شجرہ و تاریخ نیازی پٹھانانِ ہوشیار پور.

تعارف؛

نیازی قبیلے کی ایک کثیر تعداد موجودہ بھارتی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور میں آباد تھی جو کہ قیام پاکستان کے وقت پاکستان ہجرت کر آئے اور آجکل پاکستان کے صوبہ پنجاب و سندھ میں آباد ہیں..

تاریخ؛

یوں تو ہندوستان میں افغانوں کی آمد محمود احمد غزنوی کے کفار کے خلاف جہاد سے ہی شروع ہوگئی تھی. مگر باقاعدہ آباد کاری کا آغاز غیاث الدین بلبن کے عہد میں ہوا جب انھوں نے ترک امراء کی طاقت میں توازن قائم کرنے کیلئے افغان امراء کو مقرر کیا.
ان افغان امراء کا زیادہ تر کا تعلق لودی و غلجی (نیازی بھی انہی کی شاخ ہے) قبائل سے تھا. بعدازاں انھی افغان امراء میں سے غلجی قبیلہ سے جلال الدین غلجی نے خاندان غلجی کی سلطنت کی بنیاد رکھی. جس کے کچھ ہی عرصہ بعد بہلول لودی نے خاندان لودی کی سلطنت کی بنیاد رکھ کر افغانوں کو ہندوستان میں دوام بخشا.

بجواڑہ ہندوستان میں افغانوں کا اولین مسکن؛

بجواڑہ موجودہ ضلع ہوشیار پور کا ایک گاؤں ہے جو کسی زمانے میں ہندوستان میں آنے والے گھوڑوں کے افغان تاجروں کی پہلی قیام گاہ تھی. تاریخ فرشتہ کے مطابق اسی مقام سے افغان تاجر اپنے گھوڑے اور دیگر مصنوعات لیکر ہندوستان کے طول و عرض میں پھیل جاتے تھے. رفتہ رفتہ یہاں پر ان افغان تاجروں نے اپنی کالونی بنا لی.
واقعات مشتاقی میں لکھا ہے کہ جب بہلول لودی سرہند کا حاکم تھا اور تخت دہلی کو قابو کرنے لگا تو اس نے بجوڑاہ سے گھوڑے منگوائے.
ان سب باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ افغانوں کی اس جگہ ایک اچھی خاصی تعداد آباد تھی. بعدازاں جب بہلول لودی نے حکومت قائم کی اور افغانوں کو ہندوستان میں آباد کاری کی دعوت دی تو یہاں مختلف قبائل کے خاندان آباد ہوئے. جن میں لودی، غلجی، اُرمڑ، سُرک، نیازی، لوہانی،خویشگی، داؤد زئی، موسی زئی، میانی، شروانی وغیرہ شامل تھے.

نیازیوں کی ہندوستان میں آمد؛

کیونکہ نیازی بھی لودی و غلجی قبائل کی ذیلی شاخ تھے تبھی نیازی بھی غزنوی سلاطین کے زمانے سے ہندوستان میں مہم جوئی کے سلسلے میں آتے رہے. پشتون تاریخ و زبان کے مشہور محقق میجر ریورٹی اپنی کتاب نوٹس آن افغانستان اینڈ بلوچسستان کے صٖفحہ نمبر 500 پر کھتے ہیں کی محمود غزنوی کا ایک افغان کمانڈر جس کانام ملک خاکو تھا دراصل نیازی قبیلہ کی شاخ خاکو کا جد امجد تھا۔لیکن باقاعدہ ریکارڈ پر ہمیں چودھویں صدی میں امیر تیمور کے حملے میں ایک نیازی سردار ملک حبیب نیازی کا ذکر ملتا ہے جو کہ دیگر افغان سرداران کے ساتھ امیر تیمور کے ہمرکاب ہو کر دہلی پر حملہ آور ہوا.
لیکن تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ نیازیوں کی باقاعدہ آباد کاری کی نیت سے آمد بہلول لودی کے بادشاہ بننے کے بعد کی ہے. جب بہلول لودی نے افغانستان میں افغان سرداروں کو خطوط لکھ کر باقاعدہ دعوت دی تھی. اسی زمانے میں کافی نیازی قبیلے کے لوگ ہندوستان میں وارد ہوئے جس میں وہ سرہنگ خانی امراء کا طبقہ بھی شامل ہے جو لودھی بادشاہوں کے زمانے میں نامور ہوا.
بعدازاں نیازیوں کی آمد کا سلسلہ مغلوں کے عہد تک جاری رہا.
ہندوستان کے افق پر لودی و سوری و مغل سلطنت میں کئی نامور نیازی شخصیات گزری ہیں جن میں جمال خان نیازی سرہنگ خانی، ہیبت خان نیازی، عیسٰی خان نیازی، محمد خان نیازی وغیرہ قابل ذکر ہیں.

ہندوستان نابود ہوجانے والے نیازی؛

ہندوستان میں آباد ہونے والے یہ نیازی کیونکہ مختصر گرہوں کی صورت میں مختلف اوقات میں مختلف مقامات پر آباد ہوتے رہے. اور اوپر سے سلیم شاہ سوری کے زمانے میں ہونے والی بغاوت کے سبب اپنی شناخت کو مخفی رکھنے کے سبب اپنی شناخت گم کر بیٹھے. لیکن بہرحال آج بھی کہیں کہیں کچھ نہ کچھ نیازی ہمیں نظر آ جاتے ہیں یہ نیازی زیادہ تر دہلی، اتر پردیش، بہار اور مہاراشٹر، مدھیہ پردیش میں آباد ہیں.

ہوشیار پور میں نیازیوں کی آبادی کاری؛

جب احمد شاہ ابدالی نے حضرت شاہ ولی اللہؒ صاحب کی دعوت پر دہلی پر قابض ہونے والے مرہٹوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تو احمد شاہ ابدالی نے یکے بعد دیگرے چھ حملے کئے اور پانی پت کی لڑائی میں مرہٹوں کی طاقت ہمیشہ کیلئے کچل دیا. اسی زمانے میں سکھوں کی طاقت سر اٹھا رہی تھی جبکہ ہوشیار پور سے ملحقہ کوہ شوالک کی پہاڑیاں ایسے بدقماش اور سماج دشمن عناصر کا مرکز تھا جو ابدالی لشکر جانے کے بعد علاقے کے لوگوں بلخصوص مسلمانوں کو تنگ کرتے تھے. پس احمد شاہ ابدالی نے اس سلسلے کو روکنے کیلئے کوہ شوالک کے ساتھ ساتھ افغانوں کی آباد کاری کا سلسلہ شروع کیا جس میں نیازی، یوسفزئی، جمند، مہمند، ترین، پنی و دیگر پٹھان قبائل کے خاندان شامل تھے.
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جب احمد شاہ ابدالی بابا نے مرہٹوں کے خلاف لشکر کشی کی تو نیازیوں کی ایک کثیر تعداد نے خان زمان خان نیازی زکو خیل عیسٰی خیل کی زیر قیادت حصہ لیا. جس کا مفصل احوال عیسٰی خیل قبیلہ اور خوانین عیسٰی خیل کی تاریخ کے ابواب میں درج ہے.
اسی زمانے میں جب احمد شاہ ابدالی نے اپنا لشکر ترتیب دینے کیلئے مختلف پشتون قبائل کو احکامات بھیجے تو نیازیوں نے بھی بھرپور شمولیت اختیار کی. جن میں غزنی کے نیازی، ٹانک کے کونڈی (نیازی) اور میانوالی کے نیازیوں نے اپنے اپنے لشکر تشکیل دئیے.
جیسا کہ اوپر بیان کیا کہ کوہ شوالک میں چھپے شرپسندوں کو عام آبادیوں پر حملوں کو روکنے کیلئے کوہ شوالک کے دامن میں مختلف افغان قبائل کے خاندانوں کو بسایا گیا. اسی سلسلہ کے تحت نیازی پٹھانوں کو بھی وہاں احمد شاہ ابدالی بابا نے جاگیر و اراضی عنایت کی. جس کے نتیجے میں ہوشیار پور میں نیازی قبیلے نے ایک سلسلہ وار انداز میں بارہ بستیاں آباد کیں.
جن کے نام یہ ہیں
 موچھ پور،  بسی علی خان نیازی، نارو ننگل، بسی اللہ دین خان نیازی، قلعہ شیر خان نیازی، بسی شاہ محمد نیازی، بسی جمال خان نیازی، بسی داؤد خان نیازی، بسی ہشت خان نیازی، بسی اخلاص پور نیازی، بسی کندیاں، بسی بہادر پور باہیاں، بسی باہیاں، بسی بھینی والاوغیرہ شامل تھیں.

نیازی قبیلہ کی بستیاں

اس کے علاوہ سلاطین دہلی اور مغلوں کے زمانے سے آباد نیازی ان علاقوں میں آباد چلے آتے تھے جو کہ یہ ہیں موضع نیازیاں،بسی جوڑہ، بسی جہان خیلاں، بسی ہردوار وغیرہ شامل ہیں.

ہوشیار پور کی ان نیازی بستیوں کا پس منظر؛

جیسا کہ ہم نام سے دیکھتے ہیں کہ تمام بستیاں اس زمانے کے مختلف نیازی سرداروں کے نام آباد ہوئیں. لیکن ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ موچھ پور کی بستی یقیناً میانوالی کے گاؤں موچھ میں آباد تاجہ خیل نیازیوں کے لوگوں نے بسائی ہوگی جسکی وجہ سے اس نئی آبادی کا نام اپنے قدیمی گاؤں موچھ کی مناسبت سے رکھا، اسی طرح باہی قبیلے کے لوگوں نے اپنی بستیوں کے نام اپنے باہی قبیلے کی مناسبت سے بسی باہیاں، بسی بہادر پور باہیاں وغیرہ رکھے. جبکہ کونڈی نیازیوں نے اپنے گاؤں کا نام کنڈیان رکھا ہوگا جو کہ رفتہ رفتہ پنجابی زبان کے زیر اثر آ کر کندیاں میں بدل گیا جیسا کہ میانوالی میں انھوں نے پانچ سو سال پہلے ایک گاؤں کنڈیاں آباد کیا تھا جو بعد ازاں آج کندیاں کہلاتا ہے. لیکن میانوالی کے کندیاں گاؤں کو آباد کرنے والے اصل کونڈی پٹھان سلیم شاہ سوری کے عتاب سے تنگ آکر اپنے مرکز ٹانک چلے گئے تھے.
اسی طرح بھینی والا بستی موسی خیل نیازیوں کی بستی ہے، بستی علی خان دراصل عیسٰی خیل قبیلہ کے بھائی بند قبیلہ علی خان خیل کی تھی.
1985ء میں جناب ایوب خان صاحب نے افاغنہ ہوشیار پور پر ایک مفصّل کتاب لکھی جس میں ضلع ہوشیار پور میں آباد تمام پٹھان قبائل اور خاندانوں کے مفصل حالات درج ہیں جو میانوالی کی زبان سینہ بہ سینہ روایات کی تائید کرتے ہیں کہ یہ نیازی احمد شاہ ابدالی کے لشکر کے ساتھ گئے اور واپسی پر انھیں ابدالی نے جاگیریں عطاء کیں.

احمد شاہ ابدالی کے عہد میں آباد ہونے والے نیازی کس قبیلہ سے ہیں؟

احمد شاہ ابدالی کے زمانے میں آباد ہونے والے نیازیوں میں باہی قبیلے کے لوگ تو مستند ہیں کیونکہ انھوں نے باہی کی شناخت ابھی تک برقرار رکھی جبکہ موچھ پور کے نیازی یقیناً تاجہ خیل قبیلہ کے لوگ ہونگے یا تاجہ خان کے بھائی حاجی خان، بیگ خان وغیرہ کی اولادیں. جبکہ بسی کنڈیان کے مکین کونڈی نیازی قبیلے کے لوگ ہونگے
باہی، تاجہ خیل، موسی خیل اور کونڈی نیازیوں پر مفصل آرٹیکلز لکھے جا چکے ہیں.

مغل حکومت کےکمانڈر احمد خان نیازی کی اولاد؛

مغلیہ دور کی تاریخ کی کتابوں میں ہمیں ایک مشہور افغان کماندار احمد خان نیازی کا ذکر ملتا ہے. جن کے والد گرامی محمد خان نیازی بھی اکبر و جہانگیر بادشاہ کے زمانے میں ایک نامور امیر گزرے ہیں. جنھوں نے دکن اور سندھ کی فتوحات میں بھرپور کردار ادا کیا. اسی طرح احمد خان نیازی بھی اپنے والد محمد خان نیازی کی طرح مغل سلطنت میں ایک اہم امیر کی حیثیت رکھتے تھے جنھوں نے دکن، مالوہ اور صوبہ پشاور میں عسکری خدمات سرانجام دیں. ان دونوں شخصیات پر الگ سے آرٹیکلز لکھے جا چکے ہیں.

احمد خان نیازک کا مقبرہ ،مہاراشٹر ہندوستان


افاغنہ ہوشیار پور کے مصنف مطابق بسی ہردو خان پور میں ایک نیازی خاندان جو کہ احمد خان نیازی کے بیٹے سلیمان خان نیازی کی نسل سے آباد ہے. یہ اس زمانے میں آباد ہوا جب سلیمان خان نیازی نے اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں ایک مشہور افغان امیر نظر بہادر خان خویشگی کی زیر قیادت شوالک کے پہاڑی راجوں کے خلاف مہمات میں حصہ لیا. جس کے سلسلے میں انھیں یہاں ہوشیار پور میں جاگیر ملی.
مشہور پنجابی شاعر منیر نیازی صاحب کا تعلق بھی اسی خاندان سے تھا.

سکھوں کے عہد میں ہوشیار پور کے نیازی؛

ہوشیار پور میں نیازیوں و دیگر پٹھانوں کی آباد کاری کے کچھ ہی عرصے بعد تیمور شاہ درانی کے عہد میں سکھوں نے بھرپور سر اٹھنا شروع کردیا. حتی کہ کچھ سالوں بعد ہی رنجیت سنگھ اپنی سلطنت کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوگیا.
سکھوں نے یہاں کے پٹھانوں کو زیادہ تنگ نہیں کیا کیونکہ ایک تو یہاں کے پٹھان اس علاقے میں مستحکم ہوچکے تھے دوسرا سکھوں کی حکومت کے اوائل میں یہاں کے پٹھانوں نے سکھوں کو کافی شکستوں سے دوچار کیا. مزید یہ کہ یہ سکھوں کے مرکز میں بیٹھے تھے ان پٹھانوں سے زیادہ لڑائی سکھوں کیلئے اندرونی طور پر نقصان دہ تھی. جبکہ سکھوں کو مغربی سرحدی علاقے کے پٹھانوں نے بھی بری طرح الجھا کر رکھ دیا تھا. تبھی سکھوں کے ساتھ ہوشیار پور و جالندھر کے پٹھانوں کے جھڑپیں معمولی نوعیت کی تھیں. اس سب صورتحال میں یہ باوجود اس کے کہ سکھوں کے نرغے میں تھے لیکن سکھوں کی مجبوری تھی کہ ان پٹھانوں سے الجھناخطرہ سے خالی نہیں. تبھی سکھ پٹھانوں کی ان آبادیوں کو اپنے لئے رستا ہوا ناسور سمجھتے تھے. بہرحال وہ حیلے بہانوں سے اراضی پر قبضہ کر چکے تھے.  1849ء میں جب انگریزوں کے ہاتھوں سکھوں کی بادشاہت کا خاتمہ ہوا تو یہاں کے پٹھانوں نے سکھوں کے خلاف انگریز کا ساتھ دیا. جس کے بدولت یہاں کے پٹھانوں کو انکی جاگیر واپس ملیں.

تحریک پاکستان سے قیام پاکستان تک؛

جب مسلم لیگ نے تحریک پاکستان کو شروع کیا تو یہاں کے نیازی پٹھانوں نے بھی تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا اور جب قیام پاکستان کا اعلان ہوا تو ہوشیار پور و جالندھر کے پٹھانوں نے بھی اپنے پاکستان میں ہجرت کی.
جس کے نتیجے میں ہجرت کرکے آنے والے نیازیوں کو کوئی باقاعدہ ایک جگہ نہیں بسایا گیا. جسکی وجہ سے یہ نیازی بدقسمتی سے بکھر گئے. پنجاب کے اضلاع ملتان، فیصل آباد، لاہور، ساہیوال، گوجرانوالہ، خانیوال، وہاڑی، اور لیہ وغیرہ میں آباد ہوئے جبکہ سندھ کے علاقوں حیدرآباد، بدین، سکھر اور کراچی میں آباد ہوئے.

:شخصیات

ہوشیار پور کے نیازی خاندانوں کی کافی اشخاص نے شعبہ ہائے زندگی میں نامور ہوئے ہیں جن میں سے کچھ کا ذکر مختصرا یہاں ہم کرتے ہیں۔

یوسف خان نیازی شہید؛

آپ تحریک پاکستان کے ایک متحرک کارکن تھے. قیام پاکستان سے قبل ہی علاقے ساہیوال میں آپ نے کچھ اراضی خریدی تھی. اور یہاں پر آپ نے “نیازی بس سروس ” کے نام سے ایک ٹرانسپورٹ کمپنی کی بھی بنیاد رکھی۔بعدازاں جب قیام پاکستان کا اعلان ہوا تو آپ مستقل طور پر  اپنی جاگیر پر ساہیوال میں آباد ہوگئے اور مہاجرین کی آباد کاری میں بھرپور حصہ لیا. آپ بہت سوشل اور ملنسار طبعیت کے مالک تھے. آپ زمیندارہ کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹ کا کاروبار بھی کرتے تھے.

یوسف خان نیازی شہید


تقسیم پنجاب کے موقع پر جب کرفیو کا نفاذ کیا گیا تو وہ مہاجرین کو  اپنی بسوں میں سوار کروا کر محفوظ مقامات پر منتقل کرنے میں مصروف تھے کہ مقامی انتظامیہ جس کا ایک سکھ آفیسر انچارج تھا. جس کے زیر اہتمام ہندو ڈوگرہ فوج کا دستہ تعینات تھا. انھیں تقسیم ہند پر شدید رنج تھا اور وہ یوسف خان نیازی کی خدمات سے سخت نالاں تھا. اس ہندو فوج کے سپاہیوں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ یوسف خان نیازی صاحب ساہیوال کے ایک نامور اور معزز و معروف شخصیت ہیں. کرفیو کی خلاف ورزی کی آڑ میں انکے بھائی دوست محمد خان نیازی سمیت شہید کر ڈالا. جس پر پورے ساہیوال میں بھرپور مظاہرے ہوئے اور کئی روز تک سوگ منایا گیا. فاطمہ جناح اور دیگر قائدین نے ساہیوال کا دورہ کیا اور یوسف خان نیازی کو خراج عقیدت پیش کیا. جب وہ قاتل ڈوگرہ فوج ساہیوال چھوڑ کر ہندوستان بھاگ گئے. میونسپل کمیٹی ساہیوال نے کمیٹی باغ کا نام تبدیل کرکے یوسف باغ رکھا.

ایڈمرل کرامت رحمان خان نیازی ؛

آپ کا تعلق ہوشیار پور کے گاؤں بسی علی خان خیل سے تھا. جو کہ آپکے بزرگوں نے احمد شاہ ابدالی کی طرف سے عطاء کردہ جاگیر پر آباد کی.
آپکا کا تعلق عیسٰی خیل قبیلہ کی ہم جد شاخ علی خیل سے تھے.
آپ کے والد محترم جناب پروفیسر عبدالحمید خان نیازی شہید بذات خود ہوشیار پور کے نیازیوں کی ایک معروف علمی و ادبی شخصیت تھے. قیام پاکستان کے وقت ہجرت کرکے آنے والے قافلوں کی حفاظت کرتے ہوئے سکھوں کی انسانیت سوز حملوں میں شہید ہوئے.
سرکاری ریکارڈ کے مطابق جناب کرامت رحمان خان نیازی30 اپریل 1930ء کو بسی علی خان خیل میں پیدا ہوئے.

ایڈمرل (ر) کرامت رحمان خان نیازی مرحوم


ابتدائی تعلیم مکمّل کرنے کے بعد آپ نے قیام پاکستان کے اس تکلیف دہ سال جس میں آپکے والد، والدہ اور بہن کی شہادت کا صدمے سے دوچار تھے. خود کو سنبھالا دیکر پاکستان نیوی کمیشن حاصل کیا. اپنی قابلیت اور خداداد صلاحیتوں کے سبب حکومت پاکستان نے آپکو مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے برطانیہ کے نیوی کالج ڈرماؤتھ، برطانیہ بھیج دیا. جہاں سے واپس آ کر آپ اس وقت کے نیول چیف ایڈمرل ایچ ایم ایس چوہدری کے فلیگ آفیسر مقرر ہوئے
جب پاکستان نے اپنی تاریخ کی پہلی آبدوز یعنی غازی کو امریکہ سے خریدا تو اس آبدوز کے پہلے کمانڈگ آفیسر کرامت رحمان نیازی صاحب مقرر ہوئے.
1965ء  کی پاک بھارت جنگ کے دوران آپریشن دوارکہ میں آپ نے مرکزی کردار ادا کیا اور آبدوز غازی کو ہندوستانی شہر ممبئی کے پانیوں میں جا کھڑا کیا. جس کی دہشت کے سبب ہندوستانی بحری جہاز اپنی بندرگاہوں میں محصور ہوکر رہ گئے. جبکہ پاکستانی بحری جہازوں نے دوارکہ ریڈار اسٹیشن کو تباہ کرکے ہندوستانی فوج کو بے دست و پاہ کر کردیا.اس جرات مندی پر حکومت پاکستان نے کرامت رحمان نیازی صاحب کو ستارہ جرات سے نواز.
1971ء کی جنگ  میں آپ کے ذمہ خفیہ مقاصد کی منصوبہ بندی اور کراچی میں تعینات جنگی جہازوں کی نقل و حرکت تھی.بعدازاں آپکو پاکستانی آبدوزوں کا کمانڈر مقرر کردیا گیا. جو کہ پاکستان نیوی کی سب سے پہلی تقرری تھی.اس کے علاوہ آپ ڈپٹی چیف آف نیول اسٹاف کی بھی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے.
22 مارچ1979ء کو آپ پاکستان بحریہ کے باضابطہ سربراہ مقرر ہوئے.آپکی تعیناتی کے دوران پاکستان روس افغان جنگ میں الجھا ہوا تھا. جس میں آپ صدر پاکستان ضیاء الحق کے قریبی عسکری مشیر کے طور پر بھی خدمات سرانجام دیتے رہے. اسی زمانے میں آپ نے پاکستانی آبدوزوں کو مزید فعالیت بخشی، پاکستانی سمندری حدود کی حفاظت کیلئے جگہ جگہ چوکیاں اور بحری اڈے بنوائے.
23 مارچ 1983ء کو آپ اپنے عہدے پر اپنی مدت پوری کرکے ریٹائرڈ ہوئے.ریٹائرمنٹ کے بعد آپکو صدر پاکستان ضیاء الحق نے اپنا خصوصی عسکری مشیر مقرر کیا.صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق کی وفات کے بعد آپ خاموش زندگی گزرنے لگے.اس کے علاوہ آپ کا زیادہ وقت تبلیغی جماعت کے ساتھ گزرتا رہا. آپ نے پائی خیل کے قریب جانو خیل میں اراضی خریدی جہاں پر آپ نے ماڈل زرعی فارم، علی خان پٹرول پمپ اور ایک بچیوں کی تعلیم کیلئے مدرسہ تعمیر کیا.
مشرف کے خلاف جمہوریت بحالی تحریک میں آپ بھی ان اعلیٰ عسکری ریٹائرڈ شخصیات میں شامل تھے جنھوں نے حصہ لیا جس کی وجہ سے جنرل مشرف نے آپکے خلاف ایک انکوائری کا حکم دیا.افغانستان کے مجاہدین جو آجکل طالبان کہلاتے ہیں سے رابطوں میں رہنے کے سبب آپکے خلاف انکوائری بھی لانچ ہوئی مگر وہ آپکے خلاف کچھ ثابت نہ کرسکی..
آپ کا انتقال04مئی 2021 کو اسلام آباد میں ہوا.

منیر نیازی؛

پاکستان کے مشہور و معروف اردو و پنجابی زبان کے شاعر منیر نیازی کی پیدائش 14 اکتوبر1922ء کو ہوئی. لیکن تعلیمی ریکارڈ میں غلطی سے آپ کی تاریخ 09 اپریل1928ء درج ہے.
منیر نیازی کا اصل نام “محمد منیر خان نیازی” تھا. آپ جناب فتح خان نیازی صاحب کے گھر ضلع ہوشیار پور کے گاؤں خان پور میں پیدا ہوئے. آپ کی والدہ صاحبہ بی بی رشیدہ بیگم کا تعلق خان پور میں آباد مہمند پٹھان گھرانہ سے تھا.
منیر نیازی صاحب کا خاندان مغل بادشاہ اکبر و جہانگیر کے زمانے میں نامور ہونے والے مشہور فوجی کمانڈر محمد خان نیازی کی اولاد میں سے ہے. جن کا انتقال جہانگیر بادشاہ کے زمانے میں ہوا اور انکا مقبرہ ہندوستانی ریاست مہاراشٹر کے ضلع واردھا کے گاؤں آشتی میں واقع ہے.
محمد خان نیازی کے ایک صاحبزادے احمد خان نیازی جو خود بھی جہانگیر و شاہ جہاں کے بادشاہ کے عہد میں نامور عہدہ پر معمور رہے کے بیٹے سلیمان خان نیازی کی نسل سے ہیں جو اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں نامور ہوا اور اعلیٰ خدمات کے سبب جنھیں ہوشیار پور میں جاگیر ملی.
منیر نیازی صاحب کے والد چونکہ ایک متمول خاندان سے تھے. تبھی انھوں نے انگریزوں کے زمانے میں انگریزی تعلیم حاصل کی اور محکمہ انہار میں ملازمت اختیار کی.
جس کے نتیجے میں آپکی پوسٹنگ منٹگمری(موجودہ ساہیوال) میں ہوئی. اس سے قبل چونکہ منیر نیازی صاحب کے دادا محمد علی خان نیازی صاحب ملتان میں قانون گو رہ چکے تھے جنہوں نے ساہیوال میں کچھ اراضی بھی خرید رکھی تھی. تبھی ساہیوال سے انکی شناسائی پرانی تھی.

منیر نیازی مرحوم


اور جب فتح خان نیازی صاحب کی پوسٹنگ یہاں ہوگئی تو مزید ان کے خاندان کا ساہیوال آنا جانا شروع ہوگیا.منیر نیازی کی بچپن تک کا زمانہ خان پور میں گزرا بعدازاں والد صاحب کی اچانک حادثاتی موت کے بعد آپ ساہیوال آگئے. جہاں پر آپ نے تعلیم کو مکمل کیا. میٹرک کے بعد وہ امرتسر کالج میں داخلہ لینا چاہتے تھے مگر ان کے چچا کرنل منظور احمد خان نیازی نے انھیں برٹش انڈین نیوی میں بطور نیوی سیلر بھرتی کرا دیا. مگر منیر نیازی صاحب کی طبعیت قطعی طور پر اس ڈسپلن والی ملازمت سے جوڑ نہیں رکھتی تھی. ملازمت کی گھٹن سے تنگ آکر بحری جہاز سے چھلانگ لگا دی. کیونکہ یہ جہاز جنگ پر تباہ ہوگیا. یوں سرکاری ریکارڈ میں منیر نیازی بھی اس جہاز میں مارے گئے. لیکن اصل میں وہ زندہ تھے. سرکار سے بچنے کیلئے آپ نے ریاست بہاولپور میں پناہ لی اور وہیں پر انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا. اس کے بعد آپ نے بقیہ تعلیم دیال سنگھ کالج لاہور سے مکمّل کی. لاہور سے پھر جالندھر چلے گئے. لیکن انھی دنوں قیام پاکستان کی وجہ سے برصغیر کی تقسیم کے وقت دوبارہ اپنی خاندانی اراضی ساہیوال پر آباد ہوگئے. یہاں پر نیازی خاندان کا ٹرانسپورٹ کا بہت بڑا کاروبار تھا جو نیازی بس سروس کے نام سے جانا جاتا تھا. جو کہ منیر نیازی کے تایا یوسف خان نیازی کی ملکیت تھا.
یوسف خان نیازی قیام پاکستان کے فسادات میں شہید ہوگئے. منیر نیازی صاحب نے چونکہ ابتدائی ایام سے ہی دکھ مصائب اور تکلیفیں دیکھیں تھی تبھی منیر نیازی صاحب کی شاعری میں اداسی اور مزاحمت و بے چینی کا عنصر غالب ہے.
منیر نیازی صاحب کی شاعری کا عروج بیسویں صدی کی آخری نصف دہائی تھی. منیر نیازی صاحب نے کئی فلموں کیلئے گانے بھی لکھے..
منیر نیازی صاحب کی شاعری پر کئی کتابیں موجود ہیں جن میں تیز ہوا اور پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، ماہ منیر وغیرہ شامل ہیں.
جبکہ ڈاکٹر صدف بخاری صاحبہ نے آپ پر ایک کتاب منیر نیازی ایک تنقیدی مطالعہ بھی لکھی ہے.حکومت پاکستان کی جانب سے آپکو ستارہ امتیاز اور پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ ملے.
آپکا انتقال 26 دسمبر 2006ء کو ہوا.

آئی جی صلاح الدین احمد خان نیازی؛

آپ کا تعلق بھی ہوشیار پور کے نیازی خاندان سے ہے. آپ پاکستان پولیس میں کئی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے جن میں مختلف اضلاع کے بطور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر اور ڈی آئی جی آپریشنز لاہور بھی شامل ہیں. جبکہ اکتوبر 2004ء سے لیکر جون 2005 تک انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات پولیس بھی تعینات رہے. انکی شخصیت بارے مزید تفصیلات درکار ہیں اور انکی تصویر بھی ریکارڈ میں شامل کرنے کیلئے درکار ہے.

ایڈمرل محمد امجد خان نیازی

آپکا بزرگوں کا تعلق ہوشیار پور کے گاؤں بسی داؤد خان خیل نیازی سے تھا. قیام پاکستان کے بعد آپکے والدین سانگھڑ مقیم ہوگئے جہاں آپ بنیادی تعلیم پائی آپکے والد صاحب سندھ پولیس میں سب انسپکٹر ریٹائرڈ ہوئے.
1985ء میں پاکستان بحریہ میں کمیشن حاصل کیا اور کمیشن کا امتحان امتیازی نمبروں کے ساتھ اعزازی شمیر حاصل کرکے پاس کیا.

ایڈمرل محمد امجد خان نیازی


آپ پاکستان نیوی کئی اہم عہدوں پر فائز رہے. فروری دوہزار انیس میں آپ نے ہندوستانی آبدوز کو پکڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا. بعدازاں 07 اکتوبر 2020ء کو آپ پاکستان بحریہ کے سربراہ مقرر ہوئے.
آپ کے خاندان بارے مزید تفصیلات درکار ہیں

:دیگر شخصیات

اس کے علاوہ درج ذیل مشہور شخصیات ہیں۔مقبول خان نیازی (فارن آفس)، برگیڈیر نیاز محمد خان نیازی، خان صاحب جان محمد خان نیازی شہید، محمد صدیق خان نیازی (بانی ویلکم فینز انڈسٹری)،

:ذیلی شاخیں

ہوشیار پور کے نیازی خاندان اپنی قبائلی تقسیم بارے معلومات سے نابلد ہیں۔وہ زیادہ تر اپنی بسی یعنی گاؤں سے ایک دوسرے سے فرق کرتے ہیں۔

:نوٹ

یہ بات یاد رہے کہ زیر دستیاب شجرہ جات صرف وہ ہیں جو افاغنہ ہوشیار پور کتاب کے مؤلف محمد ایوب خان صاحب مرحوم نے اپنی کوشش سے اکھٹے کئے یا جن لوگوں نے ذاتی دلچسپی لیکر کر شجرے بنا کر ان تک پہنچائے.ان شجروں کو قطعی طور پر مکمّل نہ سمجھا جائے کیونکہ یہ چند سو افراد کے شجرے ہیں جبکہ ہوشیار پور و جالندھر میں نیازیوں کی آبادی ہزاروں افراد پر مشتمل تھی. اگر کسی کا زیر دستیاب شجرے میں نام موجود نہیں تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ نیازی نہیں . بلکہ یہ انتہائی محدود افراد کے شجرے ہیں جو مؤلف کو دستیاب ہوئے وہ شامل کردیئے۔

ایڈمن نیازی پٹھان قبیلہ

www.NiaziTribe.org

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

3 تبصرے “شجرہ و تاریخ نیازی پٹھانانِ ہوشیار پور.

  1. بہت اچھا لکھا پڑھ کر بہت ساری باتوں کا پتہ چلا اللہ تعالیٰ آپ کو سدا خوش رکھے آمین جالندھر کے افغانوں کے بارے کچھ لکھو خاص کر کوٹ بادل خان کے پٹھان

  2. میں اس خاندان کا ہوں میرے دادا کا نام اس کتاب کے صفہ نمبر ۲۶۵ میں لکھا ہے محمد احمد خان ولد غلام محی الدین خان گرجاکھ گوجرانوالہ میں مقیم ہیں ہم آج بھی ۔ کوئی رابطہ کرنا چاہے 03252100007 نائل خان ولد عبدالباری خان ولد محمد احمد خان ولد غلام محی الدین خان

اپنا تبصرہ بھیجیں