تعارف؛
کنڈی قبیلہ زیادہ تر پاکستان کے ضلع ٹانک میں آباد ہے. جبکہ اس کے علاوہ انکی قابل ذکر تعداد بلوچستان کے اضلاع ژوب، دکی، لورالائی وغیرہ میں بھی آباد ہیں. افغانستان میں بھی کنڈی قبیلہ کی اچھی خاصی تعداد آباد ہے جو کہ زیادہ تر خانہ بدوش یعنی کوچی ہیں.
تاریخ؛
اگر ہم پشتونوں کی تاریخ پر لکھی گئی اولین کتاب مخزن افغانی کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ کنڈی دراصل نیازی بابا کے بیٹے خاکو کا پوتا اور سرہنگ کا چچا تھا. جس کا شجرہ کچھ یوں درج ہے.
کنڈی بن عیسٰی بن خاکو بن نیازی
مخزن افغانی کتاب میں کنڈی کے آگے نسل کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے.
اس کے علاوہ بعد میں لکھی جانے والی کتابوں یعنی حیات افغانی، تاریخ خورشید جہاں وغیرہ میں بھی کنڈی قبیلہ کے بارے میں تفصیلات تو کوئی درج نہیں لیکن البتہ انکے شجرہ اور ذیلی شاخوں کا بیان موجود ہے جو مخزن افغانی کے تسلسل کو مزید بڑھاتا ہے..
اس کے علاوہ انگریز سرکار کے ریکارڈ جس میں سب سے اہم کتاب مسٹر ٹکر کا گزٹیر آف ڈیرہ اسماعیل خان (تالیف شدہ1878ء) ہے۔اس میں بھی کونڈی قبیلہ کی قدیم تاریخ بارے میں کوئی بیان درج نہیں البتہ ماضی قریب میں ہونے والے واقعات کا مفصّل احوالِ درج ہے..
جبکہ اسی طرح سر ڈینزل ابٹس کی کتاب دی پنجاب کاسٹس اور گلوسری آف ٹرائب اینڈ کاسٹس مصنف ایچ روز میں بھی کوئی مفصل احوال درج نہیں. بس اتنا ہی درج ہے کہ یہ لودھی نیازیوں کی ایک خانہ بدوش شاخ ہے.
جبکہ میجر رجوے اپنی کتاب پٹھانز میں جہاں پر انھیں نیازیوں کی ایک شاخ ہونا لکھتا ہے وہیں ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ یہ لوگ قدیم دادی نسل سے لکھتے ہیں. لیکن اس حوالے سے مصنف نے کوئی مزید دلائل یا توجیحات نہیں درج کیں..
پشتون تاریخ و زبان کے مشہور محقق میجر ریوراٹی بھی اپنی کتاب نوٹس آن افغانستان اینڈ بلوچستان کے صفحہ نمبر 500 پر انکے نیازی ہونے اور دیگر معلومات پر مبنی ایک پیراگراف لکھتے ہیں۔
سینہ بہ سینہ روایات؛
جناب ولی داد خان نیازی صاحب جن کا تعلق غزنی کے نیازی کوچی قبائل کی ایک شاخ صاحب خیل سے ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ کسی زمانے میں جب نیازی صوبہ غزنی کے ضلع شلگر (موجودہ اندڑ) کے علاقے سپین سک میں آباد تھے تو وہاں پر نیازیوں میں ایک معتبر شخص کی ایک خوبرو بیوی تھی. یہ نیازی سردار کسی وجہ سے وفات پاگیا. کیونکہ یہ نیازی سردار اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا جس کا کوئی بھائی نہیں تھا. وگرنہ پشتون رواج کے مطابق کسی بیوہ عورت سے سب سے پہلا نکاح کا حق اس عورت کا دیور رکھتا ہے. اسی وجہ سے دیگر نیازی سرداروں نے اس بیوہ عورت سے نکاح کی کوششیں شروع کر دیں. جس کو لیکر ایک بڑا فساد بپا ہوگیا. جس میں کئی لوگوں کی جانیں چلی گئیں. اس کشت و خون کو دیکھ کر ایک صاحب مستجاب نیازی نے بدعا دی کہ اللہ تعالیٰ تم نیازیوں کو کبھی اتحاد نصیب نہ کرے. اس دن کے بعد سے افغانستان میں وہ باقی ماندہ نیازی پتوں کی طرح بکھر گئے. کہتے ہیں کہ یہی نیازیوں کا سب سے بڑا اور آخری پڑاؤ تھا. جبکہ وہ بیوہ عورت اپنے بچے کو لیکر اپنے میکہ جا کر روپوش ہوگئی. کیونکہ پشتو زبان میں “کنڈہ” بیوہ کو کہتے ہیں تبھی اس بیوہ کے بیٹے کی اولاد کُنڈی کہلائی. اگر ہم تاریخ ڈیرہ اسماعیل خان کے مصنف (تالیف1878ء) چرن جیت سنگھ کی روایت کو ساتھ ملائیں تو اس بچے کا نام نور محمد خان درج ہے.
اس نور محمد خان نے جوان ہوکر دو شادیاں کیں جس میں زوجہ اول کا نام صاحب خاتون تھا جس سے اچک اور ابراہیم پیدا ہوئے جبکہ دوسری زوجہ گاوی سے چُنگ پیدا ہوا.
ان تین بھائیوں کی اولاد نے کنڈی قبیلہ کو تشکیل دیا.
فارسی تحریروں میں ڈ کی بجائے د کا استعمال کیوں؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام کتب فارسی زبان میں لکھی ہوئی ہیں جبکہ فارسی زبان میں ٹ،ڈ،ڑ الفاظ نہیں ہوتے۔
کنڈی قبیلہ کب الگ شناخت قائم کی؟
جیسا کہ تاریخ میں ہم نے اس قبیلہ کی ابتداء بیان کی ہے کہ ایک کُنڈا یعنی بیوہ عورت سے اس خاندان کو شناخت کیا جانے لگا. تبھی رفتہ رفتہ دیگر نیازیوں نے کنڈی پکار پکار کر اس راہ پر دھکیل دیا کہ وہ الگ شناخت قائم کریں. جس کے نتیجے میں کنڈی بعد میں الگ شناخت بنانے میں کامیاب ہوگئے.
لیکن ہمیں ابراہیم خان سوری کے مقبرہ کی عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ سولہویں صدی تک کونڈی نیازی ہی کہلاتے تھے مگر اندرون خانہ کنڈی کی شناخت بھی رکھتے تھے جو آیندہ آنے والے تین سو سال میں بلکل الگ تھلگ شناخت بن گئی اور وہ نیازی کی شناخت کو فراموش کرکے فقط کنڈی ہی کہلانے لگے. کیونکہ انیسویں صدی کے ریکارڈ میں انکی جداگانہ شناخت کا ذکر ملنا شروع ہوتا ہے.
کنڈی قبیلہ کا دیگر اقوام سے ہونے ملحق ہونے کا نظریہ؛
محترم سلطان کُونڈی صاحب نے اپنے ایک کتابچہ کنڈی قبیلے کا نسب عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے کے مشہور شاعر اشعت بن قیس کندی سے جوڑنے کی کوشش کی جبکہ اسی طرح کی ایک کوشش کُندیاں کے کُندی جٹ لوگوں نے بھی اپنا نسب بنو امیہ کے دور کے ایک ریاضی دان یعقوب بن اسحاق کندی سے جوڑنے کی کوشش کی ہے.
حالانکہ اگر اس نقطہ نظر کے لوگ مزید تحقیق کرتے تو پتہ چلتا کہ اشعت بن قیس اور یعقوب بن اسحاق کے ناموں کے ساتھ لکھا “کندی” جسے عربی میں “الکندی” بھی لکھا جاتا ہے وہ اصل میں لفظ ” کِندی ” (Kindi) تھا۔ جبکہ انکے قبیلہ کا نام “الکِندہ”تھا.جبکہ چرن جیت نے نوابین ٹانک کے حوالے سے انھیں جٹ لکھ دیا۔ جوکہ یقینا نوابین ٹانک پر افتراء ہے۔
دوسری طرف قبیلہ کنڈی کے کچھ لوگ جو کہ ماضی میں کوچی تھے اور اب پاکستان کے مختلف علاقوں میں سکونت پذیر ہوئے ہیں انھوں نے متعلقہ علاقوں میں آباد پشتون اقوام سے نسب جوڑنے کی کوشش کی ہے جیسا کہ علاقہ مروت سے ملحق لوگوں نے مروت اور کٹی خیلوں کے ساتھ لمبے عرصے تک رہنے کی وجہ سے خود کو لوہانی پشتونوں کی شاخ سمجھنا شروع کردیا جبکہ بلوچستان میں آباد کنڈی جو ناصروں کے ساتھ رہتے ہیں وہ خود کو ناصر سمجھنے لگے ہیں. اسی طرح وزیرستان میں آباد کونڈی خاندان خود کو دویش خیل وزیروں میں شمار کرنے لگے ہیں. جو کہ بلکل درست نہیں. کیونکہ تاریخ کی کسی بھی کتاب اور ان تینوں اقوام کی روایات میں کوئی کونڈی قبیلہ وجود نہیں رکھتا جو وزیر، لوہانی یا ناصر کی شاخ ہو..
ضلع میانوالی کا علاقہ کندیاں اور کُندی جٹ؛
کیونکہ کُنڈی اور کُندی کی ادائیگی اور لکھنے پڑھنے میں معمولی سا فرق ہے جو عام شخص کو تذبذب کا شکار کر دیتا ہے تبھی یہ وضاحت دینا ضروری ہے کہ یہ دو الگ اور جدا شناختیں ہیں۔
گلو سری آف ٹرائیب اینڈ کاسٹ کے مطابق کنڈو ایک راجپوت قبیلہ ہے جس کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ ایک راجپوت نے ایک جاٹ بیوہ عورت سے شادی کی تو اس کی اولاد کُنڈو کہلائی.
جبکہ ایک ہندوستانی ویبسائٹ کے مطابق کانڈیا جنھیں عموماً کُنڈی بھی کہتے ہیں. ایک ہندوستانی برادری ہے جو ہندوستان کی جنوبی ریاست اڑیسہ میں آباد ہے.
اسی طرح جٹ تاریخ پر مبنی ایک ویبسائٹ کے مطابق کُندی دراصل جٹوں کی ایک شاخ ہے.
کچہ کندیاں کے بندوبست اول (سال1878ء) کے مطابق درج ہے کہ گکھڑوں کے زمانے سے قبل یہ علاقہ غیر آباد تھا مگر پھر گکھڑوں نے اس کو آباد کرنے کا سوچا اور موجودہ کندیاں شہر سے کچھ فاصلے پر معظم نگر کی بنیاد رکھی جو بعدازاں احمد شاہ ابدالی کے حملوں میں تباہ و برباد ہوگیا. جب یہاں سے گکھڑ چلے گئے تو یہاں پر سنبل پٹھانوں نے آبادکاری کا سلسلہ شروع کیا. اس کے بعد ایک شخص کٹو کُندی ضلع شاہپور (موجود ضلع سرگودھا) سے بہ امر کسی مجبوری یہاں آیا اور بااجازت سنبل پٹھانوں کے موسومہ آبادی کندیاں سے جانب مغرب ایک میل پر آباد ہوا. کچھ عرصہ بعد سنبل پٹھانوں کے کچھ گھرانے بھی کٹو کُندی کی اس آبادی میں آکر قلعہ بنا کر آباد ہوگئے.
اس بیان سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ موجودہ کندیاں کی تاریخ بہت پرانی ہے اور یہ کُندی جاٹوں کی آمد سے پہلے بھی کندیاں کہلاتا تھا. اور یہ کندیاں دراصل کنڈی پشتونوں کی وجہ سے کنڈیان کہلاتا تھا. لیکن سلیم شاہ سوری کی نیازیوں کے خلاف بیخ کنی کے زمانے میں اس قصبہ کی بنیاد رکھنے والے کنڈی پٹھان غیض و غضب سے بچتے ہوئے دریا پار کرکے واپس اپنے علاقے ٹانک چلے گئے.
آپکو ہم ایک اور مزے کی بات بتاتیں ہیں کہ ہوشیار پور میں میں بھی ایک بستی کا نام کندیاں ہے اور وہاں پر بھی نیازی قوم کے لوگ آباد تھے جو قیام پاکستان کے وقت پاکستان ہجرت کر آئے۔جسکا ذکر محمد ایوب خان کی کتاب “افاغنہ ہوشیارپور ” میں موجود ہے۔
یہ بات ہماری بات کو بعینہ ثابت کرتی ہے کہ میانوالی کا کندیاں بھی کُنڈی پٹھانوں نے آباد کیا تھا.
جناب حاجی محمد اقبال خان نیازی مرحوم کی بھی یہی رائے ہے کہ کہ حالیہ کندیاں دراصل کُونڈی (جسے کُنڈی بھی لکھا جاتا ہے اور اسی وجہ سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے تبھی ہم نے اس تحریرمیں کُونڈی استعمال کیا) قوم کی آبادی تھی۔جیسے اقوام کے نام پر قصبے ہیں پائی خیل ،بلو خیل، کمر مشانی ویسے اس کو بسانے والے بھی اصل میں کُونڈی قبیلہ تھا۔ شروع میں کُونڈی قوم کی وجہ سے پشتو میں کُنڈیانوں کہا جاتا ہوگا ( جیسے ہندوستان میں واقع لدھیانہ دراصل لودی پشتونوں کی آبادی کی وجہ سے لودیانو تھا)۔ مگر پھر کُونڈی قوم کی نقل مکانی کے باعث یہاں کی پنجابی زبان بولنے والی اقوام نے وقت اور زبان کے اثرات کے باعث “کُندیاں” میں بدل دیا۔کُونڈی کیونکر نقل مکانی کر گئے اس پر بھی قیاس آرائی سے کام لیا جائے گا کیونکہ مستند کوئی معلومات نہیں۔ شاید دریائے سندھ کی تباہی ہو یا پھر گکھڑوں کا زور جو کہ قدیم زمانے سے لیکر سترھویں صدی تک اس علاقے پر قابض رہے یا پھر اور کوئی لڑائی جھگڑا ویسے بھی جب سوری سلطنت میں نیازیوں پر حالات تنگ ہوئے تو نیازیوں کی اکثریت نے واپس اپنے وطن افغانستان کی راہ لی تاکہ شہزادہ سلیم سوری کےعتاب سے بچا جا سکے اسی وقت کُنڈی بھی بطور حفاظت دریا کے مغربی کنارے پر نقل مکانی کرگئے ہوں.
ابراہیم خان سور کے مقبرہ پر درج عبارت؛
ابراہیم خان سور، ہندوستان کے عظیم بادشاہ شیر شاہ سوری کا دادا تھا. جن کا مدفن ہندوستانی ریاست ہریانہ کے ضلع مہیندر گڑھ کے ایک شہر نارونال کے پیران محلہ میں واقع ہے.
جب شیر شاہ سوری ہندوستان کا بادشاہ بنا تو اس نے اپنے دادا کا مقبرہ بنانے کا منصوبہ بنایا جس کی تعمیر 1545ءمیں مکمل ہوئی. اس مقبرہ کی تعمیر کے کام کی نگرانی ایک کونڈی نیازی کو دی جس نے تعمیر کے بعد یہاں پر ایک تختی نصب کروائی.
یوں ہمیں تاریخ میں سب سے پہلے جس کُونڈی شخص کا ذکر ملتا ہے وہ شیخ ایاز نیازی نام کا تھا جو کہ شیر شاہ سوری کے مصاحبین میں شامل تھا جس نے شیرشاہ سوری کے دادے ابراہیم سوری کے مقبرہ کو تعمیر کرایا۔ اس مقبرہ کے تعمیراتی کام کی نگرانی شیخ ایاز نیازی کے بیٹے ابوبکر خان نے کی۔مقبرہ کی تعمیر کے اختتام پر ایک تختی آویزاں کی جس پر یہ تحریر بزبان فارسی لکھی ہے۔
“عمارت کہ کرد ار کسے از تو پرسد
جوابش بدہ گر تو داناے رازی
بنا کرد ایں گنبد عرش پایہ
شہ مملکت شیر سلطان غازی
سر سروراں مالک ھفت کشور
کہ تیغش ز برق جہاں برد بازی
فرید حسن سور ابن براھیم
بفر مود بر قبر جد خلد سازی
چو پرسی زمن کار فرما کہ بودش
ابابکر بن شیخ احمد نیازی
نیازی بہ تعصیم و تخصیص کندی
بدیں ذات پاکش بود سرفرازی۔
جس کا اردو ترجمہ کچھ یوں بنتا ہے۔
اگر کوئی تم سے پوچھے کہ اس عمارت کو کس نے تعمیر کیا، تو اسے جواب دینا اگر تم راز جانتے ہو تو۔۔۔۔
یہ مقبرہ اس کا ہے جس کا جنت میں اعلیٰ مقام ہے۔اس کو ملک ہند کے عظیم فاتح بادشاہ شیر شاہ نے بنوایا ہے۔
بادشاہوں کے بادشاہ، جو اقلیمِ ہفتم کا مالک ہے،جس کی تلوار کی چمک آسمانی بجلی سے زیادہ روشن ہے۔
فرید، حسن سوری کا بیٹا، جو کہ ابراہیم سور کا بیٹا ہے۔ اس نے اپنے دادا کی قبر پر خوبصورت مقبرہ کی تعمیر کا حکم دیا۔
اگر تم مجھ سے پوچھو کہ اس تعمیرات کا نگران کون تھا، تو میں بتاؤں گا۔ وہ ابوبکر تھا، شیخ احمد نیازی کا بیٹا۔۔۔۔
اگر میں آسان الفاظ میں کہوں، تو اسے نیازی پکاروں گا۔ اگر مخصوص (قبائلی شاخ کا نام بتاؤں) نام سے نامزد کروں تو میں لازمی کہوں گا وہ ایک کونڈی ہے۔اور یہ بات اس کےخالص کردار سے (اعلیٰ نسب) فخر کی عکاسی کرتا ہے۔
کُنڈی قبیلہ ٹانک کب آیا؟
جیسا کہ ہم انیسویں صدی میں لکھی گئی انگریزوں کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو واضح پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے میں جہاں کنڈی قبیلہ ٹانک میں مستقل سکونت رکھتا تھا وہیں پر کُنڈی قبیلہ کے لوگوں کا خانہ بدوش ہونا بھی درج ہے.غالباً کنڈی قبیلہ شروع میں وزیرستان کے اس مقام پر آباد ہوا جس کو آجکل کنڈی غر کہتے ہیں۔غر پشتو میں پہاڑ کو کہتے ہیں۔
مسٹر ٹکر کی رپورٹ کے مطابق کنڈی قبیلہ ٹانک میں اسی زمانے میں آباد ہوا جب یہاں دولت خیل آباد ہوئے. یعنی پندرہویں صدی کے وسط کا زمانہ جب بہلول لودی نے پشتونوں کو ہندوستان آمد کی دعوت دی. جبکہ دوسری طرف چرن جیت سنگھ لکھتا ہے کہ کنڈی قبیلہ کو آبادکاری کیلئے زمینات لوہانی پٹھانوں نے دیں. جو کہ بلکل غلط بات ہے. کیونکہ ٹانک قدیم زمانے سے تمام لودھی پشتونوں کا مشترکہ ورثہ رہا ہے.بلکہ نیازی ٹانک میں لوہانیوں سے پہلے آئے۔ تبھی ٹانک میں نیازیوں کا حصہ پرانے زمانے سے موجود تھا. میرے خیال میں جب سرہنگ نیازیوں نے ٹانک کو خیر باد کہا تو انکے کچھ عرصہ بعد کوچی کونڈی نیازیوں نے اس جگہ پر مستقل سکونت اختیار کر لی. شاید کونڈی قبیلہ کی یہ آباد کاری مغل بادشاہ اکبر کے عہد میں ہوئی ہو جب مروت بھی ٹانک چھوڑ کر موجودہ لکی مروت جا چکے تھے.
بہرحال جب کنڈی یہاں آباد ہوئے تو یہاں انکا سردار درکی خان کنڈی تھا. جسکو قتال خان (جد اعلیٰ قبیلہ کٹی خیل) نے مالی ادائیگی سے استثناء دیا. جس کے بدلے میں کونڈی قتال خان دولت خیل کی مشکل زمانے یعنی جنگ و جدال میں اعانت کرتے رہے. لیکن جب قتال خان فوت ہوگیا اور سرداری سرور خان کٹی خیل کو ملی تو جب وہ کابل دربار میں جانے لگا تو اپنے ساتھ کنڈی قبیلہ کے سردار درکی خان کو بھی دیگر دو کنڈی سرداروں کے ساتھ لیکر گیا. کابل سے واپسی پر سردار سرور خان نے درکی خان کو ایک قلعہ بنانے کی ترغیب دی تاکہ گنڈاپوروں کے کسی متوقع حملہ کو روکا جا سکے. اس قلعہ کی بنیاد غالباً 1785ء کے اردگرد رکھی گئی جو بعد میں موجودہ سرکی گاؤں کی شکل اختیار کرگیا.
درکی خان کو کاشتکاروں سے آمدن کا پانچواں حصہ لینے کی اجازت دی گئی.
درکی خان کی وفات کے بعد جب سرور خان کٹی خیل طاقت و اقتدار کے نشہ میں مست ہوا تو اس نے کنڈیوں کو حکم دیا کہ وہ ٹیکس ادا کریں. جس پر کنڈی قبیلہ انکاری ہوگیا.
1807ءمیں سرور خان کٹی خیل نے ایک لشکر کنڈیوں پر حملہ کیلئے بھیجا مگر کونڈیوں نے ملازئی کے مروتوں سے اتحاد کرکے اس لشکر کو علی وال کڈ کے قریب شکست دی.
کچھ عرصہ بعد سرور خان کٹی خیل نے نواب آف ڈیرہ اسماعیل خان کی معاونت سے ایک بھرپور لشکر کونڈیوں پر حملہ کیلئے بھیجا اس حملہ کے وقت مروتوں کو کونڈیوں کی معاونت سے روک لیا گیا. جس کی وجہ سے کنڈی علاقہ چھوڑ کر مروتوں اور گنڈاپوروں کے علاقوں میں جا کر پناہ گزین ہوئے. دو سال بعد کانی گرام کے سادات کی مداخلت سے کونڈی واپس اپنے علاقوں میں آئے اور ٹیکس دینے پر آمادہ ہوئے. لیکن کونڈیوں نے یہ ٹیکس ادائیگی میں اپنے تئیں سخت مزاحمت پھر بھی جاری رکھی.
کنڈی جان بوجھ کر نوابین ٹانک کے علاقے میں لوٹ مار اور قتل و غارت کرتے تھے تاکہ سرور خان کی عمل داری کو چلینج کیا جا سکے اور باہر کے لوگوں میں سرور خان بدنام ہو. اس کام کا قلع قمع کرنے کیلئے سرور خان نے درکی کے قریب ایک قلعہ تعمیر کیا اور اس کا قلعہ دار ایک کنڈی میاں خان کو بنایا جو کہ سرور خان کا حمایتی تھا.
میاں خان کنڈی نے سرور خان کٹی خیل کے ایما پر درکی گاؤں میں داخل ہوکر درکی خان کے خاندان کے افراد کو قتل کردیا. جو جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب رہے انھوں نے ظفر کوٹ میں جا کر پناہ لی جو بعد میں کنڈی کوٹ کہلایا.
اب پیداوار سے پانچویں حصہ کا وصولی کا اختیار درکی خان کی بجائے میاں خان کو مل گیا. لیکن بعدازاں جب میاں خان نے دیکھا کہ درکی خیلوں کے چلے جانے سے اس کی پوزیشن کمزور ہوگئی ہے اور کنڈیوں میں اس کے وقار کو زک پہنچی ہے تبھی اس نے درکی خیلوں سے صلح کیلئے جنبانی شروع کی اور ان سے وعدہ کیا کہ کل وصول شدہ آمدن ہم آپس میں برابر تقسیم کریں گے. جس کے بعد درکی خیل واپس درکی گاؤں میں آگئے. یہ تقسیم انگریزوں کے زمانے تک یونہی چلتی رہی.
میاں خان کنڈی نے پرانے گاؤں ابیزر، اور تاجوڑی کو دوبارہ آباد کیا اور ساتھ ہی ساتھ شیر علی، خیبر اندڑی، اور عمر خان نامی قصبہ جات کو گنڈاپوروں کے ساتھ متصل سرحد پر مضبوط کیا. میاں خان 1845ء تک کنڈی قبیلہ کا نامور سردار رہا. لیکن جب عاشق خان سدوزئی پر ملک فتح خان ٹوانہ نے قاتلانہ حملہ کروایا تو عاشق خان سدوزئی کو بچاتے ہوئے میاں خان کنڈی مارا گیا. جب شاہنواز خان کٹی خیل کو انگریز حاکم ایڈورڈ نے ٹانک کی نوابی پر بحال کیا تب میاں خان کا خاندان بھی کنڈی علاقے میں واپس آیا. انگریزوں نے بھی پانچویں حصہ کی وصولی کو برقرار رکھا.
میاں خان کی اولاد جو بعد سرداری خیل کہلاتی ہے اب تک کنڈیوں کا نامور قبیلہ ہے..
کنڈی قبیلہ کا حدود اربعہ؛
روایتوں کے مطابق شروع شروع میں کنڈی قبیلہ ٹانک کے شمال مغرب میں بہنے والے سوہل ندی کے کنارے آباد ہوا جہاں سے یہ پھیلتے ہوئے اوپر ملازئی تک اور ملازئی سے درہ پیرزو تک مشرق میں جب کہ ٹکوراہ گنڈاپور تک جنوب میں اور ٹکوراہ گنڈاپور سے سوہل ندی کے کنارے مغرب تک علاقے کا مالک تھا. لیکن انیسویں صدی میں درہ پیرزو سے متصل علاقوں پر مروت قبیلہ سے تعلق رکھنے والے لوگ قابض ہوگئے..
زمین کی تقسیم؛
چرن جیت کے مطابق پرانے زمانے میں تمام کنڈی قبیلہ اتفاق سے ایک مخصوص مدت کیلئے اپنا سردار چنا کرتا تھا. جیسے ہی اس کی مدت پوری ہوتی اسی دن سے نیا سردار مقرر کیا جاتا تھا. جس کا عہد دس سے بارہ سال پر محیط ہوتا تھا. نئے سردار کی تقرری کے ساتھ ہی اراضی کی جدید تقسیم بھی کی جاتی.. اس دن قوم کا ہر فرد حتیٰ کہ شیر خوار بچہ سے لیکر ضعیف العمر شخص تک موجود ہوتا تاکہ خاندان کو زیادہ سے زیادہ حصہ مل سکے. مردم شماری کرکے ویش مقرر ہوتا. اور اگر کوئی غیر حاضر ہوتا تو اس کو تاعمر حصہ نہیں ملتا تھا. کچھ وقت تک یہ سلسلہ جاری رہا. پھر یہ نظام تنازعات کا شکار ہوگیا. اور مالکان میں باہم اختلاف پیدا ہوگیا. آخر جس کے قبضے میں جو زمین تھی وہی اس کا مالک بن بیٹھا.
کنڈی اور میانوالی کے دیگر نیازیوں میں عدم ربط کی وجہ؛
بات یہ ہے کہ میانوالی کے نیازی آج سے سات سو سال پہلے بلبن کے زمانے میں افغانستان سے ہندوستان کی جانب عازم سفر ہوئے جو صدیوں میں مسافتیں طے کرتے پہنچتے. دوسری طرف کنڈی قبیلہ کیونکہ جدا ہو کر قلات غلزئی میں آباد ہوگیا پھر وہاں سے ہندوستان کی جانب عازم سفر ہوا اور ٹانک میں آکر رک گیا انتہائی محدود عرصہ کیلئے دریا پار کندیاں کے مقام پر کچھ حصہ آباد ہونے کیلئے آیا مگر حالات کی سنگینی کے سبب وہ بھی واپس ٹانک چلا گیا. دوسری طرف میانوالی کے نیازیوں کی مروت سے دشمنی رہی جسکی وجہ سے نیازی ایک عرصے تک افغانستان سے کٹ گئے. یوں راستوں کے مسدود ہونے کے سبب رابطے کٹ گئے.لیکن پھر بھی ضلع خوشاب کے علاقے گولیوالی کی نیازی آبادی میں ایک کونڈی خاندان آباد ہے جن کے پاس 1870ء کے بندوبستی ریکارڈ کی سند موجود ہے۔یہ خاندان گولیوالی میں مدفون پیر کوڑا خان کا عقیدت مند تھا۔چونکہ پیر کوڑا خان بھی ٹانک کے لوہانی پٹھان تھے ۔جب انھوں نے ٹانک کو خیرباد کہا تو یہ کنڈی خانوادہ بھی ساتھ ہمسفر ہوگیا۔ان دونوں گھرانوں کی آمد کا زمانہ 1800ء کے لگ بھگ کا بنتا ہے۔گولیوالی میں آباد کنڈی قبیلہ کا شجرہ۔
کوچی کنڈی قبائل؛
اب تک ہم نے ٹانک میں سکونت پذیر کونڈی قبیلہ کی تاریخ بیان کی ہے اب ہم کوچی کونڈی قبائل پر روشنی ڈالنا چاہیں گے.. ویسے تو کوچی قبیلہ کے متعلق ہمارے پاس زیادہ معلومات نہیں ہیں کیونکہ کوچی قبائل کے لوگ اردو سے اور تاریخ سے نابلد ہیں. کیونکہ لگاتار انھوں نے گزشتہ پچاس سالوں میں سوائے کشت و خون کے کچھ نہیں دیکھا. سب بکھر چکے ہیں کوئی پاکستان کے کس کونے میں مہاجر بن کر زندگی گزار رہا ہے تو کوئی کس کونے زندگی کی جنگ لڑ رہا ہے. تو کوئی افغانستان میں اپنا خانہ اٹھائے کبھی کدھر جا ٹھہرتا ہے تو کبھی کدھر..
بہرحال کوچی کونڈی قبائل پر کیپٹن رابنسن نے اپنی کتاب میں کچھ ذکر کیا ہے وہ ہم یہاں درج کر دیتے ہیں..
وہ لکھتے ہیں کہ کنڈی ایک لودھی (نیازی) پٹھان قبیلہ ہے جس کی اب کافی تعداد ٹانک و ڈیرہ اسماعیل خان میں کافی زمانے سے مستقل سکونت اختیار کر چکی ہے مگر ابھی بھی ہمارے ملک یعنی ہندوستان (موجودہ پاکستان) میں کونڈیوں کی تقریباً اڑھائی سو خاندان موجود ہیں (یاد رہے کہ یہ تعداد 1935ء کے زمانے کی ہے). یہ خاندان گرمیاں غزنی اور قلات غلزئی میں گزارتے ہیں جبکہ سردیوں میں یہ ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے مندرہ اور ڈیرہ غازی خان کے علاقے چوٹی زیریں میں چلے آتے ہیں. یہ لوگ کسی قسم کی ملکیتی زمین نہیں رکھتے. یہ فقط مویشیوں کے ریوڑ اور مختلف اشیاء کی تجارت کرتے ہیں.. تجارت کی غرض سے ان کے مرد پنجاب، سندھ حتیٰ کہ ہندوستان کے سب سے مشرقی صوبہ بنگال تک بھی پہنچ جاتے ہیں.
کوچی کونڈی تین بڑے گروہ ہیں اول اسمعیل زئی، دوم مُلا خیل جنھیں شیخ بھی کہتے ہیں جبکہ تیسرا گروہ جسے سری کنڈی کہتے ہیں.
اسمعیٰل زئی؛
جس میں امیر خیل، چہار گل خیل اور عبداللہ خیل شامل ہیں. یہ تینوں قبائل اکھٹے ہجرت کرتے ہیں. یہ سنتالیس خاندانوں پر مشتمل گروہ ہے. جس کا سربراہ ملک لعل خان ہے. گرمیاں غزنی کے علاقے رسانہ، مکوڑ میں گزارتے ہیں جبکہ سردیاں مندرہ ڈیرہ اسماعیل خان میں. یہ لوگ افغانستان سے فروخت کیلئے دیسی گھی، اُون اور بادام لاتے ہیں. ان کے مرد لوگ تجارت کی غرض سے بنگال، پنجاب (امرتسر، جالندھر)، اور سندھ تک جاتے ہیں. جہاں یہ ادھار پر کپڑا بیچتے ہیں. انکے کچھ خاندان ناصر قبیلہ کے ساتھ براستہ درابن داھنا سر درہ کے ژوب جاتے ہیں.
مُلا خیل یا شیخ؛
یہ گروہ ظفر خیل، اللہ داد خیل اور شاہ عالم خیل پر مشتمل ہے. جس میں تیس گھرانے ظفر خیلوں کے ہیں. جن کا سربراہ ملک کاکڑ خان ہے. ، چالیس گھرانے اللہ داد خیلوں کے ہیں جن کا مشر ملک اختر خان ہے جبکہ شاہ عالم خیلوں کے بیس گھرانے ہیں اور انکا سردار ملک گل محمد ہے.
سری کنڈی؛
اس میں اما خیل اور اچا خیل شامل ہیں بھی شامل ہیں.
سری کنڈی تیرہ خاندانوں کا قافلہ رکھتے ہیں۔ یہ گرمیاں قلات غلزئی میں گزارتے ہیں. ان کا سردار ملک عامر خان ہے.
اما خیل؛
انکا سردار ملک کریم خان ہے اور یہ بیس گھرانوں پر مشتمل ہیں یہ اب مسلم باغ ژوب میں سکونت اختیار کرنے لگے ہیں.
اچا خیل؛
ان کا مشر ملک شہباز خان ہے اور یہ ساٹھ خاندانوں پر مشتمل قافلہ رکھتے ہیں
یہ گرمیاں کندھار کے علاقے معروف میں گزارتے ہیں جبکہ سردیاں ڈیرہ غازی خان کے علاقے چوٹی زیریں میں.
ربنسن کے اس زمانے میں جو دیگر کنڈی کوچی قبائل کے ملکان تھے ان کے نام یہ ہیں
ملک غلام خان، ضابطہ خان، قتال خان، عیسٰی خان، اختر خان، زریں خان، ملک خان، نصرت خان، کریم خان،
بیسویں صدی اور اسکے بعد ٹانک کا کونڈی قبیلہ؛
انگریزوں کی آمد کے بعد جبکہ انگریزوں کی کوشش تھی کہ کسی طرح افغانستان کو اپنے قابو میں رکھا جائے تاکہ وہ مغرب میں موجود ایک اور طاقت روس کا آلہ کار نہ بنے. انگریزوں نے ڈیرہ اسماعیل خان پر خصوصی توجہ دی کیونکہ افغانستان کے ساتھ متصل اور سب سے زیادہ آمدورفت والے علاقوں میں سے درہ گومل ایک راستہ تھا. تبھی اوائل کے زمانے کے انگریزوں نے کونڈی قبیلہ کے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں دی ان کے مطابق کونڈی دراصل لٹیرے اور ڈاکوؤں کا مجموعہ ہے جو ریاست کی عملداری کو نہیں مانتے. لیکن بعد میں جب انگریزوں کا کونڈیوں سے واسط پڑا تو پتہ چلا کہ یہ لوگ انتہائی بے ضرر اور اپنے کام سے کام رکھنے والے لوگ ہے. تبھی کنڈی قبیلہ کے لوگوں کو انگریز نے افغانستان سے متعلق مہمات اور معاملات میں نچلے سطح پر کام میں لانا شروع کیا.
تاریخ میں سب سے پہلے انگریزوں کے زمانے میں گل امام کے عظیم خان کے بیٹے نامور ہوئے جن میں عبدالکریم خان کونڈی جو1846ء میں پیدا ہوئے اور 1887ء میں انگریزی ملازمت اختیار کی. شروع میں تو تحصیلدار بھرتی ہوئے لیکن اپنی قابلیت پر 1902ء میں سیشن جج مقرر ہوئے.
اس کے علاوہ محمد عظیم خان کنڈی کے دوسرے بیٹے عبدالحکیم خان کنڈی متحدہ ہندوستان کے چوتھے جبکہ مسلمانوں کے سب سے پہلے بار ایٹ لاء بنے.
اس کے علاوہ عبدالرحیم خان کنڈی بھی بار ایٹ لاء بنے جو بعدازاں خیبر پختون خوا اسمبلی کے سب سے پہلے سپیکر اسمبلی بنے. اس کے علاوہ عبدالحمید خان کنڈی جو آل پارٹیز کانفرنس کے وائس پریزیڈنٹ رہے. اسی طرح جہانگیر خان کنڈی، غفار خان کنڈی وغیرہ کی لاتعداد شخصیات نے سیاسی و سماجی سطح پر اپنا اپنا کردار ادا کیا. کونڈی قبیلہ عبدالکریم خان کنڈی کے راستے پر ایسا چلا کہ کونڈی قبیلہ میں شعبہ قانون میں بہت کامیابی سمیٹی لاتعداد لوگوں نے وکالت کی ڈگریاں حاصل کیں اور ججز و وکیل بنے. حتیٰ کہ عبدالکریم خان کنڈی جونئیر پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے اور عبدالحکیم خان کنڈی جونئیر ڈپٹی اٹارنی جنرل پاکستان تعینات رہے.
اس کے علاوہ سیاست میں بھی میدان خالی نہ چھوڑا.
قیام پاکستان کے بعد فیض اللہ خان کنڈی پیش پیش رہے.
جو بھٹو کے زمانے میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے وفاقی وزیر بھی رہے.
اس کے علاوہ محمد اسحاق خان ون یونٹ کے زمانے میں مغربی پاکستان اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر مقرر ہوئے…
بیسویں صدی کے بعد اکیسویں صدی میں بھی کنڈی خاندان ضلع ٹانک و ڈیرہ اسماعیل خان پر ایک بھرپور سیاسی قوت کے طور پر موجود ہے.2008ء میں فیصل کریم خان کونڈی کو پیپلز پارٹی حکومت نے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی منتخب کیا. جبکہ احمد خان کنڈی اس وقت خیبر پختون خوا اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ہیں..
گزشتہ دنوں جولائی 2022ء میں کونڈی قبیلہ کے دیہاتوں پائی اور گل امام میں زبردست سیلاب آیا جس وجہ سے دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے کچھ افراد کے ہلاک ہونے کی بھی خبریں موصول ہوئی ہیں.
مشہور شخصیات؛
جیسا کہ ہم نے اوپر تاریخ میں بیسیوں کونڈی قبیلہ کی مشہور شخصیات کا ذکر کردیا ہے. جن پر فرداً فرداً روشنی ڈالنے اور انکی شخصیات کو بیان کرنے کی ضرورت ہے مگر اس سے آرٹیکل طویل ہوجائے گا طوالت کے خوف سے وہ کام ہم انشاءاللہ کسی اور آرٹیکلز میں کریں گے. اس کے علاوہ درج ذیل شخصیت مشہور و معروف ہیں. عبداللہ خان کنڈی (سرائے نورنگ) ،
کرنل حمیداللہ خان کنڈی ،سعداللہ خان، حبیب اللہ خان، فیض اللہ خان (ایس پی پولیس)، فضل الرحیم خان (ڈائریکٹر زراعت مغربی پاکستان)، فضل قدیم خان کنڈی (ایم پی اے)، حبیب اللہ خان (ایم پی اے)، ہدایت اللہ خان (چیف انجینئر واپڈا)،
ڈاکٹر اسداللہ خان، فضل کریم خان (ایم این اے)، داوڑ خان کنڈی(ایم این اے)، امان اللہ خان کنڈی عرف منو خان (ایم پی اے)، ریاض خان کنڈی (ناظم ٹانک)، حبیب اللہ خان کنڈی عرف ببو خان (ایم پی اے)، سابقہ وزیر صوبائی، امیر زمان خان کنڈی (ایس پی پولیس)، کرنل حمیداللہ خان، اویس اللہ خان کنڈی، اقبال خان کنڈی (سابقہ ناظم پائی)، فلائیٹ لیفٹیننٹ زبیر خان کنڈی ،امان اللہ خان کنڈی (ایم پی اے) ڈاکٹر عنایت اللہ خان کنڈی، نعمت اللہ خان (ایس پی پولیس)، رشید خان (ضلع نائب ناظم)، کرنل ارشد خان، محمد انور خان (ایس پی پولیس)، رحمت اللہ خان (ڈپٹی سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن) وغیرہ شامل ہیں..
ذیلی شاخیں؛
ابراہیم خیل، اچا خیل، مینک زئی، تاجو خیل، اما خیل، پائی خیل، شادمان خیل، کوکی خیل، آذر خیل، محمود خیل، چکی خیل، بدین خیل، سلیم زئی، منگلی، کشمیر خیل، میرو خیل، لوہان خیل، نارو خیل، سیدی خیل، ببر خیل، سرساعی خیل، شادی خیل، استان خیل، صاحب زئی، ملی خیل، ظفر خیل، اللہ داد خیل، ملا خیل، امیر خیل، چہار گل خیل، عبداللہ خیل وغیرہ شامل ہیں.
کنڈی قبیلہ کی آبادیاں؛
رانوال، پائی، گل امام، ملازئی،اما خیل، نندور، درکی، ابی زر، شاہ عالم، وغیرہ مشہور آبادیاں ہیں.
:کنڈی قبیلہ کی زبان
یوں تو کنڈی قبیلہ کی زبان نرم پشتوہے۔ جو بیٹنی و مروت سے مماثلت رکھتی ہے۔مگر کوچی کونڈی قندھاری پشتو بولتے ہیں۔جبکہ ڈیرہ اسمعیل خان کے کنڈی پشتو کے علاوہ سرائیکی زبان پر بھی مہارت رکھتے ہیں۔
:نوٹ
یہ بات یاد رہے کہ زیر دستیاب شجرہ جات صرف وہ ہیں جو تاریخ نیازی قبائل کتاب کے مؤلف حاجی اقبال خان نیازی صاحب مرحوم نے اپنی کوشش سے اکھٹے کئے یا جن لوگوں نے ذاتی دلچسپی لیکر کر شجرے بنا کر ان تک پہنچائے.ان شجروں کو قطعی طور پر مکمّل نہ سمجھا جائے کیونکہ یہ چند سو افراد کے شجرے ہیں جبکہ قبیلے کی آبادی لاکھوں افراد پر مشتمل ہے.. اگر کسی کا زیر دستیاب شجرے میں نام موجود نہیں تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ نیازی نہیں یا کنڈی نہیں. بلکہ یہ انتہائی محدود افراد کے شجرے ہیں جو مؤلف کو دستیاب ہوئے وہ شامل کردیئے۔
ایڈمن نیازی پٹھان قبیلہ
www.NiaziTribe.org
زبردست جناب…
اگر یہ بیوہ عورت تھی اور نور محمد خان کنڈی کہلانے لگا
جبکہ اس تاریخ میں آلا یا عبداللہ کا ذکر نہیں جو دیگر شجرات کے حساب سے کنڈی کا بھائی تھا
براہ کرم اس پر روشنی ڈالیں
اور براہ کرم اپنا کونٹیکٹ شیئر کردیں کچھ معلومات درکار ہیں میں ایک سسٹم بنا رہا ہوں جس میں پختون کے تمام قبائل کا شجرہ ہوگا انشاللہ
السلام علیکم برادر ماشاءاللہ بہت خوب۔آپ اپنا رابطہ یہاں کمنٹ میں لکھ دیں یا پھر نیازی پٹھان قبیلہ فیسبک پیج پر انبکس کریں۔تاکہ جہاں تک ممکن ہو آپ کے ساتھ تعاون کیا جاسکے۔ شکریہ
Kundi qabayel ki book chahye
Kya price hyn
کتاب دستاب نہیں۔معذرت
السلام علیکم بھائی جان مجھے ایک سوال کا جواب چاہیے سوال یہ ہے کہ آپ نے صرف نندور کے ملی خیلوں کا شجرہ لکھا ہے باقی آماخیل میں جو ملی خیل ہے انکا شجرہ نسب کیوں نہیں ہے کیا انکا شجرہ نسب کنڈیوں میں نہیں ہے؟ اگر ہے تو شامل کیا جائے نہیں تو وضاحت کرے کہ یہ فلاں قبیلے سے ہے
ہمارے پاس جو معلومات پہنچی وہ شامل کر دی۔اگر کوئی رہ گیا ہے تو معلومات فراہم کریں تاکہ شامل کی جاویں