بہت اچھا سوال ہےمگر اس میں پہلی غلط فہمی یہ کہ پنجاب میں صرف ہی پشتو بولنا نہیں بھولے بلکہ بلچ، لوہانی، ساغری خٹک، خاکوانی، علی زئی (ملتان والے) ،سدو زئی اور کشمیر کے سدھن قبائل بھی پشتو بھول گئے اسی طرح خیبر پختون خواہ میں آباد ترین, جدون اور تنولی قبائل بھی پشتو کو فراموش کر چکے ہیں..
جب یہ سوال کسی سے بھی پوچھا جائے تو وہ اپنے موجودہ دور کو دیکھتے ہوئے فوراً ایک مضحکہ خیز جواب دیتا ہے کہ نیازیوں نے غیر اقوام میں شادیاں کیں..
مگر اس کا جواب اتنا سادہ نہیں جتنا جھٹ سے دے دیا جاتا ہے. اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کیلئے صدیوں پیچھے مڑ کے دیکھنا پڑے گا بلکہ اس زمانے کو محسوس بھی کرنا پڑے گا.. کیونکہ زبان کی تبدیل ایک پیچیدہ عمل ہے. میانوالی کے نیازیوں نے یکدم پشتو بولنا نہیں چھوڑی بلکہ یہ صدیوں پر محیط پراسیس ہے جس کی مختصر تفصیل یہاں ملاحظہ فرمائیں. اتفاق کرنا یا نہ کرنا آپ کا ذاتی فعل ہے. مدلل اختلاف نئی راہیں کھولتا ہے اسے ہم خوش آمدید کہیں گے.. چلیں شروعات کرتے ہیں.
1.نیازی قبائل کی ہندوستان آمد بہلول لودھی سے پہلے شروع ہوئی مگر باقاعدہ آمد بہلول لودھی کے زمانے میں ہوئی جبکہ بہلول لودھی کو گزرے سات سو سال بیت چکے..
2.نیازی قبائل کا سب سے قدیم پڑاؤ موجودہ عیسٰی خیل سے درہ تنگ اور قبول خیل تک کا علاقہ ہے. یہ عیسٰی خیل گاؤں شیر شاہ سوری کے جنرل عیسٰی خان نیازی سے منسوب کرنا درست نہیں بلکہ یہ علاقہ جس عیسٰی خیل نیازی قبیلہ سے متعلق ہے وہ مسند عالی عیسیٰ خان نیازی کی پیدائش سے بھی قدیم تھا۔ کیونکہ عیسٰی خیل نیازیوں کا نام بابر نے ابراہیم لودھی پر حملہ کرتے ہوئے یہاں سے گزرتے ہوئے اپنی تزک بابری میں کیا جو کہ جنرل عیسٰی خان نیازی کے بچپن کا زمانہ تھا.
3.اس کے بعد شیر شاہ سوری کے زمانے میں یہ نیازی گروہ مقتدر طبقہ میں داخل ہوا. شیر شاہ سوری اور بہلول لودھی کے درمیان قریب سو سال کا عرصہ بیت گیا.. (موجودہ دور کی اردو اور سو سال پہلے کی اردو میں کافی فرق آچکا ہے حالانکہ کہ سو سال پہلے کا نشر و اشاعت بہت مضبوط تھا جبکہ بہلول لودھی اور شیر شاہ سوری کے دور میں نشر و اشاعت انتہائی کمزور..
3.نیازی جوکہ بہلول اور شیر شاہ کے زمانے میں مشرقی پنجاب اور دہلی آگرہ آباد ہوئے وہ سلیم شاہ سوری کے غیض اور مغلوں کے عتاب سے بچنے کیلئے مشرقی پنجاب اور دہلی آگرہ سے نکل کر واپس اپنی قدیم علاقہ میانوالی میں آچکے تھے.
4.یہاں یہ بات بھی نہایت ضروری ہے کہ تمام نیازی قبائل ان ادوار میں دریائے سندھ کے پار نہیں آئے بلکہ سرہنگ سیکشن کا ایک حصہ موجودہ لکی مروت میں آباد رہا اور ایک حصہ افغانستان میں جبکہ کچھ سرہنگ قبائل اور بالخصوص جمال بن نیازی اور باہی بن نیازی کی اولاد ہندوستان کے طول و عرض میں پہنچی جس میں سے اکثریت تو شیر شاہ سوری کے بعد اپنے وطن عیسٰی خیل کو لوٹی مگر کچھ وہیں آباد رہی جن میں سے شاہ جہاں کے جنگی کمانڈر محمد خان نیازی اور احمد خان نیازی گزرے ہیں. جن کی اولادوں کو مہاراشٹرا ہندوستان میں جاگیر ملی اسی طرح بقیہ پنجاب میں نیازی آباد رہے جو کہ تقسیمِ ہند کے وقت پاکستان ہجرت کر آئے. مگر قلیل تعداد آج بھی ہندوستان میں آباد ہے.ہجرت کرکے آنے والے نیازی خالص پنجابی زبان بولتے ہیں.
5.برصغیر میں مسلمانوں کی زبان روز اول سے فارسی رہی یوں سمجھ لیں خطہ بنگال سے لیکر بدخشاں تک دہلی سے ٹھٹھہ بخارا و سمر قند کابل و غزنی مشہد و شیراز ہر جگہ فارسی کا چرچا تھا.. پشتو زبان کا نہ تو کوئی رسم الخط تھا اور نہ ہی افغان قوم خواندہ تھی بس جنگ و جدل اور اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی جہد میں مگن تھی.. اس وقت کے لوگ حافظہ پر یقین رکھتے تھے معلومات سینہ بہ سینہ چلتی..
6.جیسا کہ بتایا ہے کہ اس دور میں نہ تو پشتو کی کوئی حروف تہجی تھی نہ افغان قوم لکھنا پڑھنا جانتی تھی. اسی وجہ سے پشتو کی ہیئت بالکل سادہ اور بنیادی تھی.
7.برصغیر میں رہنے کی وجہ سے انھیں مقامی زبان اور فارسی زبان سیکھنا پڑی. جبکہ مشہور ماہر لسانیات مونیکا شمڈ ایسیکس یونیورسٹی برطانیہ فرماتی ہیں کہ جیسے ہی آپ مادری زبان کے علاوہ کوئی اور زبان سیکھتے ہیں تو آپ کے دماغ میں زبانوں کا مقابلہ شروع ہوجاتا ہے. فارسی زبان انتہائی مضبوط زبان تھی جس میں لکھنا پڑھنا آج سے دوہزار سال پہلے کا چل رہا ہے جبکہ پشتو زبان میں پہلی کتاب آج سے چار سو سال پہلے بایزید انصاری نے لکھی. جبکہ پشتو رسم الخط ساٹھ کی دہائی میں تکمیل کو پہنچا.
8.اب جب پنجاب و دہلی سے لوٹنے والے نیازی اپنے ساتھ علاقائی زبانوں کا اثر لے کر لوٹے اور شائد وہ علاقائی زبان اور فارسی بولنا جانتے تھے پشتو معدوم تھی..ان سے باقی ماندہ نیازیوں نے رشتہ استوار کئے اور وہ لوگ علمی طور پر لوکل آباد نیازیوں پر ہاوی تھے.
9.بلکل اسی وقت سرہنگ کے لکی مروت سکیشن مروتوں سے جنگ ہار گئے اور وہاں سے ہجرت پر مجبور ہوئے. وہ جنگ کوئی ایک گھنٹہ یا ایک دن کی نہیں بلکہ سالوں پر محیط تھیں. یوں جب سرہنگ سیکشن کے نیازی اپنے سے پہلے والے نیازی بھائیوں کے پاس پہنچے تو ان کا پڑاؤ موجودہ سلطان خیل گاؤں کا علاقہ تھا جسے آج بھی سرہنگ کہا جاتا ہے. یہ زمانہ سترہویں صدی کا ہوگا. یوں نیازی قبائل نے اپنے قریب آباد چچازاد قبیلہ مروت سے قطع تعلق کرلیا اور یوں بقیہ افغان قبائل سے نیازی منقطع ہوگئے..
10.احمد شاہ ابدالی کے آنے سے پہلے موجودہ میانوالی گھکھڑ، جاٹ اور اعوان اقوام کے پاس تھا.. مگر جب اٹھارہویں صدی کے آواخر میں احمد شاہ ابدالی آیا تو نیازیوں نے اپنے افغان بھائیوں کا ساتھ دیا یوں مروتوں سے بھی صلح ہوئی اور پانی پت کی جنگ کی واپسی پر احمد شاہ ابدالی نے اس علاقہ سے غیر اقوام کو بیدخل کیا اور نیازی قبائل میں میانوالی کو تقسیم کیا یوں ایک بار پھر نیازی قبائل نے دریائے سندھ کو پار کیا اسی وقت احمد شاہ ابدالی نے خان زمان خان عیسٰی خیل کو نیازی قبائل کی سرداری بخشی اور بنوں تک لگان وصولی کا اختیار دیا..
11.اب نیازیوں نے میانوالی میں باجگزری شروع کی اور آپس میں جنگ و جدل میں مشغول ہوگئے وتہ خیل بلو خیل کے ساتھ تاجہ خیل پائی خیل کے ساتھ موسیٰ خیل سلطان خیل کے ساتھ.. یہ وہ دور تھا جب میانوالی کے نیازی آپس کی جنگوں میں دنیا کی فکر سے آزاد ہوکر لڑ رہے تھے..
12.احمد شاہ ابدالی کے دربار میں فارسی زبان کا استعمال ہوتا تھا نہ کہ پشتو کا اور مزے کی بات ہے کوئی ایک مقطوطہ پشتو زبان میں نہیں مل سکا. کیونکہ فارسی افغانستان کی سرکاری زبان تھی. احمد شاہ ابدالی کے بعد اس علاقہ میں طوائف الملوکی تھی کہ پچاس سال بعد سکھ آن ٹپکے. اور میانوالی پنجاب کے زیر اثر آگیا… پنجاب کے نیازیوں نے ملتان کے سدوزئی قبیلہ کا ساتھ دیا جو کہ اس وقت ملتان صوبہ کا حکمران تھا. میرے خیال میں یہی وہ تاریخی مقام تھا جہاں نیازیوں نے ٹوٹی پھوٹی پشتو،ہندکو، پنجابی ،فارسی کے ملغوبہ زبان پر سرائیکی کی تہہ چڑھائی..
13.بعدازں رہی سہی کسر انگریز نے پوری جس نے میانوالی کو ضلع بنا کر پنجاب سے ملا دیا اور ملتان ڈویژن بنا دیا.
پس میانوالی کے نیازیوں کا پشتو سے منحرف ہوجانا کی وجہ انکی پنجاب میں آبادکاری، فارسی کا مضبوط اثر، پشتو زبان کا ناخواندہ ہونا اور بقیہ افغانوں کے ساتھ قطع تعلق ہوجانا اور اس وقت میڈیا کا نہ ہونا ۔کیونکہ آج کا پشتون کسی بھی علاقہ میں آباد ہو اسے پشتو چینل، پشتو گانے، پشتو اخبارات، پشتو کتب اور اپنے خاندان سے وہ آڈیو ویڈیو سے جڑا ہے جبکہ آج سے سو سال پہلے یہ سہولیات کسی کو میسر نہیں تھیں. گلی میں کھیلنے والے بچے غیر زبان، دوکاندار غیر زبان مدرسہ کا استاد غیر زبان گھر میں کام کرنے والی خادم غیر زبان یہی حال والدین کا جن کو اکثر وہ غیر زبان میں بات کرتے دیکھتا تھا.. اس وقت لسانی عصبیت عروج پر نہ تھی بلکہ نسلی عصبیت کا زمانہ تھا آجکل پنجابیوں کی یہ حالت ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود وہ پنجابی بھولتے جارہے ہیں اردو کی طرف گامزن ہیں.. کیونکہ پنجابی زبان اردو کو زیر نہیں کرسکی اور پنجابی بولنے والا احساس کمتری کا شکار ہے تبھی بچوں کو اردو اور انگریزی سکھا رہا ہے..
زبان کی تبدیلی کوئی بری بات نہیں افریقی جب یورپ گئے اپنی زبان بھول گئے، بلوچ جب سندھ گئے سندھی اختیار کرلی جب راجپوت پنجاب آئے پنجابی بولنا شروع کردی سکھ جاٹ جب خیبر پشتونخوا گئے پشتو بولنا شروع کردی.. اسی طرح لا تعداد مثالیں موجود ہیں. واللہ اعلم بالصواب.
نیازی پٹھان قبیلہ
پشتو پٹھانوں کی زبان ضرور ھے۔ لیکن ھر پشتون پٹھان نہیں ھوتا۔ پٹھان وہ بندہ ھوتا ھے جو بنی افغان کی نسل سے ھے۔ لاکھوں پشتون ایسے ھیں جو نسل سے پٹھان اور افغان نہیں ھیں۔جن لوگوں نے پشتون علاقوں میں رہ کر پشتو سیکھ لی وہ پٹھان کیسے بن سکتے ھیں۔ ھاں وہ پشتو بولنے کی وجہ سے پشتون ضرور ھیں لیکن پٹھان یا افغان نہیں۔مردان پشاور نوشہرہ سوات بنوں اور ڈیرہاسماعیل خان میں پشتو بولنے والے اعوان گجر راجپوت پاولی سکھ ھندو عیساٸی نسلاً پنجابی ھیں۔اس طرح بلوچ اور کشمیری بھی ھیں۔
اسطرح پورے پاکستان اور انڈیا میں 3 کروڑ تک پشتو نہ بولنے والے درجہ ذیل پٹھان قبیلے موجود ھیں۔
نیازی۔بیٹنی۔ غور یا غورنی۔ خیسور۔سوری۔ ترین۔لودھی۔ ککےزٸ۔ سدو زٸ۔ کاکڑ۔ لوھانی یا مروت۔ درانی۔ گلزٸ۔ گڈی خیل۔ بلچ یا بالاچ۔ سنبل۔ باھی۔یوسفزٸ۔کاکا خیل۔ناغڑ۔برکی۔شیرانی۔جدون۔مغل۔بابر۔