شجرہ و تاریخ قبیلہ سلطان خیل۔۔۔

تعارف؛

سلطان ولد طوطی کی اولاد سے وجود پانے والا سلطان خیل قبیلہ ایک اہم نیازی قبیلہ ہے  جو تاحال  پشتون زبان اور پشتون روایات سے جڑا ہوا ہے سلطان خیل قبیلہ اس وقت موضع سلطان خیل ، موضع کلونوالہ اور موضع ونجاری میں آباد ہے ، ن کی ایک بڑی تعداد لیاری کراچی میں سکونت پذیر ہے 

اس کے علاوہ حیدرآباد ، قائدآباد ، ملکوال ، بنوں اور پشاور میں بھی سلطان خیل قبیلے کے خاندان آباد ہیں ۔ سلطان خیل قبیلہ اس وقت موضع سلطان خیل ، موضع کلونوالہ اور موضع ونجاری میں آباد ہے جبکہ ان کی بہت بڑی تعداد لیاری کراچی میں ہے

تاریخ؛

سلطان خیل قبیلے کی مختصر تاریخ کچھ یوں ہے کہ  یہ قبیلہ بھی سرہنگ کی ذیلی ہے  اور  ٹانک کے بعد 1640ء کے لگ بھگ گمبیلہ اور کورم کے درمیان مروت  علاقے میں آباد ہوا ۔ 

مروتوں سے جنگ میں سرہنگ قبیلے کو شکست ہوئی اور سرہنگ قبیلے کے سربراہ مدے سرہنگ اس جنگ میں قتل ہوئے ۔سرہنگ خیل نیازیوں کی 1680ء تا 1700ء میں لکی مروت سے  بے دخلی کے بعد سرہنگ خیلوں کی شاخ ادریس کی اولاد دریائے سندھ پار کرکے ڈھوک پہاڑی سلسلے کی طرف نکل گئی جبکہ بہرت شاخ جن میں سلطان خیل بھی شامل تھے  دریائے کرم کے مشرق میں موجودہ مقام پر پڑاؤ ڈالا ۔ یہ علاقہ اس وقت سرہنگ کہلاتا تھا اور آج  بھی مروت موضع سلطان خیل کو سرہنگ کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔

 سرہنگ نیازیوں نے مدے سرہنگ کا بدلہ لینے کے لئے نوجوانوں کا دستہ تیار کیا جو مروت قبیلے کے سردار قتال خان کی ٹوہ میں لگا رہا اور بالآخر کوئی 10/15 سال بعد قتال خان مروت کو شکار گاہ میں قتل کرکے بدلہ لیا گیا ۔  قتال خان کے قتل کے بعد بہرت شاخ بھی  یہاں سے کوچ کر کے دریا سندھ پار ڈھوک سلسلے کی طرف نکل آئی ۔اس وقت باہی اور لدھو قبیلے موجودہ موسٰی خیل کے مقام پر آباد تھے ۔ 

سلطان خیل قبیلہ جو اس وقت  عددی طاقت میں ایک بڑا  اور سربراہ  قبیلہ تھا باہی قبیلے کی دعوت  پر ان کے ہاں موسٰی خیل آکر آباد ہوا ۔کچھ عرصہ بعد سلطان خیل قبیلے  نے اپنے تربور موسٰی خیل قبیلے کو بھی  اپنے پاس بلایا اور کوٹ بیلیاں سے اپنے برادر قبیلہ  بوری خیل کو بھی اپنے پاس بلوایا ۔ موسٰی خیل کے مقام پر سلطان خیل قبیلے  نے بارانی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے ایک بند باندھا جو آج بھی ٹوبہ سلطان خیل کے نام سے موجود ہے ۔

 پانی کا یہی ٹوبہ موسٰی خیل اور سلطان خیل قبیلے کے درمیان وجہ نزع بنا واقعے کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا زبانی روایات کے مطابق سلطان خیل قبیلہ موسٰی خیل قبیلے پاس ننواتی گیا اور دوران طعام  دھوکے سے  ان کا  قتل عام کیا گیا  واضح رہے کہ باہی قبیلہ اس وقت  سلطان خیل قبیلے کی رعونیت کی وجہ سے موسٰی خیل کا حلیف تھا اس وقت عبدالکریم باہی کے صاحبزادے ابراہیم باہی منصب ولایت پر فائز تھے ۔  اس سانحہ کے بعد بچے کھچے سلطان خیل قبیلے کے افراد  ایک قافلے کی صورت میں جس کی قیادت میراں کر رہے تھے موجودہ موضع سلطان خیل آئے ۔ 

داؤد خیل کے مقام پر سکھ رہزن جتھے نے اس قافلے پر حملہ کیا اور سکھوں سے لڑتے ہوئے ایک باہی بزرگ اور ایک لوہار جنگجو شہید ہوگئے ۔ موجودہ مقام پر سلطان خیل قبیلے کی آمد حیات افغانی کے مطابق 1740ء کے لگ بھگ  بنتی ہے ۔

موسٰی خیل سے آمد کے وقت سلطان خیل کی بازید خیل شاخ کی اکثریت بنوں کی طرف چلے گئی اور وہیں آباد ہوگئی جن میں کچھ خاندان انگریز دور میں سلطان خیل آکر آباد ہوئے ۔ موسٰی خیل سے ترک سکونت کرنے والے  اس قافلے میں سلطان خیل کے علاوہ دیگر برادریوں میں باہی ، حیدر ، لوہار و ترکھان  اور اعوانوں میں رلاؤ ، درسال ، مہناوال ،  جخور ، چھرال اور کسیری بھی شامل تھے ۔   سلطان خیل میں موجود دیگر تمام  برادریاں 

سلطان خیل قبیلے کی یہاں آباد ہونے کے بعد وارد ہوئی ہیں  بعد میں آنے والی برادریاں  ترگ اور عیسٰی خیل سے بسلسلہ معاش یہاں آئیں ۔ یہ وہ وقت تھا جب  مروت اور خٹک لٹیروں نے  عیسٰی خیل قبیلے کی ناک میں دم کر رکھا تھا عیسٰی خیل قبیلے نے سلطان خیل کے یہاں پڑاؤ ڈالنے پر کوئی اعتراض  نہیں کیا ان کی رضامندی سے سلطان خیل اس وسیع علاقے کے مالک بن گئے ۔

اسی دوران 1747ء میں احمد شاہ درانی نے پشتون ریاست افغانستان کی بنیاد رکھی اور ہندوستان پر متعدد حملے کئے ۔میانوالی کا تمام علاقہ جو اس وقت گھکڑوں کی عملداری میں تھا احمد شاہ درانی نے ان کی عملداری بزور شمشیر ختم کرکے نیازیوں کو اس کا مالک و مختار بنایا  

1761ء میں احمد شاہ درانی نے مرہٹوں کے خلاف پانی پت کے میدان میں ایک تاریخی اور فیصلہ کن جنگ لڑی جو تاریخ میں پانی پت کی تیسری جنگ کے نام سے مشہور ہے اس جنگ میں عیسٰی خیل کے  سردار خانزمان زکو خیل نے بطور کمانڈر حصہ لیا خان زمان کے 200گھڑسوار دستے میں سلطان خیل کے جنگجو بھی شامل تھے ۔احمد شاہ درانی نے اس جنگ میں مرہٹوں کو شکست فاش دی تو یہ پورا علاقہ درانی سلطنت کا حصہ بنا اور عیسٰی خیل کے خوانین مروت سے لیکر میانوالی تک پورے خطے  کے مختیار کل بن گئے ۔ درانی دور حکومت جب زوال پذیر ہوئی تو مختلف پشتون قبائل کے درمیان قبائلی جنگیں چھڑ گئیں۔ 

 1780سے 1800ء کے دوران سلطان خیل قبیلہ اپنے پڑوسی مروت قبیلے کے ساتھ برسر پیکار رہا ۔  ان جے درمیان متعدد جنگیں ہوئیں اور یہ سلسلہ سکھا شاہی  دور میں جاکر رکا ۔ سکھا شاہی دور میں بھی  سلطان خیل قبیلہ   مشانی اور اہل ترگ کے ساتھ حد بندیوں کے تنازعات پر الجھا رہا  اور بالآخر یہ علاقہ 1849ء میں برطانوی راج کا حصہ بنا ۔

1878ء کے پہلے بندوبست میں جب ہر برادری زمین کی قانونی وارث بنی تو مختلف برادریوں نے قصبۂ سلطان خیل چھوڑ کر اپنی اپنی اراضیوں پر وانڈھاجات بسا لئے اور آج سلطان خیل کی 70 فیصد آبادی شہر کے مضافات میں  مختلف وانڈھا جات میں آباد ہے ۔ یہی وہ دور ہے جب سلطان خیلوں  نے پہلی بار  کراچی کا رخ کیا اور شہابی خیل قوم کاایک فرزند 1880ء میں  کراچی آکر موسٰی لین میں آباد ہوا آج  سلطان خیل کی30 سے 40 فیصد آبادی کراچی و حیدرآباد میں سکونت پذیر ہے ۔

1860ء کے بندوبست میں سلطان خیل کو موضع کا درجہ ملا اور لینڈ ریونیو کا محکمہ عمل میں آیا ۔ مالئے کی رقم جمع کرنے کے لئے نمبرداری نظام متعارف کرایا گیا اور سلطان خیل سے اولین نمبردار جو پہلے بندوبست کے وقت بنائے گئے ان میں توکل خان پہاڑ خیل ، ارسلا خان زنگی خیل اور منصور سنجر خیل کے نام ملتے ہیں جبکہ چوتھے کا نام جنیدہ تھا ۔ 

سلطان خیل کا رقبہ کچھ یوں ھے 

* موضع سلطان خیل شرقی ۔  

7626 مربع ایکڑ یا 61008 مربع کنال 

* موضوع سلطان خیل غربی ۔ 

14689 مربع ایکڑ یا 117512مربع کنال 

* مٹھہ خٹک ۔

11807 مربع ایکڑ یا 94456 مربع کنال 

کل ۔ 34122 مربع ایکڑ یعنی 272976 مربع کنال ۔

یہ تمام رقبہ بارانی زمین پر مشتمل تھا اب تو جگہ جگہ ٹیوب ویل لگ چکے ہیں ۔ فصلوں میں گندم ، چنا ، جوار ، باجرہ اور سرمی یہاں کی اہم فصلیں ہیں ۔ 

1880ء میں انگریز سرکار نے یہاں سے کوئلہ کی تلاش کا کام شروع کیا اور 1923 میں باقاعدہ کوئلہ نکلنا شروع ہوا  اور اس کے بعد اس علاقے کو روڈ اور پانی جیسی سہولیات میسر ہوئیں ورنہ اس سے پہلے مٹھہ خٹک چشمے کا گندھک آمیز پانی ہر قسم کی ضروریات پوری کرتا تھا۔ 

1905ء میں سلطان خیل میں پہلا پرائمری اسکول قائم ہوا اور اسی سال دھرتی کا قبرستان خریدا گیا ۔ 

زبان و ثقافت؛

سلطان خیل قبیلے کی اکثریت پشتو زبان  بولتی ہے اور انہیں سرائیکی بھی آتی ہے ۔ 

کراچی میں آباد سلطان خیل بھی پشتو بولتے ہیں مگر کراچی کی نئی نسل نے اب  اردو زبان اپنالی ہے ۔ گو کہ سلطان خیل کے پڑوس میں صدیوں سے خٹک آباد ہیں مگر خٹک لہجہ کی پشتو سلطان خیل قبیلے پر اثرانداز نہیں ہوئی 

 ان کی پشتو نرم لہجے والی قندہاری پشتو ہے جو مروت اور میاں خیل  قبائل کی پشتو کے قریب تر ہے ۔ رسم و رواج  کی بات کی جائے تو مکمل  پٹھانوں والے ہیں ۔

جیسے  نرینہ اولاد کی پیدائش پر فائرنگ ، رقص میں اتن اور خٹک ڈانس ، موسیقی سے لگاؤ ،  جرگہ ، ننواتی ، بدل ، میلمستیا  (مہمانوازی) ،  ہتھیار رکھنا ، شلوار قمیص اور سر پر دستار ، خواتین کا سخت پردہ ،  گھیرے والی شلوار اور کرتی اور سر پر دوبٹہ اور ٹوپی والا برقع ،  بٹیر اور ککڑبازی کا شوق ،  قبائلی دشمنی  ، وٹہ سٹہ ، ونڈ (ونی) ، وراثت میں بیٹیوں کو حصہ نہ دینا ، غیر برادری میں رشتے نہ کرنا ، روایتی کھیل کبڈی ، بلندرے اور اساری (امداد باہمی) وغیرہ ۔ 

مذہب کی بات کی جائے تو یہ قبیلہ دین سے  بہت زیادہ  لگاؤ رکھتا ہے اس قبیلے کے لوگ صوم و صلواہ کے پابند ، اولیاکرام  کے عقیدت مند اورکٹر  پیر پرست  ہیں ۔ زکوڑی ، خواجہ آباد کے سادات اور باہی قبیلے کے بزرگوں کے مرید اور عقیدت مند ہیں ۔

ذیلی شاخیں؛

سلطان خیل کی ذیلی شاخیں جو اس وقت قوم کہلاتی ہیں مندرجہ ذیل ہیں 

1۔ بازید خیل (چچڑخیل)

2۔ زنگی خیل 

3۔ شہابی خیل 

4۔ نظم خیل 

5۔ سامی خیل 

6۔ چتو خیل 

7۔ سنجر خیل 

8۔ ہندال خیل 

9۔ مِداد خیل 

10۔ دادو خیل 

11۔ بہکی خیل 

12۔ پہاڑخیل 

13۔ گدا خیل 

14۔ میری خیل 

15۔ خاگو خیل 

16۔ خیشگی (خیشو خیل)

اس کے علاوہ دیگر نیازی قبائل کے کچھ لوگ بھی آباد ہیں مثلا باہی،ہیدر،مشانی،ممکزئی،کرن خیل(گولے خیلوں کی شاخ)،لدھو خیل،انڑیا خیل(عیسیٰ خیل) وغیرہ شامل ہیں۔

دیگر برادریاں جو سلطان خیل میں آباد ہیں ان میں  جٹ ، اعوان ، قریشی ، میانے اور کمی شامل ہیں 

شخصیات؛

1۔ میراں خان میری خیل
2۔ عبوت خان نظم خیل
3۔ محمد اعظم خان پہاڑخیل
4۔ میر زاد خان مِداد خیل
5۔ گل خان ہندال خیل
6۔ امیر قلم خان بازید خیل
7۔ ہاتھی خان پہاڑخیل
8۔ آدم خان زنگی خیل
9۔ سوداد خان میداد خیل
10۔ ۔ عبدالعزیز خان بہکی خیل
11۔ بادشاہ خان ہندال خیل
12۔ حاجی زر خان پہاڑخیل
13۔ بادشاہ خان میری خیل
14۔ دوران خان ہندال خیل
15۔ کریم خان زنگی خیل
16۔ چئیرمین محمد خان ہندال خیل
17۔ پروفیسر رائس احمد عرشی سنجر خیل
18۔ ادریس خان ہندال خیل
19۔ ماسٹر مہر خان ہندال خیل
20۔ ارسلاخان پہاڑخیل
21۔ ناظم امیر عبداللہ خان سنجر خیل
22۔ حاجی گلستان خان پہاڑخیل
23۔ محب اللہ خان سامی خیل
24۔ اعجاز احمد خان بازید خیل
25۔ فضل اللہ شہابی خیل
26۔ AIG امیرعبداللہ خان سنجر خیل
27۔ ایوب خان سامی خیل (CAA)
28۔ اکبر خان ہندال خیل
29۔ حاجی اصغر خان پہاڑخیل

نوٹ؛

درج بالا آرٹیکل ہمارے محترم و مکرم جناب عطاء اللہ خان میداد خیل صاحب نے ہماری درخواست پر تحریر کیا ہے۔جوکہ فیس بک پیج سلطان خیل نیازی پشتون کے مدیر بھی ہیں۔اور انکی کافی تحایر اس ویب سائٹ پر موجود ہیں۔

یہ بات یاد رہے کہ زیر دستیاب شجرہ جات صرف وہ ہیں جو تاریخ نیازی قبائل کتاب کے مؤلف حاجی اقبال خان نیازی صاحب مرحوم نے انسپکٹر غلام محمد خان نیازی (جن کی عمر قریب نوے سال ہے) کےتعاون سے اکھٹے کئے یا جن لوگوں نے ذاتی دلچسپی لیکر کر شجرے بنا کر ان تک پہنچائے.ان شجروں کو قطعی طور پر مکمّل نہ سمجھا جائے کیونکہ یہ چند سو افراد کے شجرے ہیں جبکہ قبیلے کی آبادی ہزاروں افراد پر مشتمل ہے.. اگر کسی کا زیر دستیاب شجرے میں نام موجود نہیں تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ نیازی نہیں یا سلطان خیل نہیں. بلکہ یہ محدود افراد کے شجرے ہیں جو مؤلف کو دستیاب ہوئے وہ شامل کردیئے۔اگر کوئی آرٹیکل میں مزید معلوت کا اضافہ کروانے کا متمنی ہے یا کوئی تصحیح درکار ہے یا کسی معروف شخصیت کی تصویر شامل کروانا چاہتا ہے تو ہمیں نیچے کمنٹ کریں یا فیس بک پیج نیازی پٹھان قبیلہ پر انبکس کریں شکریہ

ایڈمن نیازی پٹھان قبیلہ

www.NiaziTribe.org

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

2 تبصرے “شجرہ و تاریخ قبیلہ سلطان خیل۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں