مشرقی پاکستان سے غداری


جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کی کتاب؛
مشرقی پاکستان سے غداری The Betrayal of East Pakistan

جنرل امیر عبداللہ خان نیازی جنھیں لوگ جنرل اے اے کے نیازی یا مختصراً جنرل نیازی بھی کہتے ہیں.
پاکستانی افواج کے ایک تھری اسٹار جنرل تھے. پاکستان کی عوام دراصل انھیں فقط اکہتر کی جنگ میں ہتھیار ڈالنے کے سبب جانتی ہے.
کیونکہ ستر کی دہائی کی اسٹیبلشمنٹ و حکومت نے عوام کے اذہان میں انکا یہی تعارف بھرا. وگرنہ ان کے کیرئیر میں اور بھی بہت سی چیزیں تھیں جو انھیں ممتاز کرتی تھیں جنھیں انکے حاسدین نے عوام سے چھپائیں..
فی الحال ہمارا موضوع بحث انکی شخصیت نہیں بلکہ انکی کتاب ہے پس ہم انکی اس کتاب اور اکہتر کی جنگ پر بات کریں گے..
سقوط ڈھاکہ پاکستانی تاریخ کا ایک اہم اور الم ناک واقعہ ہے جو پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا.
سقوط ڈھاکہ کے آثار تو اسی وقت نظر آنے لگ گئے تھے جب پاکستان دو حصوں میں وجود میں آیا جس کے درمیان اس کا دشمن ملک بھارت واقع تھا.
سقوط ڈھاکہ کی نشانیاں اس وقت بھی آنے لگ گئیں جب قائد اعظم نے پاکستان کی اکثریت زبان بنگالی کو قوم زبان قرار دینے سے انکار دیا
سقوط ڈھاکہ کے کیا محرکات تھے یہ بھی ایک وسیع موضوع ہے جس پر ہم پھر کبھی لکھیں گے فی الحال ہم فوکس صرف اور صرف متعلقہ کتاب تک محدود رکھیں گے.
سقوط ڈھاکہ کے بعد سینکڑوں آرٹیکلز اور مقالے لکھے گئے وہیں کافی کتابیں بھی لکھی گئیں. پاکستان میں اکثر لکھی جانے والی کتابوں کے سیاسی مفادات تھے. اور یہ کتابیں اُن لوگوں نے فہمائش پر لکھوائیں جو سقوط مشرقی پاکستان کے ذمہ دار تھے. جس کے سبب سقوط مشرقی پاکستان کے اصل محرکات اور ذمہ داران کا تعین کرنا اب مشکل ہوچکا ہے. کیونکہ حقائق کو اس قدر مسخ کردیا سچ کو تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے..
اس سانحے پر ایک کمیشن بھی بنایا گیا. جسکی رپورٹ تا حال باقاعدہ طور پر جاری نہیں کی گئی. نہ ہی اتنے اہم حادثے میں ملوث ذمہ داران کا تعین کیا گیا اور نہ ہی انکے خلاف کوئی کارروائی ہوئی.
ہماری بحیثیت قوم لاپرواہی کی معراج یہ ہے کہ اس حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ بھی پاکستانی عوام تک بہ توسط پہنچی. لیکن کسی بھی پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی یا حاکم نے جرات کرکے سراغ لگانے کی کوشش بھی نہیں کی کہ انتہائی حساس خفیہ رپورٹ جو پاکستانی قوم سے بھی چھپا کر رکھی ہوئی تھی دشمن ملک تک کیسے پہنچی..
بہرحال اس رپورٹ میں بھی کافی جھول ہیں جس کے سبب یہ متنازعہ شمار ہوئی. اس پر بھی تبصرہ پھر کبھی.
ہم آتے ہیں اس جنرل نیازی صاحب کی کتاب کی طرف.
کیونکہ جنرل نیازی جو اس سارے سانحہ کا مرکزی کردار بنا کر پیش کیا گیا ہے. حالانکہ وہ ایک معمولی سا کردار تھے.
بہرحال جنرل نیازی نے انیسو اٹھاونے میں اپنی وفات سے چھ برس قبل کتاب لکھ کر لوگوں کو اپنا نقطہ نظر پہنچایا. جو کہ تاریخ کا ایک اہم ریکارڈ ہے.
اس کتاب کو کیونکہ انگریزی زبان میں لکھا گیا تھا. تبھی انکی وفات کے بعد وسیم شیخ صاحب نے اس کا اردو زبان میں ترجمہ کیا جو کہ پیش خدمت ہے..
یہ ترجمہ کوئی معیاری ترجمہ تو نہیں ہے لیکن گزارہ ہے. اس میں جنرل نیازی کی کتاب میں شامل نایاب نقشہ جات، تصاویر اور ٹیلی گرام آرڈرز کے عکس بھی شامل نہیں ہیں جو کہ اہم دستاویزات کی حیثیت رکھتے ہیں..
ان کیلئے آپ کو اصل انگریزی کتاب سے رجوع کرنا ہوگا..
اس کے کل بارہ ابواب ہیں.


پہلے باب میں جنرل نیازی اپنا عسکری سفر بطور سپاہی سے لیکر جنرل تک کا مختصراً بیان کرتے ہیں.
جس میں وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے برٹش انڈین آرمی میں شامل ہوکر مشرق وسطیٰ خدمات سرانجام دیں پھر وہاں واپس آکر جنگ عظیم دوم میں برما کے محاذ پر جنگ لڑی جہاں پر انھوں نے جرات مندی و دلیری سے خود کو منوایا.
جس کے سبب انھیں ٹائیگر کا خطاب اور ملٹری کراس جیسا ایک اعلیٰ تمغہ سے نوازا گیا.
اس کے بعد پاکستان کے معرض وجود میں آنے پر انھوں نے پاکستان آرمی میں شمولیت بطور میجر کی. وہ کاکول اکیڈمی اور کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ میں انسٹرکٹر بھی تعینات رہے.
انیس سو پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ میں آپ بطور برگیڈیر کشمیر میں مظفرآباد کے دفاع کیلئے تعینات تھے. لیکن جنرل اختر حسین ملک کی خصوصی فرمائش پر صدر پاکستان فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے آپ کو سیالکوٹ کے دفاع کیلئے تعینات کیا. جہاں پر آپ نے ظفروال سیکٹر سے دشمن کو نکال باہر کیا اور پاکستانی قبضہ کو مستحکم کیا. اس شاندار کارکردگی کے سبب آپ کو صدر پاکستان نے ہلال جرات بمعہ بار (یعنی دو ہلال جرات) سے نوازا. جو کہ ایک ریکارڈ ہے.
آپ کے سینہ پر کل اٹھائیس میڈل آویزاں تھے جن میں سے اٹھارہ جنگی تمغہ تھے. آپ پاکستان آرمی کے موسٹ ڈیکوریٹڈ سولجر تھے.

دوسرے باب میں آپ مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب سینئر جنرلز مشرقی پاکستان کا کنٹرول سنبھالنے میں ناکام ہوگئے تو مجھے چیف آف آرمی سٹاف جنرل عبدالحمید خان نے مشرقی پاکستان جانے کا حکم دیا. اس وقت میں کورکمانڈر لاہور تعینات تھا

میرے وہاں پہنچنے سے پہلے جنرل ٹکا خاں آپریشن سرچ لائٹ کے نام پر بنگالی عوام کے ناحق خون سے اپنے ہاتھ خون آلود کر چکے تھے. مشرقی پاکستان کے پاکستانی اب پاکستان سے مایوس ہوچکے تھے. بہرحال میں نے وہاں دس اپریل اکہتر کو بطور کمانڈر ایسٹرن کمانڈر چارج جنرل ٹکا خاں سے لیکر فوری طور پر آپریشن سرچ لائٹ بند کرنے کا حکم دیا. اور وہاں تعینات فسادی افسران کے خلاف قانونی کارروائی کی ایڈوائس ہیڈکوارٹر بھجوا دی. انھی فسادی لوگوں نے بعد میں مجھے ہر جھوٹ و بہتان پر مبنی کتابیں لکھ کر اپنی بھڑاس نکالی. جنرل ٹکا خاں ایک درندہ سفت سفاک شخص تھا. جس نے بنگالیوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کے بعد بلوچستان میں بھی اپنے ہاتھ بلوچوں کے خون سے آلود کئے. اسی نے مشرقی پاکستان کی صورتحال کو اس نہج پر پہنچ دیا کہ جہاں سے واپسی کا راستہ ممکن نہ رہا.. دوسری طرف اگر ہم بات کریں جنرل یعقوب خان کی تو انھوں نے زندگی بھر کوئی جنگ ہی نہیں لڑی وہ قلم مزاج آدمی تھے وہ باتیں اچھی کرسکتے تھے اچھا لکھ سکتے تھے لیکن جنگ اور ایڈمنسٹریشن اس کے بس کا روگ نہ تھا. انھی کی کھلی چھوٹ کے سبب عوامی لیگ نے کھل کر دھندلی کی اور وہ مشرقی پاکستان سے اتنی زیادہ سیٹس جیت گئے.. جب مشرقی پاکستان کے حالات قابو سے باہر ہونے لگے تو وہ ایسٹرن کمانڈر کا دفتر چھوڑ کر پاکستان چلے آئے. یہ ایک انتہائی سنگین جرم تھا لیکن کسی نے ان سے بازپرس نہ کی. انھی کے بعد جنرل ٹکا خاں جو کہ اپنی درندگی کے سبب بوچر یعنی قصاب مشہور تھے وہ تعینات ہوئے جن کا احوال پہلے گزر چکا ہے.

جون تک میں نے حکومت کا اقتدار بحال کردیا تھا. اور نورالامین کی سربراہی میں ایک سول حکومت کے قیام کی بھی صدر یحییٰ خان سے درخواست کردی تھی لیکن انھوں نے اس میں لاپرواہی کا مظاہرہ کیا. ڈاکٹر مالک کی کچن کیبنٹ کی عوام میں کوئی مقبولیت نہ تھی حتیٰ کہ اس میں ایک ہندو وزیر تک نہ تھا حالانکہ مشرقی پاکستان میں ہندوؤں کی ایک بڑی اقلیت تھی.

جب میں نے چارج لیا تو آپریشن سرچ لائٹ کو فوراً بند کیا اور جوانوں کو سرحدوں کی حفاظت کیلئے بھیج دیا اسطرح حالات پرامن ہونے لگ گئے تو میں نے مرکزی حکومت سے عام معافی کا مطالبہ کیا تاکہ اس طرح بنگالیوں کی تالیف قلوب کی جاسکے. جس کو حد درجہ تاخیر سے قبول کیا گیا. اور یہ معافی بھی مشروط تھی جس کی وجہ سے اس کا بنگالیوں پر کوئی خاطر خواہ اثر نہ ہوا.

مجھ پر جنرل خادم حسین راجہ جنھیں میں نے منفی کردار کے سبب بنگال سے واپس بلوانے کی سفارش کی تھی نے اپنی کتاب میں الزام لگایا کہ جب میں جنرل راجہ سے چارج لینے لگا تو اس کو کہا کہ اپنی داشتاؤں کا بھی چارج دو…

یہ کیسی شرمناک بات اس کم بخت نے مجھ سے منسوب کی ہے. پہلی بات یہ ہے کہ میں نے چارج جنرل راجہ سے نہیں بلکہ جنرل ٹکا خاں سے لیا تھا. کیونکہ راجہ تو اس وقت میجر جنرل تھا. جو کہ خود لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خاں کے ماتحت تھا اور میں بطور لیفٹیننٹ جنرل اس کا باس تعینات ہوا. دوسری بات یہ ہے کہ اگر میں اس کی داشتاؤں کا چارج مانگ رہا تھا تو یہ بات بھی اعترافی ثبوت ہے کہ جنرل راجہ ایک بدکردار شخص تھا جو داشتائیں رکھتا تھا..

اصل دکھ جنرل راجہ کو اسی بات کا ہے کہ میں نے اس کی غیر اخلاقی سرگرمیوں کے سبب اس کو واپس مغربی پاکستان بھیجنے کی سفارش کی تھی. جس کے سبب اس نے مجھ پر یہ گھٹیا بات باندھی ہے.

جہاں تک بات بات برگیڈیر صدیق سالک کی ہے تو وہ نہ تو پراپر فوجی تھا نہ ہی اس کو جنگ لڑنے کا فن آتا تھا. وہ اکہتر کے زمانے میں شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر میں ایک میجر تھا. جن کا کام پراپیگنڈا کرنا ہوتا ہے.. اس نے یہی کام میرے خلاف اپنے آقا جنرل ٹکا خاں اور صدر ذوالفقار علی بھٹو کی فرمائش پر کیا.

مزید آگے جنرل نیازی جنگی صورتحال کے تناظر میں لکھتے ہیں کہ مغربی پاکستان سے جو دو ڈویژن فوج بذریعہ ہوائی جہاز بھیجی گئی وہ محض سپاہی تھے جن کے پاس رائفلز بھی پوری نہیں تھیں. چہ جائیکہ بھاری ہتھیاروں یعنی توپ خانہ، فوجی ٹرانسپورٹ ٹرک، وائرلیس سیٹس، مشین گنز، مورٹرز و دیگر انجنئیرنگ کا سامان جو کہ ایک لڑنے والی فوج کیلئے نہایت اہم بلکہ بنیادی چیز ہے.. کیونکہ جنگ محض رائفلز کی بنیاد پر نہیں لڑی جاتی.. حتیٰ اس دو ڈویژن فوج کے ساتھ میڈیکل کور کا کوئی بندہ تک نہیں بھیجا گیا جو کہ اس فوج کی طبی دیکھ بھال کرسکتا.. میں نے کئی بار ہائی کمان کو لکھا کہ خالی سپاہی بھیج دینے کا کوئی فائدہ نہیں جب تک کہ دیگر ضروری سامان و اسلحہ نہ بھیجا جائے کیونکہ اس جنگی سامان کے بغیر یہ باقاعدہ فوجی نہیں شمار کئے جا سکتے. ہاں البتہ یہ نیم فوجی دستے سمجھے جائیں گے جو جنگ لڑنے کیلئے قطعی موزوں نہیں. ہاں البتہ امن عامہ کی ذمہ داریاں یہ سرانجام کرنے کیلئے موزوں ہیں..

جہاں تک بحری فوج کی بات کی جائے تو میرے پاس محض چار متروک شدہ گن بوٹس تھیں جن کے مقابلے میں ہندوستان نے تباہ کن جہاز، ائیر کرافٹ کیرئیر، دو آبدوز اور بیسیوں فیرگیٹس اور گن بوٹس کو تعینات کرکے ہمارے سمندری ناکہ بندی کر رکھی تھی.. پس اس صورت ہماری گن بوٹس غیر مؤثر ہوچکی تھیں… جبکہ ائیر فورس کی یہ حالت تھی کہ پورے مشرقی پاکستان میں فقط ایک ائیر فورس اسٹیشن تھا جس پر متروک شدہ چھ سیبر جہاز تعینات تھے. جبکہ اڈے کا ریڈار بھی انتہائی محدود صلاحیتوں کا حامل تھا.

پھر بھی میں اس امر پر فخر کا اظہار کرتا ہوں کہ میں نامکمل تین ڈویژن بہادر فوج جو کہ پوری طرح اسلحے سے لیس بھی نہ تھی جو دشمن کے مقابلے میں بہت قلیل تھی، اندرونی خانہ جنگی کی وجہ سے بے آرام اور تھکی ہوئی تھی.، چاروں طرف سے دشمن میں گھری ہوئی تھی. لیکن ان تمام نامساعد حالات کے باوجود دشمن کو نو ماہ روکے رکھنے میں کامیاب ہوئی. ان نو ماہ میں آرام کا کوئی موقع نہ ملا نہ کوئی امداد ہم تک پہنچی. جبکہ دوسری طرف دشمن کے پاس تازہ دم بارہ ڈویژن کیل و کانٹے سے بھرپور لیس فوج تھی. جس کی پشت پر طاقتور ائیر فورس اور نیوی بھی موجود تھی. ساتھ ساتھ اندرونی طور پر ڈیرھ لاکھ مکتی باہنی کے گوریلا جنگجو بھی تھے.

میں نے اگست میں جنرل جمشید اور برگیڈیر صدیقی کو مغربی پاکستان بھیجا تھا کہ وہ جی ایچ کیو جا کر اشد ضرورت کے جنگی آلات کی مانگ کریں. لیکن ہماری اس درخواست کو منظور نہ کیا گیا.

میرے پاس فقط ایک سی ون تھرٹی طیارہ تھا جو کہ سامان کے نقل و حمل کیلئے تھا وہ بھی واپس لے لیا گیا.

ایڈمرل شریف بھی جنگی بحری جہازوں کی مانگ کرتے رہے لیکن وعدہ پر ٹرخا دیا گیا. مشرقی پاکستان میں ایک تباہ کن جہاز موجود تھا لیکن اکتوبر میں وہ بھی مغربی پاکستان کے دفاع کیلئے بلا لیا گیا اور توجیہہ یہ دی گئی کہ جنگ مشرقی پاکستان میں نہیں بلکہ مغربی پاکستان میں ہوگی.

جب حالات دگرگوں ہوئے تو میں نے ہندوستان کے کچھ کمزور علاقوں کی نشاندہی کرکے ان پر جارحانہ حملہ کی اجازت مانگی تاکہ مکتی باہنی کی نقل و حرکت کو ختم کرکے انڈیا میں خوف پیدا کیا جا سکے. کیونکہ اس وقت تک انڈیا باقاعدہ فوج کو بارڈ پر مجتمع نہیں کرچکا تھا. لیکن مجھے ایسی کسی بھی کارروائی سے روک دیا گیا. حالانکہ میرا منصوبہ تھا کہ جارحانہ گوریلا حملوں سے مکتی باہنی کے ٹریننگ کیمپس، آمدورفت کے پل، فوجی اسلحہ کے ڈپو اور مواصلاتی نظام کو نقصان پہنچایا جائے اور بھارتی عوام میں خوف وہراس پھیلایا جائے. اسطرح انڈیا ذہنی طور مفلوج ہوجاتا اور وہ کسی بھی جارحیت سے قبل سوچ بچار کرتا. لیکن ہمیں ایسی کسی بھی کارروائی کی اجازت نہ دی گئی اور ہمیں کہا گیا کہ آپ کو یہاں جنگ لڑنے کیلئے نہیں بلکہ اندرونی طور پر امن عامہ کے حالات کو سازگار بنانے کیلئے تعینات کیا گیا ہے.

لوگ اکثر کہتے ہیں کہ آپ ہتھیار ڈالنے کے احکامات نہ مانتے کیونکہ آپ خودمختار تھے. نہیں بلکل یہ جھوٹ ہے. میری پوزیشن بہت نازک تھی.

کیونکہ مجھے ٹاسک اور مشن صدر پاکستان و چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان دیتا تھا. لیکن جنگ کا کنٹرول چیف آف آرمی سٹاف جنرل عبدالحمید خان کے پاس یعنی جی ایچ کیو کے پاس تھا. جو میدان جنگ سے سینکڑوں میل دور تھے. تیسری طرف گورنر مشرقی پاکستان ڈاکٹر مالک جن کا جنگی سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں تھا وہ بھی مجھے صوبے میں امن و عامہ کے متعلق احکامات دیتے تھے کیونکہ وہ صدر پاکستان کے نمائندے کے طور پر وہاں متعین تھے. یوں اس طرح میرے چار باس تھے اور ہر ایک طرف سے تفویض کردہ ذمہ داریاں الگ الگ نوعیت کی تھیں.

صدیق سالک نے جو میرے جنگی منصوبے میں خامیاں تلاش کی ہیں وہ کسی اور کا سبق پڑھا ہوا ہے. صدیق سالک کے ان استادوں کے پاس لڑائی کا کوئی تجربہ نہیں وہ فقط باتوں کے شیر ہیں.

مارچ اکہتر تک انٹیلیجنس کا نظام زیادہ تر بنگالی چلا رہے تھے فوجی کارروائی کے بعد انٹیلیجنس کا نظام درہم برہم ہوگیا. کیونکہ بنگالی دل گرفتہ ہوچکے تھے. تمام جنگی کارروائیوں کا انحصار فراہم شدہ انٹیلیجنس رپورٹس پر ہوتا تھا جو بنگالی بناتے تھے. مقامی افراد کی معاونت سے بھارت ہماری ہر طرح کی عسکری معاملات سے بخوبی واقف رہتا تھا. لیکن ہمیں بھارت کی عسکری حالات جاننے کیلئے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.

حیران کن بات یہ ہے کہ ہندوستان نے مشرقی پاکستان پر جارحیت اکیس نومبر کو کردی تھی لیکن مغربی پاکستان میں بیٹھی اعلیٰ قیادت خاموش تماشائی بنی رہی اور بارہ دن بعد یعنی تین دسمبر کو جا کر ہندوستان پر جوابی کارروائی کی. میں ذاتی طور پر مغربی پاکستان سے ہندوستان پر حملہ کے حق میں نہ تھا کیونکہ اس کے بعد ہندوستان کو پراپیگنڈا کے ذریعے بھرپور موقع مل گیا کہ وہ مشرقی پاکستان پر کھل کر جارحیت کا مرتکب ہوسکے. دوسری بات اگر مغربی پاکستان سے کاروائی کا آغاز کر ہی دیا گیا تو اس کو انجام تک کیونکر نہ پہنچایا گیا. یہاں سوالات جنم لیتے ہیں کہ پہلے تو اس حملے کی ضرورت ہی نہ تھی، دوسرا اگر کردیا تو اس میں تاخیر کیونکر کر کی گئی تیسرا حملہ کے بارے میں مجھے کیونکر اعتماد میں نہ لیا گیا چوتھا حملہ کردیا تھا تو پھر اچانک بریک کی لگا دی گئی؟

جب مغربی پاکستان سے حملہ کیا گیا تو میں نے دلچسپی لی کیونکہ ہمیں یہی بتایا گیا کہ مشرق کا دفاع مغرب میں ہوگا. مغربی پاکستان کے محاذ پر ہمارا ہندوستان سے مقابلہ برابری کی بنیاد پر تھا لیکن افسوس مغربی پاکستان کی افواج اہداف حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہندوستان کے علاقے پر قبضہ کرنے کی بجائے اپنا ہی پانچ ہزار مربع میل گنوا بیٹھے اور فی الفور جنگ بندی کا اعلان بھی کردیا گیا. آخر مغربی پاکستان میں اس شرمناک شکست کا کون ذمہ دار ہے؟؟؟

مغربی پاکستان میں شکست کا ذمہ دار جنرل ٹکا خاں ہے جس نے بروقت اپنی ریزرو فوج کو حرکت نہ دی جو مسٹر بھٹو کے ساتھ ساز باز کر کے بیٹھا تھا. ٹکا خاں نے مشرقی پاکستان کی مانند مغربی پاکستان کے حالات کو بھی بگاڑ دیا. اس کے خلاف کورٹ مارشل ہونے والا تھا کہ بھٹو نے عنان حکومت سنبھال کر اور اس کو آرمی چیف تعینات کرکے بچا لیا. مغربی پاکستان میں شکست کا دوسرا ذمہ دار ائیر مارشل عبدالرحیم ہے جنھوں نے جن بوجھ کر فضائیہ کو استعمال نہ کیا اور بھٹو کے ساتھ ساز باز کرلی

البدر و الشمس کے بارے میں کچھ…

البدر و الشمس دو نیم عسکری تنظیمیں تھیں جو محب وطن رضاکار نوجوانوں نے ترتیب دیں. ان تنظیموں کے قیام میں جماعت اسلامی کا مرکزی کردار تھا.

البدر و الشمس نے دل و جان سے ہماری افواج کی مدد کی انھوں نے کبھی بھی دشمنوں سے ساز باز نہیں کی نہ انھوں نے کبھی مکتی باہنی کے ساتھ ملکر کر ہمیں فریب دیا.

چونکہ مجھے اپنے کمانڈوز ہندوستانی علاقے میں بھیجنے پر پابندی تھی تبھی دشمن کے خلاف سرحد پار کاروائیاں انھی تنظیموں کے نوجوانوں کے سپرد کرتا تھا.

اگرتلہ کے سیمنا میں بم پھینکنا، کلکتہ میں دستی بم حملہ وغیرہ انھی لوگوں نے سرانجام دیں. ہمارے ان رضاکاروں کے پاس کوئی جدید اسلحہ نہ تھا. ویسے بھی ہمارے پاس ہتھیاروں کی کمی تھی. یہاں تک کہ باقاعدہ فوج کے سپاہیوں کے پاس بھی مکمل اسلحہ نہیں تھا رضاکار تو بہت بعد میں تھے.

یہاں تک کہ میری ارٹلری بھی شدید اسلحہ و بارود کی قلت کا شکار تھی. آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ ہماری آرٹلری کو جو توپیں دیں گئیں وہ جنگ عظیم دوم میں بھی فرسودہ قرار دے دی گئیں تھیں.. یہ وہ توپیں تھیں جو جنگ عظیم دوم سے پہلے فاٹا میں قبائلیوں کے خلاف انگریزوں نے استعمال کیں تھیں وہی فرسودہ توپیں اب ہم ایک پروفیشنل فوج کے خلاف استعمال کرنے پر مجبور تھے. آپ اس بات سے اندازہ لگائیں میں اور میری فوج نے کس قدر قلت کے باوجود انکے غیر مؤثر ہتھیاروں سے جنگ لڑی.

دوسری طرف دشمن کی فوج تو چھوڑیں باغی مکتی باہنی کے پاس بھی خودکار جدید مشین گنیں اور اسٹین گنیں اور ٹرانسپورٹ تک میسر تھی.

لیکن میرے نوجوانوں نے نو ماہ کی مزاحمت میں یہ ثابت کردکھایا کہ اہمیت اسلحہ کی نہیں بلکہ اس کے استعمال کرنے والے پر منحصر ہے.

سانحہ مشرقی پاکستان پر غیر جانبدار مؤرخین کی جانب سے تمام لکھی گئی کتابوں میں کوئی ایک تصنیف ایسی نہیں جس نے پاکستانی فوج کے افسران کو یا مجھے نااہل یا بزدل قرار دیا ہو یا ہماری منصوبہ بندی کو ناقص کہا ہو.

صدیق سالک نے مجھ پر الزام لگایا کہ جب میں بارہ دسمبر کو گورنر مالک کو ملا تو پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا.

تو موصوف کو بتاتا چلوں کہ ہر مسلمان کی طرح میرا بھی عقیدہ یہی ہے کہ عزت و ذلت، فتح و شکست اللہ تعالیٰ کی دین ہے. مجھے اس بارے میں کوئی فکر نہ تھی. برصغیر پاک و ہند میں کوئی ایسا فوجی نہیں جس نے سپاہیانہ زندگی میں اتنے اعزازات وصول کئے ہوں. میں اپنی عمر اور سروس کے لحاظ سے دنیا کی کسی بھی فوج کے افسران کے مقابلے میں کمتر نہیں ہوں. یہ اعزازات یا تمغے یونہی نہیں مل جاتے بلکہ مشکلات کا خندہ پیشانی سے سامنا کرنا پڑتا ہے، پرخطر حالات میں اپنے اعصاب پر قابو رکھنا پڑتا ہے، جان کی بازی لگانا پڑتی ہے، مشکل حالات کا بہادری سے سامنا کرنا پڑتا ہے

دوسری جنگ عظیم میں میرے کمانڈر نے مجھے ٹائیگر کا خطاب دیا تھا. اس سے واضح ہے کہ نہ تو میں بزدل ہوں نہ خطروں سے مقابلہ کرنے سے کترانے والا..

میری آنکھ میں آنسو تو تب بھی امڈ آئے تھے جب پوتے کی پیدائش کی خوشخبری ملی، اس وقت بھی آنسو آگئے جب کبھی مادر وطن پر قربان ہونے والے کسی فوجی جوان یا افسر کی جام شہادت کی خبر پہنچی. میں کوئی سنگ دل یا قصائی نہیں کہ ملک کی تباہی دیکھ کر آنکھوں میں نمی نہ لاؤں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی آنکھیں بھیگی جبکہ نافرمان لوگوں کی آنکھوں ہمیشہ خشک رہتی ہیں.

واقعی میرے میں اتنا حوصلہ نہ تھا کہ میں اپنی نام نہاد بہادری کا ڈنکا بجانے کیلئے بے گناہ بنگالیوں، ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء کے قتل عام اور خواتین کو رسوا کرنے کے احکامات دیتا. جب میں نے چارج لیا تھا تو میں نے جو پہلا حکم اپنی افواج کو بھیجا تھا وہ یہ تھا کہ

لوٹ مار، قتل و غارت گری کسی صورت برداشت نہیں آبروریزی کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی بلکہ ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی.

ہاں جو لوگ ایسے غیر اخلاقی حرکات میں ملوث تھے اور انھیں میں نے سزائیں دیں وہی لوگ آج اپنے جرائم پر پردہ پوشی کیلئے میرے خلاف غلیظ افسانے تراش رہے ہیں

آخری آدمی آخری گولی کا حکم..

جنگ کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے میں نے آخری گولی آخری آدمی کا حکم دیا تھا. جس پر میرے نوجوانوں نے بھرپور طریقے سے عمل کیا لیکن جب نو دسمبر کو میں نے اعلیٰ فوجی افسران کا اجلاس بلا کر حالات بات چیت کی تو جنرل راؤ فرمان علی اور گورنر مالک مایوس ہوچکے تھے وہ کھلے بندوں جنگ بندی کی باتیں کررہے تھے بلکہ میرے آخری گولی آخری آدمی کے حکم سے متفق نہ تھے تبھی گورنر مالک نے مجھے جنگ بندی کی کارروائی کا آغاز کرنے کیلئے کا حکم دیا. لیکن میں نے انکار کردیا. چنانچہ گورنر مالک نے صدر یحییٰ خان سے اجازت نامہ لیکر مجھے گرین سگنل دیا.

جنرل فرمان تو اکیس نومبر کو ہی مایوس ہوچکے تھے. دوسری طرف گورنر مالک بھی اقوام متحدہ کے نمائندے سے رابطہ میں تھے.

جی ایچ کیو سے مجھے جنرل گل حسن کا پیغام ملا کہ جنگ جاری رکھو اوپر سے چین نیچے سے امریکہ مدد کیلئے آرہا ہے.

لیکن مجھے پتہ تھا یہ ایک فضول بات ہے

کیونکہ چین و مشرقی پاکستان کے راستے برف کی وجہ سے بند تھے، نہ ہی ہمارا کو چین سے ایسا کوئی معاہدہ تھا نہ ہی چین کے ڈھاکہ میں متعین سفیر نے ایسی کوئی بات میرے سے شئیر کی دوسری طرف ہمیں امریکی سفیر نے کوئی ایسی امید دلائی تھی نہ ہی امریکی افواج نے کوئی رابطہ کا سگنل دیا تھا..

میرے پر صدیق سالک نے الزام لگایا جاتا ہے کہ میں نے ہندوستانی جنرل ناگرہ کو فحش لطیفہ سنائے، تو یہ بلکل بے بنیاد الزام ہے. ان سے کسی قسم کی کوئی ایسی گفتگو نہیں ہوئی بلکہ ان سے ملاقات بہت مختصر سی تھی. جس کے بعد میں نے انھیں واپس بھیج دیا تھا.

جیسے پہلے بتایا کہ صدیق سالک نے حاضر سروس آرمی کے ملازم ہوتے ہوئے ایک ہمہ یاراں دوزخ نامی کتاب فرمائشی لکھی تھی. وگرنہ کبھی بھی حاضر سروس کو ایسے حساس موضوعات پر کتابیں لکھنے کی قطعی کوئی اجازت نہیں ہوتی.. بہرحال مجھے اچھی طرح یاد ہے جب موصوف خود بھارتیوں کی چاپلوسی کیلئے انھیں چٹکلے سنایا کرتے تھے..

جنرل نیازی صاحب نے اپنی کتاب کے تیسرے حصے میں لکھا کہ میں نے ہتھیار کیوں ڈالے؟

اس میں لکھتے ہیں کہ دنیا میں جب کبھی کوئی حادثہ ہوتا ہے دو چار جانیں ضائع ہوجاتی ہیں تو حکومت تحقیقات کا حکم دیتی ہے، جو ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کرتا ہے. اس حادثے کے محرکات پر گفتگو ہوتی ہے رسل و رسائل میں اسکے اسباب پر لکھا جاتا ہے.

لیکن ہمارے ہاں ایسا نہ ہوتا.

یہاں انکوائری ہونی چاہیے تھی کہ آخر ایسے حالات کیونکر پیدا ہوئے کہ جس سے دشمن نے فائدہ اٹھایا؟ فوج سے ہتھیار کیونکر ڈالوئے گئے؟ کیا فوج نااہل تھی؟

ہماری فوج نے اڑتالیس میں بھی جنگ لڑی، پینسٹھ میں بھی جنگ لڑی جہاں بہادری کی لازوال داستانیں رقم کیں. پھر آخر اکہتر میں کیا ہوا کہ مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے پڑے اور مغربی پاکستان میں پوری شکر گڑھ تحصیل اور سندھ میں ہمارے ہزار ہا مربع میل تک ہندوستانی قبضہ میں چلا گیا… یہی وہ سوال تھا جس نے سولہ دسمبر کو قوم کو خون کے آنسو رلائے.. ہر قید ہونے والا سپاہی جذباتی تھا اور عہد کیا کہ مغربی پاکستان لوٹ کر ہم بھارت سے اس کا بدلہ ضررو لیں گے لیکن جب واہگہ بارڈر عبور کیو تو یہاں دنیا ہی بدل چکی تھی.

جس دن میں واپس آیا تو اس دن فوجی افسران و سویلین حضرات کو میرے قریب آنے نہیں دیا گیا.

جب بھی جنگی قیدیوں کا کوئی دستہ آتا تو کوئی نہ کوئی وزیر، مشیر یا کوئی اور بڑی سیاسی، سماجی شخصیت انکے استقبال کیلئے موجود ہوتی. لیکن جس دن میں آیا اس دن کوئی بھی بڑی شخصیت موجود نہیں تھی حالانکہ میں ایسٹرن کمانڈ کا جرنل تھا مجھے وصول کرنے کم از کم جنرل ٹکا خاں کا آنا حق بنتا تھا.. میرے قریب ملنے کیلئے آنے والے فوجی افسران اور صحافیوں کو ایک میجر صاحب روک دیتے بصورت دیگر ڈانٹ بھی دیتے تھے.. مجھے واہگہ سے لاہور تک ہیلی کاپٹر سے لایا گیا کیونکہ واہگہ سے لاہور تک جگہ جگہ میرے استقبال کیلئے عوام پھول و دیگر تحائف لئے مجھے ایک جھلک دیکھنے کی منتظر تھی لیکن حکومت کیلئے یہ ناقابل برداشت امر تھا.

میں تو ہندوستان سے یہ سوچ کر آیا تھا کہ یہاں پاکستان میں ہندوستان سے بدلہ لینے کیلئے منصوبہ بندی ہورہی ہوگی لیکن یہاں تو بھٹو نے بھی بھرے جلسہ میں کہہ دیا کہ ہزار سال تک لڑنے والی بات بطور محاروہ کہی تھی.

جنرل نیازی نے اپنی کتاب کے اس باب میں سیاسی منظر نامے پر بھی سیر حاصل گفتگو کی انکے مطابق انکے پیش رو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل یعقوب خان کی نااہلی کے سبب عوامی لیگ زیادہ نشستوں پر جیتنے میں کامیاب رہی کیونکہ عوامی لیگ نے کھل کر بدمعاشی کی اور بنگالی عوام کو زدوکوب کرکے دھاندلی کرکے یہ ساری نشستیں جیتی دوسری طرف یہ بھی کہتے ہیں کہ جب شیخ مجیب الرحمٰن نے انتخابات میں جیسے تیسے اکثریت حاصل کر لی تھی تو پھر پھر پاکستان کا وزیراعظم اس کو نہ بننے دینے انتہائی غلط عمل تھا. بلکہ اس کو وزیراعظم بننے سے روکنے میں کردار بھٹو نے جو ادا کیا وہ شرمناک تھا جس نے ببانگ دہل ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ لگا کر بنگالی عوام کے جذبات کو مزید مجروح کیا..

پس جنرل نیازی کے مطابق سیاسی چپقلش اور ہوس اقتدار کی جنگ پاکستان کو اس نہج پر لے آئی جہاں پر اس عظیم حادثے کو روکنا اب ناممکن ہوچکا تھا.

ملک کے دولخت ہونے کے بعد بھٹو نے ہندوستانی ٹی وی سے ہتھیار ڈالنے کی ویڈیو حاصل کرکے جان بوجھ کر ٹکڑے ٹکڑے کر کے سرکاری ٹی وی پر چلائی جس کا مقصد فوج کی تذلیل تھی. جس دن میں پاکستان واپس آیا تو اس دن جان بوجھ کر میری کردار کشی کرنے اور فوج کیلئے عوام میں نفرت بھرنے کیلئے یہ ساری ریکارڈنگ خصوصی طور پر چلائی گئی. تاکہ لوگ کمیشن رپورٹ کی بجائے اسی ہندوستانی ویڈیو کو دیکھ کر سمجھ لیں کہ شکست کا ذمہ دار کون تھا. اس طرح لوگوں کی نظروں سے حمود الرحمن کمیشن اوجھل ہوگیا. دوسری طرف درباری قلمکاروں اور صحافیوں کو بھٹو نے خوب استعمال کرکے فوج کی کردار کشی کی. یہ ایک طرف کی صورت حال تھی دوسری طرف جنگی قیدیوں کی کی کوئی سننے والا نہیں تھا. جنرل ٹکا خاں جو کہ فوجی سربراہ تھا. وہی ٹکا خاں جس نے بنگال میں بدنام زمانہ ملٹری آپریشن شروع کیا تھا. جس کی پاکستان آرمی کو شکست کی راہ پر ڈالا وہ اس ساری صورتحال پر خاموش تماشائی بنا رہا. یہاں تک کہ پاکستان ٹائمز میں ایک لکھاری موصوف نے جو جنگ تو دور بندوق بھی کبھی نہ چلائی ہوگی. تبصرہ فرما رہا تھا کہ جیسے جنگ عظیم دوم میں برطانوی افواج جاپانیوں سے شکست کھا کر برما سے بھاگ کر چٹاگانگ و کومیلا تک آن پہنچی تھی ویسے ہی جنرل نیازی بھی فوج کو ساتھ لیکر بھاگ کر برما چلا جاتا. اسطرح ہتھیار نہ ڈالنا پڑتے.. ایسی ایسی جاہلانہ تبصرہ ہوتے رہے. اسی کی وجہ یہی ہے کہ فوجی قیادت اس سارے معاملے میں خاموش تماشائی بنی رہی جس کے من میں جو سمایا لکھتا رہا اور بولتا رہا حد یہ ہے کہ پچاس سال بعد بھی یہی صورت حال ہے..

ہم بنگال میں لڑنے گئے تھے اور آخری دم تک لڑتے رہے جب تک کہ اسلام آباد میں بیٹھے بادشاہوں نے جنگ بندی کے احکامات نہ جاری کئے..

برما کی طرف فرار ہوجانے کو انتہائی جاہلانہ مشورہ سمجھتا ہوں جس کا جواب دینا بھی مجھے گوارا نہیں. البتہ کرنل اسلم خان نے اس کا جواب دیا تھا کہ جنگی قید سے فرار ہونا اور اس کی کوشش کرنا ہر جوان و افسر کا ہے بلکہ فرض ہے. لیکن اس خوف سے میدا کو چھوڑ کر بھاگ جانا کہ قیدی نہ بن جاؤں ایک سنگین جرم ہے. بہرحال جب سرکاری اخراجات پر مخصوص مقاصد کے مطابق کتابیں اور مضامین لکھوائے جائیں تو یہی کچھ ہوتا ہے. حقائق دب جاتے ہیں اور مفروضہ حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں.

کسی نے ان حالات کا جائزہ کبھی نہیں لیا کہ جس حالات میں مجھے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا گیا.

ہم نے جو ہتھیار ڈالے وہ بزدلی نہ تھی اور نہ ہی ہمارا جذبہ سرد ہوا تھا. بات اتنی سی ہے کہ نفرتوں کی یہ آگ یکایک اچانک نہیں لگی بلکہ یہ چنگاری قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد سے سلگنا شروع ہوچکی تھی.

دوسری طرف بھارت نے بھی پوری منصوبہ بندی سے ان چنگاریوں کو ہوا دی جیسے کہ بنگالی کتابوں میں لکھا ہوتا تھا رام اچھا لڑکا ہے رحیم برا لڑکا ہے.

خوبصورت و حسین لڑکیوں کو بنگالی زبان و معاشرت کے نام سے ہندو لڑکیاں دوستی کی خاطر لانچ کی جاتی رہی

یہی وہ محنت تھی کہ جب ہندوستانی فوجی مشرقی پاکستان میں داخل ہوئے تو بنگالی مسلم لڑکیاں ان ہندو فوجیوں کیلئے پھول لئے کھڑی تھیں…

اور یہاں مغربی پاکستان کے نام نہاد دانشور اس کو کفر و اسلام کی جنگ کا روپ دیتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ وہ بنگالی مسلمان لڑکیاں ہندوستان ہندو فوجیوں کیلئے پھول کیونکر لے کر کھڑیں تھیں..

اسی طرح کا ہی کچھ معاملہ برما میں انگریزوں کے ساتھ پیش آیا جہاں جاپانیوں نے جاسوس، ففتھ کالمسٹ اور دیگر ہم خیال افراد کی مدد سے برما کے لوگوں کے دلوں ہندوستان اور انگریزوں کے خلاف نفرت کے بیج بوئے وگرنہ برطانوی افواج اتنی گئی گزری نہ تھیں جو شکست کھا گئیں.

برما میں برطانوی فوج کی حالت یہ تھی کہ برمی بچہ بچہ برطانیہ سے نفرت کرتا تھا حتیٰ کہ برطانوی افواج کو پینے کا پانی تک دینے کو کوئی روادار نہیں تھا. تبھی برطانوی افواج کے پاس ہتھیار ڈالنے کے علاوہ کوئی آپشن نہ تھا لیکن چونکہ وہ ہماری طرف محصور نہیں تھے تبھی وہ ہزیمت اٹھا کر ہندوستان لوٹ آئے.. لیکن برطانوی قوم نے گرفتار ہوجانے والے سپاہیوں یا جرنیلوں کو ذلیل و رسوا نہیں کیا بلکہ انکو سراہا انکی تعریف کی کہ انھوں نے نامساعد حالات میں فوج کو بچا کر واپس لے آئے. اور اگلے حملہ کیلئے خود کو تیار کیا. اگلے ہی سال بھرپور تیاری کرکے برما پر حملہ کرکے اپنی شکست کا بدلہ لے لیا..

جبکہ ہمارے حالات اس سے بھی زیادہ بدتر تھے. ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راہ نہیں تھی. ہمارے پاس کوئی ایسی جگہ نہیں تھی کہ جہاں ہم نکل جاتے اور پھر بھرپور تیاری کرکے حملہ کرتے چاروں طرف تو ہندوستان تھا. میں اکیلا مشرقی پاکستان سے نکل سکتا تھا ہیلی کاپٹر موجود تھا لیکن میں اپنی افواج کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا.

ہم تو رہا ہونے کے بعد یہ توقع لیکر پاکستان آئے تھے کہ ایک ہزار سال تک لڑنے کی بھڑک مارنے والا حکمران بھٹو پاکستان کو فوجی کیمپ بنا دے گا اور قوم کو بدلہ کیلئے بھرپور تیار کرے گا قیدیوں کو سینہ سے لگائے گا. تاکہ جوابی کارروائی کی جا سکے.

لیکن افسوس یہاں تو سب سکون سے بیٹھے تھے کوئی بدلہ لینے کی بات نہیں کررہا تھا. ہر کوئی قیدیوں کی تذلیل کرنے میں لگا ہوا تھا اور تو اور قیدیوں پر ہندوستانی ایجنٹ ہونے کی تہمت تھونپ رہا تھا. کتنی دکھ و افسوس کی بات ہے..

کیا ہتھیار ڈالنے کیلئے رشوت دی؟

جنرل امیر عبداللہ خان نیازی صاحب اپنی کتاب کے چوتھے باب میں اپنے پر لگے اس الزام کے بارے میں بات کرتے ہیں. یہ الزام ان پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پال مارک ہنری نے لگایا تھا.

جنھوں نے اینڈرس پیپرز میں بیان دیا کہ یہ عجیب و غریب جنگ تھی. لگتا ہے کہ سب کچھ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا. پاکستانی کمانڈر (جنرل نیازی) اس سارے واقعے کا محور ہے. میرا (پال مارک ہنری) خیال ہے کہ جنرل نیازی کو ہتھیار ڈالنے کیلئے ہندوستانی افواج نے رشوت دی.

اس بیان کے جواب میں جنرل نیازی راقطراز ہیں کہ یہ ایک بہتان ہے جو بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے کہ مجھے کس نے رشوت دی؟ کس صورت میں رشوت دی گئی؟ اس سارے معاہدے میں امی چند نامی کردار کون تھا؟ مزید یہ کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی میدان جنگ میں میرے سے جیت نہیں سک رہے تھے تبھی رشوت کی آفر کی وغیرہ وغیرہ

ہر کسی کو معلوم ہے کہ جنرل ٹکا خاں کے بہیمانہ آپریشن سرچ لائٹ کے دوران غیر ملکی صحافیوں کو مشرقی پاکستان سے بیدخل کردیا گیا تھا. یہ سارے مغربی بنگال یعنی ہندوستان میں جا کر بیٹھ گئے جو علاقہ کے ہندوستانی صحافیوں کی باتوں پر اعتماد کرتے. لیکن اس ساری صورتحال میں ہماری حکومت خاموش تماشائی بنی رہی. جس کا خمیازہ قوم نے بھگتا..

آپریشن سرچ لائٹ کے بعد حالات دگرگوں ہوچکے تھے. سئینر جرنیلوں کے ہونے کے باوجود ہائی کمان نے اس کٹھن فریضہ کیلئے مجھے منتخب کیا..

یہ کہنا درست نہیں ہے کہ میرے پاس ترانوے ہزار افواج تھی میرے پاس محظ تین نامکمل ڈویژن تھے جن کے پاس جنگی ہتھیار بھی پورے دستیاب نہیں تھے اگر بری بحری اور فضائی افواج کے تمام عملہ کو ملا بھی لیا جائے تو میرے پاس بمشکل پچاس ہزار افراد تھے. جن میں سے لڑائی کیلئے دستیاب افراد محض تینتیس ہزار نوجوان تھے. جو کہ اسلحہ کی عدم موجودگی کے باوجود نو ماہ تک برسرپیکار رہے. ہمارے تین نامکمل ڈویژن کے مقابلے میں ہندوستان کے بارہ بھرپور جدید اسلحہ سے لیس تازہ دم افواج تھیں. جن کی مدد کو ڈیرھ لاکھ مکتی باہنی کے تربیت یافتہ باغی بھی میسر تھے. ہمارے پاس ایک بھی میڈیم یا ہیوی گن نہیں تھی جبکہ ہندوستانی افواج کے پاس یہ سینکڑوں موجود تھیں.

لیکن اس کے باوجود ہم نے ہندوستانی افواج کو ناکوں چنے چبوائے.

اگر آپ دنیا کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو دیکھیں گے کہ اڑھائی لاکھ جرمن افواج نے روسیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے، برطانوی اسی ہزار افواج نے سنگاپور میں جاپانی افواج کے آگے ہتھیار ڈال دیئے، ملائشیا میں ڈیڑھ لاکھ برطانوی افواج نے جاپانیوں کے آگے ہتھیار ڈال دیئے.

دوسری جنگ عظیم میں لاکھوں روسیوں اور فرانسیسیوں نے جرمن افواج کے آگے ہتھیار ڈال دیئے.

ان تمام مثالوں کو دیکھیں تو یہاں ہتھیار ڈالنے کا حکم جرنیل دے رہے ہیں جس کیلئے انھوں نے اپنے خطاب ہیڈکوارٹر یا مرکزی حکومت سے اجازت بھی نہ لی.

دوسری طرف میں نے صدر پاکستان اور آرمی چیف کی ہدایت پر ہتھیار ڈالے.

درج بالا امثال میں کیا عجیب و غریب بات نظر آئی؟

کیا انکی منصوبہ بندی ناقص تھی؟ کیا ان جرنیلوں نے بھی رشوت لی تھی؟ مجھے نہیں معلوم کہ جنگ عظیم دوم میں برطانوی دو لاکھ افواج فرانس کو چھوڑ کر کیونکر بھاگ گئی تھیں؟ ابھی فرانس نے پوری عسکری قوت بھی جنگ میں نہیں جھونکی تھی کہ فرانس نے جرمنی کے آگے سرنڈر کردیا. کیا یہ بھی سب سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا تھا؟ کیا برطانوی و فرانسیسی جرنیلوں نے بھی رشوتیں وصول کیں تھیں؟ پرل ہاربر کی بربادی پر بھی امریکی جرنیلوں نے رشوت لی تھی؟ کیا یہ بھی منصوبہ بندی کے تحت ہوا؟

میں ایسی کئی مثالیں پیش کرسکتا ہوں جب بڑے بڑے جرنیلوں نے مشکل وقت آنے پر اپنی جان بچائی.

جب نپولین کو اپنی شکست نظر آئی تو مصر میں اپنی افواج کو چھوڑ کر بھاگ گیا.. اسی طرح جب رومیل کو کو افریقہ میں اپنی شکست نظر آئی تو اپنی افواج کو چھوڑ کر نکل گیا. حالانکہ ان میں لڑنے کی صلاحیت اور جذبہ موجود تھا اسلحہ بھی موجود تھا. لیکن انھیں معلوم تھا کہ وہ جنگ نہیں جیت سکتے البتہ شکست کو کچھ دیر کیلئے مؤخر ضرور کرسکتے ہیں.

کیا ان دونوں جرنیلوں نے بھی رشوتیں لیں؟ کیا یہ جرنیل جنھیں دنیا عظیم مانتی ہے وہ بھی بزدل تھے؟ کیا وہ بھی کسی منصوبہ بندی کے تحت شکست خوردہ ہوئے؟ سچ تو یہ ہے کہ شکست کا صدمہ سہنے کیلئے جرنیل کا دل شیر جیسا ہونا ضروری ہے. ان حالات میں جب کہ شکست فوجی کی بجائے سیاسی عوامل کی بناء پر ہو. میرے پاس وقت بھی تھا اور وسائل بھی کہ میں افواج کو چھوڑ کر برما پناہ لے سکتا تھا. لیکن یہ میرے فرائض کے خلاف تھا یہ میری اخلاقی اقدار کے منافی تھا اسی طرح یہ میرے آباؤ اجداد کی روایات کے بھی خلاف تھا جو صدیوں سے پیشہ جنگجوئی و طالع آزمائی سے جڑے ہیں.

ہتھیار ڈالنے کا پیغام صدر پاکستان نے گورنر مشرقی پاکستان ڈاکٹر مالک کو تیرہ دسمبر کو بھیجا تھا لیکن اس کے باوجود میں نے تین دن کی تاخیر سے ہتھیار ڈالے. یہ اس بات کا عکاس ہے کہ مجھے ہتھیار ڈالنے میں کوئی تھی نہ کوئی عجلت.

ہتھیار ڈالنے کے حکم ملنے سے پہلے میں نے پی سی ہوٹل میں یورپی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جنگ ہر حال میں جاری رہے گی جب تک کہ ہندوستانی ٹینک میری چھاتی سے نہ گزریں.. لیکن گورنر مالک و دیگر مجھ پر مسلسل دباؤ ڈال رہے تھے کہ قتل و غارت رکوانے کیلئے جنگ بندی پر عمل درآمد کروں. اس طرح سویلین کی جانی و مالی تباہی رک جائے گی اور پاکستانی خواتین کی عصمت محفوظ ہوجائے گی.

مجھے بہت دکھ ہوا کہ اتنے بڑے عہدے پر فائز شخص نے اتنا بھدا و بھونڈا الزام میرے سر جڑ دیا. میں بتاتا چلوں کہ جب میں بھارت پہنچا تو میرے پاس نقد چھ سو روپے اور ذاتی ضروری سامان کا ایک بریف کیس تھا یہی میرا کل اثاثہ تھا.

اگر میں دولت کی لالچ رکھتا ہوتا تو مشرقی پاکستان کے بینکوں میں اور دیگر سرکاری خزانوں میں بہت کچھ موجود تھا سب میرے کنٹرول میں تھا جو چاہتا لے سکتا تھا لیکن میں نے سب کچھ امانت کے طور پر فوری طور پر مغربی پاکستان منتقل کیا. میں کراچی و لاہور جیسے بڑے شہروں کا کور کمانڈر رہا. میں چیلنج کرتا ہوں کوئی آئے اور ثابت کرے جو کسی سے غیر قانونی کو فیور لی ہو..

ویسے مجھے اسی بھونڈی رشوت کے بدلے کیا ملا؟ مشکلات کے ٹھاٹھیں مارتا سمندر، ہتھیار ڈالنے کا دلخراش اعزاز، دل سے اٹھتے درد. وطن کے ایک بازو کٹ جانے کا صدمہ..

یحییٰ خان، شکست کا ذمہ دار….

جنرل نیازی اپنی کتاب کے اس باب کو اس بات سے شروع کرتے ہیں کہ بلاشبہ مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈالے. لیکن آج تک کسی بھی غیر جانبدار کمیشن یا عدالت نے اس معاملے پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا کہ اس شکست کا ذمہ دار کون تھا. جہاں تک حمود الرحمن کمیشن کی بات ہے تو وہ ایک جانبدار اور مخصوص مقاصد کی تکمیل کیلئے ترتیب دیا گیا حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کو ترتیب دینے والے افراد یعنی بھٹو، جنرل ٹکا خاں بلکہ بذات خود جسٹس حمود الرحمن اس سارے قضیہ سے کسی نہ کسی طرح منسلک تھے.. تو کیونکر یہ حقیقت تلاش کرتے مزید یہ کہ اس کمیشن کی رپورٹ کی دو کاپیاں تیار کی گئیں ایک جو بھٹو نے جلا دیا جبکہ دوسری اس نے کمیشن کو واپس کرنے سے انکار کردیا اور اپنے پاس رکھ دی. وہ رپورٹ کہاں ہے کسی کو علم نہیں. جو ہندوستانی میڈیا سے حمود الرحمن کمیشن رپورٹ ہمیں ملی ہے وہ کتنی مصدقہ ہے اس پر پاکستان کی حکومت کی کوئی وضاحت موجود نہیں.. ویسے یہ کتنی شرمناک صورت حال ہے..

کچھ عرصہ قبل ایک رسالہ میں پڑھا جو ہم یعنی مشرقی پاکستان میں لڑنے والے فوجیوں پر تنقید کررہا تھا. وہ فوجی جو نو ماہ تک ایک ہزار میل سے زائد فاصلے پر بغر وسائل کے جنگ لڑتے رہے. جنھیں بارہا کہا گیا کہ جنگ بندی کرلو لیکن وہ خون کے آخری قطرہ تک لڑنے پر مُصر رہے جبکہ دوسری طرف مغربی پاکستان والے جہاں ساری عسکری قوت فضائیہ، بحری و بری موجود تھی جنھیں عقب سے کسی حملہ کا کوئی خوف نہ تھا نہ ہی عوام انکی جانی دشمن تھی جیسے بنگال میں عوام ہم سے محاذ آرائی پر آچکی تھی. لیکن اس کے باوجود مغربی پاکستان میں پے در پے شکست حتیٰ کہ ہندوستانی حکومت کے ایک اعلان پر مغربی پاکستان والوں نے فوراً جنگ بندی کر لی… آخر کیوں انھیں یہاں کونسی مصبیت آن پڑی تھی؟

یہ فیصلہ ایک نہ ایک دن ہوگا. یہاں نہیں تو بروز قیامت ضرور ہوگا.. کاش میرے پیچھے بھی قائداعظم ہوتے. یا جیسے طارق بن زیاد کے پیچھے موسی بن نصیر جیسا زیرک سپریم کمانڈر ہوتا. یا محمد بن قاسم کی طرح میرے عقب پر بھی حجاج بن یوسف جیسا اصول پسند سخت گیر حاکم ہوتا..

لیکن افسوس میری پُشت پر مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا جیسا ایک پاکستانی رنگیلا یحییٰ خان تھا جیسے محمد شاہ رنگیلا کہتا تھا کہ ہنوز دلی دور است ویسے ہی یہ پاکستانی رنگیلا کو بھی جب مشرقی پاکستان پر ہندوستانی حملہ کی خبر پہنچی تو موصوف نے فرمایا کہ سوائے دعا کہ اور کیا کرسکتا ہوں..

جنگ کے بعد یحییٰ خان المعروف رنگیلا نے پریس سے یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ میں نے ایسا کچھ نہیں کہا. بھٹو نے یحییٰ خان کو قید نہیں بلکہ تحفظ دے رکھا تھا کہ کہیں یہ نشے کے عالم میں سب کچھ اُگل نہ دے کیونکہ اس زمانے میں قوم کی کیفیت ایسی تھی کہ یحییٰ خان کے خلاف آتش فشاں پھٹ رہا تھا. وہ عوام میں بھی نہیں آسکتا تھا. اور تو اور آج تیس سال گزر جانے کے بعد (دوہزار ایک میں ) بھی اس کا بیٹا بھی اتنی ہمت نہیں کرتا کہ وہ لاہور میں کہیں گھوم پھر سکے. دوسری طرف میں (یعنی جنرل نیازی) تو پورے لاہور میں آزادانہ گھومتا ہوں بلکہ جلسے جلوسوں سے کئی بار خطاب بھی کیا.. ہمت کرے وہ بھی کسی جلسے سے زرا مخاطب ہو کر دکھائے.. دیکھتے ہیں کہ کیسے گندے انڈوں کی بارش ہوتی ہے. میں صرف ایک واقعہ یاد کراتا ہوں. بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعد یحییٰ خان کو منگلا بھیج دیا. جب وہاں فوجی افسران کی بیگمات کو پتہ چلا تو انھوں نے یحییٰ خان کے گھر کا گھیراؤ کرلیا اور کور کمانڈر منگلا سے احتجاج کیا کہ اس ننگ وطن کو یہاں سے باہر نکالو. مجبوراً یحییٰ خان کو منگلا سے ایبٹ آباد منتقل ہونا پڑا. چنانچہ موصوف نے باقی ماندہ زندگی مزے سے ایبٹ آباد گزاری جہاں گالف کھیلتے دھوپ سینکتے اور اعلیٰ سہولتوں سے فیضیاب ہوتے رہے.. کیا یہ قید تھی جو بھٹو نے دی تھی..

یحییٰ خان کو بھٹو کی حکومت میں سپریم کورٹ نے غدار قرار دیا تھا جس کی سزا آئین میں موت ہے. لیکن اس فیصلے کے باوجود بھٹو نے کیونکر یحییٰ کو پھانسی نہیں چڑھنے دیا؟ فقط نظر بندی پر کیونکر اکتفا کیا جہاں پر شراب بھی میسر تھی.

یحییٰ خان کی شراب نوشی اس قدر تھی کہ الطاف حسین قریشی مدیر اعلیٰ لکھتے ہیں کہ تہران میں انھوں نے سربراہان مملکت کی بھری محفل میں پتلون میں پیشاب کردیا اور حالت غیر میں انھیں وہاں سے نکالا گیا..

یحییٰ خان بھڑک لگاتے پھرتا ہے کہ اگر میں وہاں ہوتا تو بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کرتا. سبحان اللہ..

اتنی نہ بڑھا پاکی دامان کی حکایت

دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ..

کیا قوم نہیں جانتی کہ بنگلہ دیش کس نے بنایا.

ون یونٹ کس نے توڑا، ایک آدمی ایک ووٹ کا قانون کس نے بنایا؟کس نے مجیب الرحمن کو چھ نکات کی بنیاد پر الیکشن لڑنے کی اجازت دی؟ کس نے انتخابات میں عوامی لیگ کے غنڈوں کو دل کھول کر دھندلی کرنے دی؟ یہ سب کون کررہا تھا؟ کون اس وقت صدر تھا؟ کون افواج پاکستان کا کمانڈر انچیف تھا؟ کون چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھا؟ کون ذمہ دار تھا ان سب واقعات کا؟ کس نے بھٹو کے ساتھ ملکر اقتدار کیلئے سازشیں کیں؟ وہ کون تھا جس نے شیخ مجیب کے انکار کے بعد لاڑکانہ جا کر شکار کے بہانے سازشوں کے جال بچھائے؟ وہ کون تھا جس نے فوجی ایکشن کا حکم دے کر نفرت کی بنیاد رکھی؟ وہ کون تھا جس نے پچیس مارچ کے بعد پلٹ کر مشرقی پاکستان کا رخ تک نہیں کیا؟ کس نے مشرقی پاکستان پر حملے کی سن کر کہا تھا کہ سوائے دعا کہ اور کیا کرسکتے ہیں..

کون حکومت پر فائز تھا جس نے مغربی پاکستان کی سرحدوں پر جنگ چھیڑ دی لیکن فوج کو پیش قدمی سے روکے رکھا؟ وہ کون تھا جس نے ملک کو ٹوٹتے دیکھ کر بھی پولینڈ کی قرارداد نہ مانی؟ پس جنرل نیازی کے ان سبھی سوالات کے جوابات میں فقط ایک ہی نام آتا ہے وہ ہے جنرل یحییٰ خان یہ بات ٹھیک ہے کہ چالیس چوروں کا ایک مکمل ٹولہ تھا لیکن ان کا سرغنہ یہی یحییٰ خان تھا..

ہمیں جنگ کے بعد بتایا گیا کہ امریکی ساتویں بیڑے کی بات فقط پراپیگنڈا تھی. اگر ایسا تھا تو ہمیں کیونکر سچ نہیں بتایا گیا؟ پاکستانی قوم کو کیونکر بیوقوف بنایا گیا؟ کون جھوٹ بول رہا تھا؟ جنرل یحییٰ کہتا ہے کہ میں نے جو ڈاکٹر مالک کو آخری پیغام بھیجا تھا اس میں ہتھیار ڈالنے کی اجازت نہیں دی تھی؟

پہلی بات میری پوزیشن کیا تھی؟

میں ایک گورنر کے ماتحت تھا جس کا ثبوت خود یحییٰ خان کا بیان ہے کہ انھوں نے میری بجائے ڈاکٹر مالک کو پیغام بھیج کر جنگ بندی کی بات کی. میں براہ راست جنگ کے سلسلے میں جی ایچ کیو سے جڑا ہوا تھا وہیں سے احکامات پر عمل کرتا تھا. اور یہ رابطہ ہتھیار ڈالنے تک قائم رہا جنرل گل حسن اور جنرل حمید خان سے بات چیت ہوتی رہی. یہ سب کچھ جی ایچ کیو میں ریکارڈ پر یقیناً موجود ہوگا. مجھے پوری جنگ میں جنرل یحییٰ خان کے دو سگنل ملے ایک انتیس نومبر کو جب مشرقی پاکستان پر ہندوستان نے حملہ کیا جس میں جنرل یحییٰ خان نے مجھے سراہا اور لڑنے پر خراج تحسین پیش کیا. دوسرا آخری سگنل مجھے تیراہ و چودہ دسمبر کی درمیانی رات کو موصول ہوا اسی صبح میں نے بی بی سی کے نامہ نگار کے آگے آخری گولی آخری آدمی کا حکم جاری کیا اور ڈھاکہ میں ہندوستانی ٹینک میرے سینے سے گزر کر جائیں گے کا اعلان کیا. لیکن رات کو جو حکم آیا وہ افسوس ناک تھا جس کے الفاظ کچھ اسطرح تھے..

“آپ نے وطن کے دفاع کیلئے ایک بہترین جنگ لڑی ہے. لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آپ ایک ایسی اسٹیج پر پہنچ چکے ہیں کہ مزید مزاحمت انسانی بس میں نہیں ہے اور اس سے مزید جانی نقصان اور تباہی کے سوا کچھ نہیں ملے گا. لہٰذا اب آپ کو وہ تمام ممکنہ حربے اختیار کرنے چاہئیں جن سے آپ فوج اور اس کے ملحقہ افراد، نیز محب وطن پاکستانیوں کی جان بچا سکیں. اقوام متحدہ سے کہا ہے کہ وہ مشرقی پاکستان میں پاکستانی افواج کا تحفظ کرے اور افواج پاکستان اور تمام محب وطن پاکستانیوں کو بچانے کا اہتمام کرتے ہوئے بھارتی جارحیت کو رکوائے “

یہ دونوں سگنل یقیناً مغربی پاکستان میں صدراتی دفتر یا آرمی چیف کے دفتر میں موجود ہونگے اور میرے پاس بھی محفوظ ہیں. اور جن افسران نے موصول کیا وہ بھی زندہ ہیں اور گواہ ہیں.

تبھی تو جنرل فرمان، جنرل راجہ، برگیڈیر صدیق سالک حتی کہ ایڈمرل شریف نے بھی جنرل نیازی کے اس آخری سگنل کے خلاف کوئی گواہی نہیں دی. کیونکہ یہ سچ ہے.. اب کوئی کہتا ہے کہ جنرل یحییٰ خان نے مجھے ہتھیار ڈالنے کی بجائے آخری وقت تک لڑنے کا حکم دیا تھا تو وہ جھوٹ بولتا ہے میں بڑی سے بڑی عدالت میں دستاویزاتی ثبوت دیکر اس جھوٹ کو چاک کرنے کیلئے تیار ہوں..

اس حکم کے آجانے کے باجود ہم نے ہتھیار نہیں ڈالے کیونکہ اس سے قبل جی ایچ کیو سے پیغام ملا ہوا تھا کہ اوپر سے چین نیچے سے امریکہ مدد کو آرہا ہے. مگر اسلام آباد خاموش تھا. بار بار پیغام بھجواتا رہا بار بار جنرل یحییٰ خان سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن جنرل حمید اور گل حسن خان آگے سے جواب دیتے کہ یحییٰ خان باتھ روم میں ہے. مجھے معلوم تھا کہ وہ نشے میں دھت ہوکر کہیں اوندھے منہ پڑا ہوگا. چنانچہ آخر تنگ آکر میں نے کہا کہ وہ کب سے واش روم میں ہے اس کو کہو اب باہر نکلو اور جواب دو. تبھی غصہ میں نے نے گالی دیکر فون کاٹ دیا.

صاف ظاہر تھا کہ مغربی پاکستان میں بیٹھی قیادت ہمیں چھوڑ چکی تھی. دوسری طرف گورنر مالک مجھے بار بار ہتھیار ڈالنے پر زور دے رہے تھے میں نے کہا میں کیسے ہتھیار ڈال دوں کوئی اور راہ نکالنا ہوگی. تو گورنر مالک نے جواب دیا کہ جنرل یحییٰ نے انھیں کہا ہے کہ مشرقی پاکستان تو اب ہاتھوں سے گیا اب مغربی پاکستان کی فکر کروں وہ بھی ہاتھ سے وگرنہ نکل جائے گا.. میں نے پھر امید باندھی اور جنرل یحییٰ خان سے رابطہ کی کوشش کی مگر ہنوز وہ باتھ روم میں تھا. شاید یہ دو روز جنرل یحییٰ نے باتھ روم میں گزار دئیے. اس نے میرے سے ایک بار بھی بات نہیں کی. میں گورنر نہیں تھا کمانڈر تھا. گورنر مجھے ہتھیار ڈالنے کے احکامات دے رہا تھا. جنرل یحییٰ کا آخری سگنل بھی میرے سامنے تھا. اس احمق نے جو مجھے کہا تھا کہ اقوام متحدہ سے رابطہ کروں کہ وہ بھارتی جارحیت رکوائے اس میں کیا منطق تھی. یہ سب کچھ تو نیویارک میں یا پھر اسلام آباد میں ممکن تھا جہاں ٹیبل ٹاک پر یہ سب کچھ ہونا تھا. نہ کہ میدان جنگ میں. دوسری طرف بھٹو خراماں خراماں جان بوجھ کر طویل سفر کرکے نیویارک پہنچا. جہاں جا کر اس احمق نے پولینڈ کی جنگ بندی کی قرارداد پھاڑ کر آخری امید پر بھی پانی پھیر دیا. ڈاکٹر مالک مجھے کہتے تھے کہ جنرل یحییٰ کہتا ہے کہ بھارتی ہیڈمرالہ پر پہنچ گئے ہیں اگر ہندوستان ہیڈمرالہ پر قابض ہوگیا تو سب کچھ تباہ ہوجائے گا لہذا جلد از جلد ہتھیار ڈال کر جنگ روک دو ورنہ مغربی پاکستان بھی ہاتھ سے نکل جائے گا.

دوسری طرف مغربی پاکستان میں چالیس چوروں کا ٹولہ مشرقی پاکستان کو بھول کر مستقبل کی بندر بانٹ میں مصروف تھا.

جو جہاز پینسٹھ کی لڑائی میں ہندوستان پر حملہ کرسکتے تھے اب ائیر مارشل رحیم خان کے مطابق ہندوستان پر حملہ سے قاصر تھے دراصل ائیر مارشل رحیم خان بھی بھٹو کے ساتھ ساز باز کر چکا تھا. تبھی تو بعد میں بھی وہ بدستور فضائیہ کا سربراہ تعینات رہا. ریٹائرڈ ہونے کے بعد میں موجیں کیں.

جنرل یحییٰ کا یہ کہنا کہ ائیر مارشل رحیم خان نے بھٹو کے کہنے پر ہندوستان پر حملہ نہیں کیا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کمانڈر کون تھا؟ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کون تھا صدر پاکستان کون تھا؟ تم یحییٰ خان تھے یا بھٹو یا ائیر مارشل رحیم خان… ویسے تو تم دعویٰ کرتے ہو کہ کوئی جرنیل اگر میری یعنی یحییٰ کی بات نہ مانتا تو میں کان پکڑ کر اسے نکال دیتا تو پھر کیونکر ائیر مارشل رحیم خان کو نہ نکالا؟ یحییٰ خان کہتا ہے کہ میرے یعنی جنرل نیازی کے پاس اتنے اختیارات تھے کہ میں حکم عدولی کرسکتا تھا. اس سے بڑی حماقت کی بات اور کوئی نہیں ہوسکتی. کہ مشرقی حصے کا کمانڈر اپنے کمانڈر ان چیف کا حکم ماننے سے انکار کردے.. فوج میں ڈسپلن بنیادی چیز ہے یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں کہ جو دل کیا مان لیا جو دل نہ کرے نہ مانوں.

مجھے یحییٰ کہتا ہے کہ نیازی لڑ سکتا تھا اس کے پاس وسائل تھے لیکن وہ ڈر گیا. یہ ایک بھونڈے الزام کے سوا کچھ نہیں.

جنرل یحییٰ نے مجھے بزدلی کا طعنہ دیا ہے حالانکہ میرا فوجی ریکارڈ سب کے سامنے ہے میرے پاس بہادری و اعلیٰ کارکردگی کے جس قدر تمغے ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ میں بہادر تھا یا بزدل مجھے بطور کمانڈر تیزی، جرات مندی اور جانبازی کے سبب ٹائیگر کا خطاب ملا.

بزدل تو یحییٰ خود تھا جو مشرقی پاکستان پر فوجی ایکشن دینے کے بعد اس حد تک خوفزدہ تھا کہ جب تک کہ اس کا طیارہ کراچی نہ پہنچ جائے ایکشن شروع نہ کرنا کہ کہیں ہندوستانی فضا میں ہی نہ گھیر لیں..

جب ستمبر میں حالات کو میں نے معمول پر لے آیا تو جنرل یحییٰ کا دعوت دی کہ وہ مشرقی پاکستان آئے دورہ کرے اور سیاسی صورتحال کو سنبھالنے کی کوشش کرے لیکن نہ وہ خود آیا نہ ہی کسی کو اس نے بھیجا. یوں لگتا تھا کہ وہ مشرقی پاکستان کو فراموش کر چکے ہیں. یحییٰ خان کہتا ہے کہ رحیم اور گل حسن بھٹو کے دوست تھے ضرور بھٹو نے ہی انھیں جنگ اچھی طرح نہ لڑنے پر اکسایا ہوگا. سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر جنرل یحییٰ کا بھٹو اتنا ہی ناپسند تھا تو انھیں کیونکر کلیدی عہدوں پر بٹھائے رکھا. انھیں کیونکر بھٹو کے ساتھ چین بھیجا. جنرل یحییٰ جو بہادری کے دعوے کرتا ہے وہ مجھے سب معلوم ہیں اگر اتنا ہی بہادر ہوتا تو جنگ عظیم دوم میں وہ قیدی نہ بنتا.. پینسٹھ کی جنگ میں چھمب جوڑیاں جنرل اختر ملک نے حاصل کیا نہ کہ جنرل یحییٰ نے جو یہ دعویٰ کرتا پھرتا ہے. تم تو اکنھور بھی نہ لے سکے.

جنرل یحییٰ جو کہتا ہے کہ نیازی نے میری بات نہیں مانی بلکہ خود سے ہتھیار ڈال دئے تو پھر مجھے بتائے مغربی پاکستان نے کیونکر ہتھیار ڈال دئے یہاں سے تو بھرپور جوابی حملہ ہونا چاہیے تھا یہاں تو جنگ جاری رہنے چاہیے تھی.. سچ یہ ہے کہ جنرل یحییٰ کی بزدلی ہمیں لے ڈوبی بھلے مشرقی محاذ تھا یا مغربی محاذ. مغربی پاکستان میں حالات یہ تھے کہ تین دسمبر کو فضائی حملے کے بعد آمرڈ برگیڈ کو موبائلز ہی نہیں کیا گیا جسکی وجہ سے ہندوستان کو جوابی کاروائی کا موقع مل گیا. یوں ہندوستان کو پاکستان پر حملے کا جواز مل گیا. ہندوستان نے کھلم کھلا ڈھاکہ و چٹاگانگ پر بمباری کرنا شروع کردی. مشرقی پاکستان میں ہمارے پاس کوئی فضائی فوج دستیاب نہیں تھی جو ہندوستان کے خلاف مزاحمت کرتی. اصل جنگ مغربی محاذ پر تھی جس سے مشرقی پاکستان کا دفاع مشروط تھا.

کیونکہ پاکستانی افواج ہندوستان کے اندر تک داخل ہوجاتی.

جب بھارتی افواج کو مشرقی پاکستان سے نکالنا مقصود ہوتا پاکستان لین دین کی پوزیشن میں ہوتا..

مشرقی پاکستان میں بھارت نے کل بارہ ڈویژن فوج بھیجی جس کی مدد کیلئے لگ بھگ دو سو طیارے، چھ رجمنٹ کے لگ بھگ ٹینک، بارہ سو ہیلی کاپٹر، نصف سے زائد بحریہ بشمول ائیر کرافٹ کیرئر ہمارے ساتھ برسرپیکار تھا. جبکہ مغربی پاکستان میں ہمارے اور انکے درمیان توازن تھا. اسلام کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ تھی کہ مغربی پاکستان کے محاذ پر ہماری اور دشمن کی برابری تھی ورنہ ہمیشہ دشمن ہم سے کئی گنا بڑا ہوتا تھا. جیسے مشرقی پاکستان میں ایک کے مقابلے میں بیس کی شرح تھی..

مغربی پاکستان میں کوئی اور جرنیل ہوتا تو ہندوستان کا سینہ چھلنی کردیتا. افسوس یہ نادر موقع یحییٰ خان جیسے نااہل جرنیل کے سبب ضائع ہوگیا الٹا وبال بن گیا. مجھے تو بعد میں پتہ چلا کہ یہاں لاہور، قصور و دیگر شہروں حتیٰ کہ کراچی پر ہندوستانی طیارے دندناتے پھر رہے تھے ان کو پکڑنے والا کوئی نہیں تھا. الٹا پاکستانیوں کو یہ تاثر دیا گیا کہ ہمارے طیارے دشمن کے مقابلے کی اہلیت نہیں رکھتے. پاکستانی قوم کو مایوس کرکے ذہنی طور پر شکست کیلئے تیار کیا جارہا تھا.. اس سے بڑا ستم کیا ہوسکتا ہے کہ مغربی پاکستان سے حملہ بھی ہم نے کیا اور دس دن بعد ہمارے ہی پانچ ہزار مربع میل علاقے پر ہندوستان قابض ہوگیا.. فوج کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ حملہ آور ہی اپنا علاقہ گنوا بیٹھا..

پھر یہ کہ فوجی علاقے میں سول آبادی کا انخلاء نہ کیا گیا جس کے نتیجے میں شکرگڑھ جیسے علاقوں کی آبادی و مال مویشی ہندوستانی قبضہ میں چلے گئے. پاکستانی قوم کو ذلیل کرنے کا اور بھارت کی برتری کا احساس دلانے کا یہ ایک ہتھکنڈا تھا.

میں نے کھلم کھلا کہا تھا کہ مغربی پاکستان حملہ نہ کرتا تو اعلان جنگ نہ ہوتا یوں ہم مشرقی پاکستان میں اپنا دفاع جاری رکھتے لیکن یہاں حملہ کیا گیا وہ بھی ادھورا جس کا فائدہ اٹھا کر ہندوستان پوری قوت سے مشرقی پاکستان پر چڑھ دوڑا اور کھلم کھلا حملہ آور ہوگیا. ہوائی حملوں نے میری فوج کو بے بس کردیا. یحییٰ خان کو جب اکیس نومبر کو مشرقی پاکستان پر ہندوستانی حملہ کی اطلاع دی تھی کیونکر وہ اقوام متحدہ اس وقت نہیں گیا کیونکر خاموش بیٹھے رہے. کیا مشرقی پاکستان پاکستان کا حصہ نہیں تھا؟ فوج کو ذلیل کرنے کا یہ طریقہ کیا یحییٰ خان کے سوا کسی اور کی ذمہ داری ہے؟ میں بار بار پوچھتا ہوں کہ مشرقی پاکستان میں یحییٰ نے کیوں جنگ بندی کے احکامات دئیے جبکہ مغربی پاکستان میں کیا مشکل درپیش تھی کہ جنگ جاری نہیں رکھی جاسکی.. یحییٰ خان کے بقول مشرقی پاکستان میں ملٹری ایکشن بھٹو کی فرمائش پر کیا گیا، نیپ پر پابندی بھٹو نے لگوائی، قومی اسمبلی کا اجلاس بھٹو نےملتوی کروایا، چین کے دورے پر واپسی پر غلط اطلاعات بھٹو نے دیں، گل حسن اور رحیم خان کو مغربی پاکستان کے محاذ پر جنگ نہ کرنے کا مشورہ بھٹو نے دیا، پولینڈ کی قرارداد بھٹو نے یحییٰ کو نہیں بھیجی.. یہاں سوال بنتا ہے کہ کیا یحییٰ خان بھٹو کا ملازم تھا؟ کیا بھٹو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھا؟ کیا بھٹو صدر پاکستان تھا؟ کیا بھٹو فوج کا سپریم کمانڈر تھا؟ یحییٰ شکایت کرتا ہے بار بار کے بھٹو نے دھوکہ دیا فلاں فلاں کام غلط کرائے.

حالانکہ ہر جگہ ہر کام کیلئے یحییٰ خان نے خود ہی بھٹو کو نامزد کیا..

اب چونکہ ڈاکٹر مالک فوت ہوگیا ہے تبھی یحییٰ خان ہتھیار ڈالنے کی بحث کو شروع کر بیٹھا ہے وگرنہ اس کے جیتے جی کیونکر خاموش رہا. پہلے کیونکر خاموش بیٹھا رہا. اگر یحییٰ خان یہ سمجھتا ہے میں اس کی حکم عدولی کررہا تھا تو مجھے برخاست کرکے مشرقی کمانڈ کا انچارج میرے بعد جرنل جمشید کو کیونکر تفویض نہ کیا گیا جو میرے ساتھ موجود تھا. حالانکہ وہ خود مانتا ہے کہ لڑنا ممکن نہیں تھا. مغربی پاکستان میں سارے جنگ کے وسائل موجود تھے اس کے باوجود یہ سرے سے لڑے ہی نہیں ملک پورا گواہ ہے. اس صورت میں میں کیا کرتا. اپنے فوجیوں کی زندگیوں، خواتین کی عصمتوں اور محب وطن پاکستانی کمیونٹی کی جان بچانے کی کوشش کروں.

میں نے ایک حکم عدولی ضرور کی کہ بعض مشوروں کے باوجود جو شاید ہیجانی کیفیت میں دئیے گئے تھے چند چیزوں کو تباہ و برباد نہیں کیا کیونکہ اسطرح بے شمار شہری آبادی جو مسلمان تھی بلاوجہ موت کے منہ میں چلی جاتی.. ہم صرف ہتھیار بند لوگوں سے لڑنے گئے تھے باقیوں کی پوری طرح دیانتداری سے حفاظت کی البتہ ٹکاخان نے جو بربادی پھیلائی اس نے داغدار کردیا.. میں نے مشرقی پاکستان کو اپنا ملک سمجھ کر جنگ کی نہ کہ دشمن سمجھ کر برباد. اگرچہ بھٹو نے پاکستانی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے حمود الرحمن کمیشن بنایا لیکن ایک تو اس کمیشن کا دائرہ کار صرف اور صرف فوجی شکست پر مرکوز تھا جبکہ مشرقی پاکستان کی شکست سیاسی تھی. دوسرا کممیش کے نتائج مرتب کرانے میں بھٹو نے یقیناً انتخابات کی طرح دھاندلیاں کی ہونگی..

شکست تاریخ کا تنازع تھا؟

جنرل نیازی صاحب اپنی کتاب کے چھٹے باب میں فوج کا دفاع کرتے جا بجا کرتے نظر آتے ہیں لیکن افسوس فوج نے کبھی بھی جنرل نیازی کا دفاع نہیں کیا.. آخر کیوں؟ بطور تبصرہ نگار میں سوچتا ہوں کہ جنرل جو بھی کرتا پھرے پوری فوج سر جھکائے تعمیل کرتی ہے لیکن اگر کوئی سیاسی سربراہ یا کسی سویلین ادارے کا سربراہ کوئی بات کرے تو حکم عدولی کی سو سو توجیہات دی جاتی ہیں لیکن فوجی سربراہ بھلے جتنا بدکردار بدعنوان ہو پڑا ملک کے وسیع تر مفاد میں اس سے پوچھنے والا کوئی نہیں ویسے یہ منافقت کا دہرا معیار ہے.. بہرحال ہم باقاعدہ طور پر جنرل نیازی کی کتاب کے اس باب کے مندرجات کو شروع کرتے ہیں..

جنرل نیازی لکھتے ہیں کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد ملک و قوم کی گردن ایسے سیاست دان یعنی بھٹو کے ہاتھ میں آگئی جو قومی وقار کی نسبت ذاتی مفادات کو ترجیح دیتا تھا. بھٹو کو سب سے زیادہ خطرہ فوج سے تھا یہی ایک قوت تھی جو اس کو اقتدار سے محروم کرسکتی تھے تبھی اس نے قوم کی نظر میں فوج کو گرانے کی منصوبہ بندی کی. اس کیلئے یہ مہم آسان تھی ملک ٹوٹ چکا تھا آدھی فوج دشمن کی قید میں تھی اس نے حمود الرحمن کمیشن کی آڑ میں فوج پر ایسے ایسے الزامات عائد کئے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا. اخبارات و ریڈیو پر فوج کو بلیک آؤٹ کردیا گیا. سقوطِ ڈھاکہ پر ایسے ریٹائرڈ فوجی افسران سے رسالوں و اخبارات میں آرٹیکل لکھوائے جو گھر بیٹھے پنشن کھا رہے تھے جنھوں نے زندگی میں کوئی جنگ تک نہیں لڑی. ایسے جرنیلوں سے کتابیں لکھوائی گئیں جو مشرقی پاکستان سے بہت دور بیٹھے تھے جو مغربی محاذ پر بھی جنگ نہیں لڑے تھے مگر میری زبان پر قواعد و ضوابط کے نام کا تالا لگا دیا گیا. ان نام نہاد کرائے کے جنگی تبصرہ نگاروں کو حقائق کا کچھ علم نہیں تھا وہ محض پتلے تھے جو آقاؤں کے ایما پر انکی منشاء کے مطابق بولتے تھے. بعد میں لوگوں نے ایسے چاپلوس لوگوں کی کتابوں کو میرے خلاف بطور سند استعمال کرنا شروع کردیا. مقصد صرف یہ تھا کہ فوج کی تذلیل کی جائے. اس زمانے میں حکمران ٹولے کو دو سہولیات میسر تھی ایک قوم سراپا سوالیہ نشان تھی. ہر کوئی شکست کے اسباب جاننا چاہتا تھا. دوسرا قوم بیچاری سادہ تھی ان معاملات کا ادراک نہیں رکھتی تھی. دوسری طرف ایسے قلم فروش لکھاری لانچ کئے گئے جنھوں نے حقائق کو مسخ کرتے ہوئے قوم کو سچ کے نام پر فریب پھیلایا… ہم بدنصیب قوم ہیں یہاں قلم فروشوں کی کوئی کمی نہیں یہ عہدوں و نقدی انعام و اکرام کی نوازش میں سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے کے ماہر ہیں..

گزشتہ تیس برسوں کے حالات کو دیکھتے ہوئے پتہ چلتا ہے کہ ہماری ہر جنگ سیاست کی نظر ہوگئی ہے کوئی بھی حقائق کی بات نہیں کرتا. میرے خلاف میرے سینئر افسران اور میری افواج کے خلاف پروپیگنڈہ کیا گیا میری آواز بند کردی گئی. جب میں قید سے واپس آیا تھا تو میرے کئی ساتھیوں نے مجھے مشورہ دیا کہ سقوط ڈھاکہ کے حقائق پر لکھ کر پریس کو دوں. کیونکہ میرے خلاف باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت مضامین اور کتابیں لکھوائی جانے لگی. یہ پڑھ کر کئی ایڈیٹر اور رائٹرز میرے پاس آئے انھوں نے بھی یہی سوال پوچھا کہ نیازی صاحب آپ کیوں خاموش ہیں. سب سے فرداً فرداً اکسایا کہ ایک کتاب لکھوں. لیکن میں خاموش رہا..

مجھے معلوم تھا کہ جو یہ میرے پاس بار بار آرہے ہیں ان میں اکثر جنگی امور سے واقف نہیں. ان میں ایسے بھی تھے جو میری کتاب کو چھاپ کر کاروبار کی چاندی کرنا چاہتے تھے. لیکن مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ جو حقائق میں قوم کو سنانا چاہتا ہوں اور جو قوم کو بتانا ضروری ہے وہ یہ شائع کرنے کی جرات نہیں رکھتے.. وقت پلٹا بھٹو خود قیدی بن گیا جو تکبر کے لہجے میں مطلق العنان حکمران بنا بیٹھا تھا پھانسی چڑھ گیا. پس میں اب بات کرسکتا تھا.. میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا. جنرل ضیاء الحق نے میری زبان بندی ختم کردی. اب میں اپنے خلاف لکھے گئے پراپیگنڈا کا جواب دے سکتا تھا. انتخابات کے دوران چند جگہوں پر تقاریر بھی کی ہیں. سننے والے سمجھتے ہیں کہ سب کچھ کہہ دیا ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ محض دس فی صد ہے. میں اب بھی اس کتاب میں وہ باتیں نہیں لکھوں گا جس کی قوم منتظر ہے. میں فقط یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں کیونکر خاموش ہوں. میں ایک جنرل تھا مجھے قومی وقار ذاتی عزت سے زیادہ عزیز ہے. اگر میں اپنے عہدے، اپنی حیثیت کو قومی وقار سے الگ رکھ دوں طعنے کے جواب میں طعنہ گالی کے جواب میں گالی اور الزامات کے جواب میں الزامات کی بوچھاڑ کردوں تو حاصل کچھ نہیں ہوگا. میں ان سے زیادہ گھناؤنی باتیں لکھ سکتا ہوں جو کہ حقیقت بھی ہیں میں ان مصنفین کی اصلیت کو بے نقاب کرسکتا ہوں جنھوں نے کتابیں لکھ کر مضامین شائع کروا کر میری شخصیت پر سیاہی ملنے کی کوشش کی ہے انھوں نے مجھے نااہل اور بزدل کہا..

جنرل نیازی کی راتیں نام کے عنوان سے مجھے ایک عیاش افسانوی راجہ اندر سے ملایا ہے. مجھے شرابی کبابی اور فحش باتیں لکھ کر مجروح کیا. حالانکہ وہ اگر سچے ہوتے تو سیاسی و فوجی پہلوؤں پر گفتگو کرتے میرے خلاف لکھی گئی کتابوں کو پڑھنے والے اہل علم کہتے ہیں کہ جس قوم کے لکھاری اتنی بڑی شکست کے بعد ایسی گٹھیا اور اخلاق سوز افسانے لکھ کر خوش ہورہے ہوں اس قوم کا کردار نہیں اور اسے جو شکست ہوئی ہے یہ اس قوم کا حق بنتا تھا. جو ایک فوجی افسر کو کتاب چھپوانے پر کچھ نہیں کہہ سکتے وہ ملک کے ایک حصے کو کیسے سنبھال سکتے ہیں… صدیق سالک ایک حاضر سروس فوجی تھا. اس نے کسی کی ہلہ شیری پر کسی کی فہمائش پر قاعدے قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے کتابیں لکھی؟ صدیق سالک نے آخر یہ کتاب انگریزی میں کیونکر لکھی اور انگلینڈ سے کیونکر چھپوائی؟ کیا یہ ایک منصوبہ بندی کے تحت سب کچھ نہیں ہوا؟ ایک اور پہلو بھی توجہ طلب ہے مشرقی پاکستان کے ساتھ ساتھ مغربی پاکستان کا محاذ بھی منسلک تھا. جس میں سندھ میں ہزاروں مربع میل شکرگڑھ کی پوری تحصیل تک ہندوستان کے سامنے سرنڈر کردی گئی لیکن اس موضوع پر کسی نے کچھ نہیں لکھا. چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت اس سارے حادثے پر ایک وائٹ پیپر شائع کرتی اور اس وائٹ پیپر سے قبل کسی قلمکار یا ادارے کو اس موضوع پر کتابیں شائع کرنے سے منع رکھتی تاکہ جس کے دل میں جو آتا ہے لکھتا چلا جاتا ہے ہر حکومت اپنے مطلب کا مواد چھپواتی ہے. ہر فوجی افسر. اپنی مرضی کی کہانی لکھتا ہے جس سے حقائق دھندلا چکے ہیں اس دھاندلی کا ذمہ دار کون ہے؟ میں کافی دیر تک خاموش اس لئے رہا کہ یہ اپنے اندر کا گند باہر نکال لیں یہ خود ساختہ کہانیاں بن لیں آخر کو سچائی تو مجھے ہی معلوم ہے میں خود لکھوں گا. میرے پاس اب ابھی ایسے راز ہیں جنھیں میں افشاں نہیں کرنا چاہتا. میں بس یی گزراش کروں گا کہ جن کتابوں پر بھٹو نے پابندی لگا رکھی ہے وہ پاکستان میں آنے دیں شائع ہونے دیں سچ سامنے آجائے گا. حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کے مطابق میں مجرم تھا. تو سوال ہے کہ میرے خلاف کارروائی کیونکر نہیں ہوئی؟ اس کمیشن کی فائل کو اب تک چھپا کر کیونکر رکھا گیا ہے؟

اب وقت آگیا ہے کہ فوج کو اپنے چہرے سے داغ مٹانے چاہیے کھل کر سامنے آئے اور قوم کو حقائق سے آگاہ کرے. جو گند پچھلی حکومتوں نے گھولا. اس کو دھوئے..

اختتامیہ؛

جیسا کہ قبل پہلی قسط میں بتایا کہ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نے اپنی کتاب انگریزی زبان میں لکھی جبکہ اس کا اردو ترجمہ وسیم شیخ صاحب نے کیا جو آجکل بازار میں دستیاب ہے یہ ایک غیر معیاری ترجمہ ہے اس میں بہت کچھ کو نظر انداز کرکے تفصیلات کو مختصر کرکے اپنے انداز میں ڈھالا گیا ہے پس یہ ایک ترجمہ کم بلکہ جنرل نیازی کی کتاب پر تبصرہ زیادہ معلوم ہوتا ہے..

rpt

پس وسیم شیخ صاحب کے اس تبصرہ نما ترجمہ کے آخری حصے میں جنرل نیازی صاحب کے اپنی بیوی بچوں کے نام خطوط کو شامل کیا گیا ہے. ساتھ پاکستان و بھارت کی دفاعی قوت کا موازنہ کیا گیا ہے ساتھ ساتھ بائیس نومبر سے لیکر بیس دسمبر تک کی روزانہ کی جنگی خبروں کا احوال درج ہے ساتھ ہی ساتھ کچھ خفیہ پیغامات بھی درج کئے گئے ہیں.

اس سے آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ مشرقی پاکستان میں حالات کس قدر دگرگوں تھے..

بہرحال پھر بھی کوشش کریں کہ اصل کتاب یعنی انگریزی میں مطالعہ کریں کیونکہ یہ ترجمہ غیر معیاری اور بہت سے چیزوں کو نظرانداز کرکے مختصر انداز میں پیش کیا گیا ہے..

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں