لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کی شخصیت پر اک نظر۔۔۔


ریٹائرڈ لفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی
جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کا تعلق میانوالی کے ممتاز قبیلہ بلوخیل سے ھے آپ کے والد ماجد کا نام محمد اشرف خان تھا جو مہر خان ابن مٹھاخان ابن جہان خان ابن فتح خان ابن دورہ خان ابن تاجہ خان ابن شاہ بیگ خان ابن بلو “بہلول “اسطرح اپکا واسط سردار بلو تک دس پشت کے بعد ھوتا ھے آپ ایک جنگجو خاندان کے جنگجو سپاھی تھے آپ نے ساری فوجی ملازمت کبھی بھی قانون شکنی نہی کی آپ ایک انتہائی سادی اور عظیم شخصیت کے مالک ہیں آپ جب برگیڈیر تھے تو ستائیس جنوری 1965 کو ایک کورس یونائٹیڈ سٹیٹ امریکہ میں مکمل کیا تھا جس میں اپکے متعلق میجر جنرل ( ایچ ایس آرمو)کمانڈنٹ انفنٹری سکول نے اپکو ڈاؤ بوائے Dowgh Boy کا خطاب دیا تھا جس کامطلب لاثانی جوان”ھوتا ھے
2″ستمبر1965ء کی جنگ میں اپکو طارق بن زیاد کے نام سے یاد کیاگیا
3″جنگ عظیم دوم کا “ٹائیگر “شیر کا نام عالمی سطح پر مشہور ھے
4″جبکہ واشنگٹن کے اخبار سٹار سپیشل نے آپ کے متعلق 17 دسمبر 1971ء کے شمارے میں یہ کہا
The Like of A.A. Niazi are few in the world
5″ اس طرح پاکستان کے عظیم شاعر جناب شورش کاشمیری کہتے ہیں
کفار کے سیناؤں پہ اللہ کی تلوار اس ملک خداد اد کی عزت کانگہ دار
بڑھتے ھوئے طوفان کو پلٹنے میں جری مرد صحراؤں کے سناٹے میں تکبیر کی للکار
شورش مجھے لکھا ھے مدینے سے شرف نے”کرتے ہیں دعا اس کیلئے سید ابرار
10″ دسمبر1973ء وقار انبالوی کہتے ہیں
مصیبت عارضی ھو خواہ سچی ھو کہ ھو جھوٹی
بھلا عادت گرج کی شیر میدان سے ھے کب چھوٹی
اسیر نرغہ آعدا نیازی کی گرج یہ ھے
میری تلوار ٹوٹی ھے مگر ہمت نھی ٹوٹی
7″30 دسمبر 1971ء فیض تونسوی کہتے ہیں
تیری عظمت پر کوئی شک ھے بلا شک ھے گناہ
موت سے ڈر جائے تو اس کا گماں تک ھے گناہ
ڈال دے ہتھیار تو ھم ماننے والے نہی
تجھ سے ڈلوائے گئے ہیں تو نے خود ڈالے نہی
اے جواں ہمت سپاھی یہ بھلا کیونکر ھوا
حکم ایسا کونسے بد بخت نے تجھ کو دیا
جنرل نیازی کے میڈل اور ڈیکوریش کی تعداد بائیس عدد ھے جنکی تفصیل حسب ذیل ھے
1-1939″45کی جنگ میں آپ کو ” ملٹری کراس ملا MC
2″ 1965 ء کی جنگ میں آپ کو “ہلال جرات ملا HJ
3″1971ء کی جنگ میں بھی آپ کو ہلال جرات ملا Hj Bar

4″مختلف قسم کی خدمات کے عوض ستارہ پاکستان S.PK
5″مختلف قسم کی خدنات کے عوض ستارہ خدمت S.K
6″ سترہ عدد و دیگر جنگی خدمات کے تمغے جو 1932-33 سے لے کر دوران سروس ملتے رھے اس طرح کل تعداد انکی بائیس تک ھے جو بذات خود ایک ریکارڈ ھے
29″نومبر 1971ء جنرل نیازی صاحب کو پاک فوج کے کمانڈر انچیف نے مندرجی ذیل الفاظ سے یاد کیا
I am most Impressed by the wonderful jib done by you and all ranks under your cmmand in meeting the lates challange posed by the enemy in East pakistan The whole nation is proud of you and you have their full support
آپ ان انگریزی فقرات پر دھیان دیں ایک شخص کو بتایا جارھا ھے کہ پوری قوم کو آپ پر فخر ھے اور قوم کی مکمل امداد آپ کے ساتھ ھے لیکن پردۀ غیب سے کیا ھوتا ھے اسکا علم ابھی ہمیں نھی ھے ھاں تو جنرل امیر عبداللہ خان نیازی گونا گوں خوبیوں کے مالک ایک سیدھا سادہ سپاھی نڈر بے خوف بلا خوف ہر بات صاف صاف کہنے کا عادی جو کسی نا اہل اور بزدل کو معاف نہ کرتا تھا دیانت داروں کی قدر کرتا تھا جو خود دولت کے انبار پر بیٹھ کر دیانت کا بڑا ثبوت دے چکا تھا اس جنرل کو اہنی سپاھ Troops” کو کمانڈ کرنے کا فطری ملکہ حاصل تھا جو بذات خود اگلے مورچوں میں جانے کو ترجیح دیتا تھا تھری سٹار جنرل ھو کر فور سٹار جنرل کی جگہ پر کام کررھا تھا مگر اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے سے کبھی گریز نہ کرتا تھا
قابل ذکر بات یہ ھے کہ جنرل نیازی اور اسکی ا فواج کا مقابلہ بھارتی ا فواج سے ایک نسبت چھ کا تھا جنرل نیازی کی افوج نے بری بحری اور ھوائی امداد نہ ملنے کے باوجود بھی بھارتی افواج کا مہینوں مقابلہ کیا جنگ جاری رکھی اور پھر بہ امر مجبوری اہنے افسران اعلی بشمول صدر پاکستان کے احکامات پر عمل کیا وہ احکامات کیا ہیں انے والی سطور میں آپ پڑھ لیں گے میں یہ سطور انے والی نسلوں کیلئے تحریر کر رھا ھوں شاید ان حقائق کی بدولت انکی سمجھ میں کچھ آجائے اس چھوٹے سے مضمون میں نہ تو ھم سیر حاصل بحث کرسکتے ہیں اور نہ ہی جنرل نیازی کاپیش نظر اور پس منظر بیان کرسکتے ہیں صرف اتنا تحریر کرسکتے ہیں 1971ء کی جنگ جنرل نیازی نے ہاری نھی تھی بلکہ آپ کو مغربی پاکستان کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کا حکم ملا تھا شاید مغربی پاکستان کی حالت بھی دگر گوں ھو گئی تھی اس عظیم ہیرو کے متعلق جو شبہات ھر پاکستانی کے دل میں پروپیگنڈے کے ذریعے پیدا کریے گئے تھے انہیں آپ حرف غلط کی طرح مٹادیں تاریخ عالم گواہ ھے کہ جنرل رومیل اور جنرل آکن لک جیسے ماہرین فن و حرب کو بھی کئی دفعہ محاذ جنگ چھوڑنا پڑا مگر ان لوگوں کی حکومت نے پشت پناھی کی اور عوام کو بتایا کہ جرنیل جو محاذ جنگ پر لڑ رھا تھا اسکا کوئی قصور نہی ھے مگر حکومت وقت نے 1971ء میں جنرل نیازی سے ہتھیار خود رکھوادیے اور پہر اسے متنازعہ شخصیت بنا ڈالا سکوت ڈھاکہ پر ایک کتاب لکھی جاچکی ھے مگر تاحال قاری سے پردہ داری ھے
ھم بچاتے رھے دیمک سے اپنے گھر کو
چند کیڑے کرسیوں کے ملک سارا کھا گئے
اب آپ کیلئے جنرل حمید کی رپورٹ سے ایک پیراگراف حاضر ھے
Para-7By Gen Hameed
Tiger Niazi faught on and on till ordered by lay down arms
Tiger Niazi ordered his troops to fidht to the last man and last round But on orders of president of pakistan and on advice from me he had to lay down the arms
تو ادھر ادھر کی بات نہ کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے ریزن سے غرض نھی تیری رہبری کا سوال ھے
اور یوں جنرل نیازی بھارت کی قیدو بند کی مصیبتیں جھیلنے کیلئے اپنے رفقائے کار سمیت چھوڑ دیے گئے ھم پاکستانیوں کی سب سے بڑی کمزوری یہ ھے کہ ھم ہر میدان میں فتح و نصرت کی تو قدر کرتے ہیں مگر ناکامی کی صورت میں تمامتر ذمہ داری کھلاڑیوں پر ڈال دیتے ہیں حالانکہ ملکی حالات واقعات مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے درمیانی فاصلوں لائین آف کمونیکیشن لائین آف سپلائی اور سامان جنگ کی ترسیل کے ساتھ ساتھ سامان خورد ونوش کا انتظام گورنمنٹ کی مکمل ذمہ داری ھوتا ھے اس وقت کی حکومت نے درج بالا حالات کو کس طرح کنٹرول کیا آپ سب پر روز روشن کی طرح عیاں ھے

ھم جنرل نیازی صاحب کو کیوں مورد الزام ٹھراتے ہیں
ھم جنرل نیازی کو بری الزمہ سمجھتے ہیں
پنجابیوں نے پختون جنرل کو بدنام کرنا تھا
سو کردیا اور پنجاب کو مغربی پاکستان پر بالا دستی تو حاصل ھوگئی لیکن پنجاب نے اپنی سفاکانہ روش ترک نہی کی بلوچ اور پختونوں کے ساتھ بھی وھی سلوک روا رکھا گیا جو انکا بنگالیوں کے ساتھ تھا
تاریخ نیازی قبائل “صفحہ نمبر 814″815” 816″817

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں