ماہر لسانیات کے مطابق کے مطابق انسان نے قریباً ڈیرھ لاکھ سال قبل ایک زبان بولنا سیکھی.
لیکن یہ ایک بکھری ہوئی بے ربط بے ہنگم زبان تھی.
لیکن دس ہزار سال قبل زبان میں پختگی آنا شروع ہوئی جس کے سبب انسان مختلف زبانوں میں تفریق کو سمجھنے لگا. پھر ایک وقت ایسا آیا جب انسان بولنے والی زبان کو لکھنے کا سوچنے لگا. ابھی تک کی معلوم تاریخ کے مطابق کم بیش چھ ہزار سال قبل لکھنا شروع کیا. جس کا ریکارڈ عراق کے شہر دریائے دجلہ کے کنارے سے قدیم خطہ میسوپوٹیما میں سے سومیری زبان کا ملا ہے.
لکھنے پڑھنے سے زبان میں مزید پختگی آنے لگی جس کے سبب اور زبانوں میں تفریق زیادہ واضح ہونے لگی.
زبانوں میں تغير اور جدت کا یہ سلسلہ سولہویں صدی عیسوی تک بھرپور رہا. اس کے بعد مستحکم وجود رکھنے والی اور تغیرات کو قبول کرنے والی اور زیادہ بولنے والوں کی تعداد رکھنے والی زبانوں نے مزید طاقت پکڑنا شروع کردی جبکہ باقی کمزور زبانیں اپنا وجود کھونے لگیں. گزشتہ سو سال میں بہت سی ایسی زبانیں معدوم ہوچکی ہیں..
ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں سات ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں. جبکہ محققین کا خیال ہے کہ اگلے سو سالوں میں قریباً پندرہ سو زبانیں معدوم ہوجائیں گی.
جبکہ ایک اور تخمینہ کے مطابق مستقبل میں سات ہزار میں سے نوے فیصد زبانوں کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے.
جہاں تک بات کی جائے میانوالی میں آباد دو بڑی اقوام یعنی پٹھان اور اعوانوں کا تو. پٹھانوں کی اصل زبان پشتو ہے. جو ماضی قریب تک بولی جاتی تھی جبکہ اعوان کے دعوے کے مطابق وہ عربی النسل ہیں. اس لحاظ سے انکی اصل زبان عربی ہے.
بہرحال اعوان چونکہ عربستان سے صدیوں کا زمانہ طے کرتے ہوئے براستہ فارس و افغانستان موجود خطہ تک پہنچے جس کے سبب انکی زبان تبدیل ہوتی رہی. عربی سے فارسی پھر فارسی سے پشتو تک. اسی وجہ سے میانوالی کے اعوانوں کی پرانی زبان زیادہ تر فارسی و پشتو تھی. اسی وجہ سے خیبرپښتونخوا میں آج بھی اعوانوں کی خطیر تعداد پشتو بولتی ہے.
پس اسی وجہ سے میانوالی کے نیازیوں اور اعوانوں کو پہلی فرصت میں سب سے پہلے تو پشتو زبان کی بحالی کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں.
جہاں تک بات ہے سرائیکی و پنجابی کی تو یاد رہے کہ آج سے پانچ سو سال قبل لکھی گئی کتاب آئین اکبری جو کہ ایک باقاعدہ گزٹیر کا مقام رکھتی ہے. اس کے مطابق موجودہ خطہ پنجاب اس زمانے میں دو صوبوں میں منقسم تھا. ایک صوبہ لاہور تو دوسرا صوبہ ملتان.
صوبہ لاہور کی زبان کو لاہوری لکھا گیا جبکہ صوبہ ملتان کی زبان کو ملتانی لکھا گیا.
پس سولہویں صدی تک پنجابی یا سرائیکی نامی زبانوں کا کوئی وجود نہیں تھی.
مغلوں کے زوال کے بعد جب سکھوں نے زور پکڑا تو انھوں نے پانچ دریاؤں کی مناسبت سے اس علاقے کو جس کو پنجاب کہا جاتا تھا. جس کی حد مشرق میں سرہند کے مقام سے شروع ہوکر اٹک تک آتی تھی. اس درمیان بولی والی تمام زبانوں کو پنجابی کا نام دیا.
جبکہ پشتونوں نے ہندوستان کی مناسبت سے اسکو کو ہندی یا ہندی کہا..
وقت گزتا گیا زبانوں میں تغیرات کے سبب لاہوری اور ملتانی زبانوں کا فرق مزید بڑھتا گیا. کیونکہ ملتانی زبان پر سندھ کے ساتھ تجارتی تعلقات تھے جبکہ جنوب سے آنے والے بلوچ آباد کاروں نے بھی اس خلا کو مزید بڑھا دیا.
تبھی انگریزوں کے زمانے میں لاہور سے متصل علاقوں کے تمام لہجوں کو پنجابی جبکہ ملتان سے متصل علاقوں کے لہجوں کو لہندا یا جاٹکی کا نام دیا جبکہ پشاور سے متصل علاقوں کی زبان کو پشتونوں کے دیئے ہوئے نام ہندکو کہا.
چونکہ میانوالی ان تینوں علاقوں کے درمیان میں موجود تھا. تبھی اس کی کوئی واضح صورت نہیں تھی. لیکن انگریز ماہرین نے میانوالی کی زبان کو پنجابی یا جاٹکی کے بجائے ہندکو قرار دیا.
تبھی گزٹیر آف بنوں اور گزٹیر آف میانوالی کے مطابق میانوالی کی زبان ہندکو کہلانے لگی.
حالانکہ میانوالی، لکی و بنوں میں غیر پشتو زبان بولنے والوں کی زبان بلکل جداگانہ شناخت رکھتی ہے. جس پر آگے چل کر بات کریں گے.
انگریزوں کے زمانے میں ہی ملتان کی لہندا یا جاٹکی زبان کو سرائیکی کہلوانے کی تحریک شروع ہوئی. دراصل سرائیکی ملتانی زبان کے زیر اثر آنے والی شمالی سندھی کا نام تھا. جسکو یہ نام بلوچوں نے دیا سرا سے مراد شمال ہے. یعنی شمالی زبان جو کہ سرا سے سرائیکی کہلایا.
رفتہ رفتہ یہ تحریک اپنا اثر بنانے لگی. لیکن متحدہ ہندوستان میں اس کو کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی.
لیکن قیام پاکستان بلخصوص ون یونٹ کے بعد جب ریاست بہاولپور کو ختم کردیا گیا تو یہ تحریک شدت اختیار کر گئی.
دیگر پشتون و بلوچ و سندھی قوم پرستوں نے پنجاب کی طاقت کمزور کرنے کیلئے اس کو بھرپور سپورٹ کیا.
لیکن اس کے باوجود میانوالی و بھکر میں اس نام کو کوئی اہمیت نہیں ملی. چونکہ درحقیقت یہاں کی زبان ادائیگی و ذخیرہ الفاظ میں کافی مختلف ہے. لیکن جب اٹھانوے میں مردم شماری کی گئی تو میانوالی کی زبان ہندکو کے بجائے پنجابی درج کی گئی لیکن میانوالی کے عوام چونکہ ان معاملات میں غیر حساس واقع ہوئے ہیں انھوں نے اس کو اہمیت نہیں دی.
لیکن جب اکیسویں صدی کا آغاز ہوا اور سوشل میڈیا کا دور آیا تو ہمارے کم فہم سادہ لوح شعراء نے اپنے کلام کو سرائیکی کہنا شروع کیا جبکہ گلوکار حضرات بھی خود کو سرائیکی گلوکار سمجھنے لگے. شاید انکی اس بات کے پیچھے مالی مجبوریاں وابستہ ہوں.
جیسے بیسویں صدی کے میانوالی کے گلوکاروں کی تھیں جو اپنی زبان کو ہندکو کہتے تھے.
بہرحال اس کے متاثرکن پراپیگنڈا کے باوجود ابھی میانوالی کی عوام سمجھتی ہے کہ انکی زبان سرائیکی یا ہندکو سے مختلف ہے.
میانوالی کے معتبر اہل علم و دانش جیسے کہ حضرات بھی اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ میانوالی کی زبان جداگانہ شناخت رکھتی ہے. جس کا اظہار وہ وقتاً فوقتاً اپنی تحریروں میں کرتے رہتے ہیں. لیکن جیسا کہ قبل بتایا میانوالی کا خطہ زبان کو لیکر اتنا حساس واقع نہیں ہوا تبھی میانوالی کے دانشور طبقہ نے میانوالی کی زبان کی جداگانہ شناخت کی پذیرائی کیلئے خاطر خواہ کچھ نہیں کیا.. پس موجودہ حالات میں اگر انھوں نے آگے بڑھ اپنی زبان کی ترویج و تحفظ کیلئے اقدامات نہ کئے تو میانوالی کی زبان اپنا جداگانہ تشخص کھو دے..
پس ہم اس بات کی ابتداء کرتے ہوئے عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ اپنی مادری زبان کو قطعی طور پر سرائیکی یا ہندکو نہ لکھیں بلکہ میانوالی دی بولی یا اس سے بھی بہتر نام سرہنگی لکھیے تاکہ اپنی شناخت کو محفوظ بنایا جائے. شکریہ..
بھائی جان اپ کی بات ٹھیک ہے ہماری زبان سرہنگی ہے لیکن دراصل ہماری زبان پشتو ہے مادری زبان ہماری پشتو ہے اس لیے اس پر تحریک چلائی جانی چاہیے اس پر تبصرہ بھی کیے جانا چاہیے کہ ہم اپنی زبان کو ہم بھول گئے ہیں اور اپنی زبان کو واپس پھر سے سیکھنا چاہیے اور اپنی زبان کو واپس لانا چاہیے