تحریر؛ ڈاکٹر طارق مسعود خان نیازی شہبازخیل
قسط اول (تحصیل عیسٰی خیل):
میانوالی میں صوبائی اسمبلی کے چار حلقے ہیں ۔میں ذاتی طور پر میانوالی کی سیاست پر تبصرہ کرنے سے احتراز کرتا ہوں کیونکہ میانوالی کی سیاست پر کسی قسم کی لب کشائی کر کے اپنے آپ
کو سیاسی اور الفاظی سنگساری کے لئے پیش کرنا ہے۔ہر طرف سے پتھر ہی پتھر آتے ہیں ۔لیکن جب حقائق مسخ کئے جا رہے ہوں اور یہاں تک کہ کالے کو کالا نہیں حتیٰ کہ”کربرا” بھی نہیں بلکہ سُفید بتایا جا رہا ہو تو پھر نتائج سے بے نیاز ہو کر اپنی دانست میں جو حقائق آپ جانتے ہوں ،ان کو لوگوں خصوصاً نئی نسل تک پہنچانا لازم ہوجاتاہے ۔۔
آج کل کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان تمام لوگوں کو دوبارہ ٹکٹ دیا جائے جنھیں 2018 میں ٹکٹ دیئے گئے تھے کیونکہ وہ وفادار رہے ہیں ۔۔
جہاں تک وفاداری کی بات ہے تو یہ ان کا قانونی، آئینی اور اخلاقی فرض تھا کہ وہ عمران خان کا ساتھ دیتے ۔عمران خان کے ٹکٹ ہی نے تو انھیں عزت دی تھی ۔پھر ان نمائیندوں کو عوام کے مُوڈ کا پتہ تھا کہ عوام لوٹوں کا کیا حشر کرتے ہیں ۔اس لئے عمران خان سے وفاداری ان کی مجبوری تھی۔ باقی عمران خان کے نظریے سے وابستگی سے ان کا دُور دُور تک کوئی تعلق نہیں تھا ۔ ان میں سے جس کا بس چلا ہے اس نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں۔کسی نے اپنے کرپٹ ترین رشتہ دار کو عہدے دلوائے تو کسی نے اپنے رشتہ داروں کے بوسیدہ مکان کو سرکاری محکمہ کو مارکیٹ سے کئی گُنا زیادہ پر کِراے پر لگوا کر دیا ۔کسی نے ناقص سڑکوں کی تعمیر سے اپنوں کو نوازا تو کسی نے ٹیکس چوروں پر “شفقت” کا ہاتھ رکھا۔
بہرحال یہ پی ٹی آئی کی قیادت اور عمران خان کا فیصلہ ہے کہ وہ کس کو ٹکٹ دیتے ہیں ۔پی ٹی آئی والوں نے تو پارٹی ڈسپلن کی پابندی کرنی ہے ۔جس کو قیادت مناسب اور بہتر سمجھے گی،اسی کو ٹکٹ دے گی ۔
لیکن رائے دینے پر تو کوئی قدغن نہیں ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ اب 2002 یا 2013 یا2018 نہیں جب پی ٹی آئی کو الیکٹیبلز کی ضرورت تھی ۔اب ٹکٹ کا معیار قابلیت ،وفاداری،پارٹی خدمات اور عمران خان کے نظریے سے پختہ اور غیر متزلزل وابستگی ہونا چاہئے ۔
چونکہ آج کل فیس بُک پر عیسیٰ خیل کے حلقے سے پی ٹی آئی کے امیدواروں کے سپورٹرز کی طرف سے سرد جنگ تو کہیں کہیں اچھی خاصی گولہ باری شروع ہو چکی ہے۔پی ٹی آئی کے کارکنوں کا ردعمل بھی آ رہا ہے ۔سوچا اس پر اپنی معلومات کے مطابق کچھ لکھوں۔
اس کے بعد انشاءاللہ دوسرے حلقوں کے بارے میں بھی کچھ تبصرہ کروں گا ۔
حلقہ پی پی 85 میانوالی 1 تحصیل عیسیٰ خیل پر مشتمل ہے.قیام پاکستان سے پہلے اور بعد تک یہ حلقہ ہمیشہ عیسیٰ خیل کے خوانین(نواب )اور نواب آف کالاباغ کے زیر اثر رہا ہے ۔عیسٰی خیل کے خوانین کے دو گروپ تھے ایک نواب عبدالقادر خان سابق ایم ایل اے کا جو نواب آف کالاباغ کا حلیف تھا اور دوسرا کرنل محمد اسلم خان مرحوم، سابق ایم این اے مقبول خان مرحوم اور ٹرانسپورٹر ممتاز خان مرحوم ۔یہ لوگ نواب آف کالاباغ کے حریف تھے ۔نواب آف کالاباغ نے اپنے مخالف گروپ پر مظالم کی انتہا کردی یہاں تک کے ان کے کھڑے باغات پر ٹریکٹر چلوا دیئے اور ان کو جیلوں میں ڈال دیا ۔
کرنل محمد اسلم خان کے والد نواب شاہ نواز خان نیازی کو نائی(حجام) نے گردن پر اُسترا پھیر کر قتل کر دیا جب وہ نائی ان کے گھر اُن کی حجامت کر رہا تھا ۔لوگوں کا غالب خیال یہی تھا کہ اس بظاہر غیر ارادی قتل کے پیچھے نواب عبدالقادر خان اور نواب آف کالاباغ کا ہاتھ تھا (حقیقت کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے)۔کرنل اسلم اس وقت چھوٹے بچے تھے اور ایچی سن کالج میں پڑھتے تھے ۔انگریز سرکار نے انھیں اپنی تحویل میں لے لیا (کرنل اسلم خان نے اپنے ایک بیٹے کا نام شاہ نواز اپنے والد کے نام پر رکھا جو کہ مسلم لیگ ن کی راہنما اور ببلی خان کی بہن ذکیہ شاہنواز کے شوہر تھے)۔
نواب عبدالقادر خان کا ایک ہی بیٹا تھا نواب فضل الرحمان ۔جس نے چار شادیاں کیں لیکن اولاد نہیں ہوئی اور جوانی ہی میں ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے برین ہیمیریج سے فوت ہو گیا اور اس طرح نواب عبدالقادر خان کا دور تمام ہؤا ۔
1971 اور 1977کے انتخابات میں عیسیٰ خیل سے کرنل اسلم خان ایم پی اے منتخب ہوئے ۔
1980 کی دہائی میں بھکر علیحدہ ضلع بن گیا ۔روکھڑی خاندان اور کالا باغ خاندان کی سیاسی عداوت عروج پر تھا۔ مولانا عبد الستار خان نیازی قومی اسمبلی کی سیاست کرتے تھے اور دونوں بڑے سیاسی خاندانوں کے حریف تھے ۔عیسی خیل خاندان سیاسی طور پر بٹا ہوا تھا۔ کوئی روکھڑی خاندان کے ساتھ کھڑا تھا تو کوئی کالا باغ گروپ کے ساتھ ۔نواب سعد اللہ خان (عیسیٰ خیل پٹرولیم کے مالک محسن خان کے والد محترم) مولانا عبد الستار خان نیازی کے پکے ساتھی تھے تو ان کے بھائی امین اللہ خان پیپلز پارٹی عیسیٰ خیل کے صدر تھے ۔اسی کی دھائی میں عیسیٰ خیل کی سیاست میں ایک نیا موڑ آیا اور شادی خیل خاندان روکھڑی خاندان کی سیاسی سرپرستی میں سیاست میں وارد ہوا ۔
1988,1985 اور 1990کے انتخابات میں غلام رسول خان شادی خیل لگاتار ایم پی اے منتخب ہوئے ۔لیکن 1993 میں جب عبیداللہ خان شادی خیل نے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو روکھڑی گروپ اور شادی خیل گروپ کی راہیں جُدا ہو گئیں۔1993 میں ایک بار پھر غلام رسول خان شادی خیل منتخب ہوئے۔جبکہ 1997 میں عبدالرحمان خان المعروف ببلی خان ایم پی اے منتخب ہوئے ۔۔
2002 میں ببلی خان کے بھائی عبدالحفیظ خان ایم پی اے منتخب ہوئے ۔
2008 میں دوبارہ ببلی خان منتخب ہوئے ۔۔
2013 میں پی ٹی آئی نے اس حلقے سے دیرینہ کارکن جمال احسن خان کو ٹکٹ دیا لیکن ببلی خان آزاد الیکشن لڑے ۔یہ دونوں ہار گئے اور امانت اللہ شادی خیل محض چند سو ووٹوں سے جیت گئے ۔۔
2018 میں پی ٹی آئی نے ببلی خان کو ٹکٹ دیا اور وہ جیت گئے ۔۔
اب ببلی خان ، جمال احسن خان، انجینئر عطاءاللہ خان شادی خیل (باقی کوئی اور ہو تو کم از کم مجھے پتہ نہیں)پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے امیدوار ہیں ۔۔
آپ 1985 سے اب تک کے تمام انتخابات کے نتائج دیکھ لیں تو ایک بات واضح ہے کہ جب بھی عیسیٰ خیل کے خوانین نے متفقہ امیدوار کھڑا کیا ،ہمیشہ جیتے ۔لیکن جب ان خوانین میں سے دو امیدوار کھڑے ہو گئے تو شادی خیل جیت گئے ۔۔
ببلی خان کا تعلق ایک سیاسی گھرانے سے ہے۔ان کی ہمشیرہ ذکیہ شاہنواز مسلم لیگ ن کی راہنما ہیں ۔ بھائی رزاق نیازی خانیوال سے پیپلز پارٹی کے ایم پی اے ہؤا کرتے تھے ۔ان کے بیٹے ایاز نیازی زرداری کے ذاتی دوست تھے اور ایک مشہور مالیاتی اسکینڈل میں ایاز نیازی کا نام بھی زرداری کے ساتھ آیا تھا ( اج کل رزاق نیازی پی پی پی میں ہیں یا پی ٹی آئی میں ۔نہیں معلوم).
ببلی خان کے سپورٹرز کا کہنا ہے کہ ببلی خان وہ واحد سیاستدان ہے جو شادی خیل گروپ کے مظالم اور تھانے کچہری کی سیاست (بقول سپورٹرز ببلی خان) کے خلاف اپنے ساتھیوں کا ڈٹ کر ساتھ دیتا ہےاور انھیں اکیلا نہیں چھوڑتا۔
ببلی خان ایک زیرک اور روائیتی سیاستدان ہیں ۔اور جہاں تک مجھے ان کی سیاست سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ ہر الیکشن ،ہر سیاست دان کی طرح ،ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ خود جیتیں۔لیکن اگر وہ یہ دیکھیں کہ وہ خود نہیں جیت رہے تو پھر ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی عیسی خیل کے خان کی بجائے ان کے مخالف شادی خیل جیت جائیں تاکہ ان کے مقابلے میں کوئی عیسیٰ خیل کا خان نہ آ سکے۔وہ اس حقیقت کو مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے ۔
1985کا الیکشن تھا یا 1988 کا،عیسی خیل کے تمام خوانین نے متفقہ طور پر نواب صلاح الدین خان کو امیدوار کھڑا کیا لیکن ببلی خان نے برادری کا فیصلہ قبول کرنے سے انکار کردیا اور الیکشن لڑا ۔یہ دونوں ہار گئے اور غلام رسول شادی خیل جیت گیا ۔۔ببلی خان اکثر محفلوں میں فخریہ انداز میں کہا کرتا تھا “” سُنڑاو ۔۔وت چاچے صلاح الدین خان نوں کنجیں ہِرایا ہِم””
سیاست کی اپنی ذکشنری ہوتی ہے۔ کامیابی اور ناکامی کو مخصوص عینک سے دیکھا جاتا ہے ۔جسے ہم لوگ بے اصولی یا بے وفائی سمجھ رہے ہوتے ہیں ،سیاستدان اس کو کامیاب چال قرار دے رہے ہوتے ہیں۔
عمران خان اور پی ٹی آئی کے ٹکٹ دینے والوں کو اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے کہ ووٹ صرف اور صرف عمران خان کا ہے ۔
ٹکٹ ببلی خان کو ملے یا جمال احسن خان کو یا انجینئر عطاءاللہ شادی خیل کو یا کسی اور کو ،سب امیدواروں کو وہ فیصلہ قبول کر نا چاہیے۔ ببلی خان کو بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ 2013 میں جمال احسن خان کا مقابلہ کر کے اس نے زیادتی کی تھی ۔
اس دفعہ اصولاً ٹکٹ کا حق کسی دیرینہ اور مخلص نظریاتی کارکن کا بنتا ہے۔اگر کسی اور کو ٹکٹ ملتا ہے تو ببلی خان کو بھی خوش دلی سے پارٹی کا فیصلہ قبول کر لینا چاہیے ۔ببلی خان نے کافی سیاست کر لی ہے ۔اگر پرویز الہیٰ مونس الہیٰ کے لئے اپنی سیاست داؤ پر لگا سکتا ہے تو ببلی خان بھی اپنے بیٹے جمی خان کے روشن سیاسی مستقبل کے لیے اس دفعہ قربانی دے دے۔سیاست کے لیے ان کے بیٹے کی ماشاءاللہ پوری عمر پڑی ہے ۔
لیکن کہا جاتا ناں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ۔
بہرحال ٹکٹ ببلی خان کو ملے، جمال احسن کو،عطااللہ شادی خیل کو یا کسی اور کو ،پی ٹی آئی کے ورکرز نے بلے کے نشان کی لاج رکھنی ہے نہ کہ شخصیت پرستی کرنی ہے ۔
نوٹ:
تمام دوست احباب ،جونئیرز اور سئنیرز سے گذارش ہے کہ
اگر کہیں پر میری معلومات غلط ہو گئی ہوں تو پیشگی معزرت ۔حتی الوسع کوشش کی ہے کہ اپ کو صحیح معلومات دوں
اگر کسی کی دل شکنی ہوئی ہو یا اختلاف ہو تو ضرور اظہار کرے لیکن اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ سیاسی اختلاف رائے ہر کسی کا حق ہے ۔۔
شکریہ۔
پیج ہٰذا کا ادراتی نوٹ؛ درج بالا تحریر جناب طارق خان نیازی کی ذاتی مشاہدہ پر مبنی ہے. لازمی نہیں کہ پیج انتظامیہ اس سے متفق ہو. یہ تحریر حسن ظن کے ساتھ شئیر کی جارہی ہے
پیشکش نیازی پٹھان قبیلہ فیسبوک پیج
Www.niazitribe.org