شجرہ و تاریخ قبیلہ باہی۔۔۔


تعارف؛


نیازی قبیلے کی مرکزی تین شاخیں ہیں اول باہی، دوم جمال اور سوم خاکو..
جمال کی اولاد میں سے میانوالی سنبل اور عیسٰی خیل ہیں جبکہ افغانستان میں مڑھیل،نظر خیل،جگائے شامل ۔ جمال کی کچھ  اولاد ہندوستان میں گم ہوچکی ہے جبکہ خاکو کی اولاد میں میانوالی، ہنگو کوہاٹ افغانستان وغیرہ کے تمام نیازی قبائل شامل ہیں..

تاریخ؛

کہا جاتا ہے کہ باہی کا نام دراصل باہو تھا جبکہ کچھ اسکو بائی بھی کہتے ہیں کچھ بھائی بھی. یہ نیازی بابا کا سب سے بڑا بیٹا تھا جسکی والدہ کا تعلق سروانی قبیلے سے تھا..

قدیم پشتو  زبان میں باہی چشمہ کو کہتے ہیں ۔ملاحظہ ہو مردان کی مشہور تاریخی جگہ تخت باہی۔
باہی بابا کی تمام اولاد میں لوگ نیک سیرت اور اللہ والے گزرے ہیں. دیگر نیازی قبائل کے برخلاف آپکی اولاد دنیاوی معاملات میں کم دلچسپی لیتی تھی..


پانچ سو سال قبل لکھی جانے والی کتاب مخزن افغانی میں بھی آپ کی اولاد سے ہونے والے دو ولی اللہ افراد کا ذکر ہے ایک عبدالکریم باہی جن کا مزار وانا کے سرحدی علاقے غلام خان کے پاس واقعہ ہے آپکو وہاں کے مقامی لوگ شین سترگے بابا کہتے ہیں. کیونکہ روایات کے مطابق آپکی آنکھیں سبز تھیں
جبکہ دوسری شخص جناب یحییٰ باہی شہید کی ہے آپکا مزار بھی وانا میں ہے.
یہ اس وقت کی باتیں ہیں جب نیازی گومل کے راستے ہندوستان میں داخل ہورہے تھے تو وہاں وانا میں سکونت اختیار کی تھی. جناب غلام محمد خان باہی ریٹائرڈ پرنسپل کی تحقیقات کے مطابق علاؤالدین غلجی کے دربار میں بھی ایک عالم موجود تھے جن کا نام مولانا شمس الدین باہی تھی جس کا ذکر ایک کتاب عہد اسلامی میں علمی ترقی میں موجود ہے جس کا مصنف ایک انگریز ہے..


اس باہی قبیلے کے بزرگ شیخ عثمان نے سلطان خیلوں اور موسی خیلوں کے درمیان ہونے والے تنازعہ میں سلطان خیلوں کو سمجھایا مگر سلطان خیلوں نے درخورد اعتنا سمجھا جسکا کا انھیں خمیازہ بھگتنا پڑا۔

آرام گاہ شیخ عبدالغفور باہی؛

مٹھا خٹک کے شمال مغرب میں پہاڑوں کے درمیان گھرا ہوا ایک مقبرہ کوڑھ اور برص کی بیماری میں مبتلا افراد کی توجہ کا مرکز ہے. مریض یہاں آ کر زیارت کرتے ہیں اور چشمے کے پانی میں نہاتے ہیں. اللہ تعالیٰ اُنھیں کوڑھ کے مرض سے نجات عطاء فرماتے ہیں.

نیازی قبیلے کی داستان کے مؤلف کے مطابق سب سے پہلے یہاں عبدالکریم باہی کی آمد موسی خیل سے ہوئی. بعد اس علاقے میں انکی اولاد نے رشد و ہدایت کی شمع روشن رکھی. چنانچہ جب موسی خیلوں اور سلطان خیلوں کی پانی کے تنازعے پر آپس میں ٹھن گئی تو شیخ ابراہیم باہی نے معاملہ طے کرنا چاہا تھا مگر مطلوبہ نتائج نہ حاصل ہوسکے. جب سلطان خیلوں کو نئی جگہ پر ترگ کے لوگوں نے قدم جمانے نہ دئیے تو سلطان خیل شیخ ابراہیم باہی کی خدمت میں پہنچے اور اپنا مدعا بیان کیا. کیونکہ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے سلطان خیلوں کو نافرمانی پر بدعا دی تھی. تبھی شیخ ابراہیم باہی نے تالیف قلوب اور مستقل آباد کاری کیلئے اپنے فرزند شیخ عبدالغفور باہی کو یہاں پر انکے ساتھ روانہ کیا. جنھوں نے موجودہ سلطان خیل گاؤں کی بنیاد ڈالی. شیخ عبدالغفور باہی کی اولاد سلطان خیل میں باہیاں والا ڈیرہ میں مقیم ہے. روایت ہے کہ شیخ عبدالغفور باہی کی دعا کہ طفیل مٹھا خٹک، خٹک قبیلے میری خیل کی راج دھانی ہونے کے باوجود چشمہ کے پانی کا اختیار سلطان خیلوں کے قبضے میں رہا بعدازاں موجودہ زمانے میں مٹھا خٹک میں بھی اب سلطان خیل نیازی آباد ہیں. خٹک قبیلے کے لوگ یہاں سے ہجرت کر گئے ہیں

بزرگوں کا کہنا ہے کہ شیخ عبدالغفور باہی نے وصیت کی تھی کہ انکی تدفین یہاں کرنی ہے. مزار کے احاطے میں انکے بیٹے شیخ خواجہ نور باہی کو بھی جگہ دی گئی ہے. ان کے مقبرہ سے تھوڑا فاصلے پر انکے خلیفہ شاہ زمان نیکہ کا بھی مزار ہے.. انکے مزار پر بیشمار مکوڑے ہوتے تھے مگر ستر کی دہائی کے بعد سے مکوڑے اب چھوڑ گئے ہیں..

منڈی بہاؤالدین میں میاں شیخ باہی کا مزار ہے وہاں کے گوندل اور دیگر پنجابی اسے پیر پٹھان کے نام سے یاد کرتے ہیں یہ سلطان خیل کے باہی قبیلے سے تھے اور وہاں جاکر آباد ہوئے۔سوہاوا ضلع منڈی بہاؤلدین میں  ہرسال ان کا عرس ہوتا ہے عرس میں سلطان خیل سے  بھی لوگ  جاتے ہیں۔

مرہٹوں کے خلاف پانی پت کی جنگ میں دو باہی شہید ہوئے غالباً ایک کا  حسن نام تھجن کا مزار وہاں موجود ہےان کی  اولاد کو  ہوشیار پور میں جاگیریں ملیں۔ہوشیار پور میں باہی قبیلہ کی بارہ بستیاں تھیں۔وہاں کے لوگ قیام پاکستان کے وقت پاکستان ہجرت کرکے مختلف علاقوں میں آباد ہوگئے ہیں۔انکی تاریخ پر الگ سے آرٹیکل لکھا گیا ہے۔

باہی قبیلہ میانوالی چکوال،کمر مشانی،سلطان خیل، اٹک اور ہوشیار پور ہندوستان تک پھیلا ہوا ہے..
زیادہ تر آبادی موسی خیل، لاوہ، ترحدہ اور سلطان خیل میں ہے..

شخصیات؛


جیسا کہ اوپر پوسٹ میں ذکر ہوا ہے کہ اس قبیلے کی اکثر شخصیات ولی اللہ ہیں جن میں شیخ عبدالکریم باہی، شیخ یحییٰ باہی شہید، شیخ تور باہی، مولانا شمس الدین باہی، پروفیسر غلام محمد خان باہی، پاکستان کی طرف سے سب سے اول ستارہ جرات حاصل کرنے والے میجر محبوب نیازی، کرنل عابد نیازی، ڈاکٹر عبدالظاہر نیازی، کیپٹن اسامہ خان نیازی،سینیٹر ڈاکٹر غوث خان نیازی، برگیڈیر محمد اسلم نیازی، وغیرہ شامل ہیں..

ذیلی شاخیں؛


باہی قبیلے کی آج تک کوئی ذیلی شاخ یعنی خیل یا زئی نہیں بنی اس قبیلے کا ہر شخص باہی کہلاتا ہے..

نوٹ؛

یہ بات یاد رہے کہ زیر دستیاب شجرہ جات صرف وہ ہیں جو تاریخ نیازی قبائل کتاب کے مؤلف حاجی اقبال خان نیازی صاحب مرحوم نے اپنی کوشش سے اکھٹے کئے یا جن لوگوں نے ذاتی دلچسپی لیکر کر شجرے بنا کر ان تک پہنچائے.ان شجروں کو قطعی طور پر مکمّل نہ سمجھا جائے کیونکہ یہ چند سو افراد کے شجرے ہیں جبکہ قبیلے کی آبادی ہزاروں افراد پر مشتمل ہے.. اگر کسی کا زیر دستیاب شجرے میں نام موجود نہیں تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ نیازی نہیں یا باہی نہیں. بلکہ یہ انتہائی محدود افراد کے شجرے ہیں جو مؤلف کو دستیاب ہوئے وہ شامل کردیئے۔اگر کوئی آرٹیکل میں مزید معلوت کا اضافہ کروانے کا متمنی ہے یا کوئی تصحیح درکار ہے یا کسی معروف شخصیت کی تصویر شامل کروانا چاہتا ہے تو ہمیں نیچے کمنٹ کریں یا فیس بک پیج نیازی پٹھان قبیلہ پر انبکس کریں شکریہ

ایڈمن نیازی پٹھان قبیلہ

www.NiaziTribe.org


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

5 تبصرے “شجرہ و تاریخ قبیلہ باہی۔۔۔

  1. جزاک اللّہ
    بھت بھت شکریہ آپ کی جدوجد کی بنا پر ہمیں اپنے شجرے کی معلومات ملی
    اللّہ آپ سے راضی ہو

    1. آپکی اس محنت اور باہی پٹھان قبیلے سے محبت کے شکر گزار ہیں اللہ تعالی اپ جیسے چراغ ہمیشہ سلامت رکھے۔آمین

      1. آپکی اس محنت اور باہی پٹھان قبیلے سے محبت کے شکر گزار ہیں اللہ تعالی اپ جیسے چراغ ہمیشہ سلامت رکھے۔آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں