آج مادری زبان کا دن ہے :: جب کہا جاے گا ‘مادری زبان’ تو ہم لوگ جو مغرب یعنی افغانستان سے اس طرف آے ۔۔نیاز کی نسل نیازی ۔۔ سرہنگ ہماری قوم نسل نیاز سے روانہ غزنی سے ہوی جو ہمارا قدیم وطن و ہماری قوم کا آبای علاقہ ۔۔۔پھر پکتیکہ پھر ٹانک اور براستہ گمبیلہ مروت کے علاقہ اور پھر کرم کراس کیا اور سندھ پار کیا اور سامنے پہاڑ کے دامن میں جا بسے داود خیل پائی خیل غنڈی موسی خیل و دیگر اور عیسی و مشان کی اولاد دریا کے مغرب و شمال کی جانب سرہنگ کے آنے سے کچھ عرصہ پہلے شاید آچکے تھے ۔۔لشکری مزاج نہایت صحتمند اور ٹھنڈے علاقہ سے آے ہمارے اجداد اور اس نسل سے ہونے کی وجہ سے آج بھی گرمی شدید ہمارے مزاج و دماغ تک اثر کر ڈالتی ہے ۔۔۔۔۔ ہاں ہماری مادری زبان پشتو تھی جو رفتہ رفتہ آثار کی صورت بچی ۔۔۔ کچھ الفاظ و اظہار کی صورت ۔۔۔ کتے کو آج بھی کھرے اور بلی کو پشے ۔۔ اور ماڑا یعنی مارا ۔۔۔ اور بھینس گاے کو پانی پلانے کیلیے آج بھی چھی چھی کی آوازیں ۔۔۔ وانڈھا و وانڈھی ۔۔۔ اور دیگر ۔۔۔ ۔ لہجہ غزنی وال پشتو اور سیکھی ہمارے اجداد نے یا اپنای یہاں کے قدیم ہندکی باسیوں کی زبان جو سندھ کنارے آباد ایک قدیم تہزیب تھی ۔۔۔۔ ہاں مجھے اپنی مادری زبان پشتو کے بوجہ ان واقعات و گزرے ایام کے بھلاے جانے و بھول جانے کا دل سے دکھ ہے
۔۔۔جب بھی رحمن بابا یا دیگر پشتون شعرا کا کلام اور ناشناس کی کابل سے اٹھتی آواز سنتا تو دکھ ہوت ا اور شدید کمی محسوس ہوتی کہ کیسے ہم اپنی اصل سے دور ہوے ۔۔۔۔ ہاں موسی خیل کے پہاڑ کے مغرب پر آباد ہونے والے یہ پشتونوں کے آخری قبایل ہیں ۔۔۔ سمندر کی آخری لہروں کی مثل ۔۔۔۔ ہاں مجھے اپنی مادری زبان کے کھو جانے کا دکھ ہے تشنگی کی مثل ۔۔ اور لفظ شنا کے بعد اپنی نیا زبان کے مخصوص لہجہ کے ساتھ ادایگی بھی ہم لوگوں کی اب پہچان بن چکی۔ ۔۔ مارا شنا جو ہے ۔۔۔ ۔۔۔
نوٹ: میانوالی کے نیازیوں کی زبان کی لغت اور فرہنگ قطعاً سرائیکی سے میل نہیں کھاتی.. نہ ہی الفاظ کی ادائیگی میں مماثلت ہے.. میانوالی کی زبان “میانوالیہ” ہے. جو کہ پشتو، ہندکو، ہندی، پنجابی، سرائیکی ، دری اور اردو کا حسین سنگم ہے. مطلب جس علاقوں میں نیازیوں نے بودوباش اختیار کی ان سب زبانوں سے کچھ نہ کچھ لیکر ایک زبان بنائی..
تحریر: میجر ر خرم حمید خان کلاہ خیل آف روکھڑی