تعارف؛
سنبل قبیلے کے لوگ میانوالی میں بکھرے ہوئے آباد ہیں زیادہ تر میانوالی اور کندیاں کے درمیان گھنڈی سنبلاں والی یا بان سنبلاں میں آباد ہیں.
تاریخ؛
نیازی پشتون قبائل کی تاریخ میں سنبل وہ واحد قبیلہ ہے کہ جس کے واقعات پرانی تاریخ کی کتابوں میں بھی ملتے ہیں..
نیازی بابا کے تین بیٹے تھے اول باہی جس سے باہی قبیلہ کے لوگ ہیں دوم جمال جس سے سنبل اور عیسٰی خیل قبیلہ کے لوگ ہیں جبکہ سوم خاکو جس سے موشانی و سرہنگ نیازی قبائل ہوئے ہیں..
سنبل نیازیوں کے جد امجد جس کا شجرہ نسب یوں نقل کیا جاتا ہے
سنبل بن جام بن تورا بن حیم بن وگن بن جمال بن نیازی بابا..
سنبل کے چار بیٹے پیدا ہوئے جن کے نام یہ تھے، ہوتک، بابو، تاجو اور خواجہ
تاریخ کے جتنے اتار چڑھاؤ اس قبیلے نے دیکھے ہیں شاید ہی نیازیوں کی کسی دوسری شاخ نے دیکھے ہوں.
سولہویں صدی میں نیازیوں میں یہی واحد طاقتور قبیلہ تھا جس کی اپنی نیم خود مختار ریاست سنبلہ تھی جس کا صدر مقام مکھڈ تھا. جہاں پر یہ لوگ بڑی شان و شوکت اور جاہ و جلال کے مالک تھے.
افسانہ شاہان کے مصنف کے مطابق سنبل نیازی بہت طاقتور تھے مگر کسی قضیے میں شاہو خیل (بہلول لودی بادشاہ کا قبیلہ) کے ہاتھوں سنبل نیازیوں کے لوگ مارے گئے. اس خوف سے کہ سنبل نیازی اب بدلہ ضرور لیں گے. شاہو خیل ملتان بھاگ گئے جن کا تعاقب کرتے ہوئے سنبل نیازی بھی پیچھے جا پہنچے اور وہاں پر سنبل نیازیوں نے بہلول لودی کے باپ کو قتل کردیا.
جس کی وجہ سے بہلول لودی اپنے دور امارات میں نیازیوں سے خوفزدہ اور بدظن رہا..
اسی طرح سنبل نیازیوں کا ایک اور واقعہ مغلیہ سلطنت کے مؤرخین نے نقل کیا وہ پشتون تاریخ کا شاندار صفحہ ہے
یہ واقعہ شیر شاہ سوری کے دور حکومت کا ہے جب اعظم ہمایوں ہیبت خان نیازی گورنر پنجاب و سندھ تھا..
جبکہ شیر شاہ سوری کا بھتیجا مبارک خان سوری شمالی پنجاب کے معاملات دیکھنے کیلئے ہیبت خان نیازی کا نائب تھا.
مبارک خان سوری ایک سنبل سردار خضر خان سنبل کے قلعہ میں رہائش پذیر تھا. یاد رہے کہ تذکرہ ہمایوں و اکبر کے مصنف مرزا بیات کے مطابق مکھڈ سے لیکر بنوں تک اور دریائے سندھ کے کنارے سے لیکر اوپر علاقے ہنگو تک یہاں پر کسی زمانے میں سنبل نیازیوں کی ایک نیم خودمختار ریاست ہوتی تھی. اور یہ پشتونوں کی پشتونخواہ میں سب سے اولین ریاست تھی جیساکہ کہا جاتا ہے کہ خٹکوں کی ریاست ٹیری اولین ریاست تھی اس سے متفق نہیں۔بلکہ ریاست ٹیری بھی اسی ریاست سنبلہ کے کمزور ہونے پر وجود میں آئی۔شیر شاہ کے زمانے میں حاکم سردار خضر خان سنبل تھا. یہ ریاست کسی نہ کسی شکل میں اورنگزیب عالمگیر کے زمانے تک قائم رہی..
بہرحال مختصر یہ کہ مبارک خان سوری کو سنبل قبیلے کے ایک سردار اللہ داد خان کی دوشیزہ پسند آگئی جس کی زیبائی کے چرچے چہار سو پھیلے تھے..
مبارک خان نے اللہ داد خان سنبل سے اس کا رشتہ مانگا مگر اللہ داد خان نے ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے کہا کہ خان آپ محلات میں پلے بڑھے ہیں اور یہ بیچاری دیہاتی زندگی کی عادی ہے. یہ آپکے جوڑ کی نہیں ہے..
لیکن مبارک خان سوری کیونکہ شیر شاہ سوری کا بھتیجا تھا تبھی گھمنڈ تکبر میں آکر زبردستی کرنے لگا..
اس صورت حال میں سنبل نیازی سرداروں کا ایک جرگہ مبارک خان سوری کے پاس گیا. جرگہ نے بات چیت شروع کی اور اقرار کیا کہ نیازیوں اور سوریوں میں پہلے بھی رشتے ناطے ہوچکے ہیں مگر یہ رشتہ ہم نہیں کرسکتے ہم مجبور ہیں..
مگر مبارک خان سوری جو جذباتی اور ضدی تھا وہ بدتمیزی پر اتر آیا اور اپنے تقاضا سے پیچھے نہیں ہٹا. جس پر نیازی سرداروں نے جواب دیا کہ رشتہ ہمیشہ برابری کی بنیاد پر ہوتا ہے. اصیل کی بیٹی اصیل کو دی جاتی ہے جبکہ غلام زادے کیلئے غلام زادی. یہ بات سن کر مبارک خان سوری طیش میں آگیا. کیونکہ مبارک خان سوری شیر شاہ سوری کے بھائی نظام سوری کی ایک ہندوستانی باندی کے بطن سے پیدا شد تھا.
بہرحال جرگہ یہ فیصلہ سنا کر واپس آگیا.
اس دوران مبارک خان سوری نے بے عزتی کا بدلہ لینے کیلئے سنبلوں کی ایک نوکرانی کو اٹھوا لیا. یہ بات سنبل سرداروں کو سخت ناپسند آئی. انھوں نے اس کنیز کی واپسی کے تقاضے کیلئے مبارک خان سوری کے پاس جرگہ بھیجا. جرگہ نے مبارک خان سوری کو کہا کہ نیازیوں اور سوریوں کی ننگ ناموس یکساں ہیں یہ قبیح فعل کرکے آپ نے دونوں کی عزت کو بٹا لگایا. مگر مبارک خان ابھی تک وہی تکرار کررہا تھا کہ مجھے اللہ داد سنبل کی بیٹی چاہیے.. جس پر جرگہ غصے میں آگیا ایک سردار نے اٹھ کر کہا. کبھی تم نے سنا ہے کہ بھیڑ نے بھی بھیڑیا کو کاٹا ہو.. ہم تم سے شیر شاہ سوری کی وجہ سے نرمی کا رویہ رکھے ہوئے ہیں. ہمیں مجبور نہ کرو کہ ہم کوئی ایسا قدم اٹھا جائیں جس سے بعد میں تمھیں پچھتاوا ہو..
چپ کرکے ہماری کنیز واپس کرو اور اس مسئلے کو یہیں ختم سمجھو..
جس پر مبارک خان نے اپنے محافظوں کو حکم دیا کہ اس جرگے کو دھکے مار کر بیدخل کر دو. جس پر وہاں ہاتھاپائی شروع ہوگئی. جرگہ نے لاتوں اور گھونسوں سے محافظوں سے ہتھیار چھین کر انھیں بھی قتل کر ڈالا اور مبارک خان سوری بھی قتل ہوگیا..
جس کے بعد سنبل نیازیوں نے افغانستان کی راہ لی. جبکہ مؤرخ فرہاد علی خاور کے مطابق سنبل نیازیوں نے یوسفزئی سردار گجو خان کے ماتحتی علاقوں یعنی جنڈ، کوہاٹ کی طرف نقل مکانی کی..
جب مبارک خان سوری کے قتل کی اطلاع شیر شاہ سوری کو پہنچی تو سخت مظطرب ہوا اور ہیبت خان نیازی کو لکھا کہ سوری پہلے ہی انتہائی کم ہیں اگر پشتون اسی طرح سوریوں کو مارتے رہے تو سوری عنقریب نابود ہوجائیں گے..
اب ہیبت خان نیازی عجیب شش و پنج کا شکار ہوگیا..
اگر وہ کاروائی کرتا ہے تو اپنے قبیلے کے لوگوں کی نظر میں گرتا ہے اور اگر کارروائی نہیں کرتا تو شیر شاہ سوری کی نظر میں…
پس ہیبت خان نیازی نے حیلہ بہانے سے نقل مکانی کرنے والے سنبل نیازیوں کو جھوٹی تسلی دلا کر واپس بلایا. مؤرخین کے مطابق انھیں سرگودھا کے علاقے بھیرہ کے مقام پر جہاں قلعہ تھا بلایا گیا مگر ہیبت خان نیازی کے حکم سے دھوکہ دیکر نو سو افراد کو قتل کردیا گیا.. عباس خان سروانی لکھتا ہے کہ جب سنبل نیازیوں کو قتل کیا جارہا تھا تو کسی نے کہا کہ تم جوابی وار کیوں نہیں کرتے تو سنبل نیازیوں نے جواب دیا کہ بدقسمتی سے دونوں طرف یعنی ہمیں مارنے والے بھی نیازی ہیں اگر کوئی اور ہوتا تو ہم بتا دیتے کہ لڑائی کیسے لڑی جاتی ہے. جب ایک مخالف پارٹی کے سپاہی نے سنبل نیازیوں کو کہا بھاگ جاؤ جان بچا کر تو انھوں نے کہا بھاگ جانا ہمارا شیوہ نہیں ہے تم ہم کو مارو ہم مرنے کیلئے تیار ہیں…
بہرحال جب اس مرگ انبوہ کی خبر شیر شاہ سوری کو پہنچی تو وہ سخت طیش میں آگیا. شیر شاہ سوری نے کہا کہ ایسی بے شرمی کی حرکت آج تک پشتونوں میں کسی نے نہیں کی جو ہیبت خان نیازی نے کی ہے. کالنجر کا قلعہ فتح کر لوں میں ہیبت خان نیازی کو واپس دہلی بلا کر عیسٰی خان نیازی کو حاکم پنجاب تعینات کروں گا..
یاد رہے کہ اس حادثہ کا یہ یک طرفہ مؤقف ہے۔ہیبت خان نیازی کو آخر کس بات نے اس انتہائی اقدام لینے پر مجبور کیا یہ معلوم نہیں کیونکہ بظاہر جیسے مؤرخین نے لکھا ہے ویسا لگتا نہیں۔کیونکہ ایک تو نیازی قبیلہ سوری سلطنت کی سرحد پر آباد دشمن کے حملے کی صورت میں پہلی دفاعی پوزیشن پر تھا دوسرا ہیبت خان نیازی کا لشکر نیازی جوانوں پر مشتمل تھا۔اس طرح بغاوت پیدا ہوسکتی تھی۔یقیناً پس پردہ محرکات کچھ اور بھی ہونگے جن کا علم ہمیں نہیں۔
بہر حال یوں اسطرح اس بڑے سانحہ میں سینکڑوں سنبل مارے گئے..
سنبل نیازیوں کی سلطنت جسکو مرزا بیات نے ریاست سنبلہ کہا ہے اس کے پاس مکھڈ اور کالاباغ کے قلعہ جات بھی تھے اس کے علاوہ خضر خان کا قلعہ کس جگہ تھا اس کے بارے میں مختلف آراء ہیں
اقبال خان نیازی صاحب فرماتے ہیں کہ
خیال اغلب ہے کہ وہ کچہ قلعہ موضع عیسٰی خیل کے قریب کہیں ہوگا یا پھر موجود ترگ موضع کے نیچے جہاں پر یہ قلعہ دریائے سندھ کی طعیانی یا پہاڑی رودکوہیوں میں تباہ ہوگیا ہوگا.
یا پھر موچھ کے بزرگوں کی روایات کے مطابق جناح بیراج یا پھر پکی شاہ مردان کے اس پاس تھا..
مگر میرا خیال اس سے برخلاف ہے وہ قلعہ جلال پور یاخدوزئی کے اس پاس کہیں ہوگا..
عالمگیر نامہ کے مطابق قلعہ دینکوٹ (کالاباغ) پر سنبل بدستور قابض چلے آرہے تھے جسکی وجہ سے کالاباغ کے مقام پر دریائی آمدورفت کی وہ وصولی لیتے تھے مگر مغل بادشاہوں کو کچھ نہیں دیتے تھے جسکی وجہ سے عالمگیر بادشاہ نے جنگی نقطہ نظر کے لحاظ سے اس اہم گزرگاہ کو سنبلوں سے واگزار کرانے کیلئے مغل فوجدار کو بھیجا جس نے سنبلوں کو شکست دیکر کر دریا کے پار مغربی سمت دھکیل دیا.
لیکن سنبل نیازی بھی خاموشی سے نہ بیٹھے اور جوابی کارروائی کرتے ہوئے اس فوجدار کو قتل کردیا. جس پر اورنگزیب عالمگیر سیخ پا ہوگیا اور سنبل نیازیوں پر لشکر کشی کا فیصلہ کیا. ایک مضبوط مغل لشکر نے آکر سنبل نیازیوں کو بھرپور تباہ کردیا. جو بچے کچھے تھے وہ بکھر گئے یوں اسطرح نیازیوں کا یہ زوآور قبیلہ تباہ ہوگیا اور تاریخ کے صفحات میں گم ہو کر رہا گیا. کہتے ہیں کہ اس مہم میں مغل فوج کے ہاتھ میں اُس زمانے کا دو لاکھ روپیہ مال غنیمت ہاتھ آیا. جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ سنبل نیازی مالی طور پر کتنے آسودہ حال اور مستحکم تھے..
اس حملے سے بچنے والے سنبل مسان، نکی، میں آباد ہوگئے کچھ عیسٰی خیل جا آباد ہوئے کچھ بنوں میں جا کر آباد ہوئے..
اس شکست کے بعد سنبل نیازیوں کی افرادی قوت چونکہ بکھر چکی تھی حاکم وقت بھی دشمن تھے تبھی کچھ خاندان اعوانوں، خٹکوں، جاٹوں حتی کہ کسبگر اقوام میں اپنی شناخت چھپا کر پوشیدہ اور خاموش زندگی گزارنے لگے..
مجھے کافی عرصہ پہلے ریڈیو پاکستان کے ایک اعلیٰ افسر جو کہ ضلع کرک کے رہنے والے تھے بتایا کہ ہم دراصل نیازی ہیں. میں حیران ہوا کہ محترم آپ تو خٹک کہلواتے ہیں انھوں نے بتایا کہ بلکل میں خٹک کہلواتا ہوں کیونکہ میں کرک میں رہتا ہوں. وگرنہ دراصل ہمارے اجداد سنبل نیازی ہیں جو کہ امتداد زمانہ کی وجہ سے بنوں میں آئے اور باامر مجبوری حجامت کا پیشہ اختیار کرلیا پھر وہاں سے ہم کرک منتقل ہوئے اور اس پیشہ کو خیر باد کہہ دیا. لیکن اپنی شناخت کو چھپائے رکھا ہے ابھی تک کیونکہ ہماری نسل در نسل تباہی کی وجہ سے ہم آج بھی اصل شناخت کو ظاہر نہیں کرتے لیکن اپنی اولاد کو ضرور بتلاتے ہیں کہ ہم سنبل نیازی ہیں..اس طرح ساہیوال میں کچھ سنبل خود کو جٹ قوم سے ہونا سمجھتے ہیں۔
آبادیاں؛
کیونکہ سنبل قبیلے نے بہت مشکل وقت دیکھے ہیں تبھی یہ قبیلہ در بدر ہوکر بکھر گیا ہے
لیکن موجودہ زمانے میں اس قبیلے کی آبادی بان سنبلاں اور گھنڈی ضلع میانوالی میں ہے. اس کے علاوہ یہ لوگ داؤد خیل، ٹھھٹی، پائی خیل، کمر مشانی، چاپری، خدوزئی، جلال پور، بنوں، لکی مروت، مسان، ڈھوک فتح شاہ، جنڈ،، سمندی والا، کندیاں، فیصل آباد، سرگودھا کے چکوک میں آباد ہیں.. فیصل آباد والے بیچارے تو خود کو جٹ سمجھتے ہیں حالانکہ جٹوں میں سنبل نام کی کوئی گوت نہیں..
ہندوستان میں سنبل نیازیوں کی آبادی..
مولانا محمد شاہ خان نجیب اکبر آبادی اپنے رسالہ خواص خان ولی میں لکھتے ہیں کہ
بہلول لودی کے زمانے میں کوہ ہمالیہ کے دامن میں واقع کجلی بن کے جنگلات میں پٹھانوں کی نوآبادی ہوئی یہ آبادکاری شیر شاہ سوری کے عہد میں گلزار سدا بہار بن چکا تھا یعنی افغانوں کی کافی آبادی ہوچکی تھی لودھی، شروانی، کاکڑ، لوحانی اور سنبل قبائل کے لوگوں نے بودوباش باش اختیار کی.
یہ افغان بستیاں مشرق میں علاقے کالا گڑھ (حال ریاست اتر پردیش) اور مغرب میں سِل گڑھ (حال ریاست اتر کھنڈ) تک پھیلی ہوئی تھیں..
سل گڑھ کا اصل نام سنبل گڑھ تھا جو پٹھانوں کی قوم سنبل کا آباد کردہ علاقہ تھا…
یہ وہی سنبل قوم تھی جو نیازیوں کی ایک شاخ تھی اور اللہ داد سنبل کی لڑکی کی شادی کے تنازعے پر تباہی سے دوچار ہوئی..
یہاں پر سنبلوں نے سلوں (یعنی پتھروں ) سے ایک مضبوط قلعہ تعمیر کیا ہوا تھا جب خواص خان باغی ہوکر سلیم شاہ سوری سے جان بچاتا پھر رہا تھا تو اسی علاقے میں آگیا یہاں پر سنبل نیازیوں کے علاوہ دیگر پشتون قبائل کی بستیاں بھی تھیں. مگر جب خواص خان اپنے انجام کو پہنچا تو سلیم شاہ سوری نے اس علاقے کو اس لئے تاراج کیا کیونکہ انھوں نے خواص خان کو پناہ دے رکھی تھی… یوں یہاں پر بھی سنبلوں کو تباہی کا شکار ہونا پڑا….
مشہور شخصیات؛
محمد خان سنبل (آپ ضلع میانوالی بننے سے پہلے کے وکیل تھے)
اسلم خان سنبل (آپ محمد خان سنبل کے صاحبزادے اور علیگڑھ سے فارغ تحصیل تھے اور ضلع میانوالی کے نامی گرامی وکیل تھے)
صلاح الدین خان سنبل (آپ لاہور کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر رہے ہیں)
اقبال خان سنبل (سابقہ آئی جی پولیس)
عبداللہ خان سنبل (سابقہ کمشنر لاہور ڈویژن اور موجودہ چئیرمین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ پنجاب)
، ظفر عالم خان سنبل (سیکرٹری آرمی ویلفیئر ٹرسٹ)
رسلدار احمد خان نیازی (آنیریری مجسٹریٹ)
کرنل عطاء اللہ خان سنبل (مشہور معروف سماجی شخصیت آپ نے کئی عہدوں پر خدمت خلق کا فریضہ سرانجام دیا)
حمید اللہ خان سنبل شہید (آپ پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ میں جرات مندی سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے ریلوے اسٹیشن سنبل حمید آپکے نام سے منسوب ہے)
ممتاز خان نیازی (ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر ہنجل گیٹ بنوں)
ڈی آئی فیاض سنبل شہید (آپ کوئٹہ میں بم دھماکے میں شہید ہوئے)
سعید اللہ خان سنبل مرحوم (آپ کندیاں کی معروف سماجی و سیاسی شخصیت تھے)
نویداللہ خان سنبل کندیاں
میجر افتخار اللہ خان سنبل
وغیرہ شامل ہیں
ذیلی شاخیں؛
خدر خیل، غازی خیل، مندوری(یاد رہے کہ مندوری جوکہ مردان اور میانوالی کی خٹک بیلٹ میں آباد ہیں سنبل نیازی ہیں)
،دلاور خیل، ابراہیم خیل، سرمست خیل، عمر خانیئے، حکیم خانئیے، عیسٰی خانیئے، آدم خیل، فتح خیل، ناصر خیل، پٹول خیل، حسن خیل، ہمایوں خیل،
وغیرہ شامل ہیں
نوٹ؛
یہ بات یاد رہے کہ زیر دستیاب شجرہ جات صرف وہ ہیں جو تاریخ نیازی قبائل کتاب کے مؤلف حاجی اقبال خان نیازی صاحب مرحوم نے اپنی کوشش سے اکھٹے کئے یا جن لوگوں نے ذاتی دلچسپی لیکر کر شجرے بنا کر ان تک پہنچائے.ان شجروں کو قطعی طور پر مکمّل نہ سمجھا جائے کیونکہ یہ چند سو افراد کے شجرے ہیں جبکہ قبیلے کی آبادی ہزاروں افراد پر مشتمل ہے.. مزید یہ کہ سنبل نیازیوں کے سینکڑوں افردا مختلف جنگوں میں مارے گئے جن کے شجرے تو درکنار نام بھی معلوم نہیں۔پس اگر کسی کا زیر دستیاب شجرے میں نام موجود نہیں تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ نیازی نہیں یا سنبل نہیں. بلکہ یہ انتہائی محدود افراد کے شجرے ہیں جو مؤلف کو دستیاب ہوئے وہ شامل کردیئے۔اگر کوئی آرٹیکل میں مزید معلوت کا اضافہ کروانے کا متمنی ہے یا کوئی تصحیح درکار ہے یا کسی معروف شخصیت کی تصویر شامل کروانا چاہتا ہے تو ہمیں نیچے کمنٹ کریں یا فیس بک پیج نیازی پٹھان قبیلہ پر انبکس کریں شکریہ
ایڈمن نیازی پٹھان قبیلہ
www.NiaziTribe.org
آسلام علیکم پیارے کیسے ہیں میں نے فیسبک پر بھی رابطہ کیا یہاں بھی کر رہا میں پٹھان سمہین قبیلہ کا ہوں ہمارے قبیلہ کی معلومات یہاں کیوں نہیں ہے ؟ سمہین قبیلہ زیادہ تر بھکر کی تحصیل کلورکوٹ میں آباد ہیں
ابھی دوبارہ کریں۔۔ہم آف لائن تھے۔
Assalamualaikum aap k pass sumbal niazi qabila ki shaah pulaw khel ka shajray agar mojood hai to aap meray saath share karday mera taaluq pulaw khel shaakh k saath hai
اسلام علیکم سنمبل نیازی قبیلا شاخ پلاو خیل کے شجرہ اگر آپ کے پاس موجود ہو تو آپ شیئر کردے میرا تعلق بھی شاخ پلاو خیل سے ھے شکریا۔
ہمارے پاس دستایب نہیں ہے لیکن اگر آپ معاونت فرمائیں تو کوئی حل نکالا جا سکتا ہے۔