تذکرہ (پٹھانوں کی اصلیت اور انکی تاریخ)


جناب روشن خان مرحوم (1988-1914) پشتون تاریخ کے حوالے سے گزشتہ صدی کے ایک معروف مؤرخ ہوئے ہیں. آپکا تعلق صوابی سے تھا..
آپ نے تحریک پاکستان اور خدائی خدمتگار تحریک دونوں میں بھرپور حصہ لیا..
آپ کی کئی تصنیفات ہیں جن پر انشاءاللہ وقتاً فوقتاً تبصرہ کریں گے. آج ہم انکی کتاب تذکرہ پر بات کریں گے..


جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ پشتونوں یعنی پٹھانوں کی تاریخ بارے عمومی طور پر دو نظریات موجود ہیں ایک یہ کہ پشتون بنی اسرائیل سے ہیں تو دوسرا یہ کہ پشتون آریائی ہیں..
پشتونوں کا آریائی ہونے کا نظریہ ماضی قریب کا ہے اور اس نظریے کو متعارف کروانے والے انگریز ماہرین ہیں کیونکہ جب وہ ہندوستان کو فتح کرتے ہوئے پٹھان علاقوں میں پہنچے تو انہیں زبردست قسم کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور ساتھ ہی روس کے ساتھ تنازعہ میں بھی مرکزی کردار انھی افغانوں کا تھا جو اس خطے میں حکمران تھے.. جب انگریزوں کو معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں تو کیونکہ یہودی اور عیسائی مذہب میں بنی اسرائیل قوم کی تاریخ بہت زیادہ ہے تبھی ان نووارد برطانوی حکمرانوں کو اس بارے میں دلچسپی پیدا ہوئی اور وہ تحقیقات میں مصروف ہوگئے..
جسکے نتیجے میں کچھ برطانوی مؤرخین نے اس نظریے سے اتفاق کیا لیکن اکثریت نے اس نظریے سے اختلاف کیا. دوسری طرف انگریز ہندوستان کی قدیم تاریخ سے بھی متاثر ہوچکے تھے اس سلسلے میں مزید تحقیقات کیلئے بنگال میں ایشیاٹک لٹریری سوسائٹی کی بنیاد بھی رکھی جسکا واحد مقصد ہندوستان کی تاریخ و ثقافت پر کام کرنا تھا.. پس وہیں پر آریاؤں کے نظریہ کا وجود ہوا اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ یورپ ایران اور ہندوستان کے تمام لوگ آریائی قوم سے ہیں..
جبکہ پشتونوں کے متعلق بنی اسرائیل ہونے کا دعویٰ کافی پرانا ہے جسکا ذکر ابن بطوطہ اپنے سفر نامہ میں اور ابوالفضل کے اکبر نامہ میں بھی ملتا ہے. ابوالفضل کے بعد دور جہانگیر میں نعمت اللہ ہروی نے اس نظریے کی بنیاد پر تمام پشتون قبائل کو اپنی کتاب مخزن افغانی میں ایک شجرے میں پرو کر ایک دوسرے سے مربوط کردیا.. اس کے مطابق مخزن افغانی کی تمام معلومات اس نے پشتون قبائل کے علاقوں میں دورے کرکے پشتون عمائدین سے حاصل کرکے لکھیں.. جس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ آج سے پانچ سو سال قبل بھی پشتون خود کو بنی اسرائیل کا حصہ سمجھتے تھے.. لیکن گزشتہ دنوں ڈاکٹر سعود الحسن روہیلہ صاحب نے اپنی نئی کتاب رسالہ افغانان در کیفیت نسل جو کہ دراصل تیرھویں صدی عیسوی کے ایک معروف مصنف محمد مستوفی کی تصنیف ہے کا اردو میں ترجمہ کیا ہے جس میں صراحت کے ساتھ پٹھانوں کے بنی اسرائیل ہونے کا ذکر ملتا ہے. جس سے اس نظریے کے مزید قدیمی ہونے کے شواہد مل جاتے ہیں کیونکہ یہ کتاب شہاب الدین غوری کے ہندوستان پر حملوں کے زمانے کی تالیف شدہ ہے پس یوں سمجھیں کہ یہ نظریہ تقریباً ساڑھے آٹھ سو سال پرانا ہے..

سبب تالیف؛

تذکرہ کتاب کی تالیف سے کچھ عرصہ قبل اولف کیرو اور بہادر شاہ ظفر کاکا خیل صاحب نے اپنی اپنی کتب تالیف کیں تھیں جن میں بھرپور انداز میں بنی اسرائیل کے نظریہ کو رد کیا گیا اور آریائی نظریہ کے حق میں دلائل دیئے گئے اور درج بالا دونوں کتب کو شہرت بھی اچھی خاصی ملی اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے فاضل مصنف روش خان جو اس سے قبل تواریخ حافظ رحمت خانی پر اور یوسفزئی ایک قوم کی سرگزشت نامی کتابوں پر بھی اپنا کردار ادا کرچکے تھے انھوں اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے بنی اسرائیل کے نظریہ کے حق میں ایک کتاب تالیف کرنے کا فیصلہ کیا.. جسکا نام تذکرہ (پٹھانوں کی اصلیت اور انکی تاریخ) رکھا..
اس کتاب میں انھوں نے بھرپور دلائل سے پشتونوں کے بنی اسرائیل ہونے کے حق میں دلائل اور شواہد فراہم کئے ہیں..
اس کتاب کے تین مرکزی موضوعات ہیں پہلے حصے میں تمام ابراہیمی مذاہب کی کتب یعنی تورات انجیل اور قرآن شریف وغیرہ اور دیگر قدیم کتابوں سے قوم بنی اسرائیل کی فلسطین سے بیدخلی اور انکی ایران میں آمد اور پھر ایران سے افغانستان کے پہاڑوں کی آمد، مختلف پشتون علاقوں اور قبائل کے ناموں کی مماثلت پر بیان کیا. جبکہ دوسرے حصے میں انھوں نے ہندوستان میں پھیلے ہوئے پشتونوں پر بات کی جبکہ تیسرے حصے میں انھوں نے پشتو زبان اور دیگر سامی زبانوں میں اشتراکیت و مماثلت کو ثابت کرنے کی کوشش کی ساتھ ساتھ اس خطے میں مختلف قدیم آثار سے بھی بنی اسرائیل کے تعلق کو ثابت کرنے کی سعی کی..
جو لوگ پشتونوں کے بنی اسرائیل ہونے کے نظریہ میں دلچسپی رکھتے ہیں ان کیلئے یہ ایک بھرپور کتاب ہے.. جب مجھے تاریخ کا مطالعہ کرنے کا شوق پیدا ہوا تو اؤائل میں میں بھی بنی اسرائیل ہونے کا زبردست حامی تھا لیکن بعدازاں جب مطالعہ میں وسعت پیدا ہوتی گئی یہ نظریہ کمزور ہوتا دکھائی دیا کیونکہ آجکل کی دنیا سائنسی بنیادوں پر ثابت شدہ بات کو قبول کرتی ہے… بہر حال میں بنی اسرائیل ہونے کے نظریہ کا مکمّل طور پر مخالف نہیں ہوں کیونکہ کافی ایسے آثار ملتے ہیں جن سے اس خطے میں بنی اسرائیل کی آبادی ہونے کے شواہد موجود ہیں مزید اسرائیل والوں نے بھی پشتونوں پر کافی تحقیق کی ہے اور ابھی تک جاری ہیں. کیونکہ افغانستان اور ہمارے پشتون علاقوں میں بدامنی ہے تبھی گزشتہ پانچ عشروں سے یہ کام سست روی کا شکار ہے.. شاید آنیوالے وقتوں میں جب اس خطے میں امن قائم ہو پھر اس تحقیقی کام میں کوئی پیشرفت ہو..

تنقیص؛

اس کتاب میں کچھ ایسی باتوں کا تذکرہ بھی لازم ہے جو کہ اجماعی طور پر درست نہیں لیکن کیونکہ کم مطالعہ رکھنے والا شخص ان کو درست سمجھنے کی غلطی کرسکتا ہے جیسے کہ تاریخ نیازی قبائل کتاب کے مصنف جناب محترم حاجی محمد اقبال خان نیازی مرحوم نے اس کتاب کے مندرجات کو من و عن چھاپ دیا حالانکہ ان میں کافی سقم موجود تھے..
مثال کے طور پر انھوں نے بناء کسی مستحکم دلیل کے ساتھ سندھ کے سومرہ اور سمہ اقوام کو بھی بنی اسرائیل قرار دے ڈالا حالانکہ سمہ قوم کے لوگ خود کو سندھ کے قدیم ترین باشندے ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں تاریخ نظامی نے انھیں ایرانی بادشاہ جمشید کی نسل قرار دیا ہے جبکہ کچھ محققین انھیں راجپوت نسل میں شمار کرتے ہیں اسکے علاوہ کچھ انھیں جٹ قوم سے متصل بیان کرکے فارس سے آئے پارتھین میں شمار کرتے ہیں.. یہی معاملہ سومروں کا ہے وہ خود کو عراق کے شہر سومرہ سے آمد کا نظریہ پیش کرکے خود کو عرب بتلاتے ہیں جبکہ کچھ مزید آگے بڑھ کر خود کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد سے سمجھتے ہیں لیکن جدید مؤرخین انھیں بھی راجپوتوں میں شامل کرتے ہیں جو محمد بن قاسم کے عہد میں مسلمان ہوئے… اسی طرح ملتان کے لنگاہ خاندان بارے میں بات ہے انھیں یہ پشتون قبیلہ پنی کی ذیلی شاخ ہونے کا بتلاتے ہیں حالانکہ سر ڈینزل ابٹسن کے مطابق زیادہ تر لنگاہ خود کو بلوچ اور جٹ سمجھتے ہیں معدودے چند پٹھان ہونے کا خیال رکھتے ہیں دوسری طرف لنگاہ خاندان سبی اور ملتان کے مقتدر حکمران رہے لیکن انھوں نے کوئی ایسی روایات نہیں چھوڑیں جس سے انکی قومیت بارے کوئی واضح معلومات مل سکیں البتہ انکے خدوخال بلکل پٹھانوں والے نہیں ہیں…
اسی طرح ٹیپو سلطان کو شیر شاہ سوری کے ایک نامور جرنیل حاجی خان ترین کی اولاد بتلاتے ہیں حالانکہ ٹیپو سلطان اور اسکے والد حیدر علی کے بارے میں لکھی گئی اولین اور انکے ہمعصر لکھاریوں نہیں کہیں بھی انکے افغان ہونے کی بات تک نہیں کی گئی. البتہ انکے عرب ہونے، سید ہونے یا لوکل ہندوستانی النسل ہونے پر بحث کی گئی…
اسی طرح سواتیوں کے بارے میں بنا کسی حوالے کے درج کیا گیا کہ انھیں شہاب الدین غوری نے بسایا تھا مگر حالات یہ ہیں کہ ایسے کسی قسم کے شواہد موجود نہیں…
اس کے علاوہ ایک سنگین غلطی یہ ہے کہ طبقات ناصری جو کہ تیرھویں صدی میں لکھی گئی اس میں غوریوں سے متعلق بیان کو تاریخ مبارک شاہی کا مآخذ سمجھتے ہیں حالانکہ تاریخ مبارک شاہی دو سو سال بعد پندرھویں صدی میں لکھی گئی.. اس طرح ایک جگہ خواجہ بختیار کاکی کو سید گیسوئے دراز کی اولاد میں سے قبیلہ بختیار کی شاخ شیرانی سے بتلاتے ہیں لیکن آگے چل کر یہ لکھتے ہیں کہ خواجہ بختیار کاکی سڑابن تھے.. یقیناً یہی بیان درست ہے مخزن افغانی میں بھی یہی درج ہے کیونکہ سید گیسوئے دراز تو خود خواجہ بختیار کاکی کے بعد میں ہوئے ہیں انکی اولاد شامل ہونا غیر منطقی بات ہے..
اس کے علاوہ وہ بٹ خیلہ بٹگرام وغیرہ کی بنیاد پر کشمیر کی بٹ قوم بھی افغانوں میں شمار کرتے ہیں لیکن آگے چل کر ان قریہ جات کو بیٹنی پشتونوں سے جا ملاتے ہیں…
اسی طرح تاریخ خٹک میں درج بیان کہ افغان دراصل آرمینیا کے باشندے ہیں جو البانیہ سے ہجرت کرکے آئے ہیں حالانکہ انھیں اس بیان پر سوچ بچار کرنی چاہیے تھی کہ کہاں آرمینیا کہاں البانیہ اور پھر کہاں جا کر افغانستان کوئی ربط ہی نہیں بنتا ان ممالک میں..
اسکے علاوہ دکن کے بہمنی خاندان اور دہلی کے تغلق (جو کہ محققین کی متفقہ رائے سے کسی قبیلہ یا قوم کی بجائے انفرادی نام تھا) کو باقاعدہ خاندان بنا کر کاکڑوں میں شمار کردیتے ہیں..

انتفاع؛

اس کتاب یعنی تذکرہ میں جو اہم چیزیں ہیں جن پر انکی تحقیقات درست اور اہمیت کی حامل ہیں وہ صوابی کے پاس دریائے سندھ کے کنارے موجود لاہور کی قدامت ہے جسکو بعد میں آنیوالے مؤرخین نے غلطی سے راوی کے کنارے واقع کو سمجھ کر بیان ہے. حالانکہ یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ روای کے کنارے موجود لاہور کو اہمیت ایبک دور میں کسی حد تک ملی لیکن اسکو اصل میں یہ اہمیت بہلول لودی نے دی جو رفتہ رفتہ مزید بڑھتے ہوئے رنجیت سنگھ کے زمانے میں مرکزی اہمیت حاصل ہوئی وگرنہ اس سے قبل محمود احمد غزنوی کے زمانے میں پنجاب کا دارالحکومت سیالکوٹ رہا ہے.جو ہنوں کے حملے کےوقت بھی پنجاب کا دارالحکومت تھا. اسکے علاوہ سلاطین دہلی میں پھر یہ مقام سرہند کو حاصل ہوا پنجاب کا دارالحکومت سرہند رہا.. بہلول لودی کے زمانے میں جاکر کہیں لاہور کا باقاعدہ الگ گورنر مقرر ہوا.. فاضل مصنف کے نزدیک قطب الدین ایبک سے پہلے تک عرب مؤرخین سے لیکر غزنوی و غوری حکمرانوں تک جس لاہور کا قدیم مآخذوں میں ذکر ملتا ہے دراصل وہ صوابی والے دریائے سندھ کے کنارے واقع لاہور کے متعلق ہے نہ راوی والے لاہور کے متعلق. اسکے علاوہ انھوں نے اسی لاہور (صوابی والے) کے قریب واقع ایک قریہ جو کسی زمانے میں ہندو شاہیہ کا صدر مقام تھا وئےہنڈ اس پر بھی کافی اہم معلومات فراہم کیں. اس قریہ کی قدامت کو تو جدید محققین نے بھی آثار قدیمہ سے ثابت کیا ہے..

کیا ماضی میں ملتان بھی دو تھے؟

اس موضوعات کو پڑھتے ہوئے مجھے ایک نئی کرن ملتان بارے میں ملی ہے کہ غزنوی دور تک ملتان بھی دو تھے ایک مشہور معروف جنوبی پنجاب کا ملتان جبکہ دوسرے کے بارے میں خیال ہے کہ وہ شمالی پنجاب میں کہیں واقع تھا خیال اغلب ہے کہ وہ چکوال کا ملتان خورد نامی گاؤں ہے جو اب اپنی تاریخی اہمیت کھو کر چھوٹا سا قصبہ بن چکا ہے..
کیونکہ ابن خلدون لکھتا ہے کہ لاہور اور ملتان کے درمیان پہاڑ واقع ہیں جو کھوکھروں کی آماجگاہ ہیں اسی طرح وہ ملتان کے بارے میں لکھتا ہے کہ ملتان کابل اور لاہور کے درمیان راستہ پر واقع ہے.. اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ لاہور اور جنوبی پنجاب والے ملتان کے درمیان تو کہیں بھی پہاڑ نہیں آتے نہ ہی یہاں گکھڑوں یا کھوکھروں کے کوئی تاریخ شواہد موجود ہیں کیونکہ آگے چل کر یہی مصنف کوہ جودی (یعنی کوہ نمک) کو اس قوم کا مستقرر بتاتا ہے اور ملتان خورد (چکوال والا) ہی اس پہاڑی سلسلے میں نہ صرف واقع ہے بلکہ لاہور اور اس ملتان (چکوال والے) کے درمیان پہاڑ موجود ہیں. اسی طرح جنوبی پنجاب والا ملتان لاہور اور کابل کی راہ پر بلکل واقع نہیں ہے بلکہ وہ تو راستے سے کافی دور ایک الگ سمت میں واقع ہے جبکہ چکوال والا ملتان البتہ کابل اور لاہور کے درمیان ہونے کے صراحت سے شواہد موجود ہیں. بہرحال حتمی رائے تو محققین ہی دے سکتے ہیں کہ یہ سب کیا ماجرا ہے..

اختتامیہ؛

اللہ تعالیٰ جناب محترم روشن خان مرحوم کو غریق رحمت کرے اور انھی راحت نصیب فرمائے اگر وہ حیات ہوتے تو ان سے ضرور راہنمائی چاہتا کہ
آپ نے افغانستان پر سفید ہنوں کے حملوں اور ترکوں کی حکومتوں کو بھی افغانستان کے علاقے میں مانا ہے لیکن سوال پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سفید ہن اور ترکوں کے جتھے کہاں گئے جو اسلام کے اس خطے کی آمد تک یہاں موجود تھے وہ لوگ انکے قبائل بارے میں فاضل مصنف کی کیا رائے ہے؟
دوسرا یہ کہ آپ کے بقول بنی اسرائیل یہاں آئے اس کے بعد انھوں نے عیسائیت کو بھی قبول کیا اور پھر انھیں جب حضرت محمد ﷺ کی بعثت کی خبر پہنچی تو وہ ان پر ایمان لانے کیلئے جزیرۃ العرب بھی گئے.. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس وقت کے اسرائیلی افغان اتنے اہل علم تھے تو انھوں کے زیر استعمال رہنے والے تورات انجیل کے نسخے کہاں گئے انکے گرجا گھر یا عبادت خانوں کے شواہد کیونکر نہ پیدا ہیں اس کے برخلاف زرتشتی اور بدھ مت کے عبادت خانوں کے آثار کافی تعداد میں ملے ہیں حتی کہ ہندوؤں کی مورتیاں تک برآمد ہوئی ہیں.
اسکے علاوہ جتنے بھی مسکوکات اس خطے سے ملے ہیں بھلے وہ سنسکرت، پراکريت، خط میخی، یونانی، ایرانی، باختری و دیگر حتی کہ آرامی زبان کے بھی ان میں کسی بھی تحریر میں بنی اسرائیل، یہودی یا عیسائی مذہب یا افغان یا پشتون قوم کے بارے میں کوئی بھی معلومات نہیں ملتیں اسکے علاوہ ہیرو ڈوٹس جو بنی اسرائیل کی نقل مکانی کا زمانہ جسکا ذکر کیا جاتا ہے کہ قریب تر تھا اس نے بھی ایسا کوئی بیان نہیں لکھا آخر اسکی کیا وجہ تھی…

کتاب اۤن لائن پڑھنے کیلئے درج ذیل لنک پر کلک کریں۔

https://archive.org/details/TazkirapathanoKiAsliyatAurInKiTarikh

تحریر و تبصرہ؛ نیازی پٹھان قبیلہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں