تعارف؛
قبیلہ بَلو خیل ضلع میانوالی میں آباد نیازی پٹھانوں کا ایک بہت بڑا قبیلہ جس نے کئی نامور شخصیات کو جنم دیا.
تاریخ؛
جناب اقبال خان نیازی صاحب کے مطابق قبیلہ بَلو خیل دراصل اسمعیل خان بن بوبک فقیر بن مندک بن ادریس خان عالی بن سرہنگ کی تمام اولاد کو کہتے ہیں..
لیکن اہلیان سوانس کے مطابق درج بالا مزار ایک سید زادہ کا ہے جو نیازیوں کی آمد سے بھی پہلے کا ہے۔اس بات میں وزن بھی ہے۔کیونکہ ادریس کی اولاد جو لکی مروت سے یہاں آئی انکی یہاں آمد کا زمانہ اکبر بادشاہ کے آخری دور کا معلوم ہوتا ہے۔جبکہ اس وقت ادریس ایک بڑا قبیلہ تھا۔جبکہ اقبال خان صاحب کے اپنے تحریر کردہ شجرہ کے مطابق بھی بوبک بابا کا زمانہ حیات کہیں چودھویں صدی کا بنتا ہے ۔ جب سرہنگ نیازی ابھی ٹانک میں وارد ہورہے تھے۔
اسمعیل خان کے تین فرزند تھے علی شیر خان، پائی خان اور عیسب خان. عیسب خان کی اولاد سے ایک شخص بہلول خان نیازی نامور ہوا اور اسمعیل خان کی تمام اولاد کا مشترکہ سردار بھی مقرر ہوا۔ تبھی اسی بہلول خان کی وجہ سے اسمعیل خان کی تمام اولاد بَلو خیل کہلانے لگی بشمول شہباز خیلوں کے جوکہ دراصل سردار بہلول خان عرف بلو کا پوتا تھا..
مگر ہم یہاں پر علی شیر خیلوں اور شہباز خیلوں اور پنوں خیلوں کی اپنی افرادی کثرت کی بناء پر انھیں الگ الگ قبائل کے طور پر شمار کرتے ہوئے ان پر الگ الگ آرٹیکل لکھیں ہیں.
اقبال خان نیازی صاحب کے مطابق بَلو خیل بھی دیگر سرہنگ قبائل کی طرح علاقہ مروت سے ضلع میانوالی میں اکھٹے آئے. اور یہاں پر علاقے سوانس میں آباد ہوئے جہاں پر انکے جد اعلیٰ فقیر بوبک سے منسوب کردہ مزار موجود ہے.جس کی حقیقت مشکوک ہے جیساکہ قبل بیان کر چکے ہیں۔
لیکن میری ذاتی رائے کے مطابق سرہنگ بھی دو لہروں میں یہاں آئے ہیں ادریس خان عالی کی اولاد یعنی تاجہ خیل، بلو خیل، وتہ خیل وغیرہ مروتوں کی لڑائیوں سے پہلے آچکے تھے. اور شاید انھی کی چھوڑی ہوئی جگہوں پر ہی وہ تنازعہ اٹھا ہو جو آخر مروتوں اور نیازیوں کی جنگوں پر آکر منتج ہوا ہو.. جبکہ بہرت خان کی اولاد یعنی پائی خیل، موسٰی خیل، سلطان خیل، محب خیل، ممکزی اور تری خیل وغیرہ بعد میں یہاں پر آباد ہوئے..
یہ قیاس اس وجہ سے ہے کہ بہرت خان کی اولاد ایک پیٹرن میں پہاڑوں کے ساتھ ساتھ پائی خیل تا گولے والی تک آباد ہیں اور انکی روایات، سوچ اور بودوباش میں یکسانیت ہے. جبکہ ادریس خان عالی کی تمام اولاد دریائے سندھ کے کنارے زرخیز میدانوں پر موچھ سے لیکر قصبے وتہ خیل تک آباد ہیں اور انکے خصائص و بودوباش میں ایک ہم آہنگی پائی جاتی ہے.
نیازی قبیلے کی داستان کے مصنف لکھتے ہیں کہ جب احمد شاہ ابدالی کے امراء نے جب گکھڑوں کے مضبوط قلعہ معظم نگر پر حملہ کیا تو قبیلے بلو خیل نے خاطر خواہ افرادی قوت فراہم کی اور یوں گکھڑوں کا میانوالی سے صدیوں پرانا رشتہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوا.
اس زمانے میں قبیلہ بلو خیل موسٰی خیل اور واں بھچراں کے درمیان آباد تھا جنھیں موسٰی خیلوں نے بھچروں کو ساتھ ملا کر وہاں سے شکست دیکر نیچے شہباز خیل کی طرف دھکیل دیا۔
لیکن میرے خیال میں یہ بات درست نہیں ہے. بلو خیلوں کا گڑھ موجودہ بلو خیل شروع سے تھا البتہ اگر موسی خیل اور واں بھچراں کے درمیان اگر کوئی بلو خیل آباد ہوئے بھی تو وہ اس قبیلے کی کسی ایک شاخ کی نئی آبادکاری ہوگی جسکو موسٰی خیلوں نے بلو خیلوں کی بڑھتی ہوئی عملداری کی نظر سے ایک خطرہ کے طور پر دیکھتے ہوئے چلینج کرکے روکا ہوگا. یقیناً موسٰی خیل کے پاس مداد خیل اسی شہباز خیل کے مداد خیلوں سے ہیں.. جو آج بھی وہاں آباد ہیں
اقبال خان فرماتے ہیں کہ
جب 1780ء میں میانوالی پر نیازیوں نے مکمّل طور پر قبضہ کیا تو اس وقت بلو خیل اور وتہ خیل قبائل کے درمیان گکھڑوں، آوانوں اور جٹوں سے حاصل شدہ زمینوں پر قبضہ کی جنگ شروع ہوگئی جو انگریزوں کی آمد تک چلتی رہیں..
حتی کہ جب انگریز نے آل ذکریا میانہ خاندان کی ثالثی میں ان دونوں قبائل کی صلح کرادی پھر بھی رنجش دلوں میں بدستور رہی. جسکی مثال جامع اکبریہ کے اس مشہور واقعہ سے ملتی ہے جس میں اکبر خان خنکی خیل اور سردار خان زمان خان پھوکے خیل کے بیچ گرما گرمی دونوں قبائل کو پھر سے میدان جنگ لے گئی اور ماضی کا میلہ گراؤنڈ جہاں آجکل نیا پارک بنا ہے وہاں پر مقام اور وقت طے کرکے لڑائی لڑنے کی تیاری کی گئی مگر انگریز سرکار کی بروقت مداخلت نے کسی بڑے انسانی بحران سے بچا لیا اور یوں یہ دبی ہوئی چنگاریاں دوبارہ بھڑکنے سے بچ گئیں..
الحمد للہ رب العالمین اب یہ خانگی دشمنیاں ختم ہیں دونوں قبائل کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر باہم اخوت و محبت سے آباد ہیں..
بلو خیل قبیلہ کے سردار بلو خان نیازی کے اعلی اخلاق سے مزین ایک افسانوی واقعہ بھی مشہور ہے جس پر ہم ایک پوسٹ کرچکے ہیں.
قبیلہ بلو خیل نے بھی سکھوں کے خلاف اپنے تئیں بھرپور مزاحمت کی کیونکہ سکھ لگان وصولی یعنی ایگریکلچر پیداوار کا ٹیکس لینے آتے تھے. اسی زمانے میں بلو خیلوں میں سے سردار محمد خان ولد سردار شیر خان مشہور سردار تھے جنھوں نے عیسٰی خیل کے خوانین کے ساتھ ملکر سکھوں کو شکست دی.
کہتے ہیں کہ سردار محمد خان نیازی نے اپنے لشکریوں کو حکم دیا کہ سر پر پٹکا ایک شملہ والا نہیں بلکہ دو شملہ والا باندھیں تاکہ سکھوں کو لگے کہ لشکر بہت گنجان ہے..
اور ساتھ دف بجانے والے ڈم بھی ساتھ لیکر جاتے. جس سے مقابل سکھوں پر رعب ڈالا جاسکے..
اس زمانے میں ایک ٹپہ مشہور تھا کہ
شیر محمد دا جیندا اے تاں کوڑ وسیبا تھیندا اے.
مطلب سردار محمد خان ولد سردار شیر عالم خان جب تک زندہ ہے وہ سکھوں کو بھی چین سے نہیں بیٹھنے دے گا اور سکھ عوام کو بھی تنگ کرتے رہیں گے…
اس صورت حال سے کچھ آرام طلب اور سردار محمد خان سے حسد رکھنے والے لوگ جو جہد اور مزاحمت سے نالاں تھے جنھیں سکھوں نے سرسبز باغ دکھا کر اپنے ساتھ ملایا تھا انھوں نے سردار محمد خان نیازی کو راہ سے ہٹانے کا منصوبہ ترتیب دینے لگے اس طرح انھوں نے ناکہ بندی کرکے شہید کردیا.
بلو خیل قبیلہ میں سکھوں کے خلاف ایک شخصیت سردار سہراب خان نیازی تھے. جن کے نام پر آج سہراب والا قصبہ مشہور ہے..
سردار سہراب خان نیازی نے سکھوں کے خلاف ایک خون ریزی جنگ لڑی جس میں سینکڑوں سکھوں سمیت کافی مسلمان بھی شہید ہوئے. اس جنگ کو مقامی زبان میں گھلوگھارا کہتے ہیں.بعد میں سہراب خان کو فتح خان ٹوانہ نے دھوکہ سے شہید کروا دیا۔
شخصیات؛
اکبر خان خنکی خیل:
اس قبیلے نے سب سے زیادہ نامور شخصیات پیدا کی ہیں. جن میں اکبر خان خنکی خیل سر فہرست ہیں. جوکہ قیام پاکستان سے قبل میانوالی کے مسلمانوں کے ایک متفقہ لیڈر کے طور پر جانے جاتے تھے آپ نے غازی علم الدین شہید کے مسئلے میں بھی کردار ادا کیا. آپ لوگوں نے جیل توڑ کر انھیں آزاد کروانے کا منصوبہ بھی بنایا۔مگر غازی علم الدین شہید کے منع کرنے پر یہ منصوبہ ترک کردیا.. غازی علم الدین شہید کی میانوالی میں تدفین اورپھر میانوالی سے لاہور تک تدفین میں پیش پیش رہے. ظفر نیازی صاحب اپنی فیس بک پوسٹس میں اس واقعہ پر مفصّل لکھ چکے ہیں جو کہ انکے پڑوسی تھے. اکبر خان خنکی خیل کی وفات مارچ 1972ء میں ہوئی..
ڈاکٹر نور محمد خان نیازی؛
مشہور براڈ کاسٹر ظفر خان نیازی مرحوم فیس بک پر اپنی یادداشت کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ جناب ڈاکٹر نور محمد خان صاحب کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے فارغ التحصیل تھے آپ نے ڈاکٹری کا امتحان 1927ء میں پاس کیا اور یہ ضلع میانوالی کے سب سے اولین شخص تھے جنھوں نے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی..
انکے صاحب زادے جناب ڈاکٹر اسلم خان نیازی جو کہ انگلینڈ سے ایف آر سی ایس کا امتحان پاس کرکے آئے. تو انھوں نے والد سے اسرار کیا کہ فیس بڑھائی جائے تو ڈاکٹر نور محمد خان صاحب نے جواب دیا یہ ہسپتال ہے کوئی دکان نہیں. میں نے اسی دو آنے فیس سے تمھیں لندن میں تعلیم دلوائی ہے..
لکھتے ہیں کہ ان کے کلینک پر مریضوں کا تانتا بندھا رہتا وہ لوگوں کو مورثی طور پر جانتے تھے اور انکی مورثی بیماریوں کو بھی یاد رکھتے تھے.. امیر غریب کی پرواہ کئے بغیر سب سے یکساں پیش آتے..
ڈاکٹر صاحب نے اپنے ہسپتال میں مریضوں کیلئے چارپائیوں اور بستروں کا بھی بندوبست کر رکھا تھا جو بلامعاوضہ دئے جاتے تھے..
آپ خاکسار تحریک کے راہنما عنایت اللہ مشرقی سے متاثر تھے..
آپ کی اس مسیحائی سلسلہ کو انکے صاحبزادے ڈاکٹر اسلم خان اور ڈاکٹر افضل نیازی نے تسلسل کے ساتھ چلایا. سنا ہے کہ آجکل ڈاکٹر افضل نیازی صاحب کے صاحبزادے ڈاکٹر فواد خان بھی کبھی کبھار اسلام آباد سے آتے رہتے ہیں..
خان بہادر سلطان خان سہراب خیل؛
خان بہادر سلطان خان نیازی نے یتیمی اور ان پڑھ ہونے کے باوجود انگریزی دور میں خان بہادر کا خطاب حاصل کیا اور آنریری مجسٹریٹ تعینات ہوئے. آپ دلچسپ اور منصف مزاج کے مالک تھے. یہی سلطان خان نیازی میانوالی کے نیازیوں کیلئے چھوٹے سرسید احمد خان ثابت ہوئے اور میانوالی کے نیازیوں پر انگریزی سرکار میں لگی نوکریوں پر پابندی کو ختم کرایا.
جنرل امیر عبداللہ خان نیازی ؛
آپ پاکستانی افواج میں سب سے زیادہ تمغے لینے والے آفیسر تھے. آپ نے جنگ عظیم دوم میں شرکت کی اور برما کے محاذ پر اتنی دلیری کا مظاہرہ کیا کہ انگریز جنرل سلم نے آپ کیلئے جانتے ہوئے بھی ایک سینئر کٹیگری کا ایوارڈ تجویز کیا مگر حکومت برطانیہ نے آپکو اس کی بجائے ملٹری کراس جیسے اعلیٰ تمغہ کیلئے موزوں سمجھا. شرمیلا بوس لکھتی ہیں کہ 15دسمبر 1944ءکو وائسرائے ہند لارڈ ویول برما کے محاذ کے دورے پر جانے کیلئے روانہ ہوتے ہیں جہاں پر وہ امپھال پہنچ کر لارڈ ماونٹ بیٹن اور جنرل سلم کی موجودگی میں دو ہندوستانی فوجیوں کو بنفس نفیس تمغہ عطاء کرتے ہیں جن میں سے ایک ٹائیگر نیازی تھے. جو کہ اپنی جگہ ایک ریکارڈ کی بات ہے.
1965ء کی پاک بھارت جنگ میں آپ نے جرات مندی اور دلیری سے ظفر وال، نارو وال کو ہندوستانی پنجے سے آزاد کروایا اور ہلال جرات بمعہ بار حاصل کیا جو کہ اس جنگ میں سب سے پہلا تمغہ تھا..
1971ء کی جنگ میں جب مشرقی پاکستان میں حالات مخدوش تھے اور وہاں کوئی جنرل جانے کو تیار نہیں تھا تب آپ نے خود کو اس مشکل ذمہ داری کیلئے رضا کارانہ پیش کیا..
وہاں پر نو ماہ تک اندرونی اور بیرونی دشمن سے نبرد آزما رہے.
مگر سیاست دانوں کی اقتدار کی ہوس اور مغربی پاکستان میں بیٹھی نالائق فوجی قیادت کے غلط فیصلوں سے مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے پڑے جس کی وجہ سے آپ کا سارا شاندار ماضی داغدار ہوگیا..
جنرل نیازی کے مخالف ہندوستانی جنرل اروڑہ ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ
“جنرل نیازی کو انتہائی کٹھن صورتحال میں تقریباً ناممکن کام کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی. ان حالات میں کوئی دوسرا جنرل بھی اس سے بہتر نہیں کرسکتا تھا”
حالانکہ آپ نے یہ حکم اس وقت کے صدر پاکستان اور آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کے حکم پر عمل کیا تھا.. آپ پوری عمر کورٹ مارشل کا تقاضا کرتے رہے کہ اگر میں نے جرم کیا ہے تو مجھے پھانسی چڑھائی جائے مگر ذوالفقار علی بھٹو نے جان بوجھ کر آپ کو بلی کا بکرا بنا کر آپکی کردار کشی کی.آپکا انتقال یکم فروری 2004ء کو ہوا..
حکیم عبدالرحیم خان نیازی:
حکیم عبدالرحیم خان نیازی کا تعلق میانوالی کے خنکی خیل قبیلہ سے ھے۔ آپ نے حکیم اجمل آف دہلی سے حکمت (طب والجراحت) کا کورس مکمل کیا۔ آپ نے انتہائی قابل حکیم ہونے کے ناطے میانوالی کا نام روشن کیا۔آپ کے دور میں حکت میں آپکا کوئی ثانی نہیں تھا۔
نبض شناسی کی ایسی مھارت کہ عقل دنگ رہ جاتی اور ہر مرض کیمطابق دیسی دوا تیار کرنا انکا خاصہ تھا۔ آپ کے بارے کئی قصے ایسے مشہور ہیں جنکو سن کہ ایسا لگتا ہے کہ آپ عصر حاضر کی مشینوں سے زیادہ نبض پکڑ کر اور چہرہ دیکھ کر مرض کی شناسائی حاصل کر لیا کرتے تھے۔ آپ بطور انسان بھی ایک انتہائی نیک دل، صوم وصلات کے پابند اور صوفی منش بزرگ تھے۔ کہا جاتا ھے کہ بہت دور دراز سےلوگ میانوالی میں علاج کیلئے انکےپاس آتے اور شفا یاب ہو کے جاتے تھے۔
میجر جنرل ہدایت اللہ خان نیازی؛
آپ انسپکٹر یار محمد خان نیازی کے صاحبزادے اور ڈی ایس پی اکرام اللہ خان شہید کے بھائی تھے..
آپ نے1965ء اور1971ء کی جنگ میں حصہ لیا. آپ بری فوج کے آرمی ایوی ایشن سیکشن میں تھے. جہاں پر آپ نے پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا جسکے نتیجے میں فیلڈ مارشل ایوب خان نے آپکو ستارہ جرات سے نواز..
آپکی قائدانہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے بعد از ریٹائرمنٹ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی بحیثیت سربراہ ذمہ داری سونپی. آپ ہی کے زیر قیادت لاہور تا پشاور موٹر وے جیسا ملک کا عظیم الشان پراجیکٹ مکمل ہوا.آپ کا انتقال 29 دسمبر 2020ء کو ہوا۔
ڈی ایس پی اکرام اللہ خان نیازی شہید؛
آپ پنجاب پولیس کے نہایت جری اور دلیر پولیس آفیسر تھے. ڈی ایس پی رحمت اللہ خان نیازی شہید، اور پائلٹ آفیسر ذکاء اللہ خان نیازی شہید کے بھائی تھے. جناب یار محمد خان کے یہ تمام ہفت پسران نہایت ہونہار نکلے. جیسے کہ میجر جنرل ہدایت اللہ خان نیازی کا ہم ذکر کر آئے ہیں..
ڈی ایس پی اکرام اللہ خان نیازی شہید کو اعلیٰ کارکردگی کر اس وقت کے گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی نے قائداعظم پولیس میڈل سے نواز اور انھی کی فرمائش پر لاہور میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پانے کیلئے خصوصی طور پر تعینات کیا گیا جہاں پر وہ مشہور زمانہ بدمعاش نوری نت کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے 17 دسمبر 1985ء کو شہید ہوگئے اور مجرموں کا سرغنہ نوری نت بھی اپنے انجام کو پہنچا..
اس جرات و بہادری پر لاہور میں مینار پاکستان کے قریب واقع چوک کو نیازی چوک سے منسوم کیا گیا۔ جو آج بھی اکرام اللہ خان نیازی شہید کی جرات و بہادری کی داستان سناتی ہے.. اس کے علاوہ اکرام اللہ خان نیازی پر پنجابی زبان میں فلم شیر دل بھی بنائی گئی.
پروفیسر ڈاکٹر محمد افضل خان نیازی
پروفیسر ڈاکٹر محمد افضل خان نیازی کا تعلق میانوالی کے خنکی خیل قبیلہ سے ھے۔ آپ ایک بہترین آئی سپیشلسٹ اور انتہائی شفیق انسان ہیں۔ آپ میانوالی کے لوگوں سے بہت محبت کرتے ہیں۔ آپ جب راولپنڈی میں اپنے پرائیویٹ کلینک پہ پریکٹس کرتے تھے،
اگر کوئی غریب مریض میانوالی سے آجاتا تو اس سے فیس وغیرہ نہیں لیا کرتے تھے یا بہت کم لیتے۔ میانوالی کے غریب لوگوں کی مہمان نوازی کے ساتھ انکو ہسپتال میں قیام بھی کراتے تھے۔ آپ نے واہ میڈیکل کالج اور اسلام آباد میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کے پرنسپل کے طور پر بھی خدمات سرانجام دی ہیں۔
مصباح الحق خان نیازی:
مصباح الحق خان نیازی کا تعلق میانوالی کے پنوں خیل قبیلہ سے ھے۔ آپ نے بیچلر ڈگری فیصل آباد سے کرنے کے بعد یونیورسٹی آف منیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ آپ نے کرکٹ کی دنیا میں کئی ریکارڈ بنائے اور اعزاز اپنے نام کیئے۔
آپ نے پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان کے طور پر بھی بہترین کارگردگی دکھائی۔ آپکو صدر پاکستان کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس اور ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔ آپ پاکستان نیشنل کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ اور چیف سیلیکٹر کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رھے ہیں۔
یوں تو بلو خیل قبیلہ نے لاتعداد نامور شخصیات پیدا کی ہیں جو کہ الگ الگ مضمون کی حقدار ہیں لیکن باعث طوالت ہم ان کے یہاں صرف نام لکھ رہے ہیں. انشاءاللہ ،اللہ نے چاہا تو نیازی قبیلے کی شخصیات والے حصہ میں سب کو تفصیل سے کور کریں گے..
ان کے علاوہ درج ذیل مشہور شخصیات گزری ہیں..
ایس ایس پی عمر خان نیازی (برطانوی عہد میں)، غلام محمد خان نیازی (ڈویژنل انسپکٹر سکولز) سعید اختر خان (ممبر واپڈا بورڈ)، ڈاکٹر حبیب اللہ خان (ڈی ایچ او) امیر نواز خان (صحافی و کالم نویس)، عبدالستار خان نیازی (ایک پی اے)، مولوی غلام حسن خان نیازی (لارڈ ہیڈ لی کے ساتھی یہ پشاور میں آباد تھے بعدازاں قادیانیت اختیار کر لی تھی)، حاجی امیر حسین خان نیازی (پرنسپل سیفییہ کالج) حاجی غلام محمد خان نیازی (رائل اسلحہ ہاؤس)
غلام محمد خان نیازی (میانوالی کے اولین انگریزی میں ماسٹر کرنے والی شخصیت زمانہ اٹھارہ سو چھیانوے آپ کو انگریز نے مجسٹریٹ اول کے درجہ پر فائز کیا )، برگیڈیر ڈاکٹر پرویز حسن خان،ڈینٹل ڈاکٹر ظفر خان نیازی (آپ ذوالفقار علی بھٹو کے ذاتی معالج تھے) ، عبدالرحمن خان نیازی درو خیل (مینار پاکستان کی تعمیرات میں مرکزی کردار ادا کیا) پروفيسر سرور خان نیازی (سابق پرنسپل ڈگری کالج میانوالی، محقق و تاریخ دان) عبدالمجید خان نیازی (ایم این اے ضلع لیہ)،احمد خان نیازی(کوارڈینیٹر عمران خان)،عظیم خان نیازی (نیازی بس سروس ستاسی گروپ)، بجاش خان نیازی (نیازی بس سروس ننانوے گروپ)، سردار خان نیازی (معروف صحافی و اینکر اور روز ٹی وی کے مالک)، شہیر خان نیازی (مشہور نوجوان سائنس دان)، طارق نیازی (ہاکی کے کھلاڑی اور سابق اولمپئین جن کے نام پر ہاکی اسٹیڈیم ہے)
وغیرہ وغیرہ شامل ہیں..
ذیلی شاخیں؛
کیونکہ قبیلہ بلو خیل افرادی قوت میں سب سے بڑا قبیلہ ہے اور ساتھ ہی ساتھ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں بھی کافی آگے ہے دیگر میانوالی کے نیازی قبائل سے تبھی. اس کی ذیلی شاخیں بھی کافی مشہور اور معروف ہیں اور اپنی الگ الگ پہچان رکھتی ہیں..
قبیلہ بلو خیل کی شاخیں درج ذیل ہیں..
خنکی خیل، عالم خیل، سرور خیل، پنوں خیل، زادے خیل، قتال خیل، شابی خیل، گلن خیل، عیسب خیل، شاہ جہاں خیل وغیرہ شامل ہیں..
نوٹ:
بلو خیل بہت بڑا قبیلہ ہے جسکی آبادی ہزاروں افراد پر مشتمل ہے لیکن یہ بات یاد رہے کہ زیر دستیاب شجرہ جات صرف وہ ہیں جو تاریخ نیازی قبائل کتاب کے مؤلف حاجی اقبال خان نیازی صاحب مرحوم نے اپنی کوشش سے اکھٹے کئے یا جن لوگوں نے ذاتی دلچسپی لیکر کر شجرے بنا کر ان تک پہنچائے.ان شجروں کو قطعی طور پر مکمّل نہ سمجھا جائے کیونکہ یہ چند سو افراد کے شجرے ہیں جبکہ قبیلے کی آبادی ہزاروں افراد پر مشتمل ہے.. اگر کسی کا زیر دستیاب شجرے میں نام موجود نہیں تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ نیازی نہیں یا بلو خیل نہیں. بلکہ یہ انتہائی محدود افراد کے شجرے ہیں جو مؤلف کو دستیاب ہوئے وہ شامل کردیئے۔اگر کوئی آرٹیکل میں مزید معلوت کا اضافہ کروانے کا متمنی ہے یا کوئی تصحیح درکار ہے یا کسی معروف شخصیت کی تصویر شامل کروانا چاہتا ہے تو ہمیں نیچے کمنٹ کریں یا فیس بک پیج نیازی پٹھان قبیلہ پر انبکس کریں شکریہ
ایڈمن نیازی پٹھان قبیلہ
www.NiaziTribe.org
عالم خیل کے ساتھ علی شیر خیل بھی اسکی ذیلی شاخ ہے لہذہ درستگی کی جائے
عالم خیل الگ ہیں۔۔۔
اسلام علیکم ورحمت الله
میں سوات ضلع شانگلہ کا رہنے والا ہوں شجرہ بلو خیل سے میرے تعلق ہے آپ مہربانی کرکے کسی بھی ترقی سے ربط کردیں تاکہ مزید معلومات صاحل ہو