پشتون اور اسرائیلی نسب سے جڑے زمانہ جدید کے کچھ پہلو

پشتونوں کے اسرائیلی نسل ہونے کے دعوے پر جدید زمانے میں اعتراضات.
یوں تو پشتون نسب پر بحث مباحثہ تب سے شروع ہوا جب مغلوں نے دوبارہ تخت دہلی کو حاصل کیا.
کیونکہ مغلوں کو تخت سے اتار کر ایران کی طرف بیدخل کرنے والے پشتون تھے.
جس کی وجہ سے مغل پشتونوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگے. دوسری طرف ایرانی، جن کے ہاں مغلوں نے پناہ لی انکے ساتھ پشتونوں کی مخاصمت صدیوں پرانی تھی جس کی تاریخ قبل از مسیح تک جاتی ہے.
پس اس زمانے مغل دربار پر چھائے ایرانی درباری پشتونوں کے نسب کا تمسخر اڑاتے جس پر مغل بادشاہ بھی لطف اندوز ہوتے.
اس تضحیک کا تدارک کرنے کیلئے خان جہاں لودی نامی مشہور افغان سردار کی ایما پر نعمت اللہ ہروی نامی شخص نے پشتون قبائل کے علاقوں کا دورہ کرکے معلومات اکھٹی کرکے ایک کتاب مخزن افغانی لکھی. جو کہ بعد میں پشتون تاریخ کا اساس بنی.
اس کتاب کی تالیف کے بعد پشتون نسب پر سوال کرنے والوں کو چُپ لگ گئی. حتیٰ کہ جب تلک انگریز ہندوستان نہ پہنچے.
جب سکھوں کے زمانے میں انگریزوں کی شناسائی پشتونوں سے ہوئی اور انھیں معلوم ہوا کہ پشتون بنی اسرائیل سے تعلق کے دعویدار ہیں. تو انگریزوں کو تورات میں درج دس گمشدہ بنی اسرائیل قبائل یاد آئے. یوں وہ تحقیقات کرنے لگ گئے.. اس طرح یورپی مستشرقین نے اس دعوے کے سچ ہونے یادعویٰ کے فاسد ہونے کے بارے میں قلم کشائی کی.
جس میں میجر ریوارٹی اور اولف کیرو نے زیادہ شہرت پائی.
بیسویں صدی تک اس بحث پر بہت کچھ لکھا گیا. لیکن یہ تحریریں زیادہ تر روایتی علوم پر مبنی تھیں. جبکہ معدودے چند افراد نے آثار قدیمہ یعنی ارکیالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے سائنسی انداز میں تحقیق کرنے کی کوشش کی.
چونکہ یہ مسئلہ فقط آرکیالوجی سے حل ہونے والا نہیں تھا.
تبھی بدستور حل طلب رہا.
اکیسویں صدی میں جب سائنس نے مزید ترقی اور سائنس کی ایک اور شاخ جنیالوجی نے ترقی کی تو پتہ چلا کہ ہر ذی روح کے خلیہ کے اندر رب العالمین نے ایک ایسا خفیہ کوڈ محفوظ رکھا ہے کہ جس میں اس ذی روح کی  ابتداء سے لیکر اس کی انتہاء تک کی معلومات درج ہیں.
اس خفیہ کوڈ کو ڈی این اے کہا جانے لگا.
اس ڈی این اے کی تحقیقات میں مزید ترقی ہوئی جو کہ ابھی تک جاری ہے.
اس مزید تحقیقات سے پتہ چلا کہ ہم مختلف انسانوں کے ڈی این اے اکھٹے کرکے ان میں مماثلت و مخالفت کو تلاش کرکے پتہ لگا سکتے ہیں کہ کون سا انسان کس انسان کے زیادہ قریب ہے.
مثلاً ایک بچے کے ڈی این اے کا اسٹرکچر دنیا میں اس کے والدین کے سب سے قریب تر ہوگا. اس کے بعد اس کے بقیہ رشتوں کے.
اسی طرح ایک مخصوص نسلی گروہ کے افراد کا ڈی این اے دوسرے نسلی گروہ کے افراد سے مختلف ہوگا.
چونکہ اس میدان میں تحقیقات ابھی تک جاری ہیں اسی وجہ سے ابھی پوری دنیا کے انسانوں کے ڈی این اے کی پروفائلنگ ابھی تک مکمل نہیں ہوسکی. دوسری طرف آزمائشی بنیادوں پر یہ کام شروع ہوچکا ہے. جس کے سبب یہ آزمائشی ٹیسٹ بھی فی الحال کافی مہنگا ہے. اور ویسے بھی اس آزمائشی ٹیسٹ میں کوئی مفصل معلومات نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک معروضی نتیجہ پر مشتمل ہوتا ہے. دوسری طرف مفصل ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ لاکھوں روپے پر بنتی ہے. کیونکہ وہ کافی محنت طلب ہے.
جیسے ہی دنیا میں یہ فیلڈ متعارف ہوئی تو ماہرین بشریات نے دریافت شدہ قدیم انسانی ڈھانچوں سے ڈی این اے نکال کر موجودہ انسانوں سے موازنے کرنا شروع کردیئے جس کی وجہ سے انسانوں کو حیران کن معلومات ملیں. مثلاً یہ پتہ چلا کہ یہ ڈھانچہ کتنے ہزاروں یا لاکھوں سال پرانا. اس ڈھانچہ کا ڈی این اے اسٹرکچر کس موجودہ انسانی گروہ سے قریب تر ہے وغیرہ وغیرہ.
اس نظریے یہ مذہبی عقائد پر مبنی انسانی تاریخ بھی جھوٹ معلوم ہوئی جس کے مطابق انسان کم و بیش دس ہزار سال پرانا. لیکن اب سائنسی انداز سے معلوم ہوا کہ انسان کم و بیش چار لاکھ سال قدیم ہے.
دوسری طرف یہودی جو اپنے دس گمشدہ قبائل کی تلاش میں سرگرداں تھے وہ بھی ان بچھڑے ہوئے اسرائیلوں کو اسی ٹیکنالوجی سے تلاش کرنے لگ گئے.
اس سلسلے میں انھوں نے قدیم تاریخ و روایات کو سہارا بنا کر تلاش شروع کی. جس کے نتیجے یہ معلوم ہوا کہ قدیم لٹریچر میں چند ایسی اقوام موجود ہیں جن کا اسرائیل ہونا درج ہے. جن میں ایتھوپیا کے فلاشا قبیلہ کے لوگ ، افغانستان و پاکستان کے پشتون، ایران کے یہودی، انڈیا کے کوچن لوگ شامل تھے.
اس تحقیقات میں انھوں نے دیکھا کہ بقیہ سبھی گروہ فی الحال ٹوٹے پھوٹے انداز میں یہودی عبادات و روایات کو قائم رکھے ہوئے ہیں لیکن پشتونوں میں تغیر واقع ہوچکا ہے وہ اب دین اسلام کے ماننے والے. ہاں البتہ ان کے کچھ قبائل میں وہ اسرائیلی روایات ابھی تک موجود ہیں. اس سلسلے میں آپ دی کوئسٹ آف لاسٹ ٹرائبز کی ڈاکومنٹری سیریز بھی دیکھ سکتے ہیں.
..
بہرحال اس سارے عمل کے دوران مملکت اسرائیل نے پشتونوں کے علاوہ سبھی کو اسرائیلی النسل قبول کیا اور انھیں اپنے ملک بُلا لیا.
اس بات پر اس مکتبہ فکر کو مزید تقویت ملی جو پشتونوں کو اسرائیلی النسل نہیں مانتے.
اچھا بتاتا چلوں کہ میں بھی اسی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہوں جو کہ یہ سمجھتا ہے کہ پشتون اسرائیلی النسل نہیں ہیں.
ہاں البتہ میرا یہ اختلاف جزوی نوعیت کا ہے.
میرے خیال میں موجودہ زمانے میں کوئی بھی قوم خالص نہیں ہر قوم میں قدیم زمانے میں کچھ نہ کچھ دوسری اقوام کا اختلاط ضرور ہوا ہے.
حتیٰ کہ تین بنیادی انسانی نسلوں یعنی قفقازی (سفید یا بھورے رنگت کے تیکھی ناک والے لوگ)،
منگولیائی (زرد رنگت کے چپٹی ناک کے لوگ) اور افریقی (یعنی سیاہ رنگت کے بھدی ناک والے لوگ) کے امتزاج سے دنیا میں سینکڑوں اقوام وجود میں آچکی ہیں۔لیکن ان تین بنیادی انسانی نسلوں کا بھی معیاری ڈی این اے طے نہیں کیا جا سکا۔

جیسا کہ قبل بتایا کہ قدیم ڈھانچوں کے ڈی این اے نتائج نے حیران کن انکشافات کئے ہیں وہی معلوم ہوا ہے کہ روئے زمین پر موجود تمام انسان بشمول ان تین انسانی نسلوں کے اوپر یہ ایک نسل بن جاتے ہیں جبکہ کچھ ڈھانچے ایسے بھی ملے ہیں جو اس نسل انسانی یعنی ہومو سیپٰئین سے مختلف ہیں جنھیں ایرکٹس،روڈال فینس، ہابیلی ،ہائیڈلبرگ، فلورس ،نالیدی اور نینڈرتھال وغیرہ وغیرہ کہتے ہیں.

ماہرین مانتے ہیں کہ موجودہ انسان یعنی ہومو سیپئین میں درج بالا دیگر انواع کے اثرات موجود ہیں۔
ہم واپس اپنے موضوع پر آتے ہیں. پہلی بات یہ ہے کہ دنیا کی تمام جدید ٹیکنالوجیز اور دنیا کی تمام معیشت پر اس وقت یہودی قابض ہیں. حتیٰ کہ یہ ڈی این اے کی ٹیکنالوجی پر بھی وہی قابض ہیں وہی تحقیقات پر زر خطیر خرچ کررہے ہیں وہی سائنسدان ہیں یا پھر اس فیلڈ میں کام کرنے والے سائنسدانوں پر انکی سخت گرفت ہے. جبکہ یہودی چونکہ دنیا میں انتہائی قلیل ہیں تبھی وہ اپنی بقاء اور اپنے مفادات کو ہر چیز پر مقدم جانتے ہیں. تبھی ہمیں وہ جو بھی ٹیکنالوجی دینا چاہیں یا لینا چاہیں، وہ اس ٹیکنالوجی سے جو بھی نتائج اخذ کر کے ہمیں تھما دیں ہمیں وہ ہر حال میں ماننا پڑتا ہے. وہ جس ملک یا شخص کو برباد کرنا چاہیں یا اس کو سنوارنا چاہیں سب کچھ اس مختصر سے گروہ پر منحصر ہے.
اس مختصر گروہ کی اگر کوئی قلعی کھولنا بھی چاہے تو اول اس شخص کو دیوانہ یا حواس باختہ احمق سمجھا جاتا ہے. بالفرض وہ اگر حد سے نکل جائے اور نقصان دہ محسوس ہونے لگے تو غیر مرئی طریقہ سے اس کا وجود اس دنیا سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا جاتا ہے.
شاید میرا یہ اوپر والا پیراگراف بھی کچھ لوگوں کو بیوقوفانہ لگا ہو لیکن میرے نزدیک یہ حقیقت ہے.
بھلے کوئی اختلاف کرتا رہے.
پس اسی منصوبہ بندی کے تحت پشتونوں کے علاوہ دیگر تمام گروہوں کو اسرائیلی النسل قبول کرلیا گیا کیونکہ وہ اپنے اصل علاقوں میں محکومانہ زندگی جی رہے تھے اور جبکہ مملکت اسرائیل کے بانیان کو اپنے ملک میں خدمات کیلئے ایک نچلے درجہ کی ضرورت بھی تھی. اس طرح ایتھوپیا، انڈیا و ایران کے ان مخصوص گروہوں کو اسرائیلی ہونے کا سرٹیفکیٹ تھما کر اسرائیل درآمد کرلیا گیا..
جبکہ پشتون چونکہ قطعی طور پر محکوم طبقہ نہیں ہیں. دوسرا یہ یہودیوں کی طرح اپنے مذہب سے شدت کے ساتھ منسلک ہے. اور انکی باغیانہ شرست کے سبب ان کو بطور اسرائیلی قبول کرنا بذات خود یہودیت پر ایک خود کش حملہ ثابت ہونا تھا تبھی پشتونوں کے ڈی این اے کا رد کردیا گیا.
یہاں پر چند سوالات پیدا ہوتے ہیں.
١. کیا آج تک کوئی ایسی رپورٹ مرتب ہوئی ہے جو جو یہودیوں کے ڈی این اے کی جداگانہ ساخت کو بیان کرے؟
٢. اسرائیل میں چونکہ دنیا بھر سے بکھرے ہوئے یہودیوں کو اکھٹے کیا گیا جو صدیوں سے جداگانہ خطوں میں آباد تھے تو یقیناً انکے ڈی این اے پر کچھ نہ کچھ اثرات ضرور پڑے ہونگے ان اثرات کے سبب پیدا ہونے والے تغیرات کو کس طرح جانچا گیا؟
٣.ان اسرائیلوں کے پاس کیا کوئی اسٹینڈرڈ یعنی معیاری ڈی این اے موجود جس کا زمانہ قبل از مسیح کا ہو جس سے اخذ کردہ نتائج کو بطور کسوٹی استعمال کرتے ہیں طے کیا جا سکے کہ کون اصل اسرائیلی ہے اور کون نہیں؟
٤. کیا مختلف آب و ہوا، خوارک، طرز زندگی اور شادی بیاہ کے باجود ہزاروں سال تک ڈی این کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی؟
٥. اگر واقعی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ قدیم نسلوں یعنی سائتھین، ہُن، آشوری، حتی وغیرہ اقوام کے وارث کہاں گُم ہوگئے؟
٦.اسرائیلیوں میں اشکنازی، سفاردی،مزراحی و خزری کا آپسی ربط  کیونکر موجود نہیں ہے؟ کیا ان کے اصل علاقوں کی دوسری اقوام کے اثرات اس کی وجہ ہیں؟
٧. کیا یہودی اتنے قابل اعتماد ہیں کہ ان کے اخذ کردہ نتائج کو تسلیم کیا جاسکے؟
٨. یہودیوں کی طرح کسی اور نسل یا قوم پر کیونکر ایس تحقیقات نہیں کی گئیں مثال کے طور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نسب  کےدعویدار لوگوں پر جو کہ علوی و سادات و آل رسول کے نام پر مسلم معاشروں میں جداگانہ شناخت رکھتی ہیں. یا پھر ہندو معاشرے کا براہمن طبقہ.
٩.ہم مان لیتے ہیں کہ اسرائیلی ایک جداگانہ ڈی این اے رکھتے ہیں مگر یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یعقوب کے دوسرے بھائی عیص کی کی اولاد کہاں گئی؟
١٠. اسرائیلی چونکہ ابراہیم علیہ السلام کے پوتے ہیں تو یقیناً عرب جو کہ بنی اسماعیل ہیں تو یقیناً ان اسرائیلوں و اسماعیلیوں یعنی عربوں کا ڈی این اے باقی دنیا کی نسبت قریب ترین ہوگا جیسا کہ عربی و عبرانی زبان میں قرابت ہے..
١١. افریقی، ہندوستانی، ایرانی و یورپی یہودیوں کی شکل و صورت میں اتنا تضاد کیونکر ہے؟ اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص بظاہر افریقی لگتا ہو لیکن اس کا ڈی این اے قفقازی ہو؟
پس جب تک ان سوالات کے جوابات جب تک نہیں ملتے تب تک ہم اسرائیلوں کے ان نتائج کو سند نہیں دے سکتے اور یہ مشکوک ہی رہیں گے.
جہاں تک پشتونوں کے اسرائیلی ہونے کا ڈین این کی بنیاد پر رد ہے تو اس سلسلے میں بھی کچھ سوالات ہیں
ٹھیک ہے پشتونوں کے ڈی این اے میں اسرائیلی بناؤٹ کے کوئی آثار نہیں.
لیکن کیا یہ حسن اتفاق ہے کہ انگریز اپنے زمانے میں دنیا کے دیگر خطوں کے برخلاف افغانستان پر اتنا زیادہ علمی تحقیق کرتے رہے؟
کیا یہ حسن اتفاق ہے کہ امریکہ والے گزشتہ پچاس سال سے افغانستان گھسے ہوئے ہیں؟
آخر یہاں ایسی کیا چیز ہے جو انھیں بدستور افغانستان میں انگیج کئے ہوئے ہے؟
پشتونوں میں ایسی کیا چیز ہے جس کے سبب وہ مشرق کے ہندوستانی، جنوب کے ایرانی، مغرب کے ترکوں اور شمال کے چینی نسل کے لوگوں میں مسٹ فٹ ہیں.
کیونکہ ایرانی و ہندوستانی بھی اپنے قدیم رشتے مانتے ہیں اسی طرح ترکوں و چینیوں کا بھی آپسی قدیم روابط ہونے کا ریکارڈ موجود ہے.
لیکن پشتونوں کو کسی نے اپنائیت نہیں دی کہ ہاں یہ ہمارے قرابت دار ہیں اور نہ کسی کو انھوں نے اپنا سمجھا.
جیسا کہ قبل بتایا کہ دیگر اقوام کی طرح پشتون بھی خالص ایک نسل نہیں ہیں. بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ یہودی بھی کوئی ایک نسل نہیں ہے. بلکہ یہ مخصوص طبقہ ہے جس کے نظریات یکساں ہیں جیسے کسی ملک کی ایلیٹ کلاس ہوتی ہے. جو کسی بھی نووارد کو اپنے سرکل میں داخل نہیں ہونے دیتی. اس میں باہر سے داخل ہونے والا ہمیشہ اجنبی رہتا ہے.
لیکن ایک نیوکلیس ضرور ہوتا ہے.. اگرچہ اس نیوکلیس کو تلاش کرنا ناممکن ترین کام ہے. لیکن اس کے وجود سے انکار نہیں ہے..
پس اسی طرح میری ذاتی رائے میں یہودی کہلانے والے لوگوں کے اعلیٰ دماغ یہ جانتے ہیں کہ پشتون قوم کا نیوکلیس اسرائیلی تھا اور ہے. لیکن اسلام کی روشنی میں یہ نیوکلیس دب گیا ہے لیکن ختم نہیں ہوا.
اور یہی نیوکلیس پشتونوں کو دیگر پڑوسی اقوام کیلئے اجنبی بناتا ہے اور یہی نیوکلیس پشتونوں کو اسرائیلوں سے غیر محسوس طریقے سے ملاتا ہے..
اور یہی وہ نیوکلیس تھا جس کے سبب بارہویں صدی کے حمد اللہ مستوفی افغانوں کو اسرائیلی النسل لکھا اور چودھویں صدی عیسوی کے اطالوی سیاح نے افغانستان کے قندھار شہر کو یہودیوں کا شہر قرار دیا.
یہ وہ وقت تھا جب مغلوں کا نام دنیا عالم فقط چنگیز خان کے اجڈ جنگجوؤں سے جانتی تھی. ہندوستانی نام نہاد مغل جو کہ دراصل ترک النسل تھے انکے وجود بھی دنیا میں نہیں آیا تھا چہ جائیکہ بیچارہ نعمت اللہ ہروی.
یہ وہی نیوکلیس تھا جس کے اثرات اس وقت بھی موجود تھے جب نعمت اللہ ہروی نے کتاب کی تالیف کے وقت پشتون علاقوں کا دورہ کیا..
اور یہ نیوکلیس تب بھی موجود تھا جب تمام پشتون قوم نے بنا کسی زور زبردستی اور کسی اختلاف کے فوراً قبول کرلیا.. کوئی پشتون جتنا بھی ان پڑھ ہو بھلے وہ لودھی زمانے کا ہو (جب  مخزن کتاب نہیں لکھی گئی تھی) یا امیر عبدالرحمن خان کے زمانے کا (جب پشتونوں میں خواندگی نہ ہونے کے برابر تھی) یا موجودہ زمانے کا (جب ہر کوئی معلومات رکھتا ہے) سبھی اس پشتون تاریخ پر نہ صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ اس کی بتائی ہوئی قبائلی تقسیم کو مانتے ہیں.
کیا یہ بھی محض اتفاق ہے؟ ہرگز نہیں..
تحقیق و تحریر؛ نیازی پٹھان قبیلہ فیسبوک پیج
Www.niazitribe.org

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

2 تبصرے “پشتون اور اسرائیلی نسب سے جڑے زمانہ جدید کے کچھ پہلو

  1. اللہ پاک کا شکر ہے کے اس نے ہمیں اسلام جیسی بہت بڑی دولت سے نوازہ نہیں ،
    ۔نہیں تو آج ہم سب قوموں کی لڑائیاں لڑی رہے ہوتے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں