تعارف ؛
قبیلہ بوری خیل میانوالی شہر سے مشرقی جانب موسی خیل سے اوپر پہاڑوں میں آباد ہے جبکہ ایک کثیر تعداد کراچی میں نقل مکانی کر گئی ہے. جہاں وہ دہائیوں سے آباد ہے جبکہ بوری خیل قبیلہ کی کچھ آبادی پائی خیل کچہ میں بھی رہتی ہے.
تاریخ؛
سرہنگ قبیلہ دو مرکزی شاخوں میں منقسم ہے جو میں ایک ادریس (جس میں تاجہ خیل، وتہ خیل، بلو خیل، شہباز خیل، یارو خیل وغیرہ آتے ہیں) جبکہ دوسرا بھرت . بھرت کی اولاد آگے پھر تین شاخوں میں منقسم ہے ایک زکو (جس میں تری خیل، محب خیل اور ممکزئی آتے ہیں) جبکہ دوسرا دے پلار (جس میں موسی خیل، تارو خیل، عیدو خیل وغیرہ شامل ہیں) جبکہ تیسرا بیٹا میرا خان عرف طوطی خان تھا. اس میرا خان عرف طوطی خان کے چار بیٹے تھے پہلا سلطان، دوسرا پائی، تیسرا بوری اور چوتھا سعداللہ عرف ڈوڈا…
پس قبیلہ بوری خیل دراصل سلطان خیل ،پائی خیل اور گولیوالی کےپٹھانوں کا بھائی بند قبیلہ ہے.
نیازی قبیلے کی داستان کے مطابق جب ہیبت خان نیازی کی اسلام شاہ سوری کے خلاف بغاوت ہوئی تو نیازی قبیلے کا کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا حتیٰ کہ انھیں سمٹ کر واپس دامان کوہ سلیمان میں پناہ لینا پڑی جہاں آج نیازیوں کی ایک شاخ کونڈی آباد ہے جو کہ دراصل میانوالی کے گاؤں کندیاں کی بانی تھی. جب سوری افغانوں کی سلطنت اپنی نااہلیوں سے اختتام کو پہنچی تو نیازیوں نے ایران سے واپس آنے والے بادشاہ ہمایوں کا ساتھ دیا جسکی گواہی ہمایوں بادشاہ کا ملازم خاص جوہر آفتابچی اپنی کتاب میں دیتا ہے.
اسطرح نیازیوں نے پھر سے ہندوستان کا رخ کیا دامان سے نکلنے کی ایک وجہ لوہانی افغانوں کا زور بھی تھا جو اس وقت وہاں آباد تھے. تبھی نیازی ٹانک سے موجودہ لکی مروت کے علاقے میں دریائے کرم اور دریائے گمبیلہ کے درمیانی دوآب کے زرخیز خطہ پر آباد ہوگئے. اسی زمانے میں لوہانی قبیلہ کی آپسی خانہ جنگی سے شکست خوردہ مروت بھی دولت خیل و میاں خیل لوہانیوں کے ہاتھوں سے بیدخل ہوکر نیازیوں کے پاس پناہ گزین ہوئے جنھیں نیازیوں نے کھلے دل سے قبول کیا.. لیکن کچھ عرصے بعد مروتوں کی للچائی نظریں نیازیوں کے اس خطے پر پڑیں جو کہ سرہنگ کے دوسرے بیٹے ادریس نے چھوڑا تھا جسکی اولاد میانوالی میں مشانی اور عیسیٰ خیل نیازیوں کے پاس آ کر آباد ہوئے جو بعدازاں دریائے سندھ کے مشرقی کنارے کے ساتھ ساتھ پھیل گئی. ادریس کی اولاد یعنی (وتہ خیل، تاجہ خیل، بلو خیل وغیرہ) کی چھوڑی گئی جگہ دراصل مہیار نیازیوں کو ملنا تھی. جو کہ جرگہ میں طے پایا تھا
مگر بعدازاں سرہنگ کے بیٹے بھرت خان کی اولاد (یعنی موسی خیل، تری خیل، پائی خیل، سلطان خیل، بوری خیل وغیرہ) نے اپنے عہد سے روگردانی کرتے ہوئے اس جگہ پر قبضہ کر لیا اور مہیار نیازیوں کو دینے سے انکاری ہوگئے. جس کے بعد مہیار مروتوں اور بیٹنی قبیلہ کے پاس مدد خواہ ہونے کیلئے گئے. مروت تو کب سے اس موقع کا انتظار کررہے تھے. حیات افغانی لکھتا ہے کہ اس زمانے میں نیازیوں کا سردار مدی خان سرہنگ تھا.
جب مروتوں نے مہیار نیازیوں کے ایما پر سرہنگ نیازیوں سے چھیڑ چھاڑ شروع کی اور کچھ خفیف لڑائیاں بھی ہوئیں تو نیازیوں نے انھیں جنوبی چراگاہوں کے علاقے دے کر صلح کر لی. مگر مروتوں کے ایک ذیلی قبیلہ جسکا نام بھی موسی خیل تھا اسکے سردار قتال خان نے صلح نہ مانی اور سرہنگ نیازیوں پر اچانک حملہ کردیا جسکے باعث نیازیوں شکست ہوئی. اس جنگ میں مدی خان نیازی بھی مارا گیا. لیکن بعدازاں سرہنگوں نے قتال خان مروت کو مار کر اپنا بدلہ پورا کیا.
جب سرہنگ نیازیوں کی یہ شاخ درہ تنگ عبور کرکے میانوالی میں اپنے ہم جد عیسٰی خیل اور موشانیوں کے پاس آئی تو انھیں شروع میں وہ علاقہ ملا جہاں آج مکڑوال اور سلطان خیل گاؤں آباد ہے. کیونکہ وہ ایک بے آب و گیاہ علاقہ تھا مجبوراً بھرت کی اولاد کو نئے علاقے تلاش کرنا پڑے دریا سندھ کے کناروں پر پہلے ہی ادریس کی اولاد قابض ہوچکی تھی تبھی کوہ نمک کی پہاڑیوں کے ساتھ ساتھ یہ گھومتے رہے.
اسی زمانے میں بوری خیل قبیلہ بھی نئی منزل کی تلاش میں دریائے سندھ کو عبور کرکے مشرقی جانب آن نکلا. کیونکہ بوری خیل قبیلہ فطرتاً امن پسند طبعیت کا حامل ہے تبھی انھیں پہلے سے آباد تاجہ خیلوں نے اپنے اور موندی خیلوں (ٹھٹھی والے پٹھان جوکہ مشانی کی شاخ ہیں) کے درمیان کچہ میں آباد کاری سے نہ روکا.
بوری خیل کافی عرصہ تک کچہ (جس کو آج کل پائی خیل کچہ بھی کہا جاتا ہے) میں رہے جہاں آج بھی بوری خیل قبیلہ کی ایک قابل قدر آبادی موجود ہے.
بوری خیل کچہ سے موسی خیل کے پاس پہاڑوں پر کب اور کیونکر پہنچے؟
یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب بوری خیل دریا کے کنارے ایک سرسبز و شاداب جگہ پر آباد تھے تو آخر ایسی کیا وجہ ہوئی کہ وہ اس کو چھوڑ کر پہاڑوں میں جا کر آباد ہوئے. اس سوال کے جواب میں کوئی تاریخی روایت تو دستیاب نہیں البتہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہاں پر شاید دریائے سندھ کی طغیانی انھیں متاثر کرتی تھی جبکہ پہاڑوں پر انکے ہم جد سلطان خیل قبیلہ آباد تھا جس نے انھیں دریا کی طغیانی سے بچنے کیلئے پہاڑوں پر موجود چشموں کے پاس آباد ہونے کا مشورہ دیا ہو. بہرحال بوری خیل قبیلہ کی تین چوتھائی سے بھی زیادہ آبادی موسی خیل کے پہاڑوں پر چشموں پر جا کر آباد ہوگئی. یہ دونوں چشمے آج بھی بوری خیلوں کیلئے آب حیات سے کم اہمیت نہیں رکھتے. جن نام شکری اور مکوڑی ہیں. خصوصاً شکری چشمہ سے بوری خیلوں کی وابستگی جزباتی ہے. کچھ قبیلہ کے لوگ دو جگہوں یعنی پائی خیل کچہ اور بوری خیل میں تقسیم ہوگئے جس کی وجہ سے انکا آنا جانا لگا رہتا تھا جو آج تک قائم ہے.
بوری خیل قبیلہ کب وہاں منتقل ہوا اس بارے میں بھی کوئی زبانی روایت موجود نہیں ہے. لیکن قیاس کیا جاتا ہے کہ سلطان خیلوں اور موسی خیلوں کی لڑائی کے وقت بوری خیلوں کی وہاں آمد تازہ تازہ ہی تھی.
جو کہ قریباً اٹھارہویں صدی کے آخری حصے کا واقعہ معلوم ہوتا ہے.
سردار تورہ باز خان نیکہ؛
نیازی قوم کی شاخ بوری خیل کا جرائتمند سرخیل..
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ نیازی قوم کی اصل زبان پشتو ہے مگر میانوالی میں آباد کاری کے بعد زیادہ تر نیازیوں نے مقامی زبان اختیار کرلی مگر آج بھی پشتو کی چاشنی پرانے بزرگوں کی باتوں اور ناموں سے محسوس ہوتی ہے. درست نام تورہ باز ہے نہ کہ طرباز پشتو میں تورہ کے معنی تلور کے ہیں باز بمعنی فن کا ماہر پس تورہ باز کے معنی ہوئے تلوار کا دھنی مطلب تلوار کو چلانے کا ماہر اسی طرح ایک نام رن باز بھی ہے جسے آجکل کے بچے پنجابی والا رن باز سمجھتے ہیں حالانکہ یہ فارسی زبان لفظ ہے اور فارسی میں رن میدان جنگ کو کہتے ہیں اور رن باز کا معنی ہے جنگجو…
اسی طرح نیکہ پشتو میں دادا یا بزرگ کیلئے استعمال ہوتا ہے…
بات کہیں اور نکل گئی تورہ باز خان نیکہ کے واقعات کو درج کرنے قبل ایک بات ذہن میں رہے کہ یہ سینہ گزٹ سے حاصل شدہ روایات پر مبنی ہے کچھ کمی بیشی ہو تو درگزر فرمائیے گا کیونکہ اس وقت لکھنے پڑھنے کا رواج نہ تھا.
کہا جاتا ہے کہ بوری خیل جو اپنے بھائی بند سلطان خیلوں کے ساتھ کچھ فاصلے پر آباد تھے. جہاں آج بھی بوری خیل آباد ہیں جبکہ پائی خیل قبیلہ موجودہ پائی خیل شہر سے اوپر لعل شاہ کے پاس دامن پہاڑ میں آباد تھا….
قبیلہ پائی خیل اور قبیلہ تاجہ خیل میں زمین کے معاملے پر تنازعہ پیدا ہوا….
اس واقعہ کا ذکر مرحوم حاجی محمد اقبال خان نیازی صاحب نے اپنی کتاب تاریخ نیازی قبائل میں بھی کیا ہے لیکن بصد احترام انھوں نے یہاں انصاف سے کام نہیں لیا پائی خیلوں اور بوری خیلوں کے موقف اور تورہ باز خان نیکہ کا ذکر گول مول اور مختصر لکھا…
خیر پائی خیلوں اور تاجہ خیلوں کی نوک جھونک چلنے لگی اور کئی محاربے ہوئے جس سے دونوں اطراف کا نقصان ہونے لگا پائی خیل قوم کی عددی قوت کم تھی اسی وجہ سے انکا پلڑا کمزور تھا. آئے روز تاجہ خیل پائی خیلوں کے جانور لے جاتے تو کبھی کوئی اور ایسی حرکت کرتے کہ پائی خیلوں میں خوف پیدا ہو. اسی دوران پائی خیلوں نے اپنے بھائی بندوں سلطان خیلوں اور بوری خیلوں سے اعانت طلب کی…
جسکے بعد پائی خیلوں نے اپنی قوت میں اضافہ کیا. .
کہتے ہیں کہ تورہ باز خان کے تھگڑی آلی بندق (جس میں بارود بھرا جاتا تھا) تھی جسکا وہ نہایت ماہر نشانہ باز تھا. اب پائی خیل بمعہ اپنے بھائی بندوں کے کچہ کے علاقے باقاعدہ تیاری کے ساتھ جا پہنچے اور انتظار کرنے لگے کہ تاجہ خیل کو جوان روٹین کی چھیڑ چھاڑ کیلئے آئیں گے تو تورہ باز اور انکے ساتھیوں انھیں گھیر لیا اور کہا کہ اب ادھر نہیں آنا ورنہ تورہ باز کی بندوق سے نشانہ خطا نہیں ہوتا..
تاجہ خیلوں نے جب واپس اپنے بڑوں کو جا کر اطلاع دی تو وہ اپنے قوت کے زعم میں سردار موہانہ خان کے زیر نمائندگی نکلے (جسکا ذکر حاجی محمد اقبال خان نیازی صاحب مرحوم نے کیا).
مگر اس بار تاجہ خیلوں کا اقبال کا ستارہ گردش میں تھا. جبکہ لڑائی ہوئی تو تاجہ خیلوں کو شکست ہوئی کافی جانی نقصان بھی ہوا. پائی خیل ایک تاجہ خیل سردار کا سر برید کر لائے. جبکہ سردار موہانہ خان بھی زخمی ہوا جسکا تفصیلی ذکر تاریخ نیازی قبائل کتاب میں حاجی محمد اقبال خان نیازی صاحب مرحوم نے کیا.. جبکہ اس جنگ میں شکست کی تائید خود کرتے ہیں.
اس کامیابی کے بعد پائی خیلوں کے حوصلہ بلند ہوا اور انھوں نے اپنی مقبوضہ زمین واگزار کرالی.
بوری خیلوں کا اس وقت مشر/سردار تورہ باز خان نیکہ تھا . تورہ باز خان نے پائی خیلوں کو کہا کہ اگر اس تصفیہ کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کرنا ہے تو دامن پہاڑ سے نکل کر کچہ میں اپنے علاقے میں آباد ہوں. لیکن پائی خیل پہاڑ سے نیچے اتر کر موجودہ ریلوے اسٹیشن کے سامنے جگہ جسے (ماشوماں آلی) کہتے ہیں.
. (پشتو میں ماشوم بچے کو کہتے ہیں جو معصوم کے ہم پلہ ہے). آباد ہوئے تاکہ اپنے علاقے کی حفاظت تسلی سے کرسکیں.
سردار تورہ باز خان کا بوری خیل کچہ اور بوری خیل شہر میں آنا جانا ہوتا تھا تو کہا جاتا ہے کہ ایک دن وہ گھوڑے پر بوری خیل شار جا رہا تھا کہ راستے کچھ موسیٰ خیلوں کے پاس سے گزر ہوا جنھیں وہ بناء کسی سلام کلام کے گزرا تو موسیٰ خیلوں نے پشتو میں کہا بڑا گھمنڈ ہے تجھ میں سلام تک نہیں کیا تو تورہ باز خان نے جواب دیا میں عورتوں پر سلام نہیں کرتا اس پیغور کی وجہ موسیٰ خیلوں کا دھوکہ تھا جسکے تحت انھوں سلطان خیلوں کو شدید نقصان پہنچایا تھا جسکی وجہ سے وہ نقل مکانی پر مجبور ہوئے..
کہتے ہیں کہ اس وقت تو یہ کلام کرنے کے بعد تورہ باز خان نیکہ آگے نکل گیا مگر موسیٰ خیلوں کی ان شخصیات نے بدلا لینے کی ٹھان لی انھی موسیٰ خیلوں کی کوئی عورت بوری خیلوں میں بیاہی ہوئی تھی اس عورت کے ذریعے ان موسیٰ خیلوں نے مخبری کرکے ایک دن تورہ باز خان کو بوری خیل کچہ جاتے ہوئے گھیر لیا اور للکارا….
تورہ باز خان جو نام کی طرح واقعتاً تلوار کا دھنی تھا اس نے قبول کیا یوں وہ تن تنہا ان موسیٰ خیلوں سے لڑتے ہوئے جانبحق ہوا.
بوری خیل کے لوگ صاف گو اور کھرے ہیں انکی صاف گوئی پورے میانوالی میں مشہور ہے.
بوری خیل نسبت امن پسند اور اللہ والے لوگ ہیں اولیاء کرام سے لگاؤ جزباتی حد تک رکھتے ہیں. ان میں سے کوئی بالغ مرد وزن نہیں ہوگا جس کا کوئی مرشد یا پیر نہ ہو. یہ لوگ پائی خیل،موچھ، سلطان خیل، کے درباروں اور مزارات پر حاضری دینے جاتے ہیں حضرت شیخ تور باہی، حضرت حافظ جی، حضرت حافظ عیسٰی کلو، حضرت میاں اللہ یار اور حضرت عادل شاہ کے مزارات ان کی عقیدت کا محور ہیں.
موضع بوری خیل میں ان کے تین مقامات اوپر والا بھانڑ، نیچے والا بھانڑ اور ٹُھلی جال بوری خیلوں کے من پسند جگہیں ہیں.
بوری خیل قبیلہ میں لوگ ماضی قریب تک ہندکو زدہ پشتو بھی بولتے تھے. کراچی کے ایک بھائی نے بتایا کہ کراچی میں ابھی بھی پشتو کچھ بوری خیل بولتے ہیں. بہر حال اکثریت اب ہندکو سرائیکی بولتی ہے. بوری خیل قبیلہ کی تقریباً آدھی سے زیادہ آبادی کراچی منتقل ہوچکی ہے. جہاں یہ بہت بڑے ٹرانسپورٹرز ہیں…
بوری خیل قبیلہ کا ایک خاندان کوہاٹ شہر میں بھی آباد ہے جسکی تاریخ کچھ یوں ہے کہ حقنواز خان ولد حاجی گل خان سلطانی خیل انگریزی زمانے میں بسلسلہ روزگار میانوالی شہر گیا. جہاں پر اس نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی. رات کے پہر میں وہ بانسری بجانے کا شوقین تھا. بانسری کی مدھر آواز ایک دن ایک انگریز افسر کی میم نے سن لی. وہ تو حقنواز خان کی دیوانی ہوگئی. میم صاحب ہر رات حقنواز خان کو بلا کر اس سے بانسری سنتی تھی. حتیٰ کہ میم حقنواز کے عشق میں مبتلا ہوگئی اور بھاگ جانے کا منصوبہ بنانے لگی. لیکن حقنواز نے نمک حرامی سے بچتے ہوئے یہ بات انگریز افسر کو بتا دی. جسکے نتیجے میں بیچارے حقنواز کو ضلع میانوالی بدر ہونے کی سزا ملی. قیام پاکستان تک انکا خاندان سرگودھا میں آباد رہا. قیام پاکستان کے بعد بسلسلہ روزگار کوہاٹ منتقل ہوگیا. جہاں آج بھی اندرون شہر محلہ اعجاز شہید میں آباد ہے.
بوری خیلوں کے ساتھ آباد دیگر اقوام؛
قبیلہ بوری خیل کے ساتھ سلطان خیلوں کا ایک قبیلہ زنگی خیل کے کچھ گھرانے بھی آباد ہیں جبکہ باہی قبیلے کے لوگ بھی بہت آباد ہیں، اس کے علاوہ وہاں میانے بھی آباد ہیں جن کے متعلق اقبال خان نیازی کا خیال ہے کہ وہ میانہ پٹھان (ڈیرہ اسماعیل خان والے) ہیں اور افغان ہیں. ناکہ میانوالی والے میانہ سادات.
شخصیات؛
صوفی ایاز خان نیازی مرحوم..
مجاہد تحریک ختم نبوت جناب صوفی ایاز خان نیازی بن شاہنواز خان نیازی 15 جون 1913 کو ضلع میانوالی کے گاؤں بوری خیل میں پیدا ہوئے. آپکے والد زمیندار تھے اور مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے..
ابتدائی تعلیم بوری خیل کی مسجد کے مکتب سے حاصل کی. اس کے بعد علماء کی رفاقت اور اپنے مرشد کے راہنمائی میں علوم اسلامیہ میں وسعت حاصل کی..
آپ 1931 میں حضرت پیر سید محمد امین شاہ صاحب (دندہ شاہ بلاول) سے سلسلہ عالیہ چشتیہ میں دست بیعت ہوئے.
آپ کے بڑے صاحبزادے امان اللہ خان نیازی (آباد لیاری کراچی) دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں.صوفی صاحب نے پوری زندگی دین اسلام کی خدمت کیلئے وقف کئے رکھی. دینی و سیاسی خدمات کی کے ساتھ ساتھ کراچی کی سیٹ پر الیکشن بھی لڑا. صوفی صاحب باقاعدہ کسی مسجد کے خطیب نہ تھے. لیکن فن خطابات میں بہت کمال حاصل تھا اور اسلوب نہایت دل کش تھا. آپ نے تمام سیاسی مصروفیات کے باوجود منکرینِ ختم نبوت کے خلاف مختلف رسل و جرائد میں مقالے لکھے. آپ کی زیر سرپرستی میں مولانا مفتی امین احمد ختم نبوت کے موضوع پر ایک عظیم کتاب کی تیاری میں مصروف ہیں. آپ کے تحریر کردہ کتابچے کا نام درج ذیل ہیں.
🔹قادیانیت کا فکری پس منظر
🔹مرزا غلام قادیانی انگریزوں کا خود کاشتہ پودافدائیان ختم نبوت تنظیم کا قیام :
مرزائیت قادیانیت کے خلاف علماء کرام کی خدمات کو اجاگر کرنے، مرتد فرقے کا عالمی سطح پر محاسبہ و مقابلہ کرنے اور ختم نبوت کا پرچار کرنے کیلئے حضرت صوفی ایاز خان نیازی نے مخلص احباب کے ساتھ مل کر ایک تنظیم “فدائیان ختم نبوت” کی بنیاد رکھی. جس کا مرکزی دفتر دارالعلوم غوثیہ پرانی سبزی منڈی کراچی میں واقع ہے.
مجاہد بے ریا جس نے بنا ڈالی “فدایان” کی
وہ صوفی ایاز خان ختم نبوت کا
(صلاح الدین سعیدی)
آپ کا وصال 25 جون 2003 کو بروز بدھ ہوا. بعد نماز عشاء جناب شاہ احمد نورانی صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی. اور آپ کو تدفین کیلئے میوہ شاہ قبرستان لایا گیا.
اس کے علاوہ معروف کاروباری شخصیات اے کے خانہ، نکا خان، بُھکا خان، مدت خان وغیرہ شامل ہیں۔
ذیلی شاخیں؛
شاہ جہان خیل، نور مد خیل، خوشحالی خیل، سلطانی خیل، ٹیلہ خیل، زادے خیل، پیندو خیل، فتو خیل، چوہڑہ خیل، زبرو خیل، پلو خیل، جمعہ خیل، عمرو خیل، فتح شاہ خیل، تھگڑو خیل، گدڑو خیل، مقرب خیل، اگر خیل، منڑی خیل،قلندر خیل، ہمایوں خیل، پنڑی خیل، خڑ خیل وغیرہ شامل ہیں.
:نوٹ
بوری خیل بہت بڑا قبیلہ ہے جسکی آبادی ہزاروں افراد پر مشتمل ہے لیکن یہ بات یاد رہے کہ زیر دستیاب شجرہ جات صرف وہ ہیں جو تاریخ نیازی قبائل کتاب کے مؤلف حاجی اقبال خان نیازی صاحب مرحوم نے اپنی کوشش سے اکھٹے کئے یا جن لوگوں نے ذاتی دلچسپی لیکر کر شجرے بنا کر ان تک پہنچائے.ان شجروں کو قطعی طور پر مکمّل نہ سمجھا جائے کیونکہ یہ چند افراد کے شجرے ہیں جبکہ قبیلے کی آبادی ہزاروں افراد پر مشتمل ہے.. اگر کسی کا زیر دستیاب شجرے میں نام موجود نہیں تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ نیازی نہیں یا بوری خیل نہیں. بلکہ یہ انتہائی محدود افراد کے شجرے ہیں جو مؤلف کو دستیاب ہوئے وہ شامل کردیئے۔اگر کوئی آرٹیکل میں مزید معلوت کا اضافہ کروانے کا متمنی ہے یا کوئی تصحیح درکار ہے یا کسی معروف شخصیت کی تصویر شامل کروانا چاہتا ہے تو ہمیں نیچے کمنٹ کریں یا فیس بک پیج نیازی پٹھان قبیلہ پر انبکس کریں شکریہ
ایڈمن نیازی پٹھان قبیلہ
www.NiaziTribe.org
مجھے ایاز خان بوری خیل کے مزید حالات درکار ہیں کوئی رابط نمبر ان کے بیٹے کا ملے گا
جی سر آپ ہمیں فیس بک پر رابطہ کری۔ نیازی پٹھان قبیلہ فیس بک پیج
شاید اپ بوری خیل میں رہنے والے مرزا خیل قبیلے کا نام لکھنا بھول گئے ہیں
تحریر میں لکھا ہوا ہے کہ بوری خیلوں کا سردار کچہ سے بوری خیل آ رہا تھا تو موسی خیلوں نے راستے میں سلام کا بولا لیکن کچہ سے بوری خیل آتے ہوۓ موسی خیل راستے میں نہیں پڑتا بلکہ سوانس اور غنڈی کا علاقہ آتا ہے
تحریر میں موسی خیل قصبہ کا ذکر نہیں ہوا بلکہ موسی خیل قبیلہ کے سرداران کا ذکر ہوا ہے۔جن سے راستے میں سامنا ہوا۔