طبقات اکبری یا جسے تاریخ نظامی بھی کہا جاتا ہے ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ پر مشتمل ایک اہم ترین کتاب ہے.جوکہ سولہویں صدی عیسوی کے آخر میں لکھی گئی۔
خواجہ نظام الدین احمد (متوفی 1593) نے اس کتاب میں پیش رو مؤرخین سے ہٹ کر ایک نیا اسلوب دیا جس پر چل کر بعد میں میں آنے والے مؤرخین نے بھی عمل کیا اور اسکی روشنی میں منتخب التواريخ اور تاریخ فرشتہ جیسی مشہور و معروف کتابیں لکھی گئیں..
نظام الدین کا خاندان ظہیر الدین بابر کے ہمراہ ہندوستان آیا تھا. نظام الدین کے والد نے ہمایوں کی تخت نشینی میں مرکزی کردار بھی ادا کیا. اس کے علاوہ نظام الدین خود بھی اکبر بادشاہ کے دربار کا ایک انتہائی اہم امیر تھا جس نے اکبر بادشاہ کے زمانے میں انتہائی کلیدی خدمات سرانجام دیں. جب ہمایوں کو شیر شاہ سوری نے ہند سے بیدخل کیا تو انکا خاندان ہمایوں کے ساتھ ایران جانے کی بجائے ہندوستان میں ہی مقیم رہا یوں اسکے والد صاحب نے شیر شاہ سوری کا عہد اپنی آنکھوں سے دیکھا. جبکہ نظام الدین کی پیدائش اسی سوری سلطنت کے زمانے میں ہوئی. نظام الدین اکبر بادشاہ کے عہد میں عین جوانی میں بمشکل بیالیس برس کی عمر میں لاہور میں دریائے راوی میں ڈوب کر فوت ہوا..
اسکی یہ تصنیف اسکے انتقال سے کچھ عرصہ پہلے ہی اس نے اس ارادے کے ساتھ تکمیل کی کہ موجودہ سال یعنی 1594ء کے حالات اور مستقبل کے حالات بھی ساتھ ساتھ اس کتاب میں شامل کرتا رہوں گا لیکن زندگی نے اسکے ساتھ وفا نہ کی..
جیسا کہ ہم نظام الدین کے خاندان اور اسکی شخصیت بارے میں بیان کر چکے ہیں اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نظام الدین مغلوں کے حالات سے بخوبی واقفیت رکھتا تھا..
نظام الدین نے اس کتاب کو تین جلدوں میں لکھا اول جلد میں محمود احمد غزنوی سے لیکر بہلول لودی تک کے واقعات شامل ہیں جبکہ جلد دوم میں اکبر بادشاہ کی حکمرانی کے سینتیس سال کا احوال نہایت مفصّل انداز میں پیش کیا گیا ہے جبکہ تیسری جلد میں ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اسلام کی آمد کے بعد قائم ہونیوالی خودمختار حکومتوں کا احوال دور اکبری تک درج ہے..
یہ کتاب جہاں مغلوں کی حکومت کے احوال کی مستند تاریخ بیان کرتی ہے وہیں یہ مغلوں کے دشمن اور پیش رو افغانوں کی تاریخ بیان کرنے والی بھی مستند ترین کتاب سمجھی جاتی ہے کیونکہ لودی اور سوری افغانوں نے بدقسمتی سے کوئی تاریخ تحریر نہیں کروائی یا پھر مغلوں نے بُغض میں آکر ان کتابوں کو تباہ کردیا. بہر حال نظام الدین کی اس کتاب سے قبل افغانوں کی تاریخ پر صرف دو کتابیں ملتی ہیں ایک واقعات مشتاقی اور دوسری تاریخ شیر شاہی عباس سروانی والی لیکن یہ دونوں بھی اکبر کے دور میں لکھیں گئیں جبکہ تاریخ شیر شاہی جسکا اصل نام تحفہ اکبر شاہی ہے وہ تو لکھی ہی اکبر بادشاہ کے ایما پر گئی..
پس اسطرح ہمارے پاس افغانوں کی تاریخ کا کوئی ثقہ روای نہیں ملتا.. بعد میں آنیوالے مؤرخین بشمول تاریخ فرشتہ ،مخزن افغانی، سلاطین افاغنہ، تاریخ داؤدی ،منتخب التواریخ، خلاصۃ التواريخ، لباب التواريخ وغیرہ سب نے اسی تاریخ نظامی سے بھرپور استفادہ کیا حتیٰ کہ پورے کا پورا متن من عن چھاپ دیا..
جسکی وجہ سے درج بالا کتب ہمیں کوئی زیادہ اہم یا مختلف بیانیہ دینے میں ناکام نظر آتیں ہیں جس سے ہم لودی اور سوری افغانوں کے دور حکمرانی اور مغلوں سے لڑائیوں کا تقابلی جائزہ لیں سکیں..
نیازی قبیلے کی شخصیات کا تذکرہ۔
اس کتاب میں نیازی پشتونوں کا احوال وہی بیان ہیں جو شیر شاہ سوری کے عہد میں گزرے لیکن اس میں اہم بات یہ ہے کہ اس مصنف کے مطابق ہیبت خان نیازی کا قاتل مرزا حیدر دوغلت نہیں تھا بلکہ ہیبت خان نیازی تو مرزا حیدر دوغلت کے قتل ہونے کے بعد چک لوگوں کی باہم اقتدار کی شروع ہونیوالی جنگ میں شامل ہوا جہاں پر ہیبت خان نیازی کو اسکے حلیف چک گروہ کے سربراہ دولت چک نے دھوکے سے شہید کیا اور اسطرح ہیبت خان نیازی کی شہادت کا زمانہ کہیں 1552ء میں ہونا بنتا ہے..
اسکے علاوہ ہندوستان کی آخری افغان حکومت یعنی بہار و بنگال کی کرانی ریاست کے جرنیل عیسٰی خان نیازی ثانی کی مغل افواج کے سپہ سالار خان خانان منعم خان کے ہاتھوں پنٹہ میں شہادت کا واقعہ درج ہے جسکی تاریخوں کا عمیق مشاہدہ کرکے ہم نے عیسٰی خان نیازی کا یوم شہادت معلوم کیا جو کہ 26 جولائی 1574ء بنتا ہے..
اکبر بادشاہ کے دربار میں معزز رہنے والی شخصیات کا حصہ دوم میں ذکر کیا گیا ہے جس میں کُل دس پٹھان شخصیات کا ذکر موجود ہے جنھیں اکبر بادشاہ کے دربار میں عہدے ملے ان دس پٹھان شخصیات میں سے تین کا تعلق پٹھانوں کے نیازی قبیلے سے تھا جن میں سب زیادہ اہمیت محمد خان نیازی نامی جرنیل کو ملی جو کتاب میں مختلف مہمات میں کردار ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں انھوں نے دکن اور سندھ میں کارگزاریاں پیش کیں بلخصوص سندھ کے ارغون حکمرانوں کی حکومت کے خاتمہ میں اہم کردار ادا کیا..انکا مزار مہاراشٹر ہندوستان میں واقع ہے انکی شخصیت اور مزار بارے پہلے پوسٹس کر چکے ہیں..
اس کے علاوہ دولت خان نیازی کا ذکر ملتا ہے جو ایک ہزار فوجیوں کے کمانڈر تھے لیکن کتاب کی تصنیف سے قبل فوت ہوچکے تھے بدقسمتی سے انکے بارے میں کہیں بھی مزید معلومات نہیں ملتیں.
مغل دربار کے شعراء کے تزکرہ میں مُلا نیازی نامی شاعر کا بھی ذکر ملتا ہے جو فارسی زبان کے بہترین شاعر تھے جنکے بارے نظامی صاحب لکھتے ہیں کہ یہ دراصل سمرقند سے آئے تھے اور انھوں نے پوری عمر سندھ میں گزاری خیال ہے کہ یہ سندھ میں ہی فوت ہوئے لیکن اس بات کا ذکر نہ ہی مصنف کرتا ہے نہ ہی ہمیں مُلا نیازی سمرقندی کے بارے میں کہیں اور سے مزید معلومات ملتی ہیں…
کتاب اۤن لائن پڑھنے کیلئے درج ذیل لنک پر کلک کریں:
http://s595909773.online-home.ca/KB/Tabqat%20Akbari%202/WQ.pdf
تحریر و تبصرہ؛ نیازی پٹھان قبیلہ
Aoa bhai sb,,mujhy bahader khel qaom ka indraaj kerwana hy,,reply
03336169380
فیس بک پیج کے ذریعہ ہم سے رابطہ کریں۔۔۔