میانوالی کی حلقہ وار سیاست (دوسری قسط)۔پی پی 86 :

حلقہ پی پی 86 میانوالی کی سیاسی تاریخ اور 2023 کے انتخابات پر سیاسی تجزیہ:

پی پی- 86 تحصیل میانوالی کی تقریبا تیرہ یونین کونسلوں پر مشتمل ہے ۔یہ حلقہ شہبازخیل سے شروع ہو کر مسان تک جاتا ہے ۔
اس حلقے کی چار یونین کونسلیں (نمل ،چکڑالہ،کنڈ اور تھمے والی) تقریباً ساری اعوان برادری پر مشتمل ہیں ۔ جبکہ مسان ،بنی افغان اور پیر پھلائی کے علاقے خٹک بیلٹ پر مشتمل ہیں ۔
باقی تمام یونین کونسلوں میں تقریباً تمام برادریاں موجود ہیں لیکن اکثریتی خان نیازی لوگ ہیں ۔
اس حلقے میں سب سے زیادہ سیاسی شعور اسکندر آباد/داؤدخیل کے لوگوں میں ہے ۔اسکندرآباد انڈسٹریل ایریا ہے اور ہر سال مزدور یونین کے انتخابات کی وجہ سے آپ کو ہر گلی چوراہے میں سیاسی مقرر نظر آتے ہیں ۔


قیام پاکستان کے بعد سے لے کر یہ حلقہ نواب آف کالاباغ ، امیر عبداللہ خان روکھڑی اور مولانا عبد الستار خان نیازی کی سیاست کا گڑھ رہا ہے ۔شروع شروع میں روکھڑی اور کالاباغ گروپ آپس میں حلیف تھے اور مولانا نیازی ان دونوں کے حریف ۔
لیکن نواب امیر محمد خان آف کالاباغ کے اپنے بیٹوں کے ہاتھوں قتل کے بعد ،روکھڑی خاندان اور کالا باغ کے نوابوں کے

نواب آف کالاباغ ملک امیر محمد

پی پی- 86 کا ہر گاؤں ،قصبہ ،محلہ اور برادری حتی کہ اس حلقے کے سیاسی سُرخیل بھی دو گروپوں میں تقسیم ہو گیے ۔روکھڑی گروپ اور کالا باغ گروپ ۔
اسکندر آباد/داؤد خیل ،موچھ اور شہبازخیل روکھڑی خاندان کے گڑھ سمجھے جاتے تھے ۔
دوسری طرف ماڑی انڈس ،پکی شاہ مردان ،گلن خیل ،ٹھٹھی اور ڈھیر امید علی شاہ کے علاوہ مسان ،بنی افغان وغیرہ کے علاقوں میں کالا باغ گروپ کا زور تھا ۔

مولانا عبدالستار خان نیازی

چکڑالہ کے علاقوں کی چاروں یونین کونسلوں میں یہ دونوں سیاسی گروپ، وہاں کی مقامی سیاسی چپقلشوں اور تھانے کچہری کی سیاست کی وجہ سے(چِٹا گروپ تے کالا گروپ وغیرہ)تقریباً برابر برابر تھے یا انیس بیس کا فرق تھا ۔
اس حلقے کے ان دونوں بڑے سیاسی خاندانوں کی سیاست اور سیاسی اجارہ داری کو میری ذاتی رائے میں دوسرے عوامل کے علاوہ ان تین بڑی وجوہات کی وجہ سے شدید دھچکا لگا ۔

امیر عبداللہ خان روکھڑی

1۔بغوچی محاز کا قیام اور کالا باغ کے نوابوں کے خلاف بغاوت ۔
2.حاجی اکرام اللہ خان پائی خیل کی عوامی سیاست ۔جس نے لوگوں کو احساس دلایا کہ یہ دونوں خاندان ناقابل تسخیر نہیں اور ان کا مقابلہ بھی کیا جا سکتا ہے اور ان کو شکست بھی دی جا سکتی ہے۔
3۔اور پھر سب سے بڑی وجہ تحریک انصاف کا قیام اور میانوالی میں اس کی مقبولیت اور پذیرائی۔
1971 کے انتخابات میں پی پی 86سے امیر عبداللہ خان روکھڑی آزاد ایم پی اے منتخب ہوئے اور بعد میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے ۔
1977 میں ملک تاج آف کنڈ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر اور موچھ سے تعلق رکھنے والے محمد نواز خان باؤ آزاد الیکشن لڑے ۔یہ الیکشن ملک تاج کنڈ جیت گئے لیکن اپوزیشن اتحاد پی این اے کے دھاندلی کے خلاف ملک گیر احتجاج کے نتیجے میں ضیاء الحق کا مارشل لاء لگ گیا ۔

حاجی اکرام اللہ خان پائی خیل

1985 میں غیر جماعتی انتخابات ہوئے اور پی پی 86سے گل حمید خان روکھڑی جیت گئے ۔ان انتخابات کے بعد کالا باغ خاندان سیاست سے باہر ہو گیا اور 2007تک انتخابی سیاست سے باہر رہا ۔
1988 میں گل حمید خان روکھڑی اور کراچی میں مقیم موچھ سے تعلق رکھنے والے طارق عباس خان اور ملک تاج آف کنڈ کا مقابلہ ہوا ۔طارق عباس خان امیر عبداللہ خان روکھڑی کے داماد بھی ہیں ۔گل حمید روکھڑی یہ انتخاب جیت گئے ۔
1990 میں بھی طارق عباس خان اس حلقے سے الیکشن لڑے لیکن جیت نہ سکے اور عامر حیات خان روکھڑی ایم پی اے منتخب ہو گئے ۔

ملک مظفر آف کالاباغ

1997 کے انتخابات میں دو چیزیں واضح ہو گئیں
1۔ایک تو یہ کہ روکھڑی خاندان کو اندازہ ہو گیا کہ اب سولو فلائٹ چھوڑ کر اتحاد کی سیاست کرنی پڑے گی ورنہ کوئی سیٹ بھی ان کے ہاتھ نہیں آئے گی اور دوسرا کالاباغ اور روکھڑی خاندان دونوں کو احساس ہو گیا کہ ہمیں اپس میں صُلح کر لینی چاہیے ۔۔

گل حمید خان روکھڑی

2۔ ۔مقبول خان آف عیسیٰ خیل کی شیر کے نشان پر قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی اور رکھی سے تعلق رکھنے والے ملک نور خان کے ایم پی اے کی سیٹ پر شیر کے نشان پر گیارہ ہزار ووٹوں نے میانوالی کے سیاست دانوں کو احساس دلایا کہ اس حلقے میں مسلم لیگ ن کا ووٹ موجود ہے اور ہار جیت میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔(ملک نور خان کراچی میں رہتے تھے ۔ٹرانسپورٹر تھے ۔پہلی دفعہ میانوالی کی سیاست میں آئے۔۔الیکشن لڑا ۔گیارہ ہزار ووٹ لئے جبکہ جیتنے والے امیدوار حاجی اکرام اللہ خان پائی خیل نے ساڑھے سولہ ہزار اور عامر حیات روکھڑی نے ساڑھے چودہ ہزار ووٹ لئے۔ اس الیکشن میں بنی افغان قبیلے کی کالا باغ کے نوابوں سے صلح نے حاجی اکرام اللہ خان کی جیت میں اہم کردار ادا کیا)۔اسی الیکشن میں عمران خان نے قومی اسمبلی کی نشست پر تقریباً انیس ہزار ووٹ لئے اور اس دور میں اکثر لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ۔
1999 میں حاجی اکرام اللہ خان پائی خیل قتل ہو گئے تو ضمنی انتخاب میں ان کے بھتیجے سلیم اللہ خان پائی خیل نے گل حمید خان روکھڑی کو شکست دی ۔

عامر حیات خان روکھڑی

2002 کے انتخابات میں اس سیٹ پر گل حمید روکھڑی اور سابق چیرمین اسلام آباد ایجوکیشن بورڈ جی ایم شاہ کے درمیان سخت مقابلہ ہؤا لیکن گل حمید خان روکھڑی جیت گئے ۔بعد میں ضمنی انتخاب میں عامر حیات روکھڑی نے عمران خان کے بہنوئی حفیظ اللہ خان کو ہرا تو دیا لیکن پی ٹی آئی کے حاصل کردہ ووٹوں سے سیاسی پنڈتوں نے یہ اندازہ کر لیا کہ اس حلقے میں اگلا دور پی ٹی آئی کا ہے۔
2007/2008 کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے بائیکاٹ کیا ۔عامر حیات خان روکھڑی نے فصیح اللہ خان پائی خیل کو شکست دے کر یہ سیٹ جیت لی ۔(یہ پہلی بار تھا کہ روکھڑی خاندان,کالا باغ کے نوابوں اور عیسیٰ خیل کے خوانین نے مل کر اتحاد کی صورت میں الیکشن لڑا).
بعد میں عامر حیات روکھڑی کی وفات پر ضمنی انتخابات میں ان کے بیٹے عادل عبداللہ روکھڑی نے ملک طارق کنڈ کو شکست دی۔
2013 کے الیکشن میں اس حلقے سے پی ٹی آئی کے امیدوار ڈاکٹر صلاح الدین خان آف موچھ نے عادل عبداللہ روکھڑی کو شکست دی.

ڈاکڑ صلاح الدین خان نیازی

ڈاکٹر صلاح الدین کو قدرت نے اچھا موقع دیا تھا ۔وہ پڑھے لکھے تھے ۔صوبائ اسمبلی میں فعال اور جارحانہ کردار ادا کرتے تو ملکی اور صوبائی سطح پر اچھا مقام بنا سکتے تھے ۔لیکن وہ پی ٹی آئی کی مقامی سیاست میں اُلجھ گئے۔بجاے اس کے کہ مقامی تنظیم میں موجود دھڑے بندیوں کو جوڑتے وُہ خود ان دھڑے بندیوں کی سیاست کا شکار ہو گئے۔ضلع میں بلدیاتی انتخابات ہوئے۔اپنی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی اکثریتی پارٹی ہونے کے باوجود عمران خان کے آبائی ضلع میں چیئرمین کا الیکشن ہار گئی۔ڈاکٹر صاحب بلدیاتی انتخابات میں پارٹی کے اندر موجود اپنے مخالفین کو زِچ کرنے میں تو کامیاب ہو گئے لیکن2018 میں پی ٹی آئی کا ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکام ہو گئے ۔سیاست بہت بے رحم ہوتی ہے ۔اس کے سینے میں دل نہیں ہوتا ۔جو کھلاڑی ایک دفعہ گر جائے ،اس کا ہاتھ کوئی نہیں پکڑتا ۔ہر شخص آپ کو روندتے چلا جاتا ہے ۔جانے ان جانے میں اپنے ہاتھوں سے دوسروں کے لئے کھودے گڑھوں میں ڈاکٹر صاحب خود ایسے گرے کہ اب اُٹھنا محال ہے۔

عادل عبداللہ خان روکھڑی


2018کے انتخابات میں میں عادل عبداللہ روکھڑی کی پی ٹی آئی میں شمولیت اور پی پی 86 میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ کی خبروں نے پی ٹی آئی کے کارکنوں میں کھلبلی مچادی اور کارکنوں کا شدید ردعمل سامنے آیا۔ جس پر مرکزی قیادت کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی پڑی ۔
2018 میں لوگوں کے لیے سب سے حیران کن فیصلہ پی پی 86کے لیے امین اللہ خان کو پی ٹی آئی کا ٹکٹ ملنا تھا ۔کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ ٹکٹ آب پارہ سے چلنے والی ٹرین کے ذریعے براستہ منگلا میانوالی پہنچا ۔بہرحال امین اللہ خان پی ٹی آئی کے دوسرے امیدواروں کی طرح بھاری اکثریت سے یہ الیکشن جیت گئے ۔
لیکن شومئی قسمت 2023 کے انتخابات میں میانوالی میں اگر کسی کا ٹکٹ خطرے میں ہے تو وہ امین اللہ خان کا ہے ۔کیونکہ ایک تو وہ پٹڑی ہی اُکھڑ چکی ہے جس پر آب پارہ اور منگلا سے ٹرین چلی تھی ۔دوسرا یہ حلقہ بڑا بے رحم ہے اور ہر دفعہ اپنا امیدوار بدلتا ہے ۔

حاجی امین اللہ خان نیازی

2023 میں بظاہر بلکہ یقین کی حد تک اس امیدوار کی فتح یقینی ہے جسے پی ٹی آئی کا ٹکٹ ملے گا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہر یونین کونسل سے دو تین امیدوار پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اب ٹکٹ کا ھّما کس کے سر پر بیٹھتا ہے ،کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔
ویسے نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے لیکن رائے دینے میں تو کوئی قدغن نہیں ہے ۔میری ناقص رائے میں پڑھے
لکھے ،دیانتدار ،مقامی،شریف النفس ایسے شخص کو ٹکٹ دیا جائے جو پارٹی کے نظریے سے مخلص ہو ۔پارٹی کے لئے اس کی قربانیاں ہوں اورعام لوگوں میں سے ہو ۔
ماضی میں پی ٹی آئی کے ٹکٹوں کے بارے میں یہ بھی سننے میں آتا رہا کہ عمران خان سے بالا بالا اور عمران خان کو اندھیرے میں رکھ کر ٹکٹ بیچے بھی گئے اور دوست احباب کو بھی نوازا گیا۔یہاں تک کہ کچھ چُوری کھانے والے مجنوں انتخابی جلسوں میں عمران خان کے پیچھے کھڑے ہو کر اور تصاویر کھینچوا کر یہ تاثر دیتے رہے کہ وہ عمران خان کے بڑے قریب ہیں اور پھر ان صاحبان نے ان تصاویر کو “کیش” بھی کروایا ۔جس کا بعد میں پارٹی کو بھاری خمیازہ بھگتنا پڑا ۔
سنا ہے اب بھی کچھ لوگ کاروں کی ڈگیوں میں بریف کیس ڈالے “خالی پیٹ اور پیاسے پنچھیوں” کے پیچھے دوڑ رہےہیں ۔اس لیے ضروری ہے کہ عمران خان اپنے ضلع کے ٹکٹوں کے حوالے سے خود انٹرویو کریں اور جس کو مناسب سمجھیں ٹکٹ دیں ۔
بہرحال کوئی مانے یا نہ مانے اب خاندانی اور وراثتی سیاست ختم ہو چکی اور سیاست میں وہی زندہ رہے گا جو میانوالی میں رہ کر اور عوام میں رہ کر سیاست کرے گا۔لاہور،اسلام آباد یا کراچی میں بیٹھ کر میانوالی کی سیاست نہیں ہو سکتی۔
نوٹ: اگر کہیں میری معلومات غلط ہوں یا کسی کی دلی آذاری ہوئی ہو تو پیشگی معزرت۔میں نے صدق دل سے حقائق بیان کرنے کی کوشش کی ہے ۔شکریہ
تحریر:
ڈاکٹر طارق مسعود خان نیازی شہبازخیل

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں