں ملتا ہے. جو کہ دینکوٹ (یعنی کالاباغ) میں آباد تھے.
جبکہ سرہنگ نیازی ابھی ٹانک و گومل میں گھوم رہے تھے.


بعدازاں عیسٰی خیل نیازیوں نے درہ تنگ کو عبور کرکے آرمتے والا کے اردگرد آباد کاری کی. جہاں سے پھیل کر مسیت والا کے مقام پر آباد ہوئے جس کا پرانا نام پشتو زبان میں ٹپئی میلہ رکھا جسے ٹیٹا مینا بھی کہتے ہیں.
یہاں پر اگلے کئی سالوں تک عیسٰی خیل آباد رہے. پھر جب پیچھے سے موشانی نیازی بھی آن پہنچے تو انھیں عیسٰی خیلوں نے یہاں آباد کاری سے روکتے ہوئے دریائے سندھ کی جانب آگے جا کر موجودہ جگہ آباد ہونے کا کہا. جہاں آج بھی موشانی آباد ہیں. موشانیوں کے بعد پیچھے سے سرہنگ نیازی آن پہنچے جو لکی مروت میں بطورِ مستقل سکونت کا ارادہ رکھتے تھے مگر کثرت تعداد کے باعث سرہنگ نیازیوں کی شاخ ادریس ادھر آن نکلی جب اس نے دیکھا کہ دریائے سندھ کا مغربی کنارے پر تو کوئی جگہ نہیں بچی وہ دریائے سندھ پار کرکے موجودہ سوانس پر جا آباد ہوئے.
جبکہ مچن خیل ،مہیار، ہیدر، باہی اور سرہنگ کی شاخ بھرت بدستور علاقہ مروت میں آباد رہی.
لودھیوں کے زمانے میں عیسٰی خیلوں کے لوگوں نے کافی تخت دہلی کی خدمت کی لیکن  بہلول لودی کے دل میں نیازیوں بارے بدشگونی قائم تھی چونکہ اس کے باپ کو سنبل نیازیوں نے قتل کیا تھا تبھی وہ خدشات کے سبب نیازیوں کو باوجود قابلیت کے اعلیٰ عہدے دینے سے کتراتا رہا. اور یہی وصیت اپنے بیٹے سکندر لودھی کو بھی کر کے گیا.
لیکن جب ابراہیم لودھی کا زمانہ آیا تو اس وقت نیازیوں کو اعلیٰ عہدے ملنا شروع ہوئے جس میں تاریخ فرشتہ کے اس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ جب بابر بادشاہ ابراہیم لودھی کو شکست دے چکا تو دیگر علاقوں پر جب قبضہ کرنے کا سوچا تو ہندوستان کے علاقے سنبھل کے قلعہ کا کمانڈر ہیبت خان نیازی تھا. جو بعدازاں وہاں سے فرار ہوکر بہار میں بہادر خان لوہانی کے پاس جا پہنچا.
اور جب پھر شیر شاہ سوری ابھرا تو اسکے ساتھ مل کر مغلوں کو ہندوستان سے نکال باہر کیا.

کیا عیسٰی خیل قبیلہ جنرل عیسٰی خان نیازی کی اولاد ہے؟

انیسویں صدی میں لکھی جانے والی کتاب حیات افغانی سے لیکر اکیسویں صدی کے شروع میں لکھی جانے والی کتاب تاریخ نیازی قبائل تک بشمول تاریخ و خورشید جہاں، صولت افغانی، شوکت افغانی حیات لودھی وغیرہ تمام کتابوں کے مصنفین نے موجودہ عیسٰی خیل قبیلہ کو شیر شاہ سوری کے زمانے میں مامور ہونے والے جنرل مسندِ عالی عیسٰی خان نیازی کی اولاد قرار دیا.
لیکن نیازی قبیلے کی داستان کے مصنف غلام اکبر ملک،دی ہسٹری آف پٹھان کے مصنف برگیڈیر ہارون الرشید اور ہم اس بات سے اتفاق نہیں کرتے.
کیونکہ اگر ہم جنرل عیسٰی خان نیازی کو اگر عیسٰی خیل قبیلہ کا مورث اعلیٰ تسلیم کرتے ہیں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس عیسٰی خیل قبیلہ کا ذکر تزک بابری میں ملتا ہے وہ کس عیسٰی خان کی نسبت سے عیسٰی خیل کہلاتا تھا؟؟

کیونکہ جس انداز میں تزک بابری میں اس قبیلے کا ذکر کیا گیا ہے اس سے صاف ہوتا ہے کہ وہ 1505ء میں بھی بھرپور افرادی قوت کا حامل تھا اور یہ صرف اسی صورت ممکن ہے کہ اُن کا مورث اعلیٰ عیسٰی خان کا زمانہ1505ءے کم از کم پندرہ بیس پُشت پہلے کا ہو یعنی غزنوی یا غوری بادشاہوں کے زمانہ حکومت کے لگ بھگ ہونا چاہیے. ہاں البتہ یہ بات تسلیم کرسکتے ہیں کہ شیر شاہ سوری کے جرنیل عیسٰی خان نیازی کا تعلق عیسٰی خیل قبیلہ کی کسی ذیلی شاخ سے ہو.
ایک اور دلیل یہ بھی ہے کہ اگر بالفرض شیر شاہ سوری کا جرنیل عیسٰی خان ہی عیسٰی خیلوں کا جد امجد ہوتا تو یقیناً مخزن افغانی بھی اس کا بیان کرتا کیونکہ مخزن افغانی جب شیر شاہ سوری کے جرنیل عیسٰی خان نیازی کی تاریخ اتنی مفصّل لکھ سکتا تھا تو یہ ایک معمولی سی بات کیونکر نہ لکھی جیسے کہ عیسٰی خان سروانی کے خاندان کی وضاحت شجرہ میں دی.

کیا عیسٰی خان نیازی اور ہیبت خان نیازی بھائی تھے؟

جیسا کہ ہمارے پیش رو مؤرخین کی اکثریت شیر شاہ سوری کے جرنیل عیسٰی خان کو غلط طور پر قبیلہ عیسٰی خیل کا جدا جدا قرار دیتی چلی آتی رہی ہے ویسے ہی انھی مصنفین نے شیر شاہ سوری کے ایک نیازی جرنیل ہیبت خان نیازی کو عیسٰی خان نیازی کا بھائی بنا دیا..
حالانکہ یہ بات بھی پہلی بات کی طرح مکمّل طور پر غلط ہے. جس کی دلیل میں ہم یحییٰ کبیر حزیانی کی کتاب افسانہ شاہان (تالیف شد 1612ء ) سے دیتے ہیں.
جس کے صفحہ نمبر 245 پر فتح خان نیازی کی شہادت کے واقع میں کچھ یوں بیان کرتا ہے کہ

“فتح خان نیازی اور عیسٰی خان نیازی دونوں شیر خان نیازی کے بیٹے تھے اور اعظم ہمایوں نیازی (یعنی ہیبت خان نیازی) کے پانچ بھائیوں (یعنی سعید خان نیازی، شہباز خان نیازی، شمس خان نیازی، بابو خان نیازی اور زین خان نیازی) جو کہ میرداد خان نیازی کے بیٹے تھے. اور فتح خان نیازی و عیسٰی خان نیازی جو شیر شاہ کے دربار میں جگہ پا گئے تھے. اتنی ہی قدر و اہمیت کا مقام اعظم ہمایوں نیازی نے اپنے پانچ بھائیوں کے ساتھ حاصل کی “

اس بیان سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں کہ ایک تو ہیبت خان نیازی اور عیسٰی خان نیازی دونوں آپس میں بھائی نہیں تھے. دوسرا جو کہ حیات افغانی و نیازی قبیلے کی داستان اور تاریخ نیازی قبائل میں ان کے والد کا نام عمر خان نیازی لکھا گیا وہ بھی درست نہیں ہے.مزید یہ بھی کہ اگر یہ دونوں شخصیات بھائی ہوتے تو یقینا مخزن افغانی بھی انھیں بھائی لکھتا لیکن مخزن افغانی اور سلاطین افاغنہ کسی نے بھی ان کو بھائی ہونا درج نہیں کیا۔

ہاں البتہ میری یہ رائے ضرور ہے کہ کہ دونوں خاندان یعنی عیسٰی خان نیازی اور ہیبت خان نیازی کا تعلق عیسٰی خیل قبیلہ سے تھا. جبکہ نیازی قبیلے کی داستان میں درج اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ ہیبت خان نیازی کا تعلق سرہنگ قبیلہ کی شاخ موسی خیل سے تھا. یہ بات بلکل درست نہیں کیونکہ اس زمانے میں سرہنگ قبیلہ کے جو لوگ ہندوستان گئے بھی تو خود کو سرہنگ خیل کہلواتے تھے. ملاحظہ ہو آرٹیکل لودھی سلطنت میں سرہنگ خیل قبیلہ کے امراء…

دہلی میں موجود عیسٰی خان نیازی کا مقبرہ ؛

شیر شاہ سوری کی وفات کے بات اقتدار کی جنگ چھڑ گئی کچھ مؤرخین کے مطابق شیر شاہ سوری نے اپنا نائب اپنے بڑے بیٹے قطب خان سور کے بیٹے کو مقرر کیا تھا. بتاتے چلیں کہ قطب خان سور شیر شاہ کے بادشاہ بننے سے کچھ عرصہ قبل ہی ایک محاربہ میں مارا گیا تھا. مگر اچانک موت کے سبب صورتحال کچھ پیچیدہ ہوگئی. کالنجر کے قلعہ پر حملہ کے وقت شیر شاہ سوری کا بڑا عادل سوری وہاں موجود نہیں تھا. جبکہ چھوٹا بیٹا اسلام شاہ سوری وہاں موجود تھا. جس کے سبب امراء نے وقتی طور پر اس کو اپنا عارضی سربراہ تسلیم کرلیا.

مسند اعلیٰ عیسی خان نیازی کا مقبرہ،دہلی ہندوستان


لیکن بعد میں امراء کو یقین دہانی کرانے کے باوجود اسلام شاہ سوری اپنے وعدہ سے پھر گیا. جس کے نتیجے میں کافی لڑائیاں اور فسادات ہوئے جس کا ذکر یہاں مقصود نہیں. مختصراً یہ کہ اسلام شاہ سوری اور شیر شاہ سوری کے امراء خواص خان، عیسٰی خان نیازی، ہیبت خان نیازی وغیرہ کا اتحاد ہوگیا. جن کی جنگ انبالہ کے قریب ہوئی. لیکن عین جنگ کے بیچ خواص خان نے اپنی فوج کو دھوکہ سے ہٹا لیا جس میں نیازیوں کو شکست ہوگئی. ہیبت خان نیازی دھنکوٹ (کالاباغ آگیا جو اس زمانے میں نیازیوں کے پاس تھا). جبکہ مؤرخین کے مطابق عیسٰی خان نیازی اور خواص خان وہاں کے کماؤں (یعنی ہماچل پردیش) کی پہاڑیوں میں چلے گئے.
سیر المتاخرین کے مطابق عیسٰی خان نیازی بعد میں اسلام شاہ سوری کے آگے تسلیم شد ہوکر دہلی واپس آگیا جبکہ خواص خان وہی ہماچل پردیش میں بدستور رہا.


عیسٰی خان نیازی کے دہلی واپس آنے پر اس کا انتقال1547ء کے زمانے میں دہلی میں ہوا.
لیکن کچھ لوگوں نے بلخصوص تاریخ سروانی کے مصنف حاجی عباس سروانی اور دی پٹھان کے منصب برگیڈیر ہارون الرشید نے اس کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی. اول الذکر نے دعویٰ کیا کہ یہ مزار عیسٰی خان سروانی کا ہے جو لودھی و سوری سلطنتوں کے زمانے میں مشہور ہوا. لیکن اگر حاجی عباس سروانی اپنے ہم نام ہمقوم مصنف عباس سروانی کی کتاب تاریخ شیر شاہی ملاحظہ فرمائیں تو پتہ چلے گا کہ عیسٰی خان سروانی کا انتقال نو سال بعد اکبر کے زمانے (1556ء) میں ہوا. دوسری طرف دی پٹھان کے مصنف برگیڈیر صاحب نے بڑی طویل بحث اس پر کی لیکن وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے.
حالانکہ مقبرہ پر امتداد زمانہ سے بچ جانے والی ایک تختی پر واضح لکھا ہوا ہے کہ یہ مقبرہ مسندِ عالی عیسٰی خان بن نیازی افغان کا ہے.

مسند اعلی عیسی خان نیازی کے مقبرہ کا قتبہ


اس بحث میں الجھاؤ کی وجہ ایک وجہ یہ ہے کہ اس مقبرہ پر لگی ہوئی عبارات امتداد زمانے سے تباہ ہوگئیں 2006ء تک یہ مقبرہ نشیئیوں کی آمجگاہ تھا بعد میں آغا خان ٹرسٹ نے اس کی دیکھ بھال کرکے اس کو بحال کیا. جبکہ دوسری عیسٰی خان نیازی نامی مشہور کمانڈر بھی ہے جو عادل شاہ سوری و بنگال کے افغان حکمران داؤد کرانی کا جنگی کمانڈر تھا.
جو کہ بہار پر اکبر بادشاہ سے لڑتا ہوا 1573ءمیں قلعہ مونگیر کا دفاع کرتے ہوئے مارا گیا..
بدقسمتی سے مؤرخین ان دونوں ہم نام عیسٰی خان نیازی نامی دو مختلف شخصیات میں تفریق نہیں کر پائے. اس موضوع پر بھی ہمارا آرٹیکل موجود ہے (ملاحظہ ہو عیسٰی خان نیازی ثانی کی جرات و بہادری.)

مغلوں کے زمانے میں عیسٰی خیل؛

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ شیر شاہ سوری کے زمانے میں جمال کی اولاد بلخصوص عیسٰی خیل و سنبل قبیلہ نے ناموری حاصل کی وہیں شیر شاہ سوری کی وفات کے بعد شروع ہونے والی اقتدار کی جنگ میں نیازیوں نے بھرپور شمولیت اختیار کرکے خود کو تباہ برباد بھی کیا.
جہاں ہیبت خان نیازی بمعہ اپنے ساتھیوں کے کشمیر میں مارا گیا. جبکہ عیسٰی خان نیازی اسلام شاہ سوری کے ساتھ صلح کرکے اپنے زندگی کے آخری ایام دہلی میں گزرانے لگا جہاں اس کا انتقال 1547ء میں ہوا. میرے ذاتی خیال کے مطابق شیر شاہ سوری کے جرنیل عیسٰی خان نیازی کی اولادیں دہلی و ہندوستان میں ہی رہ گئیں وہ کبھی موجودہ عیسٰی خیل واپس نہیں آئیں جن سے شاید مغلیہ دور میں مشہور ہونے والے کمانڈر محمد خان نیازی، نصرت خان نیازی وغیرہ تعلق رکھتے ہوں.
بہرحال جب نیازیوں کو سوریوں سے کوئی امید نہ رہی تو عیسٰی خیل نیازیوں نے مغل بادشاہ ہمایوں سے ہاتھ ملا لیے. جیسے ہی ہیبت خان نیازی کشمیر میں قتل ہوا اگلے ہی سال ہمایوں نے پیش قدمی کرتے ہوئے دریائے سندھ تک آیا مگر پھر اسلام شاہ سوری کی مضبوط تیاری اور ردعمل کو دیکھ کر واپس چلا گیا. یہیں پر ہمایوں کی عیسٰی خیل نیازیوں سے ملاقات ہوئی گو کہ جس کا ہمارے پاس کوئی واضح ثبوت تو موجود نہیں البتہ ہمایوں کے ملازم خاص جوہر افتابچی کے اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ جس میں وہ نیلاب یعنی اٹک کے پاس دو نیازی امراء محمود خان نیازی اور اسلام خان نیازی بمعہ دیگر گکھڑ سرداروں کے ساتھ ملاقات کا بیان کرتا ہے. یاد رہے کہ گکھڑ مغلوں کے حلیف تھے اور اس زمانے میں گکھڑ اور نیازی اسلام شاہ سوری کے مشترکہ دشمن تھے.
یہیں سے پتہ چلتا ہے کہ جب ہمایوں بادشاہ دہلی فتح کرنے آیا تو عیسٰی خیل نیازیوں نے بھی بھرپور اعانت کی. اکبر بادشاہ کی زیر قیادت ہندوستان کے ہندو راجہ ہیمو بقال کو شکست دیکر مسلمانوں کا اقتدار پھر سے بحال کیا.
اس کے بعد عیسٰی خیلوں کی کیا تاریخ رہی ہمیں اس بارے میں کوئی ذکر نہیں ملتا. اس زمانے کے بارے میں فقط سنبل نیازیوں کا احوال ملتا ہے جو کہ اس زمانے میں کافی طاقتور اور خود سر ہوچکے تھے جنھیں مطیع کرنے کیلئے اورنگزیب عالمگیر نے سنجیدہ کوششیں کرتے ہوئے کافی بڑے لشکر بھیج کر تباہ و برباد کیا. لیکن عیسٰی خیل ان فسادات سے الگ ہی رہے.

درانی دور میں عیسٰی خیلوں کا عروج؛

عیسٰی خان سے اوپر دسویں ہُشت میں نیازی ابن لودی سے شجرہ نسب جا ملتا ہے.. عیسٰی خان کے بعد نویں پُشت پر جنگی خان پیدا ہوا اس کا دوسرا بھائی منگل خان تھا یہ دونوں بھائی اپنی قوم کے بیچ لڑائی جھگڑوں میں دلاوری کے سبب مشہور ہوئے. قوم عیسٰی خیل کی خانی اور ریاست جیسا کہ قبل بتایا کہ ایک خاندان میں نہیں رہی یہ مختلف شاخوں میں منتقل ہوتی رہی ہے. جب مموں خیل غالب آئے تو انھوں نے اس خاندان کو جو زکو خیل میں سے ہیں مغلوب کرکے نکل دیا اور خود مختار ہوگئے.

درانی سلطنت کے قلعہ جات کا نقشہ جس میں عیسی خیلوں کے قلعے واضح نظر آ رہے ہیں۔

جب زکو خیل غالب آئے تو مموں خیلوں کو مغلوب کردیا. اس بات کے باوجود مموں خیل کو اس قدر فوقیت حاصل رہی کیونکہ وہ تعداد میں بہت زیادہ تھے. اسی وجہ سے مموں خیل انکی سرداری کو نہیں مانتے تھے. ہر کوئی اپنے گھر کا خودمختار تھا. ہر قوم میں اپنے اپنے سرکردہ لوگ موجود تھے. جب احمد شاہ درانی تخت نشین افغانستان میں ہوا اور شاہی فوجوں کی آمد اور ٹیکس وصولی کا خطرہ پیدا ہوا تب عیسٰی خیلوں نے اتفاق کرکے دلیل خان ولد جنگی خان کو جو کہ مستعد و ہوشیار آدمی تھا بادشاہ کے سلام کے واسطے بھیجا اس وسیلہ سے باریابی دربار حاصل ہوئی جس کے نتیجے میں 1747ء میں احمد شاہ درانی کے دربار سے دلیل خان نیازی کو عیسٰی کی خانی و سرداری کا رتبہ ملا اور ساتھ تین ہزار سالانہ ٹیکس وصولی کا اختیار ملا. جبکہ بنوں و عیسٰی خیل سے کل چھ ہزار روپیہ کی جاگیر ملی. دلیل خان نیازی کو حکم تھا کہ علاقہ بنوں، وزیرستان اور ڈیرہ اسماعیل خان جہاں بھی فساد ہو قبیلہ کے لشکر کے ہمراہ شاہی خدمات سرانجام دینے کیلئے تیار رہے. اور جب حکم پہنچے تو دو سو سوار بطور جنگجو لیکر خدمات شاہی میں مصروف عمل ہوجائے..
دلیل خان کی ترقی و عروج کو دیکھ کر اسکے حریف قبیلہ مموں خیل کو حسد پیدا ہونا شروع ہوگیا. اور اپنی تربور (چچازاد) کے حکم کی تعمیل کرنا نادانی اور عار سمجھنا شروع کردیا. جس کے نتیجے میں خانگی فساد پیدا ہوگیا. جس نے اتنا طول کھینچا کہ باوجود ابدالی فوج کی مموں خیلوں پر لشکر کشی کے یہ رفع نہ ہوسکا. آخر ایک لڑائی میں جو کہ زمین کے تنازع پر تھی دلیل خان نیازی مموں خیلوں و بادین زئیوں کے ہاتھوں مارا گیا. اس کے بیٹے خان زمان خان کو بھی زخم آئے. دلیل خان کے دو بیٹے تھے بڑا محبت خان چھوٹا خان زمان خان. چھوٹا بیٹا خان زمان خان مستعد اور لائق آدمی تھا. جب اپنے باپ کے قتل کا بدلہ خود نہ لے سکا تو باپ سے ملنے والی وارثت میں سے جو کہ بارہ ہزار روپیہ تھی. اس میں سے چھ ہزار روپیہ لے کر کابل میں احمد شاہ درانی کے پاس درخواست گزار بن کر پہنچا. چند برس کے بعد دربار شاہی سے ایک درانی امیر جہان خان پوپلزئی  معہ جرار فوج کے واسطے فتح عیسٰی خیل آیا. جہاں پر اپنے دشمنوں یعنی مموں خیلوں سے اپنا بدلہ لیا. یہاں تک کہ اپنے ایک خالہ زاد بھائی جو کہ اس کے باپ کے قتل میں شریک تھا اس کا سر کاٹ کر اپنی خالہ کے پاس بھیج دیا. پھر ایک سو چالیس سوار نوکر رکھ کر قریب دو سال بطور حاکم عیسٰی خیل سے غلہ بٹائی شروع کر دی. مگر اس آزاد حالت میں بھی اس حکومت کچھ عرصہ چلی. حالانکہ خان زمان خان ایک قابل اور لائق آدمی تھا
اس نے دستور مشک (پانی کی تقسیم کا ایک فارمولا) سے زمینداری کو کافی فروغ دیا.

خان زمان خان نیازی کا مقبرہ، درہ تنگ،لکی مروت


دربار شاہی سے بدستور سابق رتبہ خانی و جاگیر جو کہ دلیل خان کو عطاء ہوئی تھی خان زمان خان کے نام جاری رہی.. مگر سنجلہ (زکو) خیلوں میں اپنے علیحدہ سردار بھی موجود تھے. خان زمان خان خدمات شاہی میں اپنے باپ دلیل خان سے بھی زیادہ چست اور مستعد نکلا. 1760ء میں جب احمد شاہ درانی نے ہندوستان پر حملہ کیلئے اپنا لشکر ترتیب دیا تو خان زمان خان بھی اپنی جمعیت دو ہزارسواران کو لیکر حاضر خدمت ہوا. 1761ء میں مرہٹوں کو پانی پت کے مقام پر احمد شاہ درانی نے شکست دیکر جنگ جیتی. اس وقت خان زمان خان احمد شاہ درانی کے ساتھ تھا.


بعد از وفات احمد شاہ درانی تیمور شاہ نے بھی بدستور سابقہ مراتب خان زمان خان کے نام بحال رکھے. اور حکم دیا کہ مزید جاگیر کے عوض دو سو نیازی سوار رکھ ہمیشہ شاہی دستہ میں حاضر رہیں. خان زمان خان کے انتقال کے بعد خان زمان خان کے فرزند عمر خان دستار مختار ہوا. جب سلطنت افغانستان میں شاہ زمان درانی کے عہد میں حاسدانہ نفاق اور بارکزئیوں کی عداوت سے کمزوری آئی اور جا بجا سرکشی اور خود سری شروع ہوئی تب عیسٰی خیلوں کے انتظام میں بھی خلل پڑا. مموں خیلوں کی قدیم دشمنی کے علاوہ رنجیت سنگھ بھی علاقے پر ایک خطرہ بن کر ابھرا.. اس ساری صورتحال میں عمر خان نے دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نواب آف منکیرہ حافظ احمد خان سدوزئی سے مدد چاہی. نواب صاحب نے عیسٰی خیل کے علاقے سے کل آمدنی کا تین چوتھائی حصہ بدلے عسکری اعانت کے طلب کیا.. بقیہ چوتھا حصہ عمر خان کیلئے چھوڑ دیا. اس چوتھے حصہ سے بھی نواب صاحب کے بیس سواروں اور قاصدان کے اخراجات شامل تھے. جب عمر خان فوت ہوا تو اس کے بیٹے احمد خان نے عیسٰی خیل ریاست کی ذمہ داری سنبھالی جو کہ ایک لائق اور ہر دل عزیز شخصیت کا مالک تھا

قصبہ عیسٰی خیل کی بنیاد کب رکھی گئی..

مروتوں سے دشمنی کے باعث اس ٹپئی میل کو غیر آباد کرکے دریائے سندھ کے کنارے ایک اور گاؤں آباد کیا. جو کہ اب زیر آب دریائے سندھ آچکا ہے. جب مموں خیل اور زکو خیلوں کی باہم عداوت شروع ہوئی تب متفرق ہوکر اسی نواح میں آباد ہوئے اور پھر جب وہ جگہ بھی دریا بُرد ہوگئی تو احمد خان نیازی رئیس عیسٰی خیل نے 23 ستمبر 1828ء موجودہ عیسٰی گاؤں کی بنیاد رکھی. جس کو 36( 1864ء میں جبکہ اب 194)برس گزرے ہیں. اس قصبہ کا نام بااسم عیسیٰ خیل صرف بباعث آبادی قوم عیسٰی خیل کے رکھاجب اول عیسٰی خیل کے لوگ اس علاقے میں آئے تو کوئی ویال (نہر) دریائے کرم سے جاری نہیں تھی. بلکہ درہ تنگ اور اسکے نیچے بیٹ کرم کا ایسا اونچا تھا کہ پانی خود بخود سیلاب کے وقت علاقے میں موضع مہر شاہ ولی والی تک پھیل جاتا تھا اور اونچی زمینوں کو نشیبی زمینوں سے لکڑی کا “ترنا” رکھ کر پانی چڑھایا جاتا تھا اور اس جگہ آبادی اور قصبہ وجود میں آنے اور ترنہ کے کثرت استعمال کے باعث اس قصبہ کا نام ترنا مقامی لوگوں میں مشہور ہوا.

سکھوں کے زمانے میں عیسٰی خیل قبیلہ؛

جب نواب آف منکیرہ ساٹھ ہزار کی جاگیر سکھوں کو دیکر منکیرہ و نواح کے علاقے لے لئے. اسی زمانے میں جب رنجیت سنگھ ایک بڑا لشکر لے کر عیسٰی خیل آیا تاکہ بنوں تک کے علاقوں کو فتح کیا جا سکے تبھی اس زمانے میں یعنی1823ء میں اس علاقے کو پنجاب میں شامل کرنے کے احکامات جاری کئے. لیکن حالات کے سنگینی اور وادی پشاور میں الجھا جانے کے سبب یہ معاملہ طوالت کا شکار رہا . اور جب 1836ء میں کنور نونہال سنگھ نے عیسٰی خیل کو مستقل طور پر ریاست پنجاب میں شامل کیا تب بجائے چہارم حصہ کے آٹھواں حصہ آمدنی کا احمد خان کو معاف کیا. جبکہ پھٹکڑی کی پیداوار سے تیسرا حصہ معاف کیا. بقیہ ساری آمدنی سرکار کے کھاتے میں جمع ہوتی. خاص عیسٰی خیل کے قلعے میں ایک تھانہ (فوجی دستہ) سکھا شاہی کا مقرر ہوا.
اقبال خان نیازی صاحب بہ توسط کرنل اسلم خان نیازی لکھتے ہیں کہ جب 1839ء میں رنجیت سنگھ کی موت کے بعد شہزادہ کھڑک سنگھ بادشاہ مقرر ہوا تو وہ ریاست کے دورہ پر بنوں جارہا تھا تھا کہ عیسٰی خیل کے قریب سکھوں والا کوٹ کے مقام پر قیام کیا. یہ دن جمعہ کا تھا اچانک نزدیک موجود مسجد سے اذان کی آواز بلند ہوئی جس سے اس کے آرام میں خلل پیدا ہوا. کھڑک سنگھ نے غصہ کے عالم میں سپاہیوں کو حکم دیا. اس گستاخ کو پکڑ لاؤ. اس سے پہلے بھی ایک نومسلم عورت کے معاملے پر مسلمانوں اور سکھوں میں چپقلش موجود تھی. جس کی وجہ سے جب سپاہی مؤذن کو پکڑنے لگے تو عیسٰی خیلوں نے مؤذن کو گرفتار ہونے سے بچا لیا اس مڈبھیڑ میں سکھو سپاہی عیسٰی خیلوں کے ہاتھوں مارے گئے. جب کھڑک سنگھ کو یہ اطلاع ملی اس کا پارہ ساتویں آسمان پر جا پہنچا. اور عیسٰی خیلوں سے قاتلین کو پیش کرنے کا حکم صادر کیا. جس کے جواب میں سردار عالم خان ولد عمر خان نے کھڑک سنگھ کے قاصد کو جواب دیا کہ تمھارے سکھوں کا قاتل عیسٰی خان نیازی ہے (اس سے مراد شیر شاہ سوری کا عیسٰی خان نیازی تھا). جس سے یہ پیغام مقصود تھا کہ یہ قتل ہم سب عیسٰی خیلوں نے مشترکہ قبول کیا ہے. جب دیکھا کہ عیسٰی خیل چاک و چوبند لڑنے کیلئے تیار ہیں تو وہ بنوں جانے کی بجائے واپس لاہور آگیا. تاکہ ایک بھرپور لشکر لے جا کر عیسٰی خیلوں کو تباہ کیا جا سکے.
اس دوران خان زمان خیل جو کہ عیسٰی خیل قبیلہ کے سردار تھے اپنی خواتین اور دیگر مال کو وزیرستان میں ملک سوان خان وزیر کے پاس بطورِ امانت پہنچا دیا.
جب سکھوں کی فوجوں نے دریائے سندھ پار کیا تو عیسٰی خیل پہاڑوں میں مورچہ زن تھے جس کی وجہ سے سکھوں نے عیسٰی خیل گاؤں اور دیگر ملحقہ موضع جات پر اپنا غصہ نکالا جبکہ پہاڑ کی طرف جانے کی کوشش میں کافی سکھ مارے گئے. تب یہ مہم ناکام ٹھہری اور بعدازاں پھر ایک سال کے اندر اندر کھڑک سنگھ خود بھی مر گیا. جس کی وجہ سے مزید تباہی سے عیسٰی خیل بچ گئے.
سکھا شاہی سرکار سے حسب دستور احمد خان کی جو معاش مقرر تھی وہ جاری تھی لیکن اس ملک یعنی عیسٰی خیل کی اجارہ داری اب سکھا شاہی دربار نے بنام دیوان لکھی مل کے مقرر کردی تھی. تبھی اس وجہ سے محمد خان کی دیوان لکھی مل اور دیگر شریک رشتہ داروں سے بات کوئی بن نہ سکی. جن کی عداوت کے باعث قریب نو سال پھر محمد خان کو جلاوطن ہونا پڑا. جبکہ دیوان لکھی مل نے مموں خیلوں اور بادین زئیوں کی صلاح مشورہ سے جو بعد ازاں خود بھی بے اتفاقی کا شکار ہوگئے تھے. احمد خان کی ساری معاش دیوان لکھی مل اکیلے ہڑپ کرتا رہا. جبکہ محمود خان کو پابہ زنجیر ڈیرہ اسماعیل خان کے قلعہ اکال گڑھ میں قید کردیا گیا. تاوقتیکہ انگریزوں کی جانب سے ریزیڈنسی لاہور مقرر نہ ہوئی. تب محمد خان نے غریب الوطنی سے اپنے فرزند شاہنواز خان کو اپنے حق کے حصول کی خاطر دادرسی کیلئے دربار لاہور بھیجا.

عیسٰی خیل انگریزوں کے زمانے میں؛

1847ء میں جب ہربرٹ ایڈورڈس صاحب اسسٹنٹ ریزیڈنٹ ہوکر اس علاقے میں تشریف لائے تو شاہنواز خان انکے ہمراہ آیا اور ایڈورڈس صاحب نے لکھی مل اور اسکے فرزند دیوان دولت رائے کے مظالم سے اس خاندان کو نجات دلائی. تب محمد خان اپنے وطن عیسٰی خیل واپس آیا اور اسکو آباد کیا. کل جائیداد جو کہ ضبط ہوگئی تھی واپس حاصل کی. جبکہ کل پیداوار کا جو آٹھواں حصہ نونہال سنگھ نے مقرر کیا وہ بھی بحال ہوا. جب 1847ء میں ملتان پر انگریزوں نے دیوان مولر راج کے خلاف چڑھائی کی تو شاہنواز خان نے ایڈورڈس صاحب کی خدمت میں حاضر ہوکر سرکار انگلشیہ کے جھنڈے تلے سکھوں کے خلاف لڑائی لڑی.

میجر کیونگری کے ساتھ پشتون امرا کا گروپ فوٹو، خان ایاز خان نیازی دائیں طرف سے چوتھے نمبر پر کرسی پر موجود(1879)


جس میں وہ مارا گیا.. اسی فتنہ کے دوران عالم خان و ایاز خان پسران محمد خان اور شیر خان ولد حسن خان میجر ٹیلر صاحب کے حکم کے تحت بنوں کے قلعہ میں فتح خان ٹوانہ کے مددگار کے طور پر وہاں بمعہ لشکر موجود رہے. جب بنوں میں سکھوں نے سرکشی کرکے فتح خان ٹوانہ کو قتل کر دیا تو عالم خان و شیر خان کو سکھوں نے گرفتار کر لیا اور رام سنگھ چھایہ والیہ انھیں قید کرکے اپنے ساتھ لے گیا. جب سکھوں کو گجرات کی لڑائی میں انگریزوں کے ہاتھوں شکست ہوئی تو امیر دوست محمد خان بارکزئی والئی کابل کی وساطت سے رہائی ملی. اور نمک حلالی کے سبب معاش مقررہ بحال رہی.
1855ء میں جب محمد خان فوت ہوا تو اسکے آٹھ بیٹے تھے. ان آٹھ بیٹوں میں مقرر کردہ کل پیداوار کا آٹھواں حصہ جس کو علاقے کی زبان میں اٹھوک کہتے ہیں اور پھٹکڑی سے حاصل شدہ آمدن سرکار انگریزی نے مبلغ چھ ہزار دو سو بیس روپیہ سالانہ نقد ہمیشہ کیلئے مقرر کردی۔

خان بہادر خان محمد عبداللہ خان رئیس اعظم عیسی خیل


چونکہ غدر 1857ء میں سرفراز خان اور عبداللہ خان پسران محمد خان بہ جمعیت رسالہ سواران ہندوستان میں جا کر متفرق اضلاع میں جان و دل سے خدمات سرکاری سرانجام بجا لائے اور شیر خان ولد حسن خان نے پیشیگی روپے لینے کے بغیر ایک رسالہ سواران بہم پہنچا کر ضلع کے اندر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے حضور خدمات پیش کیں. لہٰذا غدر کے اختتام پر1857ء میں اس حُسن خدمت پر انگریزی سرکار کی جانب سے سرفراز خان کو خطاب خان بہادر اور جاگیر ایک ہزار روپیہ جبکہ عبداللہ خان کو لقب خان بہادر بمعہ تمغہ اور سالانہ نو سو ساٹھ روپے انعام ملا.


عیسٰی خیلوں کا جب لشکر 1857ء کی جنگ میں کرنل نکلسن کے حکم پر دہلی گیا تو وہاں ایک عیسٰی خیل رسالہ کی ذمہ داری دہلی کا لال قلعہ تھا. جہاں پر لوٹ مار ہوئی. جس کے سبب عیسٰی خیلوں کے مخالفین بلخصوص کالاباغ والوں نے عوام میں مشہور کردیا کہ عیسٰی خیلوں نے دہلی میں سادات کے کان اور گلے کاٹ کر زیور ہتھیائے.. حالانکہ یہ کسی طور پر درست نہیں پہلی بات لال قلعہ میں مغل خواتین تھیں نہ کہ کوئی سادات دوسری بات اس جنگ کے ریکارڈ جسے میونٹی ریکارڈ کہتے ہیں اس میں ایسے کسی واقع کا کوئی ذکر نہیں نہ ہی شبلی نعمانی نے واقعات دہلی میں ایسے واقع کا کوئی ذکر کیا ہے..
جو کہ ایسے واقعات کی مفصّل کتاب ہے.
جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے عیسٰی خیلوں پر ان گراں قدر خدمات کے عوض خصوصی کرم نوازی کی ان کی جاگیر میں کافی اضافہ ہوا اور یوں عیسٰی خیل قبیلہ انگریزوں کا وفادار ٹھہرا. عیسٰی خیلوں کو ضلع میانوالی کا سب معزز اور طاقتور خاندان مانا گیا اور انھیں سرکاری عہدے دئے گئے. اسی زمانے میں ہندوستانی ریاست جھجھر میں اور سرگودھا کے علاقے جلپانا میں وسیع و عریض جاگیریں ملیں.

خان بہادر سیف اللہ خان نیازی کو پنجاب کے گورنر دربار میں بطورِ درباری جگہ ملی اور
جب 1920ء میں پنجاب قانون ساز اسمبلی قیام عمل میں لایا گیا تو یہی خان بہادر سیف اللہ خان نیازی رئیس عیسٰی خیل1920ء سے لیکر 1930ء تک ضلع میانوالی (یاد رہے اس زمانے میں ضلع میانوالی میں بھکر بھی شامل تھا) کے نمائندہ رہے.


انھوں نے جنگ عظیم اول میں حکومت برطانیہ کو بھرپور سپورٹ کیا اور یہاں سے کافی سپاہی بھرتی کرکے بھیجے..
اسی طرح جنگ عظیم دوم میں بھی خوانین عیسٰی خیل نے برطانوی حکومت کی بھرپور اعانت کی.
1937ء میں جب پنجاب میں انتخابات ہوئے تو خان بہادر سردار غلام قادر خان نیازی رئیس عیسٰی خیل ضلع میانوالی کے بطورِ نمائندہ مقرر ہوئے..

قیام پاکستان کے بعد قبیلہ عیسٰی خیل کا کردار ؛

جب پہلی جنگ عظیم کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں میں جذبہ آزادی کے آثار پیدا ہوئے تو اس زمانے میں کانگریس اور مسلم لیگ ہندوستان کے لوگوں کیلئے آزادی کی جدوجہد میں مصروف عمل تھیں.. گو کہ اس زمانے میں کانگریس زیادہ مشہور اور اثرات رکھتی تھی لیکن قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد مسلم لیگ نے قوت پکڑی اور مسلمانان ہند کی جماعت بن کر ابھری.

مولانا عبدالستار خان نیازی


اس زمانے میں جہاں پر خوانین عیسٰی خیل انگریزوں کے مراعات یافتہ رؤسا پر مبنی جماعت یونییسٹ پارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاست کررہے تھے وہیں مولانا عبدالستار خان نیازی جو کہ قبیلہ عیسٰی خیل کی شاخ بادین زئی سے تعلق رکھتے تھے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے زمانہ طالبعلمی میں اترے انھوں نے ہی طالبعلموں ہر مشتمل مسلم لیگ کے ایک ونگ مسلم اسٹوڈنٹ فیڈریشن کی بنیاد پنجاب یونیورسٹی میں رکھی. مولانا نیازی نے بھرپور اور ولولہ انگیز تقاریر سے قائداعظم کی نظر میں اپنی جگہ بنا لی. جب1946ء میں پنجاب قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو آپ نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا اور خان بہادر قادر خان نیازی رئیس عیسٰی خیل کو شکست دیکر اسمبلی کے رکن بنے. اس الیکشن کے بعد اور قیام پاکستان کے کافی عرصہ بعد تک خوانین عیسٰی خیل نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور اپنے اندرونی تنازعات و معاملات میں الجھ کر رہ گئے. اب عیسٰی خیلوں سے مولانا نیازی صاحب کا طوطی بولتا تھا. انھوں نے قیام پاکستان کے بعد بھرپور سیاست کی اولاد تحریک ختم نبوت کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا اس کے بعد مولانا نیازی نے قادیانیوں کو غیر مسلم دلوانے میں بھرپور حصہ لیا. مولانا عبدالستار خان نیازی صاحب1947ء سے لیکر1955ء تک لگاتار پنجاب قانون ساز اسمبلی کے دس سال تک رکن رہے. قیام پاکستان کے بعد جب مسلم لیگ کا خاتم ہوگیا تو آپ نے دیگر علماء کے ساتھ ملکر جمیعت علمائے پاکستان کی بنیاد رکھی. جس کے پلیٹ فارم سے آپ سیاست کرتے رہے.


اس کے بعد آپ 1977ءمیں بھی پنجاب اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے بعدازاں آپ1988ء اور 1990ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے ممبران یکے بعد دیگرے منتخب ہوئے.. سب سے آخر میں چھ سال کیلئے 1994ء تا 2000ء تک ممبر سینٹ منتخب ہوئے. آپ کا انتقال 02مئی2001 کو ہوا. آپ کی شخصیت پر الگ سے مفصل آرٹیکل موجود ہے..
اب ہم دوبارہ خوانین عیسٰی خیل پر واپس آتے ہیں قیام پاکستان کے بعد خوانین عیسٰی خیل نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی مگر انھوں نے اس نوزائیدہ مملکت کی خدمت کرنے سے پیچھے نہ ہٹے اور جب قائد اعظم محمد علی جناح نے پٹھانوں کو کشمیر کی آزادی کیلئے آواز دی تو پورے پنجاب سے واحد نیازی ہی تھے جنھوں نے اس آواز پر لبیک کہا اور رئیس اعظم عیسٰی خیل خان غلام رسول خان نیازی کی قیادت میں لشکر لیکر کشمیر پہنچے جہاں انھوں نے میرپور و بھمبر کے مقامات پر ہندوستانی فوج کے ساتھ جنگ لڑی.

غازی کشمیر خان غلام رسول خان نیازی

جس کے صلہ میں حکومت پاکستان نے خان غلام رسول خان نیازی کو غازی کشمیر کا خطاب عطاء کیا. جلد ہی جب ایوب خان نے مارشل لاء لگا دیا اور اس زمانے سیاست دانوں پر پابندیاں لگا دی گئیں. اس زمانے میں خان امان اللہ خان جنرل ایوب خان کے مشیر برائے کشمیر امور تعینات ہوئے جو کہ سول سروس آفیسر تھے. اسی زمانے میں نواب آف کالاباغ گورنر پنجاب مقرر ہوئے تو انھوں نے خوانین عیسٰی خیل کی طاقت کو کم کرنے کافی کوششیں درپے کیں تاکہ خوانین عیسٰی خیل کو سیاست سے باہر نہیں تو کم از کم انکا اثر کم کیا جا سکے..


اسی زمانے میں جب نواب آف کالاباغ کا طوطی بولتا تھا محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن لڑا جس میں پنجاب کے سارے جاگیردار اور وڈیرے ایوب خان کے ساتھ تھے مگر پیر آف مکھڈ اور خوانین عیسٰی خیل نے بھرپور فاطمہ جناح کا ساتھ دیا اور عیسٰی خیل میں فاطمہ جناح کو جلسہ کی دعوت دیکر نواب آف کالاباغ کی طاقت کو چلینج دیا. اس جلسے کی دعوت کرنل ریٹائرڈ اسلم خان نیازی نے دی تھی جس کے بعد انھیں عتاب کا نشانہ بنایا گیا اور زرعی اصلاحات کے نام پر خوانین عیسٰی خیل سے رقبے چھین کر سرکار کے ماتحت کردیئے گئے..


سنہ ساٹھ کی دہائی میں جب چشمہ بیراج کا منصوبہ بندی ہوئی تو عیسٰی خیلوں پر کڑی مشکل آن پڑی کیونکہ عیسٰی خیل قبیلہ کی زمینات چشمہ بیراج کی جھیلوں کے زیر آب آ گئیں. جس کے نتیجے میں حکومت پاکستان نے عیسٰی خیلوں کو متبادل کے طور اراضی ضلع خانیوال، اور جڑانوالہ میں فراہم کی جس کی وجہ سے ایک اچھی خاصی تعداد عیسٰی خیل سے نقل مکانی کرکے کچہ کھوہ خانیوال اور جڑانوالہ میں جا کر آباد ہوگئی. اسی زمانے میں عیسٰی خیل سیاست پھر سیاست میں اترے ایک طرف میانوالی میں کرنل اسلم خان نیازی 1977ءمیں منتخب ہوئیے جبکہ دوسری طرف امیر عبداللہ خان نیازی عثمان خیل خانیوال سے 1977ء کے انتخابات میں کامیاب ہوئے.
اس کے بعد ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد جب دوبارہ انتخابات ہوئے تو خان مقبول احمد خان نیازی نے میانوالی میں مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے میدان مارا اور قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے. جبکہ 1996ء میں عبدالرحمن خان ببلی نے پہلی مرتبہ حصہ لیا اور صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے جبکہ نوابزادہ عبدالرزاق خان نیازی نے بھی خانیوال کی سیاست میں اپنا قدم رنجہ فرمایا.

خان عبدالغفور خان نیازی


1997ء کے انتخابات میں خان مقبول احمد خان نیازی ایک بار پھر ایم این اے منتخب ہوئے. مقبول خان نیازی کی وفات کے بعد محترمہ ذکیہ شاہنواز صاحبہ سیاست میں حصہ لیتی رہی لیکن ان کی سیاست حلقہ کی نہیں تھی. دوسری عبدالرحمن خان ببلی حلقہ کی سیاست کرتے رہے جہاں مشانی قبیلہ کے شادی خیلوں کا پلڑا اس وقت بھاری تھا. لیکن پھر وقت پلٹا کھایا عمران خان نیازی کی تحریک انصاف نے زور پکڑا تو جناب خان عبدالحفیظ خان نیازی صاحب کو ٹکٹ ملی جنھوں نے کامیابی سمیٹی حالانکہ سننے میں آیا تھا کہ جمال احسن خان نیازی جن کا تعلق بھی خوانین عیسٰی خیل سے تھا وہ مضبوط امیدوار وار تھے. بہرحال اسکے بعد 2013ءکے انتخابات میں جہاں عبدالحفیظ خان عیسٰی خیل کی سیٹ جیتے وہیں خان عبدالرزاق خان نیازی نے خانیوال سے نشست جیتی.


اس انتخابات میں نوابزادہ عبدالرزاق خان نیازی کا مقابلہ خانیوال میں ایک اور عیسٰی خیل قبیلہ کے سپوت فیصل خان نیازی سے تھے. بعد ازاں2018ء کے انتخابات میں فیصل خان نیازی نے نوابزادہ عبدالرزاق خان نیازی کو شکست دیکر خانیوال کی سیٹ جیتی اور ممبر پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے. دوسری طرف میانوالی میں عبدالرحمن خان ببلی خان نے امانت اللہ خان شادی خیل کو شکست دے کر پنجاب اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے..

ببلی خان حمیر حیات خان روکھڑی کے ساتھ


اب تازہ صورتحال یہ ہے کہ اگلے انتخابات میں دونوں عیسٰی خیل نیازی حریف عمران خان نیازی کے زیر سایہ حلیف بن چکے ہیں. نوابزادہ ایاز خان نیازی خانیوال سے ایم این اے کا الیکشن لڑیں گے جبکہ فیصل خان نیازی ایم پی اے کا جبکہ میانوالی میں کیا ہوتا ہے عیسٰی خیل کے کس خان کو ٹکٹ ملتا ہے یہ وقت بتائے گا..

قبیلہ عیسٰی خیل میں زمینوں کی تقسیم؛

واضح ہو کہ جب عیسٰی خیلوں نے یہ علاقہ اپنے قبضے میں کیا تو چند عرصہ کے بعد شیخ فرید کی معرفت جو شاخ مموں خیل میں سے شیخ ملہی کا فرزند تھا ایک نہایت نیک اور خدا پرست آدمی تھا. سب قوم نے اس سے اس مُلک کی تقسیم چاہی. شیخ فرید نے ہر ایک شاخ کی تعداد کے لحاظ سے کل مُلک مقبوضہ قوم عیسٰی خیل میں اوپر چار حصوں میں تقسیم کیا. مموں خیل ایک حصہ، بادین زئی ایک حصہ، زکو خیل ایک حصہ، اپو خیل بمعہ بمبرہ ایک حصہ. اسی تقسیم اور انھیں چار شاخوں کے سبب قوم عیسٰی خیل چار تپہ میں مشہور ہے.


عہد افغانی میں جب باہر کا دشمن جیسا کہ مروت یا خٹک قوم کے مقابلے عیسٰی خیل قبیلہ کے چاروں حصے ملکر حسب و رسد کا بندوبست کرتے اور نفع نقصان کے اخراجات آپس میں تقسیم کرتے. اگر درانی بادشاہوں کو لشکر کی ضرورت ہوتی اور عیسٰی خیلوں سے طلب ہوتا تو بھی یہی چاروں حصے ملکر افرادی قوت مہیا کرتے. اگرچہ اوپر تو چار حصے تھے لیکن یہ نیچے یہ تقسیم سولہ حصوں پر مشتمل تھی.. مموں خیل اپنے چار حصے مزید رکھتے تھے. جس میں شمسی خیل، احمد خیل، خضر خیل اور پہاڑ خیل شامل تھے. جبکہ بادین زئی بھی مزید چار حصوں بٹے ہوئے تھے جس میں پرالی خیل، شیخ عمر خیل، عثمان خیل، اور عمر خیل شامل ہیں. اسی طرح زکو خیل بھی مزید چار شاخوں میں منقسم تھے دَلو خیل، مرزو خیل، لنڈو خیل اور خانی خیل، جبکہ اپو خیل اپنے چار حصوں میں سے دو حصے خود رکھتے تھے جبکہ دو حصے بمبرہ کو دیتے تھے.. اس حساب سے علاقہ عیسٰی خیل کل سولہ حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا.


اگرچہ جدی تقسیم اور موروثی حصص اسی تفصیل سے ہے جو اوپر لکھا گیا ہے اور واسطے وراثت جدی یہی حصص قائم ہیں. مگر تعداد قبضہ میں انتقال اراضی برائے فروخت اور رہن اب فرق آگیا ہے. بلخصوص اپو خیل اور بمبرہ والا میں کیونکہ انکی آبادی کم ہے اور قلنگ ادائیگی کی سختی کے سبب کیونکہ قلنگ کی ادائیگی بحوالہ مموں خیلوں اور زکو خیلوں کے ہوتا ہے جو ان پر سختی کرتے ہیں. زکو خیلوں میں سے اولاد جھنگی خان دَلو خیل نے جس میں سے خوانین عیسٰی خیل تعلق رکھتے ہیں. اپنے موروثی حصہ سے بہت زیادہ زمینات بوجہ خریداری اور قبضہ گیری کے رکھتے ہیں. شجرہ نسب دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ اُ ن شاخوں کے نام معلوم ہونگے جنھوں نے سولا حصوں میں سے حصہ پایا. فقط بمبرہ کے جو قبیلہ عیسٰی خیل سے نہیں ہیں. وہ الگ ایک قبیلہ ہے. اسی وجہ سے شجرہ نسب میں عیسٰی خیلوں کے شجرہ میں اس کا نام نہیں ہے. کہتے ہیں کہ قبیلہ بمبرہ کے لوگ دراصل ان دس بارہ لوگوں کی نسل سے ہیں جو ہندوستان سے آکر عیسٰی خیلوں میں شامل ہوئے اور اپنے آپکو نیازی بتلایا. غالباً یہ ہیبت خان نیازی کے لشکر کے بچے کچھے نیازی تھے. لیکن بعض لوگ انھیں دہلی سے آنے کی وجہ سے مغل سمجھتے ہیں مگر یقین غالب ہے کہ یہ لوگ نیازی ہی ہیں اور سلیم شاہ سوری کے محاربات کے وقت بعد مارے جانے ہیبت خان نیازی و عیسٰی خان نیازی جو چند نیازی قید ہوکر دہلی بھیجیے گئے تھے انکی اولاد ہیں جو اپنی قوم میں آکر یہاں شامل ہوگئے. اور تقسیم کے وقت اپو خیل شاخ کی عدی قوت کم دیکھتے ہوئے اس میں شامل کر لئے گئے. اسی وجہ سے بمبرہ اپو خیل کے دو حصے رکھتے ہیں اور نفع نقصان میں اپو خیلوں کے ساتھی ہیں. بمبرہ کی دو شاخیں ہیں ایک نصرت خانی جنھیں سرخ بمبرہ کہتے ہیں جبکہ دوسرے سرور خانی جو سیاہ بمبرہ کہلاتے ہیں
نصرت خان اور سرور خان دونوں بھائی تھے مگر نصرت کی اولاد سرخ رنگ اور سرور کی اولاد سیاہ رنگ ہے
بمبرہ بزبان پشتو زنبور یا ڈینبو کو کہتے ہیں اور چونکہ نصرت خان اور سرور خان کی اولادیں مسلح اور مستعد ہیں لڑنے میں دلاور تھیں اسی واسطے انھیں بمبرہ سے تشبیہ دے کر پشتونوں میں اس نام سے مشہور ہوگئیں.

ضلع بنوں میں آباد عیسی خیل نیازی ؛

تپہ عیسکی میں قبیلہ گنڈ علی شاخ زکو خیل خانی خیل نسل عیسٰی خیل نیازی سے شمار ہوتے ہیں. اب اس قبیلے کی تین بڑی شاخیں بن چکی ہیں جو درج ذیل ہیں ممریزخیل، کوپیر خیل اور چاڑی خیل. مسمی شہادت خان نیازی جب اپنی قوم عیسٰی خیل سے باعث کسی نامعلوم تنازعہ کے علیحدہ ہوکر یہاں آیا تو کل تیس لوگ اس کے ساتھ تھے. اس واقعہ کو تقریباً ایک سو ستر (موجودہ زمانے میں 350 سال ) گزرے چکے ہیں. تیوغ یعنی خرچ میں شامل ہونے سے تپہ موسی خان واقع قوم عیسکی میں ایک پاؤ یعنی چہارم حصہ کے مالک ہوئے. اور قبیلہ سیرو شاخ عیسکی کے ارضیات اکثر عملداری درانی میں بعوض ادائیگی رقم ان زمینوں پر قابض ہوئے.

شخصیات ؛

نیازیوں کے تمام قبائل میں سے یہ سب سے طویل ترین آرٹیکل تھا. اس میں کافی گوشہ رہ گئےے. خوانین عیسٰی خیل کی تاریخ جو احمد شاہ ابدالی سے شروع ہوکر فی زمانہ ببلی خان تک آتی اس پر الگ آرٹیکل لکھیں گے. کیونکہ یہ ایک بلکل الگ موضوع ہے. بہرحال عیسٰی خیل قبیلہ کی شخصیات میں سے اکثر معروف و مقتدر شخصیات کا ذکر اوپر مختصراً گزر چکا ہے. ان شخصیات کے علاوہ درج ذیل مشہور شخصیات ہیں.


نوابزادہ فضل الرحمان خان نیازی، عطاء اللہ خان عیسٰی خیلوی، برگیڈیر غلام قادر خان نیازی، میجر جنرل عنایت اللہ خان نیازی، کمشنر ریٹائرڈ فضل الرحمان خان نیازی، حاجی سیف اللہ خان نیازی جھنگی خیل، ڈاکٹر عزیز الرحمان خان نیازی (امریکا)، ڈی ایس پی خداد خان نیازی، سلیمان خان نیازی (سوئٹزرلینڈ)، کرنل شبیر خان نیازی، محمد احسن خان نیازی (ایس پی)، ڈپٹی کمشنر بنوں زبیر خان نیازی،سمیع خان (اداکار)، ڈی پی او شیخوپورہ کیپٹن ریٹائرڈ عامر خان نیازی، پروفیسر عبداللہ خان نیازی (عیسٰی خیل اسٹیٹ رحیم یار خان)، جمی خان نیازی (معروف سیاسی و سماجی شخصیت)، محمد عبیداللہ خان نیازی (ایس پی)، برگیڈیر امان اللہ خان نیازی، ضیاء اللہ خان نیازی ڈپٹی کمشنر، فیض محمد خان نیازی ڈپٹی کمشنر انیس سو چوالیس، خان حبیب اللہ خان نیازی (خانیوال) ،شفیع اللہ خان نیازی (ڈی ایس پی)، وغیرہ لاتعداد افراد شامل ہیں.

:ذیلی شاخیں

آج سے قریب ڈیرھ سو سال پہلے لکھی گئی کتاب حیات افغانی میں موجود شجرہ ذیلی شاخہائے عیسی خیل دیکھیں تو قریب ساٹھ ذیلی شاخیں درج ہیں۔اب آپ خود ہی اس بات سے اندازہ لگائیں کے عیسی خیلوں کی کتنی زیادہ شاخیں ہونگ۔ پس ہم مختصرا زمینات کی تقسیم میں موجود عیسی خیلوں کی مرکزی اور بڑی شاخوں کا احوال درج ہے ملاحظہ فرمائیں۔

:نوٹ

یہ بات یاد رہے کہ عیسٰی خیل ایک بہت بڑا قبیلہ ہے جس کی ذیلی شاخیں بھی شمار سے باہر ہیں۔پس اس قبیلہ کے جو شجرہ نسب اپلوڈ ہوئے ہیں ۔ وہ فقط وہی ہیں جو اقبال خان نیازی صاحب نے اپنی کتاب میں درج کئے۔اور انھوں نے جو شجرہ جات درج کئے ہیں ان میں سے کچھ انھوں نے خود اکھٹے کیئے اور کچھ لوگوں نے ذاتی دلچسپی لیکر ان تک پہنچائے۔ پس یہ شجرہ جات محظ چند سو افراد کے ہیں جبکہ میرے خیال میں قبیلہ کی افرادی قوت پچاس ہزار کے لگ بھگ ہوگی۔پس اگر کسی کا نام نہیں موجود تو یہ بات نہیں ہے کہ وہ نیازی نہیں یا عیسٰی خیل نہیں۔

ایک اور گزارش یہ ہے کہ ہم نے اپنی تئیں پوری کوشش سے تاریخی واقعات کو ویسا ہی لکھا ہے جس طرح ہم تک پہنچے اگر کوئی کمی بیشی یا درستگی مطلوب ہو یا کوئی معلومات مزید شامل کروانی ہوں تو ہمیں فیسبک پیج یا ادھر کمنٹ سکیشن میں رابطہ کریں شکریہ۔

ہم جناب محترم برادرم نوابزادہ عبداععظیم خان نیازی عرف جمی خان کے شکر گزار ہیں جنھوں نے ہمیں اس آرٹیکل میں بھرپور معانت فراہم کی۔

ایڈمن نیازی پٹھان قبیلہ

www.NiaziTribe.or

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

10 تبصرے “شجرہ و تاریخ قبیلہ عیسٰی خیل.

  1. ما شاءاللہ آپ لوگوں نے بہت اچھا کام کیا ہے ۔ لیکن آپ نے کچا کھوہ، خانیوال ( جسکو منی میانوالی بھی کہتے ہیں) میں بسنے والے عیسیٰ خیل قبیلے کو بہت زیادہ بیان نہیں کیا اور شجرہ نسب بھی نہیں دیا ۔ میرا تعلق عمر خان قبیلے کی ذیلی شاخ بہادر خیل ہے اگر اسکے بارے میں کچھ ملے تو بتائیے گا ،شکریہ

    1. جی بلکل ایسا ممکن ہے۔اس کمی کو پورا کرنے کیلئے آپ لوگوں کو میدان میں آگے آنا چاہیے۔کیونکہ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ ہم کراچی،کچہ کھوہ،جڑانوالہ،افغانستان،بلوچستان وغیرہ جا کر یہ کام کر سکیں۔جس کیلئے ہمیں اپنی مائیگی پر افسوس ہے۔

  2. ماشااللہ آپ کی کوشش دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اللہ پاک آپ کو اس کا اجر عظیم عطا فرماے۔میرا تعلق پرالی خیل قبیلے سے ہے ۔جو کہ کچہ کھوہ کے ساتھ شہر عبدالحکیم کے نواحی چق 9الف سے ہے۔اور میں کوشش کروں گا کے مفید معلومات کے سا تھ آپ سے رابطہ کر سکوں۔تاکہ اگلی نسل کو بھی تاریخ سے آگاہ رکھا جا سکے۔شکریہ

      1. یہ جو خواص خان نیازی کا نام اپ نے بیان کیا ہے کیا یہ موسیٰ خیل میں موجود خلاص خیل قوم کا جد امجد ہے

  3. بہت مفید معلومات جناب فتح خیل قبیلے کا شجر ہ ہو تو شئیر کر دیں ۔شکریہ

اپنا تبصرہ بھیجیں