سون سکیسر کے صحت افزا مقام کے بارے میں



سون سکیسر پہاڑی سکیسر ڈھنڈ جھیل کے کنارے ایک صحت افزا مقام ہے جہاں کبھی انگریز راج میں ہمارے ضلع میانوالی کے حاکم موسم گرما میں گرمی کی شدت سے بچنے کے لئے کیمپ لگاتے تھے اب ایسے صحت افزا مقامات پر عموماً فوجی کیمپ ہی لگا کرتے ہیں۔ اس سکیسر پہاڑی کی پس گردائی میں پہاڑ کے اِس طرف نمل جھیل کا علاقہ بھی اِس میں شامل ہو جاتا ہے۔وادیء سون سکیسرکا سلسلہ آگے چوہہ سیدن شاہ اور کلر کہار سے بھی آگے چلتا چلتا دریائے جہلم کے ذریعے کشمیری وادیوں میں جا اترتا ہے۔ یہ سب علاقہ کبھی بدھ مت و ہندو مت کے تیرتھوں،میلوں ،تہواروں کے منانے کی جگہ تھی جہاں پانی کے قدرتی چشمے پانی کی اترتی جھالیں اور جھیلیں اور چشمے فضا کو رنگین و پر بہار بناتے اور روحانی سکون و تراوٹ کا باعث بنتے تھے ۔سلسلہ سون سکیسر میں ہی جبی وڈی اورجبی ننڈھی کی دو جگہیں کبھی بدھ مت کے وہار ہوا کرتے تھے ۔اس سارے علاقے میں جنڈی مائی کے مزار اور اس کی پرستش ہوتی تھی ۔اعوانوں ، جوٹ، جنجوئے اور جج پرانے ہندو بنیادی یٰیات قبیلے کی نسل سے ہیں ۔اسی طرح کا ایک مقام موجودہ کالاباغ تحصیل عیسیٰ خیل ضلع میانوالی بھی ہے۔ یہاں اعوان چیف رہتا تھا یہ بھی اُسی یایتی قدیم ہندو سلسلے سے لگتا ہے۔ اونچی جگہوں پر بسیرا کرنا یا تو عقابوں کی عادت رہی ہے یا پھر بادشاہوں ،جرنیلوں ، اولیاء و سرداروں کی۔ حضرت معین الدین چشتی کا آگرے میں جائے مقام بھی ایک جھیل کا علاقہ ہے۔جب مشہور مسلم جرنیل محمد بن قاسم نے اموی دورِ اقتدار میں عرب سے آ کر سندھ کو فتح کیا تو اس کے بعد اس کے مشہور مسلم جرنیل چچا حجاج بن یوسف انچارج ایسٹرن کمانڈ سندھ نے تب محمد بن قاسم کویہ مشورہ لکھ بھیجا کہ اب چونکہ تم نے سندھ کے لوگوں پر فتح پائی ہے تو اب اس ملک کی رعیت کے فائدے کے کام کرنے کے ساتھ تم اب کسی صحت افزا اونچے مقام پر جا کر رہائش پذیر ہو جاؤ جہاں سے چہار جانب تمہیں اپنا مفتوحہ علاقہ صاف نظر آئے اسی کی تعمیل میں محمد بن قاسم نے سن چورانوے ہجری میں سندھ میں منحل نام کے ایک صحت افزا مقام کو اپنے لیے پسند کیا اور وہیں ایک ڈھنڈ وِکر بہار جو بودھوں کے زمانے کی ایک یادگار تھا جا اپنا آشیانہ وہاں بنایا۔لگتا ہے تاریخ میں نئے دارالخلافوں کے بنانے کی بھی یہ ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے نئے دارالخلافے اسلام آباد بنانے کا فیصلہ جنرل ایوب خان فیلڈ مارشل نے شاید کراچی کے عوام کے رش سے جان چھڑانے کی خاطر ایسا کیا ہومگر کہتے ہیں کہ ایوب خان کو سندھ کے ایک تاریخ دان مسٹرراشدی صاحب نے کہا تھا کہ سمندر کے کنارے کے لوگ اکثرسازشی اور بیوفا ہوتے ہیں اور آرام طلب بھی اور جمہوریت پسند بھی اگر دارالخلافہ کراچی ہی رہتا ہے تو محض ایک جلوس ہی جنرل صاحب آپ کے اقتدار کا خاتمہ کر سکتا ہے اسی تاریخ دان نے بعد میں جنرل ایوب کو اس کی زندگی میں پاکستان کے مسلمانوں کا بادشاہ بن جانے کا مشورہ بھی دیا تھا جس کو جنرل ایوب نے گو ہمدردی سے سنا بھی تھا مگر چپ رہا ۔جب وقت آیا تو فیلڈ مارشل نے اس حد تک تو اپنا کام دکھایا کہ اسلام آباد میں پاکستان کا ایک نیا دارالخلافہ قائم کیا کہ عقابوں کے ٹھکانے پہاڑوں پر ہی ہوتے ہیں۔ انگریز راج میں شملہ اور ڈیرہ دون کی پہاڑیاں انکے سمرریزارٹ ہوا کرتی تھیں جو بعد میں فوجی چھائونیاں کا سامان بن گئیں کشمیری پہاڑیوں کی انہی وادیوں میں بدھ مت تہذیب کے آثار ٹیکسلا و جولیاں کے مقامات پر ملتے ہیں تو دو قدیم بدھ مت شہر سرکپ و سر منڈھ کی آثاریات بھی یہیں موجود ہیں جو سر جان مارشل کنگھم نے دریافت کیے تھے۔ دریائے سون بذاتِ خود قدیم انسانی تہذیب کی لاکھوں سال پہلے کی جنم بھومی بتاتے ہیں ۔ہندوؤں کے پہلے رگ وید بھی کہتے ہیں یہیں اترےتھے تو وادی ء سون سکیسر اور سون سکیسر پہاڑی ہمارے میانوالی ہی کاایک پارٹ ہے ۔میرے خیال کے مطابق نمل جھیل جہاں پر آجکل عمران کا نمل کالج بنا ہوا ہے کلری ، رکھی اور روکھڑی میانوالی میں بدھ مت کےشہر ہونے کے امکانا ت سے خالی نہیں ہیں اسلیے کہ ان شہروں کے نام میں ماڑی انڈس کے طرح چھوٹی ‘ی’ بدھ مت شہروں کی پہچانوں میں سے ایک بڑی پہچان ہے۔قیام پاکستان سے پہلے ضلع میانوالی و دیگر ایک ضلع کے انگریز ڈپٹی کمشنر صاحبان اور ان کا عملہ یہیں پر اپنی گرمیاں گزارتے تھے اسی جگہ کے قدیم پہاڑوں میں قسما قسم کی معدنیات بھی مدفون ہیں جن میں یہ علاقہ اپنی نمک کی پیداوار کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے اور پاکستان کی معدنیاتی آمدنی کا تا قیامت ایک مستقل ذریعہ ہے۔ ان پہاڑوں کی عمر ماہرین ارضیات تیرہ کروڑ سال بتاتے ہیں اس علاقے میں کبھی ایران کی قدیم داستانوں کا ایک ہیرو بہرام گور بھی نمک کے ایک تاجر کا بھیس بدل کر یہاں پر آیا تھا کہ کسی طرح دنیا میں نمک کےاس ذخیرے پر قبضے کی کوئی تدبیر کرسکےتب ایران کی سلطنت ہندوستان کی سرحدوں کے ساتھ متصل تھی جبکہ کابل و زابل و غزنی کے علاقے بھی ہندوستان میں ہی شمار ہوتے تھے۔ اگر آپ کو وقت ملے اور اجازت بھی تو سون سکیسر کے اس تاریخی وصحت افزا مقام کی سیر ضرور کیجیے۔ تصویر میں ساتویں اور نویں صدی عیسوی کی امب شریف کے ایک مندر کے آثاریات ملاحظہ فرمائیے ۔ ختم شد
فیروز شاہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں