تعارف؛
قبیلہ داؤد خیل ضلع میانوالی کے نیازیوں کا نہایت مشہور اور معروف قبیلہ ہے جس کے نام پر علاقہ داؤد خیل بھی واقع ہے. جہاں پر انڈسٹریل ایریا اسکندر آباد بھی موجود ہے.
تاریخ؛
داؤد بن اکاہے بن مو سیانی دراصل خاکو کی اولاد سے ہیں اور موشانی قبیلے کی ذیلی شاخ ہیں لیکن الگ شناخت قائم کرچکا ہے..
جیسا کہ ہم موشانی قبیلے کے باب میں ذکر کر آئے ہیں کہ موشانی, عیسٰی خیلوں کے بعد اور سرہنگوں سے پہلے سیدھا ہی ٹانک سے یہاں آکر آباد ہوئے.شروع شروع میں دیگر موشانیوں کی طرح داؤد خیل قبیلہ کے لوگ بھی اپنے ہم جد قبیلے کے ساتھ علاقے کمر مشانی پر ہی آباد تھے. پھر افرادی قوت زیادہ جبکہ جگہ کم ہونے کے سبب دریا پار کرکے موجودہ اپنے جد امجد داؤد خان نیازی کے نام پر داؤد خیل شہر کی بنیاد رکھی.جہاں پر یہ قریب چار سو سال سے آباد چلا آتا ہے. داؤد خیل شہر دو حصوں میں منقسم ہے ایک اتلا (اوپر والا حصہ) پاسہ دوسرا تلواں یا لمے والا (نیچے والی طرف)داؤد خیل شہر دو حصوں میں منقسم ہے ایک اتلا (اوپر والا حصہ) پاسہ دوسرا تلواں یا لمے والا (نیچے والی طرف)داؤد خیل شہر دو حصوں میں منقسم ہے ایک اتلا (اوپر والا حصہ) پاسہ دوسرا تلوں یا لمے والا (نیچے والی طرف) پاسہ.اوپر والی طرف شریف خیل، سمال خیل، شیبے خیل، اور بہرام خیل آباد ہیں جبکہ نیچے والی طرف گلشی خیل، ہاتھی خیل، انزلا خیل، زمو خیل، زبرو خیل اور داؤ خیل وغیرہ آباد ہیں
اقبال خان نیازی صاحب بحوالہ تحقیقات عبدالغفار خان نیازی سابق چیئرمین زکوٰۃ کمیٹی داؤد خیل کے لکھتے ہیں کہ لمے خیل کوئی قبیلہ کا نام نہیں بلکہ نیچے والے یعنی تلواں محلہ لمے (جنوب) کی طرف سے سب کو لمے خیل کہا جاتا ہے. اس محلے کے لوگ پیران طریقت کے مرید چلے آتے ہیں.
اقبال خان بقول راوی فضل داد خان علاؤل خیل کے لکھتے ہیں کہ سکھوں کی عادت تھی کہ وہ پنجوترا یعنی پیداوار کا پانچواں حصہ زبردستی وصول کرتے تھے. ایک بار سردار علاؤل خان سے زبردستی پنجوترا وصولی کیلئے آئے جس سے تنازعہ پیدا ہوگیا. سکھوں نے بجائے فصل کے گلشی خیلوں کے مال مویشی پر قبضہ کر لیا اور ہانک کر ساتھ لے جانے لگے. جس پر نواب خان، طورباز خان، عباس خان وغیرہ نے ہلہ بول کر اپنے مال مویشی چھین لئے. جس کے بدلے میں سکھا شاہی لشکر غصہ میں آگیا. جب گلشی خیل کے کچھ افراد اپنی زمینات کی دیکھ بھال کیلئے پہاڑ کی طرف گئے تو سکھوں نے طورباز خان اور اسکے خاصہ خیل ایک سبونی کو گرفتار کرلیا. اور کوٹ گلہ شریف کے پاس واقع کرٹھیاں لے گئے جہاں انکی چھوٹی سی چھاؤنی تھی. جب گلشی خیلوں کو اس بات کا علم ہوا تو انھوں نے جوابی وار ترتیب دینا شروع کیا. عباس خان، شاہنواز خان اور علاؤل خان نے ایک چھاپہ مار ٹیم تشکیل دی اور قیدیوں کو چھڑانے کا منصوبہ بنایا. مگر اس حملے میں وہ سبونی تو بازیاب ہوگیا مگر طور باز خان کیونکہ سکھوں سے الجھ گیا تھا تبھی وہ رہ گیا.. جس پر سکھوں نے بے رحمانہ سلوک کرتے ہوئے طور باز خان کو شہید کردیا. اور لاش بھی واپس نہ دی. جس پر گلشی خیلوں کا اشتعال مزید بڑھ گیا. انھیں پتہ چلا کہ ایک رنجیت سنگھ نامی سکھ گماشتہ پنجوترا وصولی کیلئے ڈھیر امید علی شاہ کی طرف آتا ہے. انھوں نے جا کر اسکو قتل کردیا اور انکی نعشیں قبضے میں رکھ کر سکھوں کو پیغام بھیجا کہ سردار طورباز خان کی نعش کے بدلے رنجیت سنگھ و دیگر کی نعشیں لے جاؤ. اسطرح نعش وصول قرار پائی اور پھر سکھوں نے داؤد خیل کی طرف پنجوترا وصولی کیلئے کوئی گماشتے نہ بھیجے..
قبیلہ داؤد خیل کی ایک شاخ آجکل گولے والی میں بھی آباد ہے جوکہ عالمشیری والا ٹوبہ کے مقام پر سکونت رکھتی ہے.
علاقے ٹھھٹی کے موندی خیل انکی ذیلی شاخیں بشمول جانو خیل، لوبھری اور بھڑکیوں کے تمام پٹھان قبیلے داؤد خیل میں ہی شامل ہیں.
:داؤد خیل شہر از قلم پروفیسر منور علی ملک
داؤد خیل شہر،سڑک سے پانچ سات فٹ بلند جگہ پر واقع ھے- اس بلند ی کی وجہ یہ ھے کہ یہ شہر کسی زمانے میں دریا کے کنارے واقع تھا- دوچارسو سال پہلے دریا تو رخ بدل کر یہاں سے پانچ سات میل مغرب میں چلاگیا، شہر اپنی جگہ موجود رھا- اس بلند جگہ کو آج بھی منڑں یا منڑیں (دریا کا کنارا) کہتے ھیں- محلہ علاؤل خیل اور لمے خیل اس منڑں کے عین کنارے پر واقع ھیں- اب سڑک کے قریب بھی خاصی آبادی ھو گئی ھے- اس آبادی کو منڑیں تلے والی آبادی کہتے ھیں-
پرانے زمانے میں لوگ پانی کی خاطر دریاؤں کے کنارے شہر بسایا کرتے تھے-داؤدخیل شہر دوحصوں پر مشتمل ھے- شمالی حصے کو اتلا (اوپروالا) شہر کہتے ھیں- یہ حصہ محلہ داؤخیل، سالار، شریف خیل ، سمال خیل ، کڑاخیل، کنوارے خیل اور ریلوے سٹیشن کے قریب کنوں خیل تک پھیلا ھؤا ھے-
شہر کا جنوبی حصہ تلواں (نچلا) شہر کہلاتا ھے- یہ حصہ محلہ لمے خیل، علاؤل خیل ، امیرے خیل، اسلام آباد (جی ھاں ، ایک اسلام آباد ھمارے داؤدخیل میں بھی ھے) انزلےخیل ، اللہ خیل ، مبارک آباد , شکور خیل اورڈیرہ خٹکی خیل پر مشتمل ھے-داؤدخیل کے بنک چوک سے جنوب کی طرف جانے والی سڑک میاں رمدی صاحب کے قبرستان سے آگے میانوالی عیسی خیل روڈ سے جا ملتی ھےاس سڑک کو جرنیلی سڑک کہا جاتا تھا- سنا تھا یہ سڑک شیرشاہ سوری نے فوجی مقاصد کے لیے بنوائی تھی- اس لیے اسے شیرشاہ سوری روڈ بھی کہا جاتا ھے- شیر شاہ سوری کی بنوائی ھوئی جرنیلی سڑک کےبارے میں کچھ کنفیوژن سی لگتی ھے- کیونکہ ضلع میانوالی میں اب اس سڑک کے کچھ ٹوٹے ھی باقی رہ گئے ھیں- ان ٹوٹوں کو آپس میں ملانے کا تصور ھی کیا جاسکتا ھے٠ اور تصور میں غلطی کا امکان بھی ھو سکتا ھے-
داؤدخیل میں یہ جرنیلی سڑک محلہ شکور خیل سے شہر کے شمالی سرے تک تو واضح ھے- پختہ سڑک میاں رمدی کے قبرستان کے مغرب سے گذرتی ھے، لیکن جرنیلی سڑک ٹھٹھی کی جانب سے آکر میاں کھچی کے قبرستان کے مشرق سے گذرتی ھوئی داؤدخیل میں داخل ھو جاتی تھی- ان دوقبرستانوں سے آگے شہر کے اندر یہ سڑک بہت واضح ھے-
جنوب کی طرف ٹھٹھی سے یہ سڑک ریلوے لائین کراس کرکے پہاڑ کے کنارےکنارے پائی خیل ، سوانس، غنڈی ، موسی خیل ، چھدرو وغیرہ سے گذرتی ھوئی واں بھچراں جا پہنچتی تھی- واں بھچراں میں شیر شاہ سوری کی بنوائی ھوئی واں اسی سڑک کے کنارے واقع ھے-
داؤدخیل شہر سے شمال کی جانب اس سڑک کے آثار واضح نہیں ، اندازہ یہ ھے کہ بنک چوک سے شمال میں یہ سڑک شہر سے نکل کر گلن خیل سے ھوتی ھوئی ماڑی تک جاتی تھی- سڑک کا یہ حصہ کچھ کچا ھے کچھ پختہ –
ایک جرنیلی سڑک وتہ خیل ، بلوخیل سے بھی گذرتی ھے ، اسے بھی شیرشاہ سوری سے منسوب کیا جاتا ھے- خدا جانے اصلی سڑک یہ ھے یا ھمارے والی، یا شاید دو سڑکیں تھیں-مسجد شکور خیل سے شمال کی طرف جائیں تو سڑک کے دائیں طرف محلہ مبارک آباد ھے –اس محلے سے آگے دائیں طرف محلہ اللہ خیل اور بائیں جانب محلہ انزلے خیل ھے- اللہ خیل قبیلے کی سب سے نمایاں شخصیات باؤعزیزاللہ خان اور محمد اکرم خان ھیں- انزلے خیلوں میں مرحوم حبیب اللہ خان پرنسپل سکندرآباد ھائی سکول، انجینیئر حمیداللہ خان (یہ بھی میرے بہت لائق سٹوڈنٹ رھے) ان کے کزن امان اللہ خان اور لیبر لیڈر قدرت اللہ خان ھیں-
محلہ اللہ خیل اور انزلے خیل سے آگے محلہ امیرے خیل شروع ھو جاتا ھے- بہت بڑا محلہ ھے- امیرے خیل قبیلہ یارن خیل ، محمد اعظم خیل ، شنےخیل اور خانے خیل فیملیز پر مشتمل ھے-محلہ امیرے خیل میں میرے دوتین اور گھر بھی ھیں- ایک میرے استاد محترم مرحوم عیسب خان نیازی کا- چھٹی کلاس میں وہ میرے ٹیچر تھے- بعد میں ٹھٹھی سکول میں میرے رفیق کار بھی رھے- ان کے صاحبزادے حاجی انعام اللہ خان اور نعیم اللہ خان میرے سٹوڈنٹ رھے- انعام اللہ خان پہلے ایک فیکٹری میں ملازم تھے ، ریٹائرمنٹ کے بعد داؤدخیل میں کلاتھ ھاؤس بنا لیا- نعیم اللہ خان ، انورعلی پبلک سکول داؤدخیل کے وائس پرنسپل ھیں- ان کے تیسرے بھائی حمید خان سول انجنیئر ھیں-
ماسٹر عیسب خان صاحب دیدے جی عالم خاتوں کے خالہ زاد کزن تھے- ان کے صاحبزادے بھی مجھ سے بہت محبت رکھتے ھیں- اللہ سب کو سلامت رکھے-
ان کے قریبی رشتہ دار مشہور ماھر تعلیم عبدالغفورخان پہلی سے دسویں کلاس تک میرے کلاس فیلو رھے- ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ریٹائر ھوئے- آج کل داؤدخیل میں اسلامیہ ھائیر سیکنڈری سکول کے نام سے اپنا تعلیمی ادارہ چلا رھے ھیں – انگلش کے باکمال ٹیچر , اور میرے بہت قریبی دوست ھیں-
امیرے خیل قبیلے کی ایک شاخ برتھےخیل کے صوفی عبداللہ خان داؤدخیل میں میرے بچپن کے قریب ترین دوست تھے- والدین کے اکلوتے بیٹے تھے- تعلیم سے زیادہ کاشتکاری کا شوق تھا، والد کی بہت سی زمین تھی- عبداللہ خان کاشتکاری میں مشغول ھوگئے-محلہ امیرے خیل سے جرنیلی سڑک پر شمال کو جائیں تو دائیں ھاتھ پہ محلہ اسلام آباد آتا ھے- آج کل اسے محلہ خدرخیل کہتے ھیں- کیونکہ اس میں زیادہ تر آبادی خدرخیل قبیلے کی ھے- خدر خیل خاصا بڑا قبیلہ ھے- پہلے یہ لوگ محلہ داؤخیل میں رھتے تھے، لیکن پھر آپس کے لڑائی جھگڑوں کے باعث اس قبیلے کی زیادہ تر آبادی یہاں منتقل ھوگئی- محلہ داؤخیل میں اب شاید ھی اس قبیلے کا ایک آدھ گھر باقی بچا ھو- خدر خیل قبیلے کے کچھ گھر ٹھٹھی میں بھی ھیں- اس قبیلے کے کچھ لوگ فوج اور پولیس میں ملازم رھے، کچھ داؤدخیل کی فیکٹریز میں ملازم ھیں- مشہور لیبر لیڈر محمدحیات خان ھمارے سٹوڈنٹ بھی رھے- اب تو ملازمت سے ریٹائرھو چکے ھوں گے- اس قبیلے کے فیض اللہ خان میرے دادا جی کے سٹوڈنٹ تھے- روشن خان میرے کلاس فیلو تھے، اب پتہ نہیں کہاں ھیں- میرے سٹونٹ تو بے شمار ھوں گے ، نام یاد نہیں آرھے-
محلہ اسلام آباد کے شمالی نصف حصے میں سالار قبیلے کے کچھ گھر ھیں- حبیب ایکٹرانکس والے مرحوم حبیب اللہ خان اور انورعلی پبلک سکول کے بانی پرنسپل عظمت اللہ خان نیازی، گلشیرخان ، جہان خان جماعت اسلامی والے، حفیظاللہ خان ,لیبرلیڈر مہرخان نیکوخیل اس علاقے کی معروف شخصیات ھیں-
ھمارے بچپن کے زمانے میں محلہ اسلام آباد / خدرخیل کی جگہ ایک وسیع و عریض میدان ھؤاکرتا تھا- ھر سال مارچ اپریل میں یہاں کبڈی کے بہت بڑے بڑے میچ ھؤا کرتے تھے- سڑک کے دونوں طرف آبادی کا نام نشان تک نہ تھا- صرف دائیں طرف بنک چوک کے قریب مرحوم ماسٹر نواب خان سالار کی فیملی کے چند گھر تھے- ماسٹر صآحب ، عظمت اللہ خان کے دادا تھے-
سڑک کے بائیں جانب محلہ امیرےخیل سے مسجد داؤخیل تک بھی کوئی آبادی نہ تھی- یہ ساراعلاقہ زرعی زمین تھا جسے بھورا کہتے تھے- محلہ خدرخیل آباد ھونے سے پہلے یہاں سے ریلوے سٹیشن کو ایک شارٹ کٹ بھی جاتا تھا –بنک چوک سے مغرب کو سڑک نئی آبادی محلہ سالار میں سے گذرتی ھے- اس محلے میں میرے استادمحترم ماسٹر شاہ ولی خان کا گھر بھی ھے- وہ پانچویں کلاس میں ھمارے ٹیچر تھے- بہت اعلی ادبی ذوق کے حامل تھے- ان کا پڑھانے کا انداز بھی بہت دلکش تھا-
میانوالئی کے معروف بزرگ شاعر جناب سالارنیازی بھی اسی قبیلے کے بزرگ تھے- ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد میانوالی میں گھر بنا لیا، مگر داؤدخیل اکثرآتے جاتے رھے- اپنے قبیلے سے ان کی محبت کا اظہار ان کے تخلص”سالار” کی شکل میں ان کی شخصیت کا مستقل جزو بن گیا–
داؤدخٰیل کی سیاسی تاریخ میں چاچا دوست محمد خان نمبردار کا نام بہت نمایاں ھے- آخردم تک کالاباغ گروپ سے وابستہ رھے- کالاباغ کے نواب امیرمحمد خان کے معتمد ساتھی تھے- ان کے بڑے صاحبزادے فتح خان نیازی میرے بڑے بھائی ملک ًمحمدانورعلی کے منہ بولے بھائی تھے- محکمہ نہر میں اکاؤنٹنٹ تھے- اربوں روپے کا حساب کتاب رکھتے تھے، لیکن کبھی ایک پیسہ بھی رشوت نہیں لی- ٹھیکیدار بھی ان سے ڈرتے تھے-
سڑک بائیں طرف مڑتی ھوئی داؤدخیل کی مشہور مسجد محلہ داؤخیل کے قریب سے گذرکر چاچا دوسا کے گھر کے سامنے پھر بائیں جانب مڑجاتی ھے-
چاچا دوسا لمےخیل قبیلے کی تاریخی شخصیت تھے- دیرینہ دشمنی کی بنا پر ان کے مخالفین نے ان کے دونوں بازو کاٹ دیئے تھے- گھر میں کریانے کی معمولی سی دکان عمر بھر ان کا وسیلہ رزق رھی – ان کے بارے میں داؤدخیل کےنامورھندو افسانہ نگار ھرچرن چاولہ نے “دوسا” کے عنوان سے ایک افسانہ بھی لکھا تھا، جو پورے برصغیر میں بہت مشہورھؤا- یہ افسانہ لاھور کے نامور ادبی جریدے “ادب لطیف” میں شائع ھؤا تھا- داؤدخیل کی اھم شخصیات کا- چھوٹا سا شہر ھے، مگر یہاں کے لوگوں کو بھی رب کریم نے بے شمار صلاحیتوں سے ھمیشہ مالا مال رکھا ھے- پہلے ان نمایاں شخصیات کا تذکرہ جو اب اس دنیا میں موجود نہیں-
قبیلہ شریف خیل کے بابا صالح محمد نیازی ھؤاکرتےتھے- دبلے پتلے ، سرخ و سفید رنگت – ھمارے دوست ظفرخان نیازی سے ان کی شکل و صورت ملتی جلتی تھی- دونوں شریف خیل ھیں ، اس لیے یہ مشابہت تعجب کی بات نہیں-
بابا صالح محمد نیازی شعلہ بیان مقرر تھے- آل پاکستان ٹرانسپورٹ فیڈریشن کے تاحیات چیئرمین رھے- بابا نیازی کی انگلی کے اشارے پر پاکستان بھر کی ٹرانسپورٹ رک جاتی تھی- بہت زبردست جدوجہد کی انہوں نے ٹرانسپورٹ ورکرز کے لیے- بہت سے حقوق دلوائےان کو ، بہت سے ما فیا ز کو شکست دی – کئی بار جیل گئے، مگر اپنے مؤقف پہ چٹان کی طرح ڈ ٹے رھے- اس دبلے پتلے انسان سے حکومتیں بھی ڈرتی تھیں- مولانا عبدالستارخان نیازی کو تو آپ نے دیکھا سنا ھوگا- سیاست اور خطابت میں بابا صالح محمد نیازی کا بھی وھی انداز تھا-
قبیلہ شریف خیل ھی کے بھائی محمد شریف خان بھی بہت صاحب کردار لیڈر تھے- داؤدخیل میں جماعت اسلامی کو انہوں نے متعارف بھی کرایا، منظم بھی- مخالفین بھی ان کی عزت کرتے تھے- بھائی محمد شریف خان مولانا مودودی کے معتمد ساتھیوں میں شمار ھوتے تھے- 20 نومبر 2017-
داؤدخیل کا محلہ لمے خیل اس لحاظ سے بہت اھم ھے کہ آج سے تقریبا سو سال پہلے شہر کا پہلا سکول اسی محلے میں قائم ھؤا- ابتدا میں یہ مڈل سکول تھا- سکول کے ساتھ طلبہ کی رھائش کے لیے ھاسٹل بھی تھا، جسے اس زمانے میں بورڈنگ ھاؤس کہا جاتا تھا- یہ سکول ڈسٹرکٹ بورڈ (ضلع کونسل) نے قائم کیا تھا- 1950 میں اسے ھائی سکول کا درجہ دے دیا گیا- جب گورنمنٹ کی تحویل میں آیا تو گورنمنٹ ھائی سکول کہلانے لگا- اب ھائرسیکنڈری سکول ھے–محلہ لمے خیل کے حقنواز خان پولیس کے ریٹائرڈ ڈی ایس پی اور ھمارے بہت مہربان دوست تھے- ان کے صاحبزادے محمد نوازخان چئرمین اورنعمت اللہ خان میرے سٹوڈنٹ رھے-
ماسٹررب نواز خان میرے استاد محترم تھے- ان کے بڑے صاحبزادے مطیع اللہ خان پنسلین فیکٹری میں انجینیئر تھے- ان سے چھوٹے عطاءاللہ خان بھی انجینیر ریٹائر ھوئے- وہ میرے سٹوڈنٹ بھی رھے- ان سے چھوٹے عصمت اللہ خان بھی میرے سٹوڈنٹ رھے- ڈائریکٹر سپورٹس تھے- اب وہ بھی رٰیٹائر ھو چکے ھوں گے- ان کے سب سے چھوٹے بھائی میرے سٹوڈنٹ تو نہیں رھے، سنا ھے والی بال کے با کمال کھلاڑی ھیں-
کھیلوں میں محلہ لمے خیل ھمیشہ سرفہرست رھا ھے- سکول کے صحن میں دن کے پچھلے پہر والی بال کا میچ روزانہ بلاناغہ ھوتا چالیس سال تو میں نے دیکھا ھے- شاید اب بھی ھوتا ھو- والی بال لمے خیلوں کا آ بائی کھیل ھے- بچے ھوش سنبھالتے ھی والی بال کھیلنا شروع کر دیتے ھیں-
ایک دفعہ میچ پہ کچھ لوگ ڈھول والے چاچا غلام حیدر میراثی کو لے آئے- اچانک ھمارے استاد محترم ماسٹر عالم خان نے یہ کہہ کر غلام حیدر سے ڈھول چھین لیا 147 پرے ھٹ مردود- تجھے بجانا ھی نہیں آتا 147 پھر ڈھول اپنے گلے میں ڈال کر دھڑا دھڑ بجانا شروع کردیا- واقعی بہت کمال کا ڈھول بجا لیتے تھے- بہت زندہ دل لوگ تھے، اللہ سب کو اپنی رحمت کا سایہ نصیب فرمائےداؤدخیل کے لاری اڈا / بس سٹاپ کا نام و نشان بھی نہ تھا – لوگ نہر کے پل کے سامنے سڑک پر کھڑے ھو کر بس کا انتظار کیا کرتے تھے- داؤدخیل آنے والے لوگ اسی جگہ بس سے اترتے تھے-
قبیلہ انزلے خیل کے حاجی مدد خان پولیس کی ملازمت سے ریٹائر ھوئے تو انہوں نے پل کے سامنے سڑک کے مشرقی کنارے سے داؤدخیل شہر کو جانے والے راستے پہ مسجد کی تعمیر کا آغاز کردیا-اس سے بس سٹاپ پر آنے جانے والے لوگوں کو نماز کے علاوہ پانی کی سہولت بھی فراھم ھو گئی- بارش اور دھوپ سے بچنے کے لیے سایہ بھی مہیا ھوگیا- حاجی مدد خان کا گھر تو یہاں سے دور شہرکے اندر تھا، مگر وہ اس مسجد کو آباد رکھنے کے لیے نمازیں اسی مسجد میں ادا کیا کرتے تھے- اس مسجد کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ھؤا کہ باھر سے آنے والے لوگوں کے لیے یہ مسجد داؤدخیل کی شناخت بن گئی— اب تو ماشاءاللہ یہاں کچھ گھر اور دکانیں بھی بن گئی ھیں- اچھی خآصی بارونق جگہ بن گئی ھے- مسجد کی تعمیر سے پہلے دور دور تک آبادی کا نام و نشان تک نہ تھا –اسی قسم کا کارخیر اسی قبیلہ انزلےخیل کے بزرگ حاجی ارسلاخان نے بھی سرانجام دیا- ھمارے محلہ مبارک آباد کی مسجد کے ساتھ جنازہ گاہ کی تعمیر کے لیے حاجی ارسلاخان نے بہت محنت کی – ان کی اس محنت سے شہر کے تین چارمحلوں کی مشترکہ محفوظ جنازہ گاہ بن گئی –
حاجی مددخان اور حاجی ارسلا خان امیر آدمی نہیں تھے- انہوں نے بہت محنت سے لوگوں کو ان امورخیر میں تعاون پر آمادہ کیا- بہت لوگوں کی الٹی سیدھی باتیں برداشت کرنی پڑیں مگر انہوں نے اللہ کی رضا کے لیے جس کام کا آغاز کیا تھا، اسے مکمل کر کے ھی دم لیا
شخصیات؛
یوں تو قبیلے داؤد خیل نے کافی نامور شخصیات پیدا کی ہیں. لیکن چند درج ذیل ہیں
دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے تین جرنیلوں نے شہادت پائی جن میں سے دو نیازی قبیلے کے تھے ایک میجر جنرل جاوید سلطان خان نیازی شہید اور دوسرے میجر جنرل ثناءاللہ خان نیازی شہید جو آپریشن سوات میں شہید ہوئے.
عبدالوہاب خان نیازی (سیکرٹری نواب آف کالاباغ امیر محمد خان) ظفر اقبال خان نیازی (سابقہ اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان)، ڈی آئی جی رحمت اللہ خان نیازی، خان خلاص خان (سابقہ ایس پی بلوچستان پولیس)
غلام شبیر خان (سابقہ ناظم داؤد خیل)
ڈاکٹر اسحاق خان،امین اللہ خان(ایم پی اے) عطاء محمد نیازی (گلوکار)، افضل خان (ایف آئی اے)، عبدالغفار خان (چئیرمین کمیٹی زکوٰۃ و عشر)
وغیرہ شامل ہیں.
ذیلی شاخیں؛
سمال خیل، شریف خیل، زمو خیل، علاؤل خیل، گلشی خیل، خنجری خیل، شیبے خیل، میرے خیل، انزلا خیل، داؤ خیل، گلن خیل، شکور خیل، خدر خیل، سمند خیل، جانو خیل، گنج علی خیل، حسن خیل، شیر خیل، مہر خیل، تازہ خیل اگر خیل، ہاتھی خیل زبرو خیل وغیرہ شامل ہیں.
نوٹ؛
داؤدخیل بہت بڑا قبیلہ ہے جسکی آبادی ہزاروں افراد پر مشتمل ہے لیکن بدقستمی سے اس قبیلے کے شجرے مکمل ترتیب نہیں دئیے جا سکے۔یہ بات یاد رہے کہ زیر دستیاب شجرہ جات صرف وہ ہیں جو تاریخ نیازی قبائل کتاب کے مؤلف حاجی اقبال خان نیازی صاحب مرحوم نے اپنی کوشش سے اکھٹے کئے یا جن لوگوں نے ذاتی دلچسپی لیکر کر شجرے بنا کر ان تک پہنچائے.ان شجروں کو قطعی طور پر مکمّل نہ سمجھا جائے کیونکہ یہ چند سو افراد کے شجرے ہیں جبکہ قبیلے کی آبادی ہزاروں افراد پر مشتمل ہے.. اگر کسی کا زیر دستیاب شجرے میں نام موجود نہیں تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ نیازی نہیں یا داؤد خیل نہیں. بلکہ یہ انتہائی محدود افراد کے شجرے ہیں جو مؤلف کو دستیاب ہوئے وہ شامل کردیئے۔اگر کوئی آرٹیکل میں مزید معلوت کا اضافہ کروانے کا متمنی ہے یا کوئی تصحیح درکار ہے یا کسی معروف شخصیت کی تصویر شامل کروانا چاہتا ہے تو ہمیں نیچے کمنٹ کریں یا فیس بک پیج نیازی پٹھان قبیلہ پر انبکس کریں شکریہ
تحریر و تحقیق: نیازی پٹھا ن قبیلہ
www.niazitribe.org
Jalaili khail thathi shareef please describe
موندی خیل قبیلہ کا آرٹیکل ملاحضہ کریں
لوہار داؤد خیلقوم کی تاریخ
لوھار داؤدخیل قوم کس قبیلے سے منسوب کیا گیا ہے
لوہار ایک پیشہ ہے کوئی قوم نہیں۔عموما لوہار خود کو آجکل مغل کہلاتے ہیں۔واللہ اعلم
شیبےخیل قبیلہ نہیں ہے please add
آپ لوگوں کا تعاون درکار ہے۔۔
لوھار داؤدخیل قوم کس قبیلے سے منسوب کیا گیا ہے