گزشتہ دنوں میرے ایک کرم فرما جناب علی خان صاحب نے پشتو شاعری کے کچھ نایاب اور دلچسپ نمونے اسکرین شارٹ کی صورت میں کمنٹس کئے ۔
جب میں نے وہ منظوم کلام دیکھا تو حیرت کی انتہا نہ رہی کیونکہ میرے پاس موجود تاریخی کتب میں کسرانو( پشتو رزمیہ شاعری) سے متعلق کوئی مواد نہیں ھے۔
میں نے یہ کلام دیکھنے کے بعد علی خان صاحب سے مذکورہ شاعری نمونوں کے بارے میں کتاب کا حوالہ مانگا جس پر موصوف نے ایک لنک بھیجا ۔
میں نہیں جانتا علی خان صاحب کا تعلق نیازیوں کے کس قبیلے سے ھے مگر انہوں نے ایک بالکل نایاب ، دلچسپ اور تاریخی مواد تک میری رسائی ممکن بنائی جس کے لئے میں موصوف کا دلی طور پر ممنون ھوں ۔
میری پشتو چونکہ لکھنے پڑھنے کی حد تک گڈا وڈہ (weak) ھے سو تین دن تک ان مروتوں کے چربتوں میں پھنسا رھا اور اس رزمیہ شاعری کے مآخذ اور پس منظر تک پہنچنے کی کوشش کرتا رھا اور کوئٹہ والوں کی طرح
” سر مِ مسّے پہ خلاص سو”
تحقیق کَول سوکا چار نہ دا
مروتو تاسو پہ چربتو مِ جان تباہ کو ۔
شاعری اور نثر پر مشتمل اس پشتو مواد سے جو کچھ اخذ کیا وہ پیش خدمت ھے۔
انسان ھوں غلطی کا احتمال ھو سکتا ھے کہیں غلطی ھو تو نشاندھی کرلیں۔
شاید کچھ بھائیوں کو میری یہ پوسٹ بور اور وقت کا ضیاع لگے مگر تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے اس میں انتہائی دلچسپ اور حیران کن معلومات ھیں یہ شاعری نمونے یا منظوم کلام ” د مروتو کسرانو” کے نام سے Pdf پر دستیاب ھے۔
اب موضوع کی طرف چلتے ھیں ۔
سکھا شاہی دور کےآوائل یا اس سے کچھ عرصہ پہلے زوال پذیر درانی دور حکومت (1780 تا 1830) میں جب مرکزی حکومت کا کنٹرول کمزور پڑگیا تو ھر طرف طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا۔ ایک طرف سکھ لٹیرے دندناتے پھر رھے تھے تو دوسری طرف پشتون قبیلے ایک دوسرے کے ساتھ برسر پیکار تھے ۔مروت قبیلے کی اس دور میں دوسرے پشتون قبائل نیازی ، خٹک ، وزیر ، محسود ، گنڈاپور ، دولت خیل اور کٹی خیل وغیرہ کے ساتھ جنگیں ھوتی رہیں ۔ ان حربی معرکوں کا احوال، محرکات اور منظر کشی کو اس وقت کے مروت شعراء نے بہترین پشتو شاعری میں بیان کیا ھے گو کہ ان شعراء کا کلام مبالغہ آرائی ، زیب داستان اور قبائلی و نسلی تعصب پر مبنی ھے مگر اس سے ھماری تاریخ کے کچھ اوجھل اور پوشیدہ گوشے بھی وا ھوتے ھیں۔
60 سال قبل مروت قوم سے تعلق رکھنے والے ھائی کورٹ کے ایک جج حبیب اللہ خان بیگو خیل نے ان شعری نمونوں کو جو قلمی نسخوں کی صورت میں موجود تھے اکھٹا کیا اور انہیں بیاض کی شکل دی بعدازاں وہ اسے ایک ادبی شخصیت عبدالرحیم مروت کے حوالے کر گئے۔
عبدرالرحیم مروت نے 1959 ء میں ان پر ایک مقالہ لکھا اور پشتو اکیڈمی پشاور یونیورسٹی سے ” د مروتو کسرانو” کے نام سے کتابی شکل میں شائع کیا۔
“کسر” عربی زبان کا لفظ ھے جس کے معنی ھے چھوٹا حصہ ، ٹکڑا ، برخہ یا piece
مگر مروتوں کی اصطلاح میں ایک ایسا منظوم کلام جس میں کسی قوم یا فرد کے بہادرانہ کارنامے بیان ھوں اسے “کسر” کہتے ھیں یعنی جنگ سے متعلق منظوم داستان کو ان کی پشتو میں “کسر” کہتے ھیں اردو میں اسے رزمیہ کلام کہہ سکتے ھیں جیسے حفیظ جالندھری کی ” شاہنامہ اسلام ” ھے
ھماری SK کی پشتو میں اس صنف کو “چار بتہ ” کہتے ھیں جس پر میری ریسرچ جاری ھے
یہ تو تھا ان شعری نمونوں کا ایک مختصر سا تعارف یا پس منظر اب ذرہ ان
” کسرانو ” کا تنقیدی اور تحقیقی جائزہ لیتے ھیں ۔
ٹینگ سیو ۔
1۔ مروت اور نیازی قبائل کا ذکر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” د مروتو کسرونو” نامی اس منظوم کلام میں جہاں مروت قوم کے ذیلی قبائل بیگو خیل ، غزنی خیل، میداد خیل ، مینا خیل ، تاجی خیل، ابا خیل اور گداخیل کا ذکر ھے وھاں نیازی قوم کے ان ذیلی شاخوں کا بھی ذکر ھے جن کے ساتھ ان کی جنگیں ھوئیں ان ذیلی شاخوں میں عیسٰی خیل ، سلطان خیل، کندی ،اور مندرہ خیل کا ذکر ھے زیادہ ترشعراء نے ذیلی شاخوں کے بجائے ھمیں اجتماعی طور پر نیازی کہا ھے ۔
مندرہ خیل کونسا قبیلہ ھے؟ میرے علم میں نہیں اور یہ بھی ایک تحقیق طلب نام نکل آیا ھے ۔
۔
2۔ جنگوں کے محرکات ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کسرونو میں جنگ یا تنازع کی وجہ زیادہ تر ایک دوسرے کے مویشی ( گائے ، اونٹ ، بھیڑ اور بکریاں) چُرانا(لُوٹنا) یا ہانک کر لے جانا بتایا گیا ھے۔
اس سے ھماری اس روایت کی تصدیق ھو جاتی ھے کہ مروت لٹیروں نے عیسٰی خیل کے نیازیوں کا ناک میں دم کر رکھا تھا اور سلطان خیلوں نے ان کی مروت اور خٹک لٹیروں سے جان چھڑائی ۔
3۔ مشہور نیازی جنگجو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کسرانو سے اس دور کے مروت جنگجو سرداروں کے ساتھ ساتھ نیازی قبیلے کے کچھ جنگجو سرداروں کا پتا بھی چلتا ھے
جو مندرجہ ذیل ھیں
١ـ ان میں ایک کسر کے مطابق سلطان خیلوں اور مروتوں کی درمیان ایک جنگ ھمارے علاقے میں ھوئی جس میں مروتوں کا سردار نواز خان میداد خیل قتل ھوا ھماری روایات کے مطابق اس جنگ میں مروت حملہ آور بنکر آئے تھے اور شکست کھا کر جب بھاگے تو دریائے کرم پار کرتے ھوئے پانی میں بھی ” ابو ابو ” پکارتے رھے اور اس کے بعد کبھی عیسٰی خیلوں کو تنگ کرنے نہیں آئے یہ جنگ سلطان خیلوں نے اکیلے لڑی اور اس میں 300 نوجوانوں نے حصہ لیا ہماری روایات کے مطابق عبوت خان، شیرعالم اورقلندر نامی جنگجوؤں نے مروتوں کو شکست دی ۔
اس جنگ میں سلطان خیل قبیلے کو عیسٰی خیل نیازیوں کی مالی معاونت حاصل تھی یعنی گھوڑے ، تلوار، نیزے اور بندوقیں مگر جنگجو سلطان خیل تھے ۔
٢ـ ایک اور کسر میں صورت خان اور شھباز خان مندرہ خیل نیازیوں کا ذکر ھے۔ یہ دو بھائی تھے جو ترنا (عیسٰی خیل) کے مقام پر خٹکوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں بہادری کے ساتھ لڑتے ھوئے شہید ھوئے
ایک اور کسر میں مندرہ خیل ھی کے مہرجنگ نیازی کے بارے میں شاعر کہتا ھے مہرجنگ کی بہادری کے چرچے کابل تک ھیں ۔
٣۔خانزمان ، محمد خان اور اشپر خان کو عیسٰی خیل قبیلے سے بتایا گیا ھے
اس کےعلاوہ کچھ نیازی جنگجوؤں کا ذکر صرف نیازی کے طور پر ھوا ھے ان میں لنگر خان نیازی جن کے ھاتھوں مروت سردار بیگو خان بیگو خیل کا قتل ھوا، اسماعیل نیازی جو مروتوں کے ساتھ ایک جنگ میں قتل ھوا ،گل شاہ نیازی اور سوداد نیازی کا بھی نامور جنگجو کے طور پر ذکر ھوا ھے۔
4۔ سامانِ حرب ( جنگی ساز وسامان /ہتھیار)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان شعراء نے اپنے ھر کسر میں قبیلوں کے درمیان جنگ میں استعمال ھونے والے ہتھیاروں کا بھی ذکر کیا ھے ان جنگوں میں جو ہتھیار استعمال ھوئے ھیں ان میں تُورا (تلوار) ، تبر (کلہاڑی) ، لندہ و غیسے (تیر اور کمان) ، سانگہ( نیزا)، اور موزے دار ٹوپک ( دھاگے کوآگ دے کر فائر کرنے والی بندوق) شامل ھے ۔
یہ بندوق لاھور کےعجائب گھر میں دیکھی جاسکتی ھے۔
اس بندوق سے ایک فائر کے بعد دوسرا فائر کرنے تک بندہ آرام سے چائے بناکر پی سکتا ھے۔
ان کسرونو میں ڈم (میراثی) سے ڈھول بجا کر اعلان جنگ کا ذکر بھی ھے جسے اردو میں طبلِ جنگ کہتے ھیں ، چغہ ( کسی مجرم کے مسلح تعاقب ) کا ذکر بھی ھے، جنگوں میں لشکر کی تعداد کا ذکر بھی ھے اور جنگوں میں استعمال ھونے والے گھوڑوں کے نام تک دئے گئے ھیں (چرگئے ، سمندئے ، کورنگ اور اسکانڑہ نامی گھوڑوں کاذکر ھوا ھے)
نیازی اور مروتوں کے درمیان جنگیں مروت کے علاقے میں بھی لڑی گئیں ھیں اور عیسٰی خیل کے علاقے میں بھی اور ویسے بھی اس وقت بنو ،لکی اور میانوالی ڈی آئی خان کے زیر کنٹرول تھے
5 ۔اس دور کے مروت شعراء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کسرانوں لکھنے والے تمام شعراء کا تعلق مروت کے مختلف قبیلوں سے ھے۔ان کسرونوں سے اس دور کے اعلٰی پائے کے شعراء کا بھی پتا چلتا ھے
ان شعراء کے نام یہ ھیں
جرس، دینک ، میخان ، میرہوس، لاج میر ، عطائی ، گنڈئی اور دوران خان
ان شعراء نے یہ کلام خود سے بھی لکھا ھے اور قبیلے کے سرداروں اور لوگوں کی خواہشات پر بھی تخلیق کیا ھے ۔
6۔ نیازی اور مروت ناموں میں حیرت انگیز مماثلت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کسرانو میں مروت کے جن قبیلوں اور سرداروں کے نام آئے ھیں حیرت انگیز طور پر ھمارے ھاں بھی وہ نام اور قبیلے موجود ھیں ۔
ان کسرانوں میں مروتوں کے قبیلے موسٰی خیل، ابا خیل، گدا خیل ، پہاڑخیل ، میداد خیل اور درے پلارے کا ذکر ھے اور حیرت انگیز طور پر یہ تمام قبیلے نیازی قوم میں بھی ھیں۔
گداخیل، پہاڑخیل اور میداد خیل سلطان خیل کی ذیلی شاخیں ھیں جبکہ درے پلارے موسٰی خیل کی ذیلی شاخ ھے۔ ابا خیل اورموسٰی خیل نیازیوں کے بڑے قبیلے ھیں ۔
اسی طرح ایک کسر میں ھندال کے بیٹے اٹل کا ذکر ھے جبکہ ھمارے ھاں بھی ھندال کی اولاد میں سے اٹل نام کا فرزند گذرا ھے اور جن سے ایک شاخ اٹلی خیل موجود ھے اور تاجہ خیل (موچھ ) میں بھی ہندال خیل قبیلہ ھے ۔
ان کسرانوں میں جن مروت جنگجوؤں کا ذکر ھے ان میں نواز خان ، حکیم خان ، گورلنگ خان ، قتال خان ، دوران خان ، ظفران خان ، پہلوان خان ، گلان خان ، سرفراز خان ، قلندرخان ، جلندرخان ، سمندر خان ، بوستان خان ، عمر خان ، شیر خان ، علی خان ،بازید خان ، زر خان، مقرب خان ، اورارسلاخان وغیرہ کے نام ھیں اور یہی نام ماضی قریب اور حال میں ھمارے ھاں بھی بکثرت پائے جاتے ھیں۔
7۔ سلطان خیل اور مروت پشتو میں مماثلت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب آپ یہ کسرونہ پڑھوگے تو یوں لگے گا جیسے سلطان خیل کلی کی پشتو میں لکھی گئی ھے۔
میں نے کچھ عرصہ پہلے سلطان خیل پشتو کے بارے میں کہا تھا کہ ہماری پشتو کے کچھ الفاظ کسی اور پشتو میں نہیں ھیں مگر مجھے وہ الفاظ ان کسرونہ والی پشتو میں مل گئے ۔
پشتو کے کچھ الفاظ اردو ترجمہ کے ساتھ دیکھیں
پشتو الفاظ
ـ چنڑئے ۔ زلفے ۔ زلفیں
ـ مزدک ۔ جومات ۔مسجد
ـ لو خڑ ڑے۔ تور لوگے۔ کثیف دھواں
ـ ڈیر تنہ (ڈیر کسان)۔ بہت سارے
ـ سیاں (سورے) ۔ سای
برئے (گٹہ) جیت/فتح
ـ خندنے ( اسپک) ۔بے غیرت
ـ اسپرو (منحوس) منحوس
ـ جندرے (تالے ) ۔تالے
بوزہ (شلی دلے)۔پھٹا ھوا ۔
ـ جیرا ول (کتل) ۔دیکھنا
ـ مرّکہ (جرگہ) ۔ پنچائیت
۔ کم کوٹے (وڑوکے ) چھوٹو
محاورے دیکھیں وہ بھی ھمارے والےـ
١ـ غاش ٹینگا ول ( دانت دبانا)ـ
یعنی ثابت قدم رہنا
٢ـ کُنّا لگا ول( تشریف کا رکھنا)
بیٹھنا
٣۔ تور توپک زیڑے لیندے (کالی بندوقیں اور زرد کمانیں)
یعنی مسلح ھونا
8۔ دلچسپ اور مضحکہ خیز انکشافات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کسرونوں میں دلچسپ اور مضحکہ خیز انکشافات بھی ھوئے ھیں ۔
مثلاً ان کسرانوں میں خٹک قوم کا گنجی کے نام س ذکر ھے اور اشعار میں ان کی بشری خامیوں کو اجاگر کرتے ھوئے کہتے ھیں یہ اسپیرو (منحوس) ھیں اور ناقابل اعتبار ھیں دوستی کے قابل نہیں ھیں۔
ان شعراء نے ایک اور دلچسپ انکشاف ہمارے موشانی بھائیوں کے متعلق بھی کیا ھے۔
جسے پڑھ کر مجھے بہت ہنسی آئی وہ کہتے ھیں موسیان خٹک قوم سے ھیں۔ ہمیں پشتو بولنے پر خٹکی کہنے والے موسیان مروت بھائیوں کی نظر میں خٹکی ھیں اور ویسے بھی ھمارے قبلہ وکعبہ اور قابل احترام قبیلے باہی کے ایک چشم و چراغ حسن نیازی بھی بضد ھے کہ موشانی نیازی نہیں ھیں اب تو مروتوں کی طرف سے بھی تاریخی سند مل گیا ھے ایک اور دلچسپ انکشاف یہ بھی کیا ھے کہ جب ھم (مروت) عیسٰی خیل پر لشکر کشی کرتے ھیں تو عیسٰی خیل کے نیازی گیدڑوں کی طرح فصیلوں میں چھپ جاتے ھیں ۔
سلطان خیلوں یا دیگر نیازی قبائل کے بارے میں زیادہ نازیبا کلمات نہیں ہیں بہ نسبت دیگر قبائل کے ۔
ان شعراء نے اپنے مروتوں کو بھی نہیں بخشا
بیگوخان مروت جب لنگر نیازی کے ھاتھوں قتل ھوتا ھے تو شاعر اس کسر میں مروتوں کو طعنہ دیتا ھے
کہ اگر تم بیگو خان کا بدلہ نیازیوں سے نہیں لے سکتے تو پھر ھاتھ کے پنکھے بناکر ڈی آئی خان میں بیچنا شروع کردو ۔
9۔ مبالغہ آرائی اور لغو سے بھرپور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” د مروتو کسرانو” نامی کتاب میں ھر کسر میں بکثرت جھوٹ بولا گیا ھے شاعری کے یہ شہ پارے جھوٹ کے اعلٰی نمونے ھیں ۔ ان شعراء نے اپنے قبیلے یا مروتوں کو خوش کرنے کے لئے مروت جنگجوؤں کی شان میں مبالغہ آرائی کی حد تک مدح سرائی کی اور ان کے بہادری اور شجاعت کے جھوٹے ، من گھڑت اور فرضی قصے کلام کا حصہ بنایا ۔
مروت لوگ بڑے زبردست قسم کے داستان گو مشہور ھیں ھمارے علاقے میں مہمان بن کر آتے تھے تو رات میں ان سے داستانیں سنا کرتے تھے ۔
ان کی جھوٹ کا دلائل سے رد کرنے کی کوشش کرتا ھوں ۔
١۔ ایک کسر میں شاعر فرماتا ھے نیازی ھم پر حملہ آور ھوئے اور لنگر نیازی کے ھاتھوں بیگو خان کا قتل ھوا مگر ھم نے نیازیوں کو اس جنگ میں شکست دی میں نے آج تک کسی تاریخی کتاب میں یہ نہیں پڑھا کہ جس لشکر کا سپہ سالار مارا جائے وہ لشکر فتحیاب ھوئی ھو ۔
٢۔ ایک اور کسر میں شاعر کہتا ھے کہ سلطان خیل ھمارے مویشی لے گئے تھے اور مروت لشکر نواز خان مروت کی قیادت میں نیازیوں پر حملہ آور ھوا اور نواز خونی مارا گیا یہاں بھی مروتوں نے حملہ ضرور کیا تھا مگر مار کھا کر بھاگ گئے تھے اور دریائے کرم میں بیچ پانی کے ” ابو ابو ” پکارتے رھے ۔
٣۔ صورت خان اور شھباز خان نیازی گھوڑوں پر سوار ترنہ کے مقام پر انہیں خٹک گروہ گھیرتا ھے اور پھر پنجابی فلموں کے سلطان راہی اور مصطفٰی قریشی کی طرح ان کے درمیان دلچسپ مکالمہ ھوتا ھے
خٹک ان نیازیوں سےکہتے ھیں اپنی تلواریں ھمارے حوالے کر دو وہ جواب دیتے ھیں کہ نیازی اپنے ہتھیار کسی کے حوالے نہیں کرتے جان تو دے سکتے ھیں مگر تلواریں نہیں اور یوں وہ بہادری سے لڑتے ھوئے شہید ھوجاتے ھیں اول تو وھاں شاعر تھا نہ کوئی اور مروت اس لئے اس واقعہ کی جو منظر کشی کی گئی یا جو ڈائیلاگ بولے گئے وہ ایک مروت شاعر کو کیسے پتا چلے
نیازیوں کے ہتھیار نہ دینے پر مجھے اپنا جنرل نیازی یاد آجاتا ھے ایک وہ دو بھائی تھے جنہوں نے جان دے دی مگر تلوار نہیں پھینکے اور تاریخ میں امر ھوگئے ایک جنرل نیازی ھے جن کی بہ امر مجبوری ہتھیار ڈالنے کا دفاع کرتے کرتے ھم نیازی تھک گئے ھیں ۔
تحریر : عطاءاللہ خان نیازی سلطان خیل
آپ لوگ تو اپنی مادری زبان پشتو بھول چکے ھوں
نیازی ایک بکھرا ہوا پشتون قبیلہ ہے جومختلف افغانستان ،پاکستان،بھارت اور ایران تک آباد ہے۔پس علاقے کی مناسبت سے مختلف زبانیں بولتا ہے۔جس میں پشتو،فارسی،دری،اردو ،ہندی،پنجابی،سرائیکی،ہندکو،سرہنگی وغیرہ شامل ہیں
براہ کرم اس کتاب یعنی مرورو کسرانو کا لنک شئیر کردیں۔