لودھی پشتون قبائل کا تعارف و تاریخ۔


لودھی پشتونوں کا تعارف ؛

لودھی پشتونوں کا ایک بہت بڑا گروہ  ہے جسکی ہندوستان میں بہت روشن تاریخ موجود ہے۔اگر اس کی موجودہ زمانے کی شاخوں کا بیان کیا جائے تو اس میں نیازی، دوتانی، مروت، لوہانی ،کٹی خیل ،کنڈی، دولت خیل، میاں خیل، خیسور، تتور، بلچ ،لوہانی ،پڑنگی اور سرک وغیرہ شامل ہیں
بہرحال تاریخ میں لودی پشتونوں کو بہلول لودھی اور اسکی سلطنت نے پہچان دی..
لودھیوں کے بارے میں قدیم روایات کیا ہیں اس بارے میں آج تک کسی نے کھوج لگانے کی زحمت نہیں کی کیونکہ لودھیوں کا نام و نشان ہی افغانستان سے ختم ہوگیا یا پشتون سماج میں لودھی اجنبی بن گئے.. تبھی انیسویں و بیسویں صدی میں جہاں انگریزوں نے اور پشتون محققین نے دیگر پشتون قبائل کی تاریخ کھوجنے کیلئے بڑی محنت اور کاوشیں کیں وہیں لودھیوں کے بارے میں کہیں کوئی تحقیقاتی کام نہیں ہوا. بیسویں صدی کے اوائل میں عبدالحکیم خان لودھی نے حیات لودھی نامی کتاب لکھی لیکن وہ روایتی قیسی نظریہ پر مشتمل تھی. اس کے بعد اکیسویں صدی میں جناب محترم سعود الحسن روہیلہ صاحب نے تاریخ لودھی لکھی وہ بھی قیسی نظریہ پر مشتمل اور شاہان لودھی کے گرد گھومتی ہے مطلب لودھی قبیلہ پر کوئی کام نہیں ہوا..یہی حال ماسٹر ریاض لودھی کی کتاب تاریخ لودھی کا ہے.
افغانستان میں جناب عبدالشکور رشاد صاحب نے پشتو زبان میں لودھیوں پر کتاب لودی پشتانہ لکھی لیکن انھوں نے بھی کوئی قابل ذکر معلومات لودھیوں کی تاریخ کھوجنے میں نہیں درج کیں.. سعد اللہ جان برق صاحب نے پشتون نسلیات اور ہندو کش میں لودھیوں کا اسکندر اعظم کے زمانے میں روم کے کنارے پر موجود ایک ریاست لیڈیا سے جا ملایا. دلیل یہ دی کہ نام میں مماثلت ہے اور وہاں کے ایک شہزادہ کو اسکندر اعظم نے قید کرکے ایشیا کے سفر پر ساتھ رکھا تھا. لیکن یہ بے ربط دلیل مجھے ہضم نہیں ہوتی. افغانستان کے مشہور و معروف محقق و استاد عبدالحی حبیبی نے غزنی کے ایک حکمران خاندان لوئکی کا ذکر اپنے ایک مقالہ میں کیا ہے.
بہرحال میں نے لودیوں اور لوئکیوں کے درمیان میں مماثلت ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک آرٹیکل لکھا تھا جس کا لنک ذیل میں درج ہے.
اس کے علاوہ ابھی تک لودھیوں پر کوئی کام نہیں ہوا.
بہرحال ہم آگے بڑھتے ہیں قیس کہانی کے مطابق قیس بن عبدالرشید کے تین بیٹے تھے جن میں سے سڑابن، غرغشت اور بیٹن.. بیٹن کی بیٹی بی بی متو کی شادی شاہان غور سے ایک پریشان حال غریب الوطن شہزادہ شاہ حسین غوری سے ہوئی.
شاہان غور کون تھے؟ تیرھویں صدی میں لکھی گئی کتاب طبقات ناصری کے مطابق شاہان غور ایران کے بادشاہ ضحاک کی نسل سے تھے.. ضحاک اب کون تھا؟ ضحاک شاہنامہ فردوسی میں گزرا ایک قدیم افسانوی کردار ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں. بہرحال فردوسی کے مطابق وہ شام کے رہنے والا عرب تھا. چونکہ عربوں کو اس زمانے میں ایرانی تازک کہتے تھے تبھی بعد میں آنیوالوں نے اس کو تاجک بنا دیا. جبکہ موجودہ دور کے تاجک عربوں کی نسل والے تاجک یا تازک نہیں بلکہ یہ قدیم ایرانی بولنے والے سغدیانی لوگ ہیں. لیکن کم فہم لوگوں نے غوریوں کی تاریخ کو وہ گھمایا کہ عربوں کے تاجک سے ہوتی ہوئی سغدیانیوں کے تاجک سے جا ملائی. آخری بات یاد رہے کہ طبقات ناصری کا مصنف غوری خاندان کے مخالف غزنوی خاندان کا ہمنوا و ہمدرد تھا تبھی اس کے اس بیان کی سند بھی مشکوک ہے. جبکہ وہ خود کہتا ہے کہ غوری فارسی زبان نہیں بولتے تھے. کوئی الگ زبان بولتے تھے. دوسرا غوریوں نے دیگر پشتون حکمرانوں کی طرح اپنے متعلق کوئی تحریری ریکارڈ نہیں چھوڑا. انکے متعلق جتنی بھی معلومات ہیں بعد میں آنیوالوں نے لکھی ہیں جیسے لودھیوں اور سوریوں کے متعلق تمام معلومات مغلوں سے ملتی ہیں. بہرحال شاہ حسین شنسبانی پشتون تھا.
اس شاہ حسین اور بی بی متو سے ابراہیم لودی پیدا ہوا (یہ ابراہیم لودھی وہ ابراہیم لودھی نہیں ہے جس کو بابر بادشاہ نے شکست دی بلکہ یہ اس سے کئی سو سال قبل گزرا ہے)
اس ابراہیم لودھی کے تین بیٹے ہوئے نیازی، سیانڑی اور دوتانی ان تینوں کی اولاد لودھی کہلائی.. بعد میں سب نے الگ الگ شناخت بنا لی لیکن پڑانگی قبیلہ نے لودھی کی شناخت کو بدستور جاری رکھا تبھی پڑانگی میں سے شاہو خیل قبیلہ کے فرزند بہلول لودھی نے لودھی سلطنت کی بنیاد رکھ کر لودھی نام کو مشہور کیا. یوں لودھیوں کی تاریخ اب فقط پڑانگی لودھیوں تک محدود ہوکر رہ گئی.. بلکہ پڑانگی میں بھی فقط شاہو خیل ،یوسف خیل اور بائی خیل تک.. جبکہ لودھی کی بقیہ دو قدیم شاخیں
نیازی و دوتانی تو آج بھی موجود ہیں.
سیانڑی آگے دو شاخوں میں منقسم ہوا پڑانگی اور اسمعیل. پڑانگی سے شاہو خیل، یوسف خیل، بائی خیل، سرک، بلچ، خیسور ہوئے. جبکہ اسمعیل آگے دو حصوں میں ہوا ایک سے سوری دوسرے سے لوہانی لوہانی ہندوستان میں مشہور ہوئے. لوہانی آگے مزید تقسیم ہوا جس سے مروت، دولت خیل، میاں خیل تتور وغیرہ نکلے ہیں.
تاریخ میں پہلی مرتبہ جس لودھی کا ذکر ملتا ہے وہ غزنوی حکومت کے بانی سلطان سبکتگین کے زمانے میں حاکم ملتان شیخ حمید لودھی تھے. گو کہ ان کے وجود پر بھی کچھ اختلاف پایا جاتا ہے. البتہ بعد میں پھر بلبن کے عہد ایک لودھی ملک شاہو خان لودھی ملتان پر حملے کرتا رہا اس کا ذکر موجود ہے. بعد میں تغلق کے زمانے میں بھی لودھی مشہور اور طاقتور رہے
جس کے نتیجے میں بعدازاں لودھی سلطنت کی بنیاد بھی رکھی.
لودھی سلطنت کے خاتمے کے بعد بھی لودھی مختلف زمانوں میں نامور ہوئے. جہانگیر کے زمانے میں خان جہان لودھی نامور جس کو شاہ جہاں کے زمانے میں بغاوت کے الزام میں قتل کیا گیا جس کی اولاد آجکل ضلع صوابی کے علاقے ٹوپی میں آباد ہے. جہاں سے صاحبزادہ عبدالقیوم خان نے تحریک پاکستان میں کردار ادا کیا.
اسی طرح ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے میں لودھیوں کا قدیمی قصبہ کوٹلا لودھیان آج بھی موجود ہے جس میں آج بھی لودھی خاندان آباد ہیں.
پنجاب کا شہر لدھیانہ بھی دراصل لودھی پشتونوں کی آبادی تھی جسکی وجہ سے وہ رفتہ رفتہ بگڑ کر لدھیانہ ہوگیا..
لودھیوں میں سے واحد نیازی اور دوتانی ہیں جو آج بھی افغانستان میں کسی نہ کسی صورت مجود ہیں لیکن وہاں پر یہ غلجیوں میں شمار ہوتے ہیں. ویسے میری ذاتی رائے میں لودھی بھی دراصل غلجیوں کی ہی ذیلی شاخ ہے.. بہرحال اس کیلئے میرے پاس کوئی ٹھوس دلائل موجود نہیں ہیں..
ہندوستان پاکستان میں لودھی شناخت والے لوگ بہت آباد ہیں لیکن اپنی تاریخ سے نابلد ہیں…
اس سے زیادہ میں کیا لکھوں مجھے سمجھ نہیں آرہی..
اظہر لودھی (براڈکاسٹر) ،ملیحہ لودھی (نمایندہ پاکستان اقوام متحدہ)، شائستہ لودھی (فنکار)، ساحر لودھی (فنکار)، جنرل خالد نعیم لودھی، لیفٹیننٹ جنرل ہارون السلام، کیپٹن سلمان سرور شہید وغیرہ شامل ہیں.
اب ہم فرداً فرداً لودھی سلسلے کی تمام شاخوں کا مختصرا تعارف اور تاریخ لکھیں گے۔

نیازی قبیلہ کا تعارف؛

نیازی پشتونوں کا مشہور و معروف لودی شاخ کا قبیلہ ہے جو اب تک افغانستان میں موجود ہے.
یہ واحد پشتون قبیلہ ہے جس کے لوگ بیک وقت فارسی، پشتو، پنجابی، سرائیکی، اردو، ہندی مادری زبان کے طور پر بولتے ہیں. یہ ان چند پشتون قبیلوں میں سے ایک ہے جو مستقل آباد کار کے ساتھ ساتھ ابھی تک کوچی یعنی خانہ بدوش روایات کو بھی زندہ رکھے ہوئے ہے..ساتھ ہی ساتھ یہ چار ممالک پاکستان افغانستان ہندوستان ایران تک آباد ہے کچھ بنگلہ دیش میں بھی سنے ہیں..
چونکہ نیازی باقی پشتون قبیلوں کی طرح ایک جگہ یکجا نہیں ہیں تبھی انکی تاریخ و ہجرت وغیرہ بھی مختلف ہے.
بہرحال ہم نیازیوں کے اس بڑے حصہ کا ذکر کریں گے جو ہندوستان کی طرف گامزن ہوا.
روایتی شجرہ کے مطابق لودی پشتونوں کی تین مرکزی شاخیں تھیں. جن میں نیازی، دوتانی اور سیانڑی تھے. دوتانی آج بھی موجود ہیں جبکہ سیانڑی آگے بہت تقسیم در تقسیم ہوئی جس کا احوال لوہانی، مروت، پڑانگی سوری وغیرہ کے باب میں آئے گا.
کہتے ہیں کہ شروع شروع میں نیازی غزنی کے جنوبی علاقے شلگر میں سکونت رکھتے تھے سردیاں وانا و وادی گومل میں گزارتے اور گرمیاں غزنی میں.. تیرھویں صدی میں وہاں پر انکا کسی وجہ سے اندرونی تنازعہ ہوگیا جس کی بنیاد پر کنڈی شاخ وجود میں آئی. تنازعہ کی وجہ سے ان میں پھوٹ پڑ گئی قبیلہ کا کچھ حصہ غزنی کو چھوڑ کر ٹانک نکل آیا جہاں سے یہ وانا آتے جاتے تھے. کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ انھوں نے پندرھویں صدی کے وسط میں بہلول لودھی کے دعوت پر ہندوستان کی راہ لی. یاد رہے کہ نیازیوں کی یہ ہجرت یکجا نہیں تھی سب سے آگے آگے سنبل نیازی تھے پیچھے عیسٰی خیل و مشانی جبکہ انکے پیچھے سرہنگ، مہیار، مچن خیل ،باہی وغیرہ.
المختصر ٹانک سے ہوتے ہوئے یہ نیازی پندرہویں صدی کے وسط میں موجود علاقے مروت میں پہنچے. جب سولہویں صدی کے ابتداء میں ملغل بادشاہ بابر نے بنوں پر حملہ کیا تو نیازیوں پر تاخت کا بھی ذکر کیا اس وقت عیسٰی خیل درہ تنگ کے پہاڑوں میں رہتے تھے. بہرحال شیر شاہ سوری کے نیازی رفتہ رفتہ موجود علاقہ مروت جو آج بھی صحرائی ہے اس زمانے میں بھی ویسا ہی ہوگا. سے آہستہ آہستہ آگے دریائے سندھ کے کناروں کی طرف ہجرت کرنی شروع کردی اور جنوب مشرق میں بھیرہ اور شمال مشرق میں مکھڈ کے نواح تک پہنچ گئے. جہاں پر ایک رشتہ پر تنازع پیدا ہوا جس میں شیر شاہ سوری کا بھتیجا سنبل نیازیوں کے ہاتھوں مارا گیا. جس کے جواب گورنر پنجاب و سندھ نے ظلمت کی مثال قائم کرتے ہوئے دھوکہ سے سنبل نیازیوں کے نو سو افراد کو قتل کر ڈالا. اس اندوہناک سانحہ میں نیازیوں کا خون نیازیوں کے ہاتھوں سے ہوا. علاقہ مروت میں جب نیازی تھوڑے رہ گئے تو زمینوں کے قبضے کی ہوس نے ان کے بیچ نفاق پیدا کردیا جس کا فائدہ پڑوس میں پناہ حاصل کرنے والے مروت قبیلہ نے اٹھایا اور باقی ماندہ نیازیوں کو شاہ جہاں کے دور کے آخری زمانے میں بیدخل کردیا. اس زمانے میں نیازیوں کا سردار مدی خان نیازی تھا. جو مروتوں سے جنگ میں مارا گیا جس کے بدلے میں قتال خان مروت قتل ہوا. اس کے بعد باقی ماندہ نیازی بھی میانوالی ان پہنچے. دوسری طرف پرانے زمانے میں جانے والے نیازیوں میں سے بہلول لودھی کے زمانے میں جمال خان سرہنگ خیل نے کافی نام کمایا اور سرہند و بہار کی حکمرانی پر فائز رہا. جبکہ شیر شاہ سوری کے زمانے میں تو نیازیوں نے ہندوستان میں عروج پایا ہیبت خان نیازی اور عیسٰی خان نیازی کے علاوہ درجن بھر نیازی امراء کے نام ہمیں تاریخی کتابوں میں ملتے ہیں. بہرحال شیر شاہ سوری کی وفات کے بعد اسلام شاہ سوری اور ہیبت خان نیازی نی تنازعہ ہوا جس میں ہیبت خان مارا گیا.
ہندوستان میں جب مغلوں کی حکومت قائم ہوئی تو اکبر کے زمانے میں محمد خان نیازی نے بہت نام کمایا جس نے دکن گجرات و سندھ کی فتوحات میں حصہ لیا. اس کے بعد اورنگزیب عالمگیر تک ہمیں نیازی قبیلے کی شخصیات کا ذکر کتابوں میں ملتا رہتا ہے.
ادھر میانوالی میں نیازیوں نے آہستہ آہستہ زمینات پر قبضہ شروع کردیا. گکھڑوں و دیگر جٹ و اعوان اقوام کے ساتھ انکے تنازعات ہوتے رہتے تھے جب احمد شاہ ابدالی کا زمانہ آیا تو انھوں نے میانوالی پر اپنا قبضہ بھرپور انداز میں مستحکم کرلیا. ساتھ ہی خان زمان خان نیازی کی سربراہی میں پانی پت کی لڑائی میں شامل ہو کر جرات و بہادری کی مثال قائم کی . جس کے بعد سے آج تک نیازی میانوالی میں سیاسی و سماجی لحاظ سے مقتدر چلے آتے ہیں. سکھوں کے زمانے میں بھی نیازیوں نے بھرپور مزاحمت کی. کیونکہ نیازی پشتونوں کا ہراول قبیلہ تھا تبھی جہاں جہاں سے گزرا وہاں وہاں پر پیچھے سے آنے والے پشتون قبائل کیلئے راہ ہموار کرتا گیا وہیں وہیں اس کا غیر پشتون قبائل سے سامنا بھی زیادہ ہوا جس کی وجہ سے اس قبیلے کے لوگوں میں آہستہ آہستہ پشتو زبان کی جگہ لوکل زبان جسے سرائیکی ہندکو یا پنجابی جو کہیں جگہ لیتی گئی. رنجیت سنگھ کی حکمرانی سے قبل تک پشتو موجود تھی لیکن بعد میں رنجیت سنگھ اور انگریزوں کی حکومت میں جو تھوڑی بہت پشتو بچی تھی وہ بھی نابود ہوگئی موجودہ زمانے میں واحد سلطان خیل قبیلہ پشتو بولتا ہے.
نیازی قبیلے کی کچھ شاخیں کوہاٹ و ہنگو میں بھی آباد ہیں. جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان کے نیازی زیادہ تر انگریز زمانے میں خانہ بدوش زندگی چھوڑ کر مستقل آباد کار بنے ہیں. ضلع ہوشیار پور میں بھی نیازی کافی آباد تھے جنہیں احمد شاہ ابدالی نے وہاں بسایا تھا.
قبیلہ عیسٰی خیل کو نیازیوں میں سرداری کا شرف حاصل ہے انکی یہ سرداری احمد شاہ ابدالی کے زمانے سے چلی آتی ہے گو کہ آجکل کے زمانے میں سرداری کا رواج ختم ہوگیا ہے مگر عیسٰی خیل قبیلہ کے خوانین سیاست میں پیش پیش ہیں.
موجودہ زمانے کی مشہور شخصیات میں سابقہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان، ایڈمرل محمد امجد خان نیازی، ڈاکٹر شیر افگن نیازی، جنرل امیر عبداللہ خان نیازی ،امیر عبداللہ خان نیازی آف روکھڑی ،جنرل ثناءاللہ خان نیازی، ایڈمرل کرامت رحمان نیازی، عطاء اللہ خان عیسٰی خیلوی، جنرل جاوید سلطان خان، پروفیسر غلام محمد نیازی شہید افغانستان، ملا عبدالمنان نیازی شہید افغانستان، عبیداللہ خان شادی خیل، منیر نیازی، مولانا کوثر نیازی، اجمل نیازی، مولانا عبدالستار خان نیازی، مصباح الحق، شاداب خان وغیرہ شامل ہیں

دوتانی قبیلہ کا تعارف:

دوتانی قبیلہ کا مرکز جنوبی وزیرستان کا علاقہ توئی خُلہ ہے. جبکہ اس قبیلے کی اچھی خاصی تعداد افغانستان میں بھی ڈیورنڈ لائن کے پار مکوڑ کے علاقے میں آباد ہے. اس قبیلے کے لوگ کوچی بھی ہیں جو سردیوں میں میانوالی، سے لیکر جنوب میں بلوچستان کے علاقے ژوب تک پھیل جاتے ہیں جبکہ گرمیاں اپنے علاقوں میں واپس جا کر گزارتے ہیں.
تاریخ؛
مخزن افغانی کے مطابق دوتانی، لودی کا تیسرا بیٹا اور نیازی کا بھائی تھا.
دیگر قبائل کے برخلاف مخزن افغانی نے دوتانی قبیلہ پر اس سے زیادہ کچھ تحریر نہیں کیا.
بعد میں آنے والے مؤرخین جیسا کہ حیات افغانی اور تاریخ خورشید جہاں ہے. اس میں بھی اس قبیلے پر کماحقہ بات نہیں کی گئی. نہایت مختصر سی معلومات درج کر کے ذمہ داری سر سے اتاری گئی..
اگر ہم ہندوستان کی تاریخ میں دوتانی قبیلہ کے افراد کو تلاش کریں تو میرے نظر میں دوتانی قبیلہ کی کوئی مقتدر شخصیت نظر نہیں آتی البتہ حسن خان دوتانی جو سکندر لودھی کے زمانے میں راپڑی کا گورنر تھا جبکہ دوسری شخصیت سکندر خان دوتانی کا ذکر ملتا ہے جو کہ شاہ جہاں کے زمانے میں ایک منصبدار تھا جس نے خان جہاں لودھی کی حمایت میں بغاوت کی تھی. بعد میں وہ مغل حکومت کا ہمنوا بن گیا جس کے نتیجے میں اسکو برہان پور کا حاکم بنایا گیا. اس کے ایک بیٹے شہباز خان دوتانی کا بھی ذکر ملتا ہے. میجر ریوراٹی کے مطابق ہندوستان میں بلخصوص دکن میں دوتانی قبیلہ کے کچھ لوگ آباد ہیں. . بہرحال اتنا قدیم قبیلہ ہونے کے باوجود کی اسکی آبادی انتہائی قلیل ہے.
اس کی وجہ کیا ہے یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے. کیونکہ اگر دوتانی قبیلہ کے لوگ ہندوستان کی طرف ہجرت کر گئے ہوتے جیسا کہ سروانی، اور سوری قبیلہ کے لوگ گئے تو یقیناً کہیں کوئی آثار تو ملتے..
گو کہ افغانستان کی تاریخ ہندوستان کی تاریخ کی طرح اتنی مربوط نہیں ہے لیکن پھر بھی دستیاب تاریخ میں دوتانی قبیلہ کا ذکر کہیں بھی نہیں ملتا..
یقیناً اس قبیلے کے افراد نے کردار ضرور ادا کیا ہوگا. لیکن کوئی صفحہ قرطاس پر اپنی جگہ نہ بنا سکا..
البتہ جب ہم بیسویں صدی کی تاریخ کو دیکھتے ہیں جب یہاں انگریزوں کی حکومت آئی اور وہ وزیرستان پر قبضہ کیلئے یہاں کے قبائل سے برسرِ پیکار ہوئی تو دوتانی قبیلہ کا ذکر محسود و وزیر قبائل کے ساتھ ضمناً آنے لگا..
دوتانی قبیلے کے لوگوں نے انگریزوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کی اور دیگر حریف قبائل کے ساتھ باوجود اس کے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جان کی بازی لگا کر خود کو انگریزی غلامی سے بچائے رکھا.
دوتانی قبیلہ نے افغانستان کے بارکزی خاندان کی حکومت کو ہر ممکن حد تک سپورٹ کیا جب بچہ سقہ کابل پر قابض ہوا تو محسود و وزیر قبائل کے ساتھ دوتانی قبیلہ بھی شانہ بشانہ اس جنگ میں شریک ہوا.
دوتانی قبیلہ کے لوگوں نے کشمیر جہاد میں بھی حصہ لیا اور کشمیر کی آزادی میں اپنا حصہ ڈالا. اس جنگ میں فلاں فلاں نامور ہوئے.
لیکن چونکہ اس قبیلے کی افرادی قوت قلیل ہے تبھی دوتانی قبیلہ کی تاریخ خاطر خواہ محفوظ نہیں ہوسکی اور نہ ہی کسی نے اس کام کیلئے زحمت کی ہے.
حتیٰ کہ جدید زمانے میں بھی دوتانی قبیلہ پر پشتو، فارسی زبان میں کوئی آرٹیکل، لٹریچر میری نظر سے نہیں گزرا. بھلا ہو جناب محترم علی محمد دوتانی صاحب کا جنھوں نے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوتانی قبیلہ پر ایک کتاب لکھ ڈالی. دوتانی قبیلہ کو جناب علی محمد دوتانی صاحب کو تا قیامت شکر گزار رہنا چاہیے. جنھوں نے اقوام کی تاریخ میں دوتانی قبیلہ کی تاریخ کو محفوظ کرنے کیلئے ابتدا کی. علی محمد دوتانی صاحب کی کتاب کے باوجود ابھی بھی دوتانی قبیلہ پر مزید کام کرنا باقی ہے…
دوتانی قبیلہ کو افغانستان میں دفتانڑی(دفتاڼي) بھی لکھا اور بولا جاتا ہے.

پڑانگی قبیلہ کا تعارف:

پڑانگی پشتونوں کا قبیلہ ہے جو تاریخ میں دیگر شاخوں کی طرح اپنی کوئی مؤثر شناخت بنانے میں ناکام رہا. اس کی وجہ یہ ہے کہ پڑنگی شاخ سے بہلول لودی کا تعلق تھا. لیکن اس نے پڑنگی شناخت کی بجائے لودی شناخت کو رواج دیا. پس ہندوستان میں موجود لودھیوں کی جتنی بھی تاریخ ہے دراصل پڑنگی قبیلہ کی ہی ہے لیکن اب یہ باریک نقطہ ہرکسی کے علم میں نہیں ہے..
افغانستان میں پڑنگی اب مفقود ہیں جبکہ دامان و ٹانک میں بھی خال خال گھرانے موجود ہیں. میرے ایک کرم فرما جناب ہیبت خان پڑنگی کے مطابق ٹانک کے موضع نصران، گومل بازار، پٹھان کوٹ میں قریب دو صد گھرانے پڑانگیوں کے موجود ہیں
پنیالہ و میانوالی میں آباد بلچ قبیلہ بھی پڑنگی لودھیوں کی نشانی ہے.
سننے میں آیا ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کوٹلہ لودھیان کے لوگ بھی دراصل پڑنگی لودھی ہیں..
پرانی تاریخ کے مطابق لودھی کے تین بیٹے تھے ایک نیازی، دوسرا سیانڑی تیسرا دوتانی.
سیانڑی کے آگے دو بیٹے ہوئے ایک پڑنگی دوسرا اسمعیل
. پڑنگی سے پھر آگے یوسف خیل، سُرک، شاہو خیل، بلچ اور خیسور قبائل وجود میں آئے.
شاہو خیل قبیلہ سے بہلول لودھی کا خاندان ہوا جبکہ یوسف خیلوں سے دولت خان لودھی گورنر پنجاب کا جس نے ابراہیم لودھی کے خلاف مغل بادشاہ بابر کو حملے کی دعوت دی.
یوسف خیل، شاہو خیل اور سُرک ہندوستان چھوڑ گئے جب بہلول لودھی بادشاہ بنا جبکہ بلچ و خیسور بدستور آج بھی یہاں پر موجود ہیں.
کہتے ہیں کہ پڑنگی لودھی اؤائل زمانہ میں درہ گومل کے لب پر آباد تھے. غزنی تک آتے جاتے تھے. مگر جب نیازی نوہانیوں نے ادھر کا رخ کیا تو یہ پیچھے ہٹنا شروع ہوگئے.
لوہانیوں نے تو بلکل ہی پڑنگی لودھیوں سے دامان و ٹانک چھین لیا. اور یہ لوگ ہندوستان کا رخ کر گئے جبکہ شاہو خیلوں کے بارے میں افسانہ شاہان میں لکھا ہے کہ ان کی سنبل نیازیوں کے ساتھ ان بن ہوگئی سنبل نیازی کافی طاقتور اور خود سر تھے بہر شاہو خیلوں نے سنبل نیازیوں کا ایک بندہ قتل کردیا جس کے بعد یہ ٹانک چھوڑ کر ہندوستان فرار ہوگئے. جہاں پر سنبل نیازیوں نے پیچھے کرکے بہلول لودھی کے باپ کالا خان لودھی کو قتل کرکے اپنا بدلا پورا کیا. تبھی لودھیوں کے زمانے میں نیازیوں کے شخصیات کا ذکر بہت کم ملتا ہے کیونکہ بہلول نیازیوں سے بچپن سے ہی آزردہ تھا. لیکن پھر بھی سرہنگ خیل نیازیوں کے کچھ افراد اعلیٰ منصب حاصل کرنے میں کامیاب رہے.
پڑانگی لودھیوں کی تاریخ پر کوئی مفصّل کتاب نہیں لکھی گئی جتنے بھی پڑنگی لودھی ہیں سبھی خود کو فقط لودھی کے نام سے پہچان کراتے ہیں. اور جو کتابیں لودھیوں پر لکھی بھی گئیں ہیں ان میں سارے کا سارا ذکر فقط شاہان لودھی کا ہے..
۔اس سے زیادہ مجھے علم نہیں ہے پڑنگی لودھی کے بارے میں جبکہ بلچ اور خیسور پر ہم آگے لکھیں گے..

لوہانی قبیلہ کا تعارف:

لوہانی پشتونوں کا عہد رفتہ کا ایک مشہور اور معروف قبیلہ تھا. جس نے لودھی پشتونوں کی سلطنت میں خوب نام کمایا.
مگر آجکل اس کی شاخیں جداگانہ شناخت رکھتی ہیں جو لوہانی سے زیادہ معروف ہیں.
بہرحال پھر بھی ہندوستان جانے والے اور ایک انتہائی محدود تعداد جو افغانستان میں موجود ہے جو ابھی تک خود کو لوہانی /لوانڑی کے نام سے شناخت کراتے ہیں.دولت خان لونڑای مشہور شاعر گزرا ہے.
شجرہ کے مطابق لودی کے تین بیٹے تھے نیازی، سیانڑی اور دوتانی.
سیانڑی کے آگے دو بیٹے ہوے ایک پڑنگی جس سے بہلول لودی بادشاہ کا خاندان اور پنیالہ کے بلچ پٹھان ہیں. جبکہ دوسرا بیٹا اسمعیل تھا.
اس اسمعیل کے آگے تین بیٹے ہوئے ایک سور جس سے شیر شاہ سور کا قبیلہ نکلا جبکہ دوسرا لوہانی اور تیسرا مہیپال.
لوہانی کی زوجہ اول مسمات شیری سے مروت قبیلہ پیدا ہوا اس گروہ کو سپین لوہانی کہا جاتا ہے جبکہ زوجہ دوم مسمات توری سے مما خیل، میاں خیل، دولت خیل (بشمول کٹی خیل نواب ٹانک)، اور تتور قبائل نکلے. جنھیں تور لوہانی کہا جاتا ہے.
سولہویں صدی تک مروت، میاں خیل، دولت خیل، تتور اور مما خیل وغیرہ سارے اپنی شناخت لوہانی سے کراتے تھے.
لوہانی کو افغانستان میں لوانڑی بھی کہتے ہیں جبکہ ہندوستان میں لوہانی کو نوحانی بھی لکھا جاتا رہا ہے.
کہتے ہیں کہ مروتوں کا اصل وطن غزنی کا علاقہ کٹہ واز تھا.. جہاں پر یہ گرمیاں گزارتے تھے. جبکہ سردیوں میں مویشی چرائی کے واسطے کبھی کبھار وانا کی طرف نکل آتے تھے. حیات افغانی کے مطابق کٹہ واز میں آج بھی ایک موضع کا نام خرابہ مروتان موجود ہے.
روایات کے مطابق کٹہ واز میں سپین لوہانی (مروتوں) کا اپنے پڑوسی قبیلہ سلیمان خیل غلجیوں کے ساتھ ایک عورت کے معاملے پر تنازعہ ہوگیا. جس پر سلیمان خیلوں کو انکے بھائی بند اقوام اندڑ و ترکی کی اعانت حاصل تھی جبکہ دوسری طرف سپین لوہانیوں کو اپنے بھائی بند تور لوہانی قبائل کی مدد حاصل تھی. لیکن بالآخر لوہانیوں کو غلجیوں کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور یوں تمام لوہانیوں کو اس علاقے سے بیدخل ہونا پڑا. لوہانی قبائل درہ گومل کے راستہ دامان و ٹانک میں آن پہنچے. جہاں پر پڑنگی لودی قابض تھے. لوہانی لودیوں نے پڑنگیوں کو شکست دیکر ان علاقوں پر قبضہ کرلیا. پڑنگی لودھیوں کی اکثریت ہندوستان کی طرف کوچ کر گئی جہاں پر انکی حکومت تھی. بعد میں بہت سے لوہانی بھی بہلول لودھی کی دعوت پر ہندوستان چلے گئے.
ہندوستان کی تاریخ میں لوہانیوں نے بہت نام کمایا ہے بلخصوص لودھیوں کے زمانے میں یہ بہت اعلیٰ مراتب پر تعینات رہے.
جس میں ابراہیم خان لوہانی (حاکم اوٹاہ) نے بہلول لودی کے زمانے شہرت پائی اس کے بعد سکندر لودھی کے زمانے میں ایک نوہانی خان خاں کے عہدہ پر بھی فائز ہوا جو ایک مقتدر درباری کا ہوتا تھا. اس کے علاوہ ایک دریا خان لوہانی بھی تھا جو سرہند کا گورنر رہا.. جس کا مقبرہ دہلی میں موجود ہے.
سکندر لودی کے زمانے میں مبارک خان نوہانی نے بھی کافی شہرت حاصل کی جس کو بہار کا گورنر بنایا گیا جہاں پر ابراہیم لودھی کے زمانے میں اسکے بیٹے بہادر خان نوہانی نے بغاوت کرکے اپنی خود مختاری کا دعویٰ کیا. نوہانیوں کی یہ ریاست ہمایوں بادشاہ کے ہاتھوں اختتام کو پہنچی. جس کی تفصیلات کافی طویل ہیں. اسی نوہانی ریاست کے خاتمے کے بعد شیر شاہ سوری ابھر کر سامنے آیا.
اس کے بعد شیر شاہ سوری کے عہد میں بھی نوہانی موجود رہے لیکن چونکہ نوہانیوں کی ریاست کے خاتمے کا ایک محرک شیر شاہ سوری بھی تھا تبھی دونوں اطراف میں اسطرح تعلقات استوار نہ ہوسکے..
جب مغلوں کی حکومت ہندوستان میں قائم ہوئی تو اسلام شاہ سوری کے ایک کمانڈر تاج خان کرانی نے بنگال میں کرانی سلطنت کی بنیاد رکھی. جو اکبر بادشاہ کے زمانے میں اپنے انجام کو پہنچی اس کرانی سلطنت کے زوال کے دنوں میں ایک قتلو لوہانی نامور ہوا جو جنگ میں مارا گیا. جس کے بارے لوگوں کا خیال ہے کہ موجودہ نوابین ٹانک کٹی خیل خاندان کا بانی وہی تھا. چونکہ یہ ایک قیاس ہے کہ تبھی میں اس سے متفق نہیں ہوں..
مغلوں کے زمانے میں بھی لوہانیوں نے عسکری خدمات ہندوستان میں دیتے رہے. لیکن کوئی قابل ذکر شخصیت میری نظروں سے نہیں گزری.
لوہانی ہندوستان میں زیادہ تر بہار، مدھیہ پردیش اور اتر پردیش کے علاقوں میں آج بھی آباد ہیں. اسکے علاوہ پنجاب کے علاقہ ہوشیار پور و جالندھر میں بھی لوہانی آباد تھے جو ہجرت کرکے شکر گڑھ کے علاقے میں زیادہ تر آباد ہوئے ہیں..
ہندوستان کے صوبہ گجرات میں لوہانیوں کی ریاست انتہائی چھوٹی سی ریاست پالن پور بھی تھی جو شاہان گجرات و مغلوں کے زمانے سے لیکر انگریزوں کے زمانے تک رہی بعد میں ہندوستان میں ضم ہوگئی.
بدقسمتی سے نوہانیوں پر کوئی الگ سے کتاب تحریر نہیں ہوسکی جسکی وجہ سے ہمیں انکے حالات اور تاریخ پڑھنے کیلئے متفرق کتابوں کا سہارا لینا پڑتا ہے.
بہرحال ایک شاندار تاریخ رکھنے والا لوہانی قبیلہ اب ماضی کے دھندلکوں میں دب گیا ہے.

سوری قبیلہ کا تعارف:

سور پشتونوں کا ایک انتہائی غیر معروف اور چھوٹا سا قبیلہ تھا جس کو شیر شاہ سوری نے شناخت دے کر تاابد تابندہ کردیا.
کچھ مؤرخین سلاطین غور کے قبیلہ کو بھی سوری بتاتے ہیں کیونکہ وہاں کے بادشاہ اپنے ناموں کے ساتھ سوری کا لاحقہ استعمال کرتے تھے۔ طبقات ناصری نے ماہویہ سوری درج کیا ہے. لیکن اس پر آراء مختلف ہیں.
شجرہ کے مطابق لودی کے تین بیٹے تھے نیازی، سیانڑی اور دوتانی.
سیانڑی کے آگے دو بیٹے ہوے ایک پڑنگی جس سے بہلول لودی بادشاہ کا خاندان اور پنیالہ کے بلچ پٹھان ہیں. جبکہ دوسرا بیٹا اسمعیل تھا.
اس اسمعیل کے آگے تین بیٹے ہوئے ایک سور جس سے شیر شاہ سور کا قبیلہ نکلا جبکہ دوسرا لوہانی اور تیسرا مہیپال..
کہتے ہیں کہ سور دراصل پشتو زبان میں سرخ رنگ کہتے ہیں. پرانے زمانے میں سور قبیلہ بھی دامان میں پڑنگی قبیلہ کے پڑوس میں آباد تھا. ٹانک میں موجود روہڑی گاؤں شیر شاہ سوری کے اجداد کی جنم بھومی ہے.
دامان میں رہتے ہوئے عورت کے تنازع پر سروی اور سروانی پشتونوں میں ٹھن گئی جس کے نتیجے میں ایک خوفناک جنگ ہوئی.
دونوں قبائل کی افرادی قوت بکل معدوم ہونے کے قریب جا پہنچی. جس کے نتیجے میں سوری قبیلہ اپنی باقی ماندہ افرادی قوت کو بچانے کیلئے ہندوستان کی طرف عازم سفر ہوا جہاں پر وہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بکھر کر آباد ہوا. سوریوں کی افرادی قوت کی کمی کا اس بات سے اندازہ لگائیں جب سنبل نیازیوں نے شیر شاہ سوری کے بھتیجے مبارک خان کو قتل کیا تو شیر شاہ سوری نے ہیبت خان نیازی گورنر پنجاب کو انتہائی سخت خط لکھا کہ سوری پہلے ہی تعداد میں کم ہیں اگر نیازیوں کا یہی رویہ رہا تو سوری دنیا سے معدوم ہوجائیں گے. جس کی تفصیل ہم پہلے لکھ چکے ہیں
بہرحال ہندوستان میں بھی اب اس قبیلے کے افراد کا ذکر انتہائی غیر معروف ہے. کچھ گھرانے ضلع ہوشیار پور میں سنے گئے ہیں جن کے بارے میں افاغنہ ہوشیار پور کے مصنف ایوب خان نے زکر کیا ہے.
افغانستان میں یہ قبیلہ تقریباً نابود ہے کہیں بھی انکا ذکر نہیں سنا گیا. جبکہ ٹانک و دامان میں بھی اب انکا کوئی نام و نشان میسر نہیں..
قاسم خان سوری پانچ سو سال بعد سوری قبیلہ کا نامور شخص ہوا ہے لیکن اس کے بارے میں سنا ہے کہ ہندوستان سے یہاں آکر کوئٹہ آباد ہوئے ہیں اسی طرح میری یونیورسٹی کے زمانے میں ایک سوری میرا سینئر تھا لیکن اسکو شیر شاہ سوری کے علاوہ مزید کوئی تاریخ کا علم نہیں تھا..

میاں خیل قبیلہ کا تعارف:

میاں خیل قبیلہ ڈیرہ اسماعیل خان کے جنوبی علاقوں چودھواں میں زیادہ تر آباد ہے.
اس قبیلے کی مشہور شخصیات میں سردار عطاء اللہ خان مرحوم، سردار ثناء اللہ خان میاں خیل صوبائی وزیر، آئی جی سندھ شاہد حیات خان اور چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس مظہر عالم میاں خیل مشہور شخصیات میں شامل ہیں
کہتے ہیں کہ لودی کے تین بیٹے تھے ایک نیازی، دوسرا سیانڑی تیسرا دوتانی..
سیانڑی کے آگے دو بیٹے تھے ایک پڑانگی دوسرا اسمعیل..
اسمعیل کے آگے دو بیٹے تھے ایک لوہانی دوسرا سوری..
اس لوہانی نے دو شادیاں کیں. اول زوجہ سے مروت پیدا ہوئے جن کو سپین لوہانی کہتے ہیں جبکہ زوجہ دوم سے جو اولاد ہوئی وہ تور لوہانی کہلائی. تور لوہانی میں دولت خیل، میاں خیل اور تتور شامل ہیں.
اس آرٹیکل میں ہم میاں خیلوں کا ذکر کریں گے باقی ہر آئندہ آرٹیکل میں بات کریں گے.
کہتے ہیں کہ یہ سارے لوہانی کٹہ واز کے علاقے میں رہتے تھے جہاں پر سپین لوہانیوں کا سلیمان خیل غلجیوں سے کسی عورت کے تنازع پر جھگڑا ہوگیا جس کے نتیجے میں تور و سپین لوہانیوں نے ملکر غلجیوں کے خلاف جنگ لڑی لیکن شکست انکا مقدر بنی اور یوں دولت خیل اپنے دیگر لوہانی قبیلوں کے ساتھ براستہ گومل ٹانک و دامان آ گئے جہاں پر پڑانگی و سروانی قبائل آباد تھے جنھیں شکست دیکر انھوں نے ٹانک و دامان پر قبضہ کیا. اس علاقے کو آپس میں تقسیم کرلیا.
چرن جیت لعل کے بیان کے مطابق جب پندرھویں صدی میں لوہانیوں نے ٹانک و دامان کو آپس میں تقسیمِ کیا تو چودھواں کا علاقہ جہاں سروانی آباد تھے وہ میاں خیلوں کے حصہ میں آیا جہاں پر میاں خیلوں نے استریانی پشتونوں کے ساتھ الحاق کرکے سروانیوں کو یہاں سے نکال کر خود قابض ہوگئے..
بعد میں جب نواب کٹی خیلوں کو مروتوں و اندرونی دولت خیلوں کے خلاف بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑا تو انھوں نے گنڈاپوروں کو جو اس وقت تک خانہ بدوش تھے کو میاں خیلوں کی کچھ جگہوں پر آباد ہونے کا حکم دیا جس سے میاں خیلوں و گنڈاپوروں کے درمیان تنازعات شروع ہوگئے لیکن کٹی خیلوں کی سرداری کے سبب میاں خیل گنڈاپوروں کو اپنے مقبوضہ جات سے ہٹانے میں ناکام رہے. کیونکہ میاں خیلوں کی افرادی قوت بھی گنڈاپوروں کی نسبت قلیل تھی. یاد رہے کہ موسی زئی انکی سب سے بڑی اور معروف شاخ ہے..

مخزن  افغانی کے قول کے  مطابق  سلطان سکندر لودھی کی طرف سے صوبہ  بہار کے حاکم بہادر خان جنھوں نے بعد ازاں لوہانی سلطنت کی بنیاد رکھی وہ بھی میاں خیل قبیلہ سے تھے۔اسی طرح اکبر بادشاہ کے زمانے میں خواجہ عثمان نوہانی بھی جو کہ بنگال کا خود مختار حاکم رہا وہ بھی میاں خیل قبیلہ کا فرزند تھا۔
میاں خیلوں کے متعلق زیادہ تر معلومات ہمیں چرن جیت لعل کی کتاب تاریخ قسمت ڈیرہ اسماعیل، حیات افغانی اور گزٹیر آف ڈیرہ اسماعیل خان سے ملتی ہیں.
ان پر مزید کوئی باقاعدہ کتاب اب تک نہیں لکھی گئی.

سُرک قبیلہ کا  تعارف:

لودھی پشتونوں کی شاخ پڑانگی کی یہ ایک ذیلی شاخ ہے جو افغانستان اور پاکستان کے پشتون علاقوں میں بلکل عنقا ہے. یوں سمجھیں کہ اس شاخ پر آج تک کسی نے کوئی کام نہیں کیا.
الحمد للہ ہمیں اس بات کا اعزاز جاتا ہے کہ ہم اس پشتون قبیلے کی تاریخ کو پہلی بار مرتب کرکے دیگر پشتونوں تک پہنچا رہے ہیں..
پرانی تاریخ کے مطابق لودھی کے تین بیٹے تھے ایک نیازی، دوسرا سیانڑی تیسرا دوتانی.
سیانڑی کے آگے دو بیٹے ہوئے ایک پڑنگی دوسرا اسمعیل
. پڑنگی سے پھر آگے یوسف خیل، شاہو خیل،سُرک، بلچ اور خیسور قبائل وجود میں آئے.
شاہو خیل قبیلہ سے بہلول لودھی کا خاندان ہوا جبکہ یوسف خیلوں سے دولت خان لودھی گورنر پنجاب کا جس نے ابراہیم لودھی کے خلاف مغل بادشاہ بابر کو حملے کی دعوت دی.
یوسف خیل اور شاہو خیل ہندوستان چھوڑ گئے جب بہلول لودھی بادشاہ بنا جبکہ بلچ و خیسور بدستور آج بھی یہاں پر موجود ہیں.
کہتے ہیں کہ پڑنگی لودھی اؤائل زمانہ میں درہ گومل کے لب پر آباد تھے. غزنی تک آتے جاتے تھے. مگر جب نیازی نوہانیوں نے ادھر کا رخ کیا تو یہ پیچھے ہٹنا شروع ہوگئے.
سُرک جو اس زمانے میں ایک نہایت چھوٹا سا قبیلہ تھا یہ بھی اپنے دیگر پڑانگی رشتہ داروں کے ساتھ ہندوستان کی طرف عازم سفر ہوا جہاں پر انھوں نے لودھی سلطنت میں اپنی خدمات سرانجام دیں.. لیکن اس قبیلے کی کوئی شخصیت تاریخ میں اپنا مقام نہ بنا سکی. اس کے بعد شیر شاہ سوری کے زمانے میں بھی سُرک پشتونوں نے بھرپور حصہ لیا. اس زمانے میں خضر خان سُرک انتہائی نامور ہوا جس کو شیر شاہ سوری کے صوبہ بنگال کا گورنر لگایا. اس کے بعد سرک تاریخ میں کہیں بھی نظر نہیں آتے.
اس کے بعد ہمیں جناب ایوب خان کی لکھی گئی افاغنہ جالندھر و افاغنہ ہوشیار پور کتابوں میں سرک افغانوں کی معلومات ملتی ہیں جو درج بالا اضلاع میں آباد تھے.

ڈیرہ اسمعیل خان کے علاقہ پنیالہ میں ایک کوٹ سرک نامی قدیمی آبادی بھی موجود تھی جس کے کھنڈارات اب نابود ہوچکے ہیں ۔غالبا سرک پٹھانوں کی ایک آبادی تھی۔
ہندوستان میں یقیناً دیگر علاقوں میں بھی سرک افغان آباد ہونگے لیکن انکے بارے میں ہمارے پاس کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں.
ماضی قریب میں سُرک قبیلہ سے لئیق احمد خان آئی جی پنجاب پولیس گزرے ہیں جن کے بیٹے کے ہاں امیر عبداللہ خان نیازی آف روکھڑی کی صاحبزادی بیاہی ہوئی تھی
مزید اس قبیلے کے بارے میں مجھے کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں ہوسکا..

خیسور قبیلہ کا تعارف:

خیسور قبیلہ کوہ سرخ یا جس کو رتہ پہاڑ کہتے ہیں کہ دونوں طرف ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے بلکل شمالی کونہ پر آباد ہیں جو عیسٰی خیل تحصیل کے علاقے کنڈل سے ملحقہ ہے
خیسور ایک انتہائی چھوٹا سا قبیلہ ہے. جو تاریخ میں کوئی قابل ذکر جگہ بنانے میں ناکام رہا تبھی پشتون تاریخ کے اکثر مؤرخین نے اس کو نظرانداز کیا اور اس کا ذکر تک اپنی کتابوں میں نہیں کیا جبکہ چند ایک جنھوں نے ذکر کیا بھی تو انھوں نے بھی لاپرواہی اور بس خانہ ہُری کرکے جان چھڑائی.
خیسور قبیلہ محدود افرادی قوت ہونے کے باوجود ایک انتہائی جری اور دلیر قبیلہ ہے ماضی قریب میں وہ اپنے علاقے کی حفاظت کیلئے اپنے پڑوسی قبائل بلخصوص بلچ اور مروتوں کے ساتھ حالت جنگ میں رہا اور کئی لڑائیاں لڑیں جن کا مختصراً ذکر گزٹیر آف ڈیرہ اسماعیل خان میں موجود ہے.
میرے پاس موجود کتابوں میں سب سے پرانا ذکر خیسور قبیلہ کا حیات افغانی میں ملتا ہے.
حیات افغانی کے مطابق خیسور خود تو لودھی قبیلہ سے تعلق کے دعویدار ہیں لیکن انکا کہیں سے مستند شجرہ نہیں ملا جو ان کے اس دعویٰ کی تائید کرتا ہو. اس کے علاوہ حیات افغانی کا مصنف لکھتا ہے کہ انکے قد کاٹھ اور جسمانی وضع قطع پٹھانوں جیسی نہیں ہے. جبکہ انکی بڑی شاخ عمر خیل ہے.
اس کے بعد اگلا بیان ہمیں چرن جیت لعل کی کتاب تاریخ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے ملتا ہے مگر وہ بھی اپنے پیشرو حیات افغانی کے بیان کی تائید کرتے ہوئے لودھی ہونے پر شکوک کا اظہار کرتا ہے. اور انھیں سروانی قبیلہ کی شاخ بتلاتا ہے.
مسٹر ٹکر گزٹیر آف ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی یہی بات دہراتے نظر آتے ہیں کہ ان ماخذ نامعلوم ہے شاید یہ لودھی پشتونوں کے ساتھ آئے ہوں لیکن انھیں خالص پٹھانوں میں شمار نہیں کیا جاتا.
درج بالا تینوں مؤرخین نے بذات خود خیسور علاقے میں کبھی قدم بھی نہ رکھا ہوگا. یقیناً ان لوگوں کو خیسور قبیلہ سے مخالفت رکھنے والے افراد نے گمراہ کن معلومات دی ہیں.
ان بیانات کی نفی پشتون تاریخ پر سند کی حیثیت رکھنے والے میجر رواٹی اپنی کتاب نوٹس آن افغانستان میں کرتے ہیں.
جنھوں نے باقاعدہ خیسور قبیلہ کے علاقے کا وزٹ کیا اور انکی معلومات اکھٹی کیں.
دوسری تاریخ خورشیدِ جہاں میں گنڈاپور صاحب نے بھی درج بالا افراد کے بیانات کی تائید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ خیسور پڑانگی کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن انکا ہونا مشکوک ہے. گنڈاپور صاحب تو اس علاقے سے تعلق رکھنے والے تھے مگر انھوں نے بھی خیسوروں کے ساتھ بے اعتنائی کا رویہ رکھ جان چھڑائی.
میجر ریوارٹی کے مطابق خیسور پڑانگی لودھی کی شاخ ہیں. انکے مطابق پڑانگی کے نو بیٹے تھے جن میں سے ایک کا نام خاص یار خان تھا جو رفتہ رفتہ بگڑ کر مختصراً خیسور ہوگیا..
میجر ریوارٹی نے حیات افغانی کے مصنف حیات خان پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ وہ پشتونوں کی تاریخ سے ناواقف ہیں اور ان کے علم کی یہ حالت ہے کہ وہ افغان اور پٹھان کو دو الگ الگ اقوام سمجھتے ہیں. انھوں نے ان افراد کو بھی نشانہ بنایا جو خیسوروں کو لوہانی کی شاخ بتاتے ہیں.
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ سروے کے مطابق تو خیسوروں کی تعداد چھ تا سات ہزار درج ہے لیکن درحقیقت خیسور پھر بھی کمزور قبیلہ ہے.
ہمارے عزیزم جناب محترم اقبال خان نیازی صاحب نے بھی خیسور کو تتور قبیلہ کی ذیلی شاخ لکھ کر لوہانیوں میں شامل کر دیتے ہیں. جس کو ڈیڑھ سو سال پہلے ہی میجر ریوارٹی غلط کہہ چکے ہیں جبکہ عمر خیل قبیلہ کو
شیر علی خان بنوچی کے شجرہ کے توسط سے نیازی لکھ دیتے ہیں. ویسے شیر علی خان بنوچی کی کتاب میں مجھے ایسا کوئی حوالہ نہیں ملا. مسٹر ٹکر عمر خیل اور ملی خیل کا بیان خیسور سے جدا کرکے لکھتا ہے یعنی اس کے مطابق یہ دونوں خیسور کی شاخیں نہیں ہیں. اور یہ بات درست ہے کہ ملی خیل، عمر خیل اور لکی مروت چھوڑ جانے والے خان خیل خیسور نہیں ہیں. بلکہ وہ کس پشتون شاخ سے ہیں معلوم نہیں لیکن جناب امان اللہ خان بلچ صاحب جو کہ موجودہ دور میں پنیالہ و گردونواح کی پشتون تاریخ پر عمیق نظر رکھتے ہیں انکے مطابق یہ تینوں یعنی عمر خیل، ملی خیل اور خان خیل پڑنگی لودھیوں کی شاخیں ہیں جو اپنی تاریخ سے ناواقف ہیں.
پس ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ خیسور نا صرف کھرے پٹھان ہیں بلکہ پڑانگی لودھی کی شاخ ہیں. چونکہ وہ ایسے علاقے میں ا کر آباد ہوئے جو کسی زمانے میں جٹ و بلوچ اقوام کا تھا جن کی تعداد آج بھی زیادہ ہے تو ان اقوم سے رشتہ براری کے سبب انکی شکل و شباہت میں کچھ فرق آگیا جس کا ذکر حیات افغانی نے کیا ہے. جبکہ زبان تبدیلی قدرتی عمل ہے جس کے متاثرین میں ہم نیازی بھی شامل ہیں جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان کے گنڈاپور، کٹی خیل، دولت خیل، میاں خیل بھی بیک وقت پشتو اور سرائیکی بولتے ہیں جوکہ معاشرے کی ضرورت ہے.
بہرحال چرن جیت لعل کے مطابق شروع شروع میں خیسور ٹانک میں رہتے تھے. جب ہمایوں بادشاہ تخت دہلی کے ہندوستان واپس آیا تو اس نے پڑنگی لودھیوں پر غصہ نکالنے کیلئے لوہانیوں کو ابھارا. جس کی وجہ سے دیگر پڑانگی لودھیوں کے ساتھ خیسور بھی ٹانک سے نکل کر موجودہ موضعات رحمانی خیل وغیرہ کے قریب سکونت اختیار کی. بعد میں دیگر لودھی شاخوں کے ساتھ ملکر جٹ اقوام کو یہاں سے بیدخل کرکے قبضہ کرلیا. جبکہ خان خیل پٹھانوں کے علاقوں پر عیسٰی خیل نیازیوں کی مدد سے چڑھائی کرکے قبضہ کیا اور انھیں یہاں سے بیدخل کیا. خیسور قبیلہ کے لوگ بھی پانی پت کی لڑائی میں شامل ہوئے تھے. جب زمان شاہ درانی میں ایک مخصوص رقم کی ادائیگی کے عوض سوار فراہم کرنا موقوف ہوا. قادر داد خان گنڈاپور اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب عیسٰی خیل نیازیوں کا سکھوں سے تنازعہ چل رہا تھا تو لکھی مل جو کہ اس وقت یہاں کا سکھ نمائندہ تھا کی اعانت سے حسن خان خیسور کو عیسٰی خیلوں سے جبری لگان وصولی کا حکم دیا گیا.
اس کے علاوہ مجھے خیسور قبیلہ کی تاریخ پر کوئی معلومات نہیں ملیں..
موجودہ زمانے میں کوئی خیسور قبیلہ کا شخص نامور ہوا ہے اس کا بھی میرے علم میں کوئی نام نہیں آیا..

دولت خیل قبیلہ کا تعارف:

ٹانک و ڈیرہ کی تاریخ میں جتنا معروف یہ قبیلہ ہے شاید ہی کوئی ہو لیکن یہ دولت خیل سے نہیں بلکہ اپنی ایک ذیلی شاخ کٹی خیل سے معروف ہے.
جی ہاں تو ہم بات کررہے ہیں نوابین ٹانک کی جن کی میانوالی کے نیازی بڑی تعریف کرتے ہیں. میانوالی میں جب کوئی بلاوجہ معزز بننے کی کوشش یا رعب دکھانے کی کوشش کرتا ہے تو باقی لوگ اس کو یہ طنزیہ جملہ کہتے ہیں. “وڈا آیا اے نِباب ٹاک”
یعنی بڑے آئے ہو نواب ٹانک یعنی رعب نہ جھاڑو
اب اس جملے کے پس منظر کی کیا تاریخ ہے یہ میں ابھی تک جان نہیں سکا. کیونکہ نوابین ٹانک کا کی عملداری کبھی بھی نیازیوں پر نہیں رہی.
بہرحال تو ہم بات کررہے تھے دولت خیل قبیلہ کی.
کہتے ہیں کہ لودی کے تین بیٹے تھے ایک نیازی، دوسرا سیانڑی تیسرا دوتانی..
سیانڑی کے آگے دو بیٹے تھے ایک پڑانگی دوسرا اسمعیل..
اسمعیل کے آگے دو بیٹے تھے ایک لوہانی دوسرا سوری..
اس لوہانی نے دو شادیاں کیں. اول زوجہ سے مروت پیدا ہوئے جن کو سپین لوہانی کہتے ہیں جبکہ زوجہ دوم سے جو اولاد ہوئی وہ تور لوہانی کہلائی. تور لوہانی میں دولت خیل، میاں خیل اور تتور شامل ہیں.
اس آرٹیکل میں ہم دولت خیلوں کا ذکر کریں گے باقی ہر آئندہ آرٹیکل میں بات کریں گے.
کہتے ہیں کہ یہ سارے لوہانی کٹہ واز کے علاقے میں رہتے تھے جہاں پر سپین لوہانیوں کا سلیمان خیل غلجیوں سے کسی عورت کے تنازع پر جھگڑا ہوگیا جس کے نتیجے میں تور و سپین لوہانیوں نے ملکر غلجیوں کے خلاف جنگ لڑی لیکن شکست انکا مقدر بنی اور یوں دولت خیل اپنے دیگر لوہانی قبیلوں کے ساتھ براستہ گومل ٹانک و دامان آ گئے جہاں پر پڑانگی و سروانی قبائل آباد تھے جنھیں شکست دیکر انھوں نے ٹانک و دامان پر قبضہ کیا. اس علاقے کو آپس میں تقسیم کرلیا. وقت گزرنے کے بعد دولت خیلوں کی مروتوں سے ان بن ہوگئی دولت خیلوں نے دیگر لوہانیوں کے ساتھ ملکر مروتوں کو ٹانک سے نکال باہر کیا.
ٹانک پر اب خان زمان خان دولت خیل خودمختار و سردار تھے. اس دولت خیلوں سے سردار قتال خان نامور ہوا جس کا خاندان بعد میں کٹی خیل کہلایا. اور اسی قتال خان کا بیٹا خان زمان خان ٹانک کی تقسيم کے زمانے میں تمام لوہانیوں کا سردار تھا.
لوہانی قبیلہ کی سرداری کٹی خیلوں میں سولہویں صدی سے چلی آتی ہے. جس کا ثبوت ہمیں سترھویں صدی عیسوی کی کتاب اسرار الافاغنہ سے بھی ملتا ہے جس میں ملک فتح خان کٹی خیل کا لوہانیوں کا سردار ہونا لکھا ہے..دوسری طرف مخزن افغانی بھی اس بات کی تائید کرتے ہوئے لکھتا ہے  کہ نوہانی قبیلہ کو سرداری کا منصب حاصل ہے۔جس میں محبت خان کٹی خیل بہت نامور سردار ہوگزرا ہے۔
کچھ لوگ اکبر بادشاہ کے زمانے میں بنگال میں گزرنے والے قتلو خان لوہانی کو کٹی خیلوں کا سردار لکھتے ہیں. جو شیر کے زمانے میں ہندوستان گیا. لیکن میری ذاتی رائے میں وہ قتال خان عرف قتلو لوہانی بہت بعد کی بات ہے..اور وہ میاں خیل قبیلہ سے تھا۔
خان زمان خان کے بعد کٹی خیلوں میں قتال خان مشہور و معروف ہوا جو احمد شاہ ابدالی کے زمانے گزرا.
کہتے ہیں کہ اسی قتال خان نے دولت خیلوں کو قابو کرنے کیلئے بلوچ اور سندھ سے سپاہی بھرتی کئے. جس سے دولت خیلوں میں شکوک و شبہات اور نااتفاقی کا عنصر پیدا ہونا شروع ہوا. جس پر قبیلہ میں تصادم ہوا کافی لوگ مارے گئے اس جنگ میں قتال خان بھی مارا گیا. قتال خان کا بیٹا سرور خان بھاگ کر کابل درانی حکمرانوں سے اعانت کا طالب ہوا. سرور خان کے ساتھ تیمور شاہ درانی نے ایک بھرپور لشکر بھیجا جس نے ٹانک آ کر دولت خیلوں کو تباہ و برباد کرکے سرور خان کو سرداری کے منصب پر بحال کیا. جس کے بعد سرور خان نے اپنی قوم دولت خیلوں کی ساری شاخوں کو بیدردی نے تباہ کیا قتل عام کی بھرمار کی. جو دولت خیل جان بچا کر بھاگ سکتے تھے بھاگ گئے. کہتے ہیں کہ حالات یہ ہوگئے کہ ٹانک ویران ہوگیا. اس کمی کو پورا کرنے کیلئے سرور خان نے جٹوں کو بطورِ مزارع یہاں آباد کیا. جس کی وجہ سے آج ٹانک میں ہمیں سرائیکی بولنے والے اقوام کے لوگ ملتے ہیں.
یوں اسطرح دولت خیلوں کی تاریخ اب سکڑ کر ایک ذیلی شاخ کٹی خیلوں تک محدود ہوگئی.
درانی کے بعد سکھوں کے زمانے میں ٹانک کی حکمرانی نونہال سنگھ نے کٹی خیلوں سے چھین کر علی زئیوں اور درانیوں میں تقسیم کردی مختصر سا حصہ کٹی خیلوں کیلئے چھوڑا
بعد میں جب انگریز آیا تو اس نے نوابین ٹانک کی عمل داری کو بحال کیا.
نوابین ٹانک خودمختار ریاست نہ تھے. بلکہ انکی حیثیت علاقے کے سربراہ کی تھی. جو آج تک جاری ہے. نوابین ٹانک پر الگ آرٹیکل پہلے ہی لکھا جا چکا ہے. ان کی تاریخ پر الگ ایک کتاب کی ضرورت ہے.
میانوالی کے نیازیوں میں یہ بات مشہور ہے کہ نوابین ٹانک کے پاس تمام نیازیوں کے شجرہ کا ریکارڈ موجود ہیں. آخر یہ بے پر کی کس نے کس زمانے میں کیونکر اڑائی؟ ؟؟؟
اس کی کھوج میں لگے ہوئے ہیں. اقبال خان نیازی صاحب نے بھی اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے. لیکن کوئی حوالہ نہیں دیا.
جہاں تک میری معلومات ہیں ان کے پاس کوئی شجرہ کا ریکارڈ موجود نہیں ہے.
اگر ایسی بات ہوتی تو اپنی قوم کٹی خیل، دولت خیل کا تو ہوتا. یا پھر اپنے پڑوسی ہم جد لوہانی قبائل یعنی مروت، میاں خیل، تتور تو اس بات کے گواہ ہوتے. آج تک کسی مروت یا میاں خیل سے نہیں سنا کہ انھوں نے ٹانک سے شجرہ حاصل کیا ہے..
اور تو اور پڑوسی قبائل یعنی کنڈی، وزیر محسود کا شجرہ ریکارڈ تو ہوتا..
کیا نیازی نوابین ٹانک کے زیادہ سگے تھے جو انھوں نے فقط نیازیوں کا ریکارڈ رکھا؟ یا نوابین ٹانک نیازیوں کے بھاٹ تھے جو نیازیوں کا ریکارڈ رکھتے.
نہیں ایسی بات نہیں ہے. لوگ جو شجرہ لیکر جاتے وہ ٹھپہ لگا دیتے. اس ٹھپہ کی کیا کہانی ہے میں ابھی تک جاننے کی کوشش کررہا ہوں میں نے بردار محترم نوابزادہ عبدالوہاب خان آف ٹانک سے بھی اس سلسلے بات کی ہے لیکن فی الحال ان کا موقف نہیں مل سکا. اسی آس پر گولیوالی کے نیازیوں نے بھی کوشش کرتے ہوئے ٹانک والوں سے شجرہ نکلوانے کی سعی کی تو انھیں وہ شجرہ لکھ کر دے دیا گیا ہے جو حیات افغانی میں موجود ہے آگے پیچھے کا انھیں کوئی علم نہیں. پس جو جھوٹے شجرہ بنا کر ٹانک والوں کے ٹھپے لگوا کر اس کو سند سمجھتے ہیں وہ سراسر جھوٹ اور ڈرامہ بازی ہے.
بہرحال دولت خیل و ٹانک کے نوابین کی مختصر تاریخ یہی تھی جو میرے علم میں آئی ہے. کچھ معلومات جان بوجھ کر نظر انداز بھی کردی ہیں کیونکہ انکا ذکر یہاں اضافی تھا. دولت خیلوں یا نوابین ٹانک کٹی خیلوں پر کوئی باقاعدہ کتاب مجھے دستیاب نہیں ہوسکی اور جہاں تک میری معلومات ہیں ایسی کوئی کتاب فی الحال تحریر ہی نہیں ہوئی. یہاں پر ایک اور بات بھی حیران کن ہے کہ میجر ریوارٹی نے اپنی کتاب نوٹس آن افغانستان میں جہاں ٹانک و ڈیرہ اسماعیل خان کے دیگر پشتون قبائل کا ذکر الگ الگ صراحت سے درج کیا ہے وہیں اتنی شاندار تاریخ رکھنے والے نوابین ٹانک کا ذکر بس اس نے فقط ایک پیراگراف میں کرکے آگے بڑھ گیا ہے.. آخر کیوں؟؟ کچھ اسی طرح کا معاملہ شیر محمد خان گنڈاپور نے بھی اپنی کتاب تاریخ خورشیدِ جہاں میں کیا. انھوں نے دولت خیلوں کی تاریخ پر بلخصوص نوابین ٹانک کی قدامت پر اس طرح نہیں لکھا جس طرح لکھنے کا حق تھا. کیونکہ وہ تو نوابین ٹانک کے علاقے سے تعلق رکھنے والے اور علم التاریخ پر گہری نظر رکھتے تھے…
بہرحال مزید دلچسپی رکھنے والے افراد درج ذیل کتابوں سے استفادہ حاصل کرسکتے ہیں
گزٹیر آف ڈیرہ اسماعیل خان
تواریخ قسمت ڈیرہ اسماعیل خان
حیات افغانی
مشہور شخصیات میں ضرب عضب کے دوران وزیرستان میں آپریشن کرنے والے جنرل طارق خان اور مشہور اداکارہ مرینہ خان شامل ہیں..

تتور قبیلہ کا تعارف:


تتور ایک چھوٹا سا پشتون قبیلہ ہے جو کہ ضلع ٹانک کے گاؤں تتور میں آباد ہے.
حیات افغانی کے بیان کے مطابق لودھی کی تین شاخیں تھیں اول نیازی دوم دوتانی اور سوم سیانڑی. سیانڑی سے آگے دو شاخیں پیدا ہوئیں ایک پڑنگی دوسرا اسمعیل. اسمعیل آگے مزید دو شاخوں میں منقسم ہوا ایک سے سوری دوسرے سے لوہانی پشتون نکلے. لوہانی پشتونوں کے آگے مزید تقسیم ہوئی جس میں مروت، دولت خیل، میاں خیل اور تتور قبائل نکلے.
تتور پر اس سے زیادہ مخزن افغانی میں کوئی بات درج نہیں ملتی اور نہ ہی تتور شاخ سے کسی شخصیت کے گزشتہ سلاطین دہلی و مغلوں کے زمانے میں کوئی نامور گزرا.
لیکن میجر ریوارٹی کے بقول سکندر سوری حاکم پنجاب کے ایک امیر جس کا نام غازی خان تھا وہ تتور قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا.
دیگر لودھی پشتون قبیلوں کی طرح تتور قبیلہ کو بھی پشتون تاریخ کے مؤرخین و محققین نے نظر انداز کیا. حیات افغانی میں بھی مختصر سا تعارف لکھا ہوا ہے کہ یہ لوہانی پشتونوں کی شاخ ہے جو ٹانک سے مغرب میں آباد ہے تین سو گھر اس قبیلے کے کل موجود ہیں. چرن جیت لعل نے بھی اپنی کتاب میں جہاں دیگر لوہانی طائفوں مروت دولت خیل میاں خیل وغیرہ کا ذکر کیا ہے لیکن تتور کو وہ بھی چھوڑ گئے..
مسٹر ٹکر کے گزٹیر آف ڈیرہ اسماعیل خان میں تتور کو جتور لکھا گیا ہے لیکن انکی تاریخ پر کوئی مواد دستیاب موجود نہیں..
میجر ریوارٹی نے بھی تتور قبیلہ پر انتہائی مختصر سا پیراگراف لکھ کر آگے بڑھ گئے. میجر ریوارٹی کے مطابق تتور لوہانی پشتونوں کی شاخ ہیں جن کا سربراہ فضل خان تھا جو کہ تیمور شاہ درانی کے عہد میں گزرا جو کہ درانی بادشاہوں کو ساٹھ عدد گھڑ سواروں کا لشکر فراہم کرتا تھا.
جبکہ تاریخ خورشیدِ جہاں میں شیر محمد گنڈاپور صاحب لکھتے ہیں کہ جب خان زمان خان کٹی خیل نے ٹانک پر لوہانیوں کی سربراہی کرتے ہوئے قبضہ کیا تو تتور بھی اس کے ساتھ تھے. گنڈاپور صاحب کے مطابق کسی زمانے میں انکی تعداد کافی زیادہ تھی لیکن شاہ بزرگ خان تتور کی سربراہی میں انھوں نے نادر شاہ افشار سے بغاوت کی جس کے سبب نادر شاہ کا قہر ان پر ٹوٹا جس کے سبب انکی خطیر تعداد ماری گئی. دوسری وجہ یہ بنی کہ انکی دولت خیلوں کی شاخ یعقوب خیلوں سے دشمنی پیدا ہوگئی. یعقوب خیلوں نے گنڈاپور قبیلہ کے ساتھ الحاق کرکے تتوروں کا بھرپور قتل عام کیا جس کے نتیجے میں ان دو سانحات کے سبب انکی تعداد انتہائی قلیل رہ گئی..لیکن ہمارے خیال میں تتور قبیلہ کے کافی لوگ ہندوستان بھی نقل مکانی کر گئے جو وہاں لوہانی کی شناخت کو یاد رکھتے ہیں.
اس سے زیادہ معلومات ہمیں تتوروں کے متعلق دستیاب نہیں ہوسکی. موجودہ زمانے میں تتوروں میں کوئی نامور شخصیت گزری ہے ہمیں علم نہیں۔

مروت قبیلہ کا تعارف:

پشتونوں کا مروت قبیلہ لودی قبیلے کی ایک نامور شاخ ہے جو خیبرپښتونخوا کے اضلاع لکی مروت، ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں وغیرہ میں آباد ہے.
اسکے علاوہ ہندوستان میں بھی اس قبیلے کے آثار موجود ہیں.
جبکہ افغانستان میں بھی انتہائی قلیل افراد موجود ہیں.
شجرہ کے مطابق لودی کے تین بیٹے تھے نیازی، سیانڑی اور دوتانی.
سیانڑی کے آگے دو بیٹے ہوے ایک پڑنگی جس سے بہلول لودی بادشاہ کا خاندان اور پنیالہ کے بلچ پٹھان ہیں. جبکہ دوسرا بیٹا اسمعیل تھا.
اس اسمعیل کے آگے تین بیٹے ہوئے ایک سور جس سے شیر شاہ سور کا قبیلہ نکلا جبکہ دوسرا لوہانی اور تیسرا مہیپال.
لوہانی کی زوجہ اول مسمات شیری سے مروت قبیلہ پیدا ہوا اس گروہ کو سپین لوہانی کہا جاتا ہے جبکہ زوجہ دوم مسمات توری سے مما خیل، میاں خیل، دولت خیل (بشمول کٹی خیل نواب ٹانک)، اور تتور قبائل نکلے. جنھیں تور لوہانی کہا جاتا ہے.
سولہویں صدی تک مروت، میاں خیل، دولت خیل، تتور اور مما خیل وغیرہ سارے اپنی شناخت لوہانی سے کراتے تھے.
لوہانی کو افغانستان میں لوانڑی بھی کہتے ہیں جبکہ ہندوستان میں لوہانی کو نوحانی بھی لکھا جاتا رہا ہے.
ہندوستان کی تاریخ میں لوہانیوں نے بہت نام کمایا ہے بلخصوص لودھیوں کے زمانے میں یہ بہت اعلیٰ مراتب پر تعینات رہے. لوہانی شناخت پر ہم الگ آرٹیکل میں بات کریں گے یہاں پر فقط لوہانی کی ذیلی شاخ مروت جو اب جداگانہ شناخت رکھتی ہے اس پر بات ہوگی.
کہتے ہیں کہ مروتوں کا اصل وطن غزنی کا علاقہ کٹہ واز تھا.. جہاں پر یہ گرمیاں گزارتے تھے. جبکہ سردیوں میں مویشی چرائی کے واسطے کبھی کبھار وانا کی طرف نکل آتے تھے. حیات افغانی کے مطابق کٹہ واز میں آج بھی ایک موضع کا نام خرابہ مروتان موجود ہے.
روایات کے مطابق کٹہ واز میں مروتوں کا اپنے پڑوسی قبیلہ سلیمان خیل غلجیوں کے ساتھ ایک عورت کے معاملے پر تنازعہ ہوگیا. جس پر سلیمان خیلوں کو انکے بھائی بند اقوام اندڑ و ترکی کی اعانت حاصل تھی جبکہ دوسری طرف مروتوں کو اپنے بھائی بند میاں خیل و دولت خیل و دیگر لوہانی قبائل کی. لیکن بالآخر لوہانیوں کو غلجیوں کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور یوں تمام لوہانی بشمول مروتوں کو اس علاقے سے بیدخل ہونا پڑا. مروت دیگر لوہانی قبائل کے ساتھ درہ گومل کے راستہ دامان و ٹانک میں آن پہنچے. جہاں پر پڑنگی لودی قابض تھے. لوہانی لودیوں نے پڑنگیوں کو شکست دیکر ان علاقوں پر قبضہ کرلیا. پڑنگی لودھیوں کی اکثریت ہندوستان کی طرف کوچ کر گئی جہاں پر انکی حکومت تھی. جس کے بعد لوہانیوں نے ٹانک کو چار حصوں میں تقسیم کرلیا. جس میں سے ایک حصہ مروتوں کو ملا. بعد کے زمانے میں مروتوں اور دولت خیلوں کا آپسی تنازعہ پیدا ہوگیا. جس کے نتیجے میں دولت خیل، میاں خیلوں کی اعانت سے مروتوں پر حملہ آور ہوئے اور انھیں ٹانک سے باہر دھکیل دیا. اور یوں مروت درہ پیزو کے پاس آ کر آباد ہوئے. کچھ عرصہ بعد مروتوں نے دولت خیلوں پر حملہ کرکے ٹانک میں موجود اپنی زمینوں کا قبضہ واپس لے کیاے. لیکن بہت جلد دولت خیلوں نے گنڈاپوروں کو زمینات کا وعدہ دلا کر اپنے ساتھ ملا کر مروتوں پر حملہ کرکے دوبارہ ٹانک سے دھکیل دیا. جس کے نتیجے میں مروت درہ پیزو تا موجود لکی مروت کے جنوبی حصہ میں پناہ گزین ہوئے جو اس وقت نیازیوں کی ملکیت تھا. جہاں پر نیازیوں نے انھیں کھلے دل سے قبول کیا اور رہنے کیلئے جگہ دی.
اس زمانے میں موجود لکی مروت کے علاقے میں سرہنگ خیل نیازی آباد تھے. جبکہ عیسٰی خیل و موشانی نیازی موجود علاقوں میں جا چکے تھے. وقت گزرا سرہنگ خیل نیازیوں کی بھی ایک شاخ ادریس بھی یہاں سے نکل مکانی کرکے دریائے سندھ کے سرسبز کناروں پر آباد ہونے کی خواہش میں چلی گئی. جس کے بعد سرہنگ نیازیوں کی شاخ بھرت بدستور موجود رہی. بھرت نیازیوں کا باقی ماندہ نیازیوں بلخصوص مہار نیازیوں کے ساتھ زمینات کی تقسیم پر تنازعہ پیدا ہوگیا. چونکہ بھرت نیازی اکثریت میں تھے تبھی باقی ماندہ نیازیوں نے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دیئے. مچن خیل نیازیوں کے بزرگوں کے سمجھانے کے باوجود انھوں نے مہار نیازیوں کو حصہ نہ دیا. دوسری طرف مروتوں نے اس صورتحال کو سنہری موقع جانا اور مہیار نیازیوں کو اپنی بھرپور اعانت کا یقین دلا کر اس تنازعہ کو مزید گرم کردیا. جس کے نتیجے میں مروتوں نے باقاعدہ قبضہ کیلئے پیش قدمی شروع کر دی. اور لڑائی جھگڑے ہونا شروع ہوگئے. ان لڑائی جھگڑوں میں بالآخر تھانیدار والا کے مقام پر فیصلہ کن جنگ ہوئی جس میں سرہنگ نیازیوں کا سردار مدی خان مارا گیا اور یوں بھرت نیازی درہ تنگ کے راستے میانوالی داخل ہوئے. اس طرح موجودہ لکی مروت پر مروتوں کا قبضہ مستحکم ہوا.
مروتوں نے اس علاقے کو چار حصوں میں تقسیم کیا. ایک حصہ سالار، دوسرا نونہ خیل، تیسرا موسی خیل اور چوتھا تپے..
وقت گزرے کے ساتھ ساتھ مروت قبیلہ جہاں اندرونی طور تور گندی اور سپین گندی میں تقسیم ہو کر الجھا رہا وہیں پڑوسی قبائل عیسٰی خیل نیازیوں ، خٹک، بلچ، خیسور ،وزیر، بیٹنی اور شیتک (بنوچی) قبائل سے بھی خارجی محاذ پر لڑائیاں لڑتا رہا.
مروت قبیلہ کے لوگ انتہائی دلیر، مہمان نواز اور کھلے دل کے لوگ ہیں باوجود مفلس حال ہونے کے..
لکی مروت کی پسماندگی کی وجہ پانی کی شدید قلت ہے. دریائے گمبیلہ و کرم کے کنارے سے ملحقہ علاقوں میں تو صورت حال پھر بھی بہتر ہے. مگر باقی علاقوں بلخصوص جنوبی علاقوں میں صورتحال انتہائی مخدوش ہے.. مذہب سے شدید طرح منسلک ہیں. نماز و روزہ پر سختی سے کاربند ہیں.
جیسا کہ قبل بتایا جب ہندوستان پر افغانوں کی حکومت تھی اس زمانے میں مروت کی بجائے لوہانی شناخت زیادہ معروف اور مروج تھی تبھی ہم ان تمام لوہانی سرداروں یا امراء بارے میں کوئی یقینی معلومات نہیں رکھتے کہ ان میں سے کون مروت تھا کون دولت خیل، کوم تتور، کون مما خیل..
بہرحال ہندوستان کی تاریخ میں جو باقاعدہ طور پر مروت قبیلہ کی کی شخصیت ملتی ہے وہ رکن خان مروت تھا جو کہ عیسٰی خان نیازی ثانی کا نائب تھا. جب عیسٰی خان نیازی کو عادل شاہ سوری نے قید کیا تو رکن خان مروت نے قنوج و بھڑائچ کے علاقوں کا انتظام سنبھال کر عادل شاہ سوری کے خلاف صف آراء ہوا. بعد میں عادل شاہ سوری کے ہندو کمانڈر ہیمو بقال کے ہاتھوں اپنوں کی غداری کے سبب شہید ہوا. اس کے علاوہ شیر شاہ سوری کے مشہور کمانڈر خواص خان کے متعلق بھی ڈاکٹر چراغ حسین شاہ صاحب نے اور شیر محمد مہمند صاحب نے اپنی اپنی تصانیف بالاترتیب انوار چراغ اور دی مروت میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ مروت قبیلہ سے تھے. حالانکہ خواص خان کی قوم قبیلہ بارے میں پرانی تاریخوں میں کوئی معلومات نہیں درج سوائے اس بات کے کہ اس کا والد سُکھا شیر شاہ سوری کے باپ حسن خان سور کا ملازم تھا. مزید یہ کہ حاجی عباس خان سروانی نے خواص خان کو سروانی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے.
بہرحال خواص کون تھا پرانی تاریخ کے ریکارڈ میں کیا کچھ درج ہے اس پر کسی وقت الگ مفصل پوسٹ لکھیں گے..
سکھوں کے زمانے میں مروتوں نے اپنے تئیں خوب مزاحمت کی اور سکھوں کو بدستور تنگ کرتے رہے. لیکن پھر بھی سکھ مروتوں سے لگان وصولی میں کامیاب رہے. انگریزوں کے زمانے میں مروت بھی دیگر پڑوسی علاقوں کی طرح انگریزوں کے زیر انتظام آئے تو انگریزوں نے مروتوں پر چند ایک کتابچہ لکھے ہیں جن میں اس علاقے اور رہن سہن رسوم و رواج پر ہمیں معلومات ملتی ہیں.
مروتوں میں کافی نامور شخصیات گزری ہیں جن میں سیف اللہ خان مروت کا خاندان پاکستان میں کافی شہرت رکھتا ہے اور پاکستان کا ایک بہت بڑا کاروباری گروپ کا مالک ہے. اس کے علاوہ عرفان اللہ خان مروت کراچی کی مشہور سیاسی شخصیت ہیں.

بَلُچ قبیلہ کا تعارف؛

بلچ لودھی پشتونوں کا ایک قبیلہ ہے جو ڈیرہ اسماعیل کے علاقے پنیالہ، میانوالی میں پیپلاں، دلیوالی اور بھکر کی تحصیل کلور کوٹ دریا خان میں آباد ہے.
بدقسمتی سے اس قبیلے کے لوگ اپنی شناخت ذیلی شاخ سے کراتے ہیں تبھی لوگوں کو بلچ قبیلہ کے بارے علم نہیں..
وگرنہ سردار سبطین خان ،ثناءاللہ خان مستی خیل، جاوید اکبر خان ڈھیڈی، امیر محمد خان حسن خیل، عبدالمجيد خان خانان خیل وغیرہ سبھی بلچ قبیلے کے سپوت ہیں.
قدیم تاریخ کے مطابق لودھی پشتونوں کی تین شاخیں تھیں اول نیازی، دوم دوتانی، سوم سیانی. سیانی مزید آگے چل کر دو میں تقسیم ہوئی پڑانگی اور اسماعیل..
پڑانگی سے شاہو خیل (شاہان لودھی) ،خیسور (عمر خیل) اور بلچ قبیلے وجود میں آئے.
بلچ کو بلث و بلت، بلوت بھی مؤرخین لکھتے رہے ہیں. بلچ قبیلہ کی ایک شخصیت کالو خان کا ذکر تحفہ اکبر شاہی کتاب میں ملتا ہے جو کہ بہلول لودھی کے زمانے میں گزرا.
لیکن بدقسمتی سے مخزن افغانی نے بلچ قبیلہ کا کوئی ذکر نہیں کیا. لیکن جناب امان اللہ خان بلچ صاحب کے مطابق بہلول لودھی کے دادا ملک بہرام کے بھائی جس کو محمودی خیل لکھا گیا ہے یہ دراصل بلچ قبیلہ کا ہی نام ہے. جس کی آگے چل کر وضاحت کی جائے گی..
مخزن افغانی نے لوہانی شجرہ میں ایک نام پتخ درج کیا ہے جس کی وجہ سے اقبال خان نیازی صاحب مرحوم نے بلچ قبیلہ کو اسی پتخ سے جوڑ کر انھیں لوہانی کی شاخ بنا دیا ہے جس سے بلچ قبیلہ کی تاریخ پر عبور رکھنے والے جناب محترم امان اللہ خان بلچ صاحب متفق نہیں ہیں وہ میجر ریوارٹی کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں جس کے مطابق بلچ بہلول لودی کے دادا ملک بہرام کے بھائی ملک محمود کی اولاد ہیں. اس کی تفصیل آگے چل کر ہم لکھیں گے.
دیگر لودھی پشتونوں کے ساتھ جو ناانصافی مؤرخین و محققین نے برتی ہے وہی کچھ بلچ قبیلہ کے ساتھ بھی ہوا ہے.
مخزن افغانی کے بعد حیات افغانی میں حیات کھٹہڑ نے لکھا ہے کہ یہ لوگ کبھی خود کو نیازی تو کبھی دولت خیلوں کے ساتھ شریک کرتے ہیں. لیکن مجھے یعنی حیات کھٹہڑ کو کوئی ثبوت نہیں مل سکا..
جبکہ تاریخ ڈیرہ اسماعیل خان کے مصنف چرن جیت لعل نے یہ لکھا ہے کہ یہ لوگ خود کو دولت خیل لوہانیوں سے ملاتے ہیں اور کبھی سروانی پشتونوں کی ذریات کا حصہ جانتے ہیں
جب کچھ دیگر پٹھان انھیں پٹھانوں میں شمار ہی نہیں کرتے. اور تو اور چرن جیت لعل نے حیات افغانی کے مصنف پر یہ جھوٹ باندھ کر لکھا دیا کہ وہ بھی بلچ قبیلہ کو پٹھان میں شمار نہیں کرتے. حالانکہ یہ بات شاہد ہے کہ حیات کھٹہڑ نے ایسی کوئی بات نہیں لکھی. یقیناً چرن جیت لعل نے غلط بیانی سے کام لیا ہے.
مسٹر ٹکر نے بھی انھیں لودھی پشتونوں کی شاخ بتلایا ہے لیکن لودھی میں سے کس شاخ سے تعلق رکھتے ہیں یہ نہیں لکھا.
جبکہ تاریخ خورشیدِ جہاں گنڈاپور صاحب نے حیات افغانی کے بیان کو دہراتے ہوئے مزید یہ اضافہ کردیا ہے کہ یہ میانہ پشتونوں کی ذیلی شاخ ہیں
میجر ریوارٹی اپنی کتاب نوٹس آن افغانستان میں لکھتے ہیں کہ بلچ پڑانگی لودھی کی شاخ ہیں ساتھ ہی انھیں سادات میں بھی شمار کرتا ہے.. چونکہ میجر ریوارٹی کے مؤقف کے مطابق پڑانگی کے سات بیٹے اس کے صلب سے تھے جبکہ دو لے پالک بچے تھے. ان دو لے پالک بیٹوں میں سے ایک سید زادہ تھا
جن میں سے ایک خاص یار جس سے خیسور قبیلہ وجود میں آیا جبکہ دوسرا بلوت جس سے بلچ قبیلہ وجود میں آیا..
ایک زبانی روایت جو مجھ تک پہنچ اس کے مطابق یہ ایک نومولود بچہ تھا جو انھیں ملا چونکہ اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا تو پشتو زبان میں پوچھا گیا بل چہ دہ مطلب یہ پھر کس کا ہے؟ وہی بل چہ دہ وقت کے ساتھ بلچ میں تبدیل ہوگیا. چونکہ نیازیوں اور پڑانگی کا جد ایک ہے تبھی بلچ خود کو نیازی میں شمار کرتے ہیں یہی کچھ وجہ دولت خیل میں شمار کرنے کی ہے. لیکن دراصل یہ نہ یہ نیازی ہیں اور نہ ہی دولت خیل بلکہ یہ پڑنگی شاخ سے ہیں.
میجر ریوارٹی اپنی اس بحث کی تائید میں کسی ابورازاق نامی شخص جو کہ چنار صوبہ بہار میں پیدا ہوا اور پشتون تاریخ پر عبور رکھتا تھا کی کتاب کا حوالہ دیتے ہیں جو کہ میجر ریوارٹی کے پاس موجود تھی. میجر ریوارٹی کے مطابق ابو رازق نے یہ کتاب نعمت اللہ ہراتی سے کئی سالوں پہلے لکھی تھی. میجر ریوارٹی کے مطابق نعمت اللہ ہراتی اسی ابو رزاق کا منشی تھا جہاں سے اس نے اپنی کتاب کیلئے بھی مواد حاصل کیا تھا. اس کتاب کے مطابق بلچ بہلول لودھی کے دادا ملک بہرام کے بھائی ملک محمود کی اولاد ہیں. شاہو خیل دراصل اسی لے پالک بیٹے اسحاق کی اولاد ہیں جو بعد میں شاہو خیل کہلائے..اب یہاں پر میجر ریوارٹی کے بیان میں بھی تضاد ہے پہلے وہ پڑانگی کے سات بیٹوں کے علاوہ دو لے پالک بیٹے شمار کرکے ایک لے پالک بیٹے بلوت سے بلچ قبیلہ کا ہونا بتلاتا ہے جبکہ اب یہاں پر پڑانگی کے صلبی بیٹے عمر کی اولاد شاہو خیلوں میں بہلول لودی کے دادا کے بھائی ملک محمود سے بلچ قبیلہ کا سلسلہ جوڑتا ہے. یہاں پر ریوارٹی کے بیان میں بھی تذبذب کا شکار ہوجاتا ہے. بدقسمتی سے میجر ریوارٹی نے اس کتاب کا نام نہیں لکھا اور نہ اس کتاب کو شائع نہیں کروایا. شاید یہ گمشدہ کتاب برٹش لائبریری لندن میں پڑی ہو. اس کے مل جانے سے تاریخ کے کئی موضوعات پر نئی روشی ڈالی جا سکے.. دی پٹھان کتاب کے منصف اولف کیرو نے بھی میجر ریوارٹی کی تائید کرتے ہوئے بلچ کو پڑنگی لودھی کی شاخ درج کیا ہے. جناب محترم امان اللہ خان بلچ بھی تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ میجر ریوارٹی کی راہے متفق ہیں. جناب امان اللہ خان بلچ کے مطابق خیسور اور بلچ پڑانگی کے لے پالک نہیں بلکہ حقیقی بیٹے تھے.
چرن جیت لعل کے مطابق شروع کے زمانے میں بلچ ٹانک میں آباد تھے مگر جب لوہانیوں نے ٹانک پر پیش قدمی کی تو انھوں نے خیسور کے علاقے پر قبضہ کرلیا. تو الوس بلچ خیلوں نے بہ موقع رسم لارگی جو تاحال انکے علاقے میں ہے سکوت اختیار کی. کچھ زمانہ تک بلچ قبیلہ سکون سے آباد رہا. کچھ عرصہ بعد ایک عورت کے تنازع پر بلچ اور مروتوں میں دشمنی پیدا ہوگئی جس کے سبب بلچ دریا پار کرکے میانوالی کے علاقے میں چلے گئے. بعد از صلح کچھ واپس آکر اپنے علاقوں پر قابض ہوگئے جبکہ کچھ خاندان بدستور وہیں دریائے سندھ کے پار ہمیشہ کیلئے آباد ہوگئے..چرن جیت لعل کے اس بیان پر جناب امان اللہ خان بلچ صاحب کا مؤقف یہ ہے کہ چرن جیت لعل نے جو قبائل کی تاریخ لکھی ہے اس میں جا بجا سقم موجود ہیں. امان اللہ خان بلچ کے مطابق بلچ دراصل بلوٹ شریف میں رہتے تھے اس قصبہ کی بنیاد بلچوں نے رکھی. لیکن دوسری طرف مؤرخین بلوٹ کو کافر کوٹ کے حکمران راجہ بل اور راجہ ٹل کی قائم کردہ آبادی قرار دیتے ہیں.. بہرحال امان اللہ خان بلچ صاحب کے مطابق بلچ بعد میں بلوٹ سے یہ پنیالہ آگئے. لیکن میری گزارش ہے کہ سارے پشتون براستہ درہ گومل ٹانک میں ہی پہلے آئے اس کے بعد دیگر جگہوں پر گئے. بلچ قبیلہ کے بزرگ حاجی بلچ بابا کا مزار مرجع خلائق ہے تبھی لوگ بلچ قبیلہ کی عزت و احترام کرتے ہیں. جسکی وجہ سے اس قبیلے کو زیادہ لڑائی جھگڑوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا. درانی بادشاہوں کے زمانے میں بلچ قبیلہ قلنگ و سپاہیوں کی فراہمی سے آزاد تھا. نواب آف ڈیرہ اسماعیل خان کے زمانے میں بھی ہر قسم کے ٹیکس سے مستثنیٰ تھا. مگر جب نواب محمد خان کے خلاف انھوں نے خیسوروں کا ساتھ دیا تو نواب سے مخالفت پیدا ہوئی..
بھکر کے علاقے میں بلچ قبیلہ کے لوگوں کی پنج کوٹی جاگیر تھی. بھکر و پیپلاں کے بلچ قبیلہ نے یہاں پر اپنے قدم مضبوط کرنے کیلئے منکیرہ کے جسکانی بلوچ حکمرانوں سے لڑائیاں بھی لڑیں.. اور یہاں استحکام حاصل کیا. نیازیوں کے ساتھ انکے تعلقات شروع دن سے اچھے استوار تھے اور رشتہ داریاں بھی چلی آتی ہیں. سکھوں کے زمانے میں پنج کوٹی جاگیر پر سکھوں نے قبضہ کرلیا انگریز کے زمانے کچھ حصہ بلچوں کو واپس ملا زیادہ تر واگزار نہ ہوسکا..
پنیالہ کے بلچ خالص پشتو بولتے ہیں جبکہ میانوالی و بھکر کے بلچ سرائیکی بولتے ہیں..
بلچ قبیلہ کی تاریخ مختصر کام جناب محمد اسماعیل خاکی صاحب نے اپنی کتاب پنیالہ اور بلچ پٹھان میں کیا ہے اس کے علاوہ تاریخ نیازی قبائل کتاب کے مصنف اقبال خان نیازی صاحب نے بھی بلچ قبیلہ کی تاریخ پر کام کیا ہے اور انکے شجرہ جات بھی بنائے ہیں. جبکہ پیپلاں کے بلچ خاندان پر اعجاز علوالی نے اپنی کتاب تاریخ علوالی میں کیا ہے..
ہم امید کرتے ہیں کہ جناب محترم امان اللہ خان بلچ صاحب انشاءاللہ بلچ پشتونوں کی تاریخ پر ایک مفصل کتاب لکھ کر ہمیشہ کیلئے امر ہوجائیں گے. وہ بلچ قبیلہ کی شناخت بحالی کیلئے ضلع میانوالی و بھکر میں کئی دورہ کر چکے ہیں. جناب محترم ناصر خان عرف گانمن سچیار صاحب وہ بھی اس کام میں دلچسپی رکھتے ہیں.. اگر یہ دونوں افراد ملکر کوشش کریں تو بلچ پشتونوں کی تاریخ ہمیشہ کیلئے محفوظ ہوسکتی ہے..

کنڈی قبیلہ کا تعارف؛

کنڈی قبیلہ زیادہ تر خیبرپشتونخوا کے ضلع ٹانک میں آباد ہے اس کے علاوہ خیبرپشتونخوا اور بلوچستان کے شمالی اضلاع میں بھی کچھ خاندان بکھرے ہوئے آباد ہیں. مزید یہ کہ افغانستان میں بھی کونڈی قبیلہ کے واضح آثار دستیاب ہیں.
کونڈی دراصل نیازی پشتونوں کی ایک قدیمی ذیلی شاخ ہے جو کہ گزشتہ تین سو سال سے اب جداگانہ شناخت بنا چکی ہے. کنڈی قبیلہ کے کچھ افراد ضلع خوشاب کے علاقے گولیوالی میں بھی آباد ہیں جہاں دیگر نیازی پٹھانوں کی آبادی ہے.
پرانے ریکارڈ کے مطابق لودھی کی تین شاخیں تھیں جن میں اول نیازی، دوم دوتانی اور سوم سیانی (مروت، میان خیل، دولت خیل تتور وغیرہ). نیازی کی آگے تین شاخیں ہوئیں باہی، جمال اور خاکو.
باہی شاخ کے نیازی آج بھی باہی کہلاتے ہیں جبکہ جمال سے عیسٰی خیل و سنبل نیازی مشہور ہوئے. خاکو سے سرہنگ، کنڈی، مشانی، مچن خیل وغیرہ نے شہرت پائی.
سولہویں صدی کے ریکارڈ کے مطابق اس وقت کنڈی نیازی ہی کہلاتے تھے لیکن جداگانہ شناخت کا عمل بھی شروع ہوچکا تھا. جس کی مثال ابوبکر خان کنڈی تھے جو کہ شیر شاہ سوری کے عہد میں گزرے اور شیر شاہ سوری کے دادا کا مقبرہ تعمیر کروایا.
بہرحال کنڈی قبیلہ سترھویں صدی عیسوی میں ٹانک میں مستقل سکونت پذیر ہونے لگا. شروع میں تو انکا دولت خیلوں کے ساتھ کوئی مسئلہ نہ ہوا. لیکن بعد کے زمانے میں نوابین ٹانک کٹی خیل جو کہ دولت خیل لوہانی کی شاخ ہیں ان سے انکے تنازعات چلتے رہے.
سکھ اور انگریزوں کے زمانے میں اس قبیلے کی کوئی کارگزاری نہیں ملتی. اس قبیلے سے عبدالرحیم کنڈی نے انگریزوں کے زمانے میں ملازمت اختیار کی جس کے بعد کنڈی قبیلہ شعبہ قانون میں بہت آگے گیا. آج بھی کنڈی قبیلہ کے وکلاء کو ملک بھر میں کافی شہرت حاصل ہے. اس قبیلے سے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ بھی ہوئے سیاست میں بھی انھوں نے خوب نام کمایا. ٹانک و ڈیرہ اسماعیل خان سے اس قبیلے کے ایم این ایز و ایم پی منتخب ہوتے رہتے ہیں. موجودہ زمانے میں فیصل کریم کنڈی مشہور ترین شخص ہیں.
حیات افغانی نے اس قبیلے پر کوئی تفصیلات نہیں لکھی ہیں حالانکہ یہ ایک اچھا خاصا افرادی قوت رکھنے والا قبیلہ ہے.
یہی کچھ گنڈاپور صاحب نے کیا..
لیکن جناب محترم اقبال خان نیازی صاحب نے اپنی کتاب تاریخ نیازی قبائل نی بھرپور معلومات لکھ کر تاریخ کو محفوظ کیا.

سنبل قبیلہ کا تعارف؛

میانوالی و دیگر جگہوں پر آباد یہ ایک قبیلہ ہے جو کہ دراصل نیازی پٹھانوں کی ایک شاخ ہے مگر جداگانہ شناخت رکھتا ہے..
قدیمی شجرہ کے مطابق لودھی کی تین شاخیں تھیں اول نیازی، دوم دوتانی اور سوم سیانڑی
نیازی کی آگے تین شاخیں تھی اول جمال دوسرا باہی تیسرا خاکو..
سنبل قبیلہ کا تعلق اسی جمال شاخ سے ہے..
تاریخ میں دیکھا جائے تو ہمارے خیال میں نیازیوں میں سے یہ اولین قبیلہ ہے جو کہ ہندوستان میں داخل ہوا جس کے بعد یا پھر ساتھ عیسٰی خیل نیازی بھی آئے.
ماضی کی تواریخ سے پتہ چلتا ہے کہ کسی زمانے میں یہ بہت طاقتور اور خود سر قبیلہ تھا جس نے شاہان وقت سے ٹکر لی.
جس کی وجہ سے تاریخ تو رہ گئی لیکن وجود بکھر کر گیا. موجودہ زمانے میں اپنا مقام بھی کھو چکے ہیں.
سنبلوں کا سب سے پرانا ذکر اس واقعہ سے ملتا ہے جس کو افسانہ شاہان کے مصنف یحییٰ کبیر حزیانی نے لکھا ہے جس کے مطابق سنبلوں نے بہلول لودھی کے باپ کو دشمنی کے سبب قتل کیا. جس کے سبب بہلول لودھی کے اعصاب پر نیازی ایسے سوار ہوئے کہ نہ تو اس نے کبھی کسی نیازی سردار کو بڑا عہدہ دیا بلکہ اپنے بیٹے سکندر لودھی کو بھی وصیت کی کہ نیازیوں سے محتاط رہنا.
ہاں البتہ سرہنگ خیلوں نے لودھی کے ساتھ ہوشیاری دکھا کر اعلیٰ مراتب پائے.
جب بابر بادشاہ نے ہندوستان پر حملہ کیا اس کا چونکہ درہ تنگ کے پاس عیسٰی خیل نیازیوں سے ہی مڈبھیڑ ہوگئی اور نیچے جنوب کی طرف چلا گیا. تبھی اس نے فقط یی لکھا کہ یہاں پر عیسٰی خیل اور دیگر نیازی قبائل موجود ہیں. ان دیگر سے مراد دریائے سندھ کے طرف آباد سنبل ہی تھے جو دھنکوٹ (کالاباغ) پر قابض تھے.
اس کے بعد ہمیں تاریخ میں یہ جری قبیلہ پشتونوں کی تاریخ میں ایسا روشن باب رقم کرتے نظر آتا ہے جو پشتون تاریخ میں ہمیشہ جگمگاتا رہے گا.
واقعہ پر تفصیلی آرٹیکل فیس بک اور ویبسائٹ پر شائع ہوچکا ہے. البتہ مختصر روداد یہ ہے کہ شیر شاہ سوری کے ایک ہندی نژاد بھتیجے مبارز خان نے سنبلوں سے اپنے چچا کی بادشاہت کے زعم میں مبتلا ہو زور زبردستی رشتہ لینا چاہا جس پر سنبلوں نے مزاحمت کی جس پر مبارز خان نے سنبل نیازیوں کے جرگہ کو نہتے سمجھ کر قتل کرنا چاہا لیکن سنبل نیازیوں نے اس کو باوجود نہتے اسلحہ سے لیس مبارز خان اور اسکے ساتھیوں کو مار ڈالا جس پر شیر شاہ سوری پریشان ہوگیا اور گورنر پنجاب و سندھ ہیبت خان نیازی کو حکم دیا کہ اگر نیازی یونہی سوریوں کو چن چن کر مارتے رہے تو سوری دنیا سے ختم ہوجائیں گے اپنے قبیلہ والوں کو کچھ سمجھاؤ. لیکن ہیبت خان نیازی جو کہ ایک جابر اور سخت گیر طبیعت کا مالک تھا اس نے سنبل نیازیوں کو دھوکہ سے بلا کر قتل کروا دیا جن کی تعداد مؤرخین کے مطابق نو سو افراد تھی.
جب شیر شاہ سوری کو اس مرگ انبوہ کا پتہ چلا تو اس نے ہیبت خان نیازی کو برا بھلا کہا کہ یہ ظالم تو نے کیا کر ڈالا.
باقی ماندہ سنبل نیازی وہاں سے نکل کر اپنے علاقے مکھڈ کی طرف نکل گئے.
وقت گزر گیا ان سنبلوں نے ہمایوں کے ساتھ ملکر سوری سلطنت کے خاتمہ میں کردار ادا کیا.
اکبر بادشاہ کے زمانے کا ایک درباری اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ سنبلوں کی اپنی ایک نیم خودمختار ریاست ہے جس کی حدود مشرق میں دینکوٹ جنوب میں دریائے سندھ اور شمال میں بنگشات اور مغرب میں کوہ سفید تک ہے.
مزید اس ریاست کی تفصیلات کہیں سے دستیاب نہیں ہوسکی کہ یہ ریاست کب اور کس نے قائم کی اور کب اختتام کو پہنچی.
بہرحال سنبلوں کی طاقت کا شہرہ تھا جس کا ذکر اورنگزیب عالمگیر کے زمانے کا مصنف سجان رائے بھی کرتا ہے کہ دریائے سندھ پر سنبل نیازیوں کی آبادی ہے.
اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں سنبلوں نے دینکوٹ میں تعینات ہونے والے مغل قلعدار کو کسی تنازعہ پر قتل کر ڈالا. غالباً سنبلوں نے خوشحال خان خټک کی تحریک میں انکا ساتھ دیا یی بلکل وہی زمانہ تھا جب پشتون علاقوں میں ایمل خان مہمند، دریا خان آفریدی اور خوشحال خان خټک مغلوں کے خلاف برسر پیکار تھے. حسن ابدال سے اورنگزیب عالمگیر غصہ میں بھرا ہوا دینکوٹ آیا اور یہاں پر سنبلوں کو تباہ و برباد کر ڈالا جس کے بعد نہ صرف سنبلوں کی دینکوٹ سے اجارہ داری ختم ہوگئی بلکہ سنبلوں نے حکومتی جارحانہ رویہ کے سبب اپنی شناخت کو چھپا لیا اور جس کا جدھر سینگ سمایا چلے. کوئی بنوں چلا گیا کوئی اٹک کوئی شاہپور (سرگودھا) تو کوئی ساہیوال و فیصل آباد کے اس وقت کے گمنام علاقوں میں.. جہاں یہ لوگ پٹھان کی بجائے خود کو ظاہری طور جاٹ کہلوانے لگ گئے..
روزگار تک ان سے چھن گئے جس کو پیٹ پالنے کیلئے جو پیشہ نظر آیا اختیار کرلیا. وقت گزر گیا صدیاں بیت گئیں انکی تاریخ شناخت مٹ گئی. حتیٰ کہ میانوالی کے نیازی انھیں دوسرے درجہ کا پٹھان سمجھنے لگ گئے..
لیکن جب میانوالی کے دیگر نیازیوں نے تعلیم حاصل کی اور انھوں نے تاریخ دیکھی تو پتہ چلا کہ سنبل نیازیوں کی وہ پہلی نسل تھی جو ہندوستان آئی اور یہاں پر عروج کے بعد زوال کو پہنچی
بہرحال اتنے کڑے امتحان کے باوجود کندیاں میں آباد سنبلوں نے اپنی شناخت کا بھرپور دفاع کیا. جب سرہنگ نیازی قبائل آئے تو ان کے ساتھ بھی انکے تنازعات ہوئے لیکن بدستور اپنی جگہ قائم دائم رہے. بھچروں نے کمزور جان کر مہم جوئی کرنے کی کوشش کی تو انھیں بھی بتلا دیا ہم تعداد میں کم ضرور ہیں لیکن میدان کارزار کے آموزدہ جنگجو ہیں.. جس کے بعد وہ پھر انھوں نے کبھی ادھر کا رخ نہیں کیا.
..
بہرحال آج بھی سنبل خود کو سنبل سے شناخت کرواتے ہیں کندیاں کے طرف آباد سنبل مالی طور مستحکم ہیں. اور انھوں نے اپنے قبیلہ کا نام روشن کیا ہے جس میں برگیڈیر عطاء اللہ خان سنبل، آئی جی اقبال خان سنبل، سابق چیف سیکرٹری پنجاب حیات اللہ خان سنبل، ڈی آئی جی کوئٹہ فیاض سنبل شہید، سابقہ کمشنر لاہور و حال سیکرٹری پنجاب عبداللہ خان سنبل، کیپٹن حمید اللہ خان سنبل، باچا خان کا ساتھی روغتے ماما بنوں بھی سنبل قبیلہ کے نامور شخصیات ہیں..

مچن خیل قبیلہ کا تعارف:

مچن خیل قبیلہ میانوالی ،لکی مروت، بنوں، ٹانک، لورالائی، زیارت اور ژوب کے علاوہ افغانستان میں بھی آباد ہے.
مچن خیل قبیلہ دراصل نیازی پشتونوں کی ایک شاخ ہے جو کہ اب جداگانہ شناخت رکھتی ہے.
پرانی تاریخ کے مطابق لودھی پشتونوں کی تین شاخیں تھیں ایک نیازی، دوم دوتانی، سوم سیانڑی دوتانی اور سیانڑی کی شاخوں پر آرٹیکلز لکھے جا چکے ہیں.
نیازی کے تین بیٹے تھے اول جمال، دوم باہی، سوم خاکو
خاکو کے بیٹے عیسٰی سے کنڈی قبیلہ نکلا جنھوں نے دنیا بھر میں الگ شناخت حاصل کی جن پر آرٹیکل اپلوڈ ہوچکا ہے.
جبکہ اسی عیسٰی کے بیٹے سود سے آگے مچن خیل قبیلہ وجود میں آیا..
چونکہ مچن خیل قبیلہ انتہائی بکھرا ہوا قبیلہ ہے تبھی اس کے لوگ علاقے کی مناسبت سے کبھی کبھار بنوں میں خود کو بنوچی، لکی مروت میں خود کو مروت، لورالائی اور ژوب میں خود کو ناصر پشتونوں سے ہونا سمجھتے ہیں. حالانکہ یہ درست نہیں ہے.
چونکہ مچن بابا اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے تھے تبھی انکی اولاد کا میلان مذہبی رہا دم درود کرتے ہیں سانپ بچھو کا دم انکا بہت اثر رکھتا ہے. جسکی وجہ سے لوگ انھیں شیخ بھی کہتے ہیں. شیخ اخوند ملا پشتون علاقوں میں مذہبی لوگوں کیلئے عموماً استعمال ہوتا ہے جس کی وجہ سے مچن خیلوں کی اکثریت شیخ لکھتی ہے. امتداد زمانہ کے ساتھ ٹانک کے مچن خیل خود کو شیخ پٹھان سمجھنے لگ گئے ہیں. حالانکہ شیخ کوئی قوم نہیں..
بہرحال لب لباب یہ ہے کہ مچن خیل دراصل نیازی پشتونوں کی ایک شاخ ہے.
مچن خیل قبیلہ کا سب سے پرانا ترین ذکر مخزن افغانی میں مچن بابا کی شخصیت کے باب میں درج ہیں جہاں پر مولف کتاب مچن بابا کی شخصیت پر مختصر سا تعارف لکھتا ہے. اور انھیں نیازی قبیلے کی شاخ بتلاتا ہے. انکی پیدائش اور انتقال بارے مولف کتاب کو نہیں معلوم کیونکہ ان کو اس وقت یعنی (سولہ سو بیس میں ) دنیا سے گزرے صدیاں بیت چکی تھیں البتہ انکے مدفن کا ذکر وانا وزیرستان میں ہونے کا بتلاتا ہے.
اس کے بعد اسی کتاب میں جہانگیر بادشاہ کے عہد میں گزرے شخص لودھی خان مچن خیل کا بھی بیان ہوتا ہے.
اس کے بعد پھر حیات افغانی میں مچن خیلوں پر مروت اور نیازیوں کے ابواب میں ضمناً ذکر آتا ہے.
میجر ریوارٹی نے بھی مچن خیل قبیلہ پر مختصر سا بیان لکھا ہے کہ مچن خیل نیازی کی شاخ ہیں لیکن یہ ٹانک و بنوں و علاقہ مروت میں آباد ہیں.
اس کے علاوہ گزٹیر آف بنوں میں بھی مختصر سا ذکر موجود ہے۔

تحریر و تحقیق: نیازی  پٹھان قبیلہ ٹیم۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

2 تبصرے “لودھی پشتون قبائل کا تعارف و تاریخ۔

  1. Dear Admin if you correctly translate the page No. 342 and foot notes of the book “Notes on Afghanistan and Parts of Balochistan by Major Roverty” he has clearly mentioned and i quote “They don’t pretend that they are “Nuharnis” but tehy are Lodis, for they are descended from a son of Prangaey, as stated in previous note, who was Ibrahim Lodaey’s grand son, while the Nuharnis are descended from Nuharnaey, son of Ismail, another grand son of Lo-daey, and Thus the Khes-yurs (Khaisors) are descended from an older branch than the so called “Loharnis”. Consequently, teh account they give of themselves is perfectly correct

اپنا تبصرہ بھیجیں