لودی سلطنت کے نیازی امراء۔۔۔


لودی افغانوں نے بہلول لودی کی قیادت میں پندرہویں صدی کے وسط میں تخت دہلی پر قبضہ کرکے اپنی سلطنت کی بنیاد رکھی..

لودی سلطنت ایک فرضی نقشہ


جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ نیازی بھی دراصل لودی افغانوں کی ہی ایک شاخ ہیں. مگر معاصر تاریخی کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ بہلول لودی کے باپ ملک کلا خان لودی کو سنبل نیازیوں نے ایک قبائلی تنازعہ میں قتل کردیا تھا. جبکہ واقعات مشتاقی کے مطابق بہلول لودی نے سکندر لودی کو جو وصیت کی تھی جس میں سوری افغانوں کے ساتھ ساتھ نیازی افغانوں کو بھی حکومت میں اعلیٰ مراتب نہ دینے کی نصحیت کی تھی. یقیناً اس کے پیچھے اس کو نیازیوں کے ہاتھوں پہنچنے والا صدمہ ہوسکتا ہے. جسکی وجہ سے وہ پیدائش سے قبل ہی والد کے سایہ سے محروم ہوا تھا..
بہرحال یہ کہنا کہ لودی سلطنت کے زمانے میں کسی بھی نیازی کو اعلیٰ حکومتی عہدے نہیں ملے یا پھر بہلول لودی کی وصیت تمام نیازیوں کیلئے تھی. درحقیقت یہ بات درست نہیں ہے، یہ نصیحت سنبل نیازیوں کیلئے تھی جو ہندوستان میں اُس وقت نامور تھے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ پشتونوں میں بڑے تمام قبائل کے نام تقریباً زئی یا خیل سے خالی ہیں جیسا کہ ترین، منڈر، ابدلی، غلجی، کاکڑ، شیرانی، دوتانی، مروت وغیرہ..
اسی طرح ہم جانتے ہیں کہ
کچھ پشتون قبائل کے نام خان کی نسبت سے خانیئے بھی لکھا جاتا ہے مثال کے طور پر عمر خانیئے،دُر خانیئے،حکیم خانیئے، عیسٰی خانیئے وغیرہ وغیرہ
بلکل اسی طرح قدیم کتابوں میں نیازیوں کی معروف شاخ سرہنگ جس کی زیادہ آبادی آجکل میانوالی میں آباد ہےاور اسکو آجکل سرہنگ خیل لکھا جاتا ہے. اس کو ماضی قریب تک خالی سرہنگ ہی لکھا گیا ہے ملاحظہ ہو مخزن افغانی و حیات افغانی.مزید یہ کہ لودی قبیلے تو کیا پورے پشتون قبائل میں سرہنگ صرف نیازیوں ہی کی ایک شاخ ہے. اس لحاظ سے سرہنگ لودی دراصل نیازی ہی ہوئے.
پندرھویں اور سولہویں صدی میں ہندوستان کی طرف دو نیازی قبائل مشہور بھی تھے اور آباد بھی تھے ایک عیسٰی خیل اور دوسرا سنبل..
عیسٰی خیل کا تذکرہ ظہیر الدین بابر کی خودنوشت میں ملتا ہے جبکہ سنبل کا ذکر افسانہ شاہان میں بہلول لودی کے باپ کے قتل کے واقعہ میں ملتا ہے اسکے علاوہ مرزا بیات کی کتاب ہمایوں و اکبر میں ایک چھوٹی سی سنبل ریاست کے سلسلے میں ملتا ہے جبکہ ہیبت خان نیازی کے ہاتھوں سنبلوں کے استحصال کے واقع میں بھی ملتا ہے جو کہ تقریباً ہر تاریخی کتاب کا حصہ ہے بشمول طبقات اکبری، فرشتہ، داؤدی، شیر شاہی وغیرہ..
اُس زمانے میں سرہنگ نیازی ابھی ہندوستان میں معروف نہیں ہوئے تھے یہ ٹانک اور گومل کے درہ میں زندگی گزار رہے تھے..
اُسی زمانے سرہنگ قبیلے کے کچھ افراد لودی سلطنت میں وارد ہوئے لیکن یہ دیکھتے ہوئے کہ بہلول لودی نیازیوں سے بدظن ہے انھوں نے نیازی شناخت کی بجائے اپنی ذیلی شاخ سرہنگ سے پہچان کرائی اور خود کو سرہنگ خانی کہلایا جنکو ہندوستانی مؤرخین نے سارنگ خانی بھی لکھا..
یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے موجودہ زمانے میں بھی امیر عبداللہ خان روکھڑی ،گل حمید خان روکھڑی جوکہ دراصل سمند خیل نیازی ہیں انھوں نے نیازی شناخت کی بجائے اپنے گاؤں روکھڑی کو ترجیح دی.
اسی طرح اکرام اللہ خان پائی خیل بھی اپنی ذیلی شاخ پائی خیل کو نیازی کی جگہ ترجیح دیتے تھے..
اسی طرح ضلع قصور کے خویشگی پٹھان خود کو خویشگی کی بجائے قصوری کہلواتے ہیں، ابدالی احمد شاہ ابدالی بابا کے لقب دُرِ دوراں دورانی کی نسبت سے دورانی کہلاتے ہیں.
پس ان سرہنگ خانی امیروں نے کافی رتبے حاصل کئے اور یہ خود کو لودی بھی کہلواتے تھے. یاد رہے کہ نیازی بھی دراصل لودی ہی کی ایک شاخ ہیں..
پس وہ اپنی جگہ پر ہر لحاظ سے درست تھے مگر بعد کے لوگوں نے ان کی اس مجبوری کو نہ سمجھا اور پھر کلکارنجن جیسے ہندو مصنف نے جمال خان کو ترک غلام لکھتے ہوئے یہ دلیل دی کہ وہ تغلق دور کے آخر میں گزرنے والے ایک باغی امیر اور ملتان کے حاکم سارنگ خان کا غلام تھا. حالانکہ اُس سارنگ خان اور اس بہلول لودی کے زمانے کے جمال خان سارنگ خانی میں قریب پون صدی کا فاصلہ ہے. جب کہ دیگر سرہنگ خانی امراء بارے اسکا کیا خیال تھا علم نہیں۔مزید یہ کہ ایک افغانی مؤرخ عبدالشکور شاد نے تو اُس سارنگ خان کو بھی لودی افغان لکھا ہے جبکہ دوسری طرف پنجاب کی نول برادری اس کا تعلق نول راجپوتوں سے ملاتی ہے.. فی الحال ہمارا موضوع تغلق دور کا سارنگ خان نہیں ہے کیونکہ سارنگ خان نام کی ایک شخصیت گکھڑ قبیلے میں بھی گزری ہے جسکو شیر شاہ سوری کے زمانے میں جب گکھڑوں نے بغاوت کی تھی بمعہ اسکے بیٹوں کو قلعہ روہتاس میں قتل کردیا گیا تھا..
اب ہم اتنے طویل دلائل و براہین کے سلسلے کو اس نتیجے کے ساتھ ختم کرتے ہیں کہ لودی سلطنت میں جتنے بھی سارنگ خانی لودی امراء گزرے ہیں وہ دراصل سرہنگ نیازی شاخ سے تھے. تبھی تو بعد میں سرہنگ نیازی ہندوستان میں وارد ہوئے اور میانوالی کو اپنا مستقرر بنایا..

1.جمال خان نیازی سرہنگ خانی؛


سرہنگ خانی امراء میں سب سے پہلے جمال خان سرہنگ خانی کا ذکر آتا ہے جوکہ بہلول لودی کے زمانے میں سرہند کا حاکم تھا۔ اسی جمال خان نیازی سرہنگ خانی کے پاس شیر شاہ سوری کا دادا ابراہیم سوری ملازمت کیلئے آیا تھا. اور جمال خان نیازی نے اسکو نارونول کے علاقے میں جاگیر عطاء کی وہیں آج ابراہیم سوری کا مقبرہ بھی ہے جسکو ایک کونڈی نیازی سردار ابوبکر خان کونڈی نیازی نے شیر شاہ سوری کے حکم سے تعمیر کروایا تھا.

مقبرہ جمال خان نیازی سرہنگی خانی،بمقام جونپور،انڈیا


جب ابراہیم سوری فوت ہوا اس وقت جمال خان نیازی سرہنگ خانی جونپور کا حاکم تھا یہ سکندر لودی کا زمانہ تھا اس وقت جمال خان نیازی سرہنگ خانی نے شیر شاہ سوری کے والد حسن سوری کو اپنے پاس بلا کر سہسرام میں جاگیر عطاء کی اور دوہزاری کا منصب بھی دیا..
یہی سہسرام شیر شاہ سوری کا وطن بنا کیونکہ یہیں سے شیر شاہ سوری نے اٹھ کر تاج ہند پہننے کیلئے کوششیں شروع کیں.
جب بہلول لودی فوت ہوا اس وقت لودی امراء میں تخت کی جانشینی کے معاملات پر اختلاف ہوا تو سکندر لودی نے اسی جمال خان نیازی سرہنگ خانی پر اعتماد کرتے ہوئے حکم دیا تھا کہ تم دہلی کی حفاظت کرو میں اپنے والد بہلول لودی کی آخری رسومات پوری کرکے آتا ہوں..میں انٹرنیٹ پر دیکھ رہا تھا ایک جگہ جمال خان کو کسی نے بلوچ لکھا ہوا تھا۔ جو کہ کسی طور پر درست نہیں کیونکہ کئی سو سال پرانی کتابوں میں انکو واضح طور پر لودی افغان درج کیا گیا ہے۔

چور گنبد تعمیر کنندہ جمال خان نیازی سرہنگ خانی


2.احمد خان نیازی سرہنگ خانی؛


یہ جمال خان نیازی سرہنگ خانی کا بیٹا تھا اور سکندر لودی کے زمانے کا امیر تھا. یہ بھی والد کی وفات کے بعد جونپور کا حاکم تعینات ہوا بیس ہزار کا لشکر رکھتا تھا. انتہائی نیک طینت شخص تھا نماز روزہ کا بہت پابند تھا.

3.لاد خان نیازی سرہنگ خانی؛


آپ بھی جمال خان سرہنگ خانی کے بیٹے تھے آپکا خطاب خان اعظم تھا. آپ بہت سخی تھے. آپکی سخاوت کی انتہا یہ تھی کہ آپ غرباء مساکین میں ہر روز کپڑے اور کھانے پینے کی اشیاء تقسیم کرتے تھے. اس کے ساتھ ساتھ آپکی حرم میں لاتعداد خواتین ہوتی تھیں اس لحاظ سے آپکے عیاش طبع بھی تھے. آپکی مادری زبان کیونکہ پشتو تھی تبھی آپ اڑھائی اور ڈیرھ جیسے الفاظ کی ادائیگی نہیں کرسکتے تھے بلکہ یو نیم یا دو نیم کہتے تھے.

چُنار قلعہ،اُتر پردیش، انڈیا


آپ پردے کے سخت پابند تھے جب عازم سفر ہوتے مستورات کو صندوقوں میں بند کرکے تالے لگوا کر سفر کرتے..
کیونکہ لاد خان نیازی سرہنگ خانی عورتوں کا رسیا تھا تبھی اس کی ایک لاڈلی بیوی اور اس کے ایک بیٹے میں کسی بات پر جھگڑا ہو گیا. لاد خان اپنے بیٹے کو جان سے مارنے کے درپے ہوگیا جس کے نتیجے میں بیٹے نے باپ کو قتل کردیا.. لاد خان نیازی سرہنگ خانی کی اسی بیوہ بیوی سے شیر شاہ سوری نے بعدازاں مالی معاملات بہتر کرنے کیلئے اور چنار کا قلعہ حاصل کرنے کیلئے شادی کی..

4.نصیب خان نیازی سرہنگ خانی؛


آپ جمال خان نیازی سرہنگ خانی کے بعد جونپور کے امیر ہوئے مگر اس کے علاوہ آپکا تاریخ میں کہیں کوئی ذکر نہیں..

5.فیروز خان نیازی سرہنگ خانی؛


آپ کا جمال خان نیازی سرہنگ خانی سے کوئی قریبی رشتہ تو ثابت نہیں اغلب خیال ہے کہ آپ انکے قرابت دار تھے. آپ ابراہیم لودی کے زمانے کے امیر تھے آپ ولایت ناگورکے حاکم تھے. جب ابراہیم لودی کی نالائقیوں کے سبب لودی امراء باغی ہوئے تو صوبہ بہار میں بہار خان نوہانی نے علم بغاوت بلند کیا تو اسکے خلاف لشکر کشی کیلئے ابراہیم لودھی نے فیروز خان نیازی سرہنگ خانی کی قیادت میں لشکر بھیجا. مگر مخالف لشکر کافی طاقتور تھا اور لوگ بھی ابراہیم لودی سے نالاں تھے تبھی فیروز خان نیازی سرہنگ خانی کو شکست ہوئی. اس کے کچھ عرصہ بعد فیروز خان نیازی سرہنگ خانی بھی وفات پا گئے..

6.تاج خان نیازی سرہنگ خانی؛


آپ ابراہیم لودی کے زمانے میں قلعہ چنار کے حاکم تھے. آپ کو اعظم ہمایوں سروانی کے بیٹے اسلام سروانی کی بغاوت کو کچلنے بھیجا گیا تھا. جو کہ بعد میں تصفیہ کے بعد ختم ہوئی. اس کے علاوہ آپکا کوئی ذکر نہیں ملتا۔

7۔تاتار خان نیازی سرہنگ خانی؛

آپ ابراہیم لودھی کے زمانے میں قلعہ گوالیار کے حاکم تھے۔

8۔دلاور خان نیازی سرہنگ خانی؛

آپ احمد خان سرہنگ خانی کے بیٹے جبکہ جمال خان سرہنگ خانی کے پوتے تھے۔آپ بھی ابراہیم لودی کے امراء میں شامل تھے۔

مآخذ و حوالہ جات:

واقعات مشتاقی،طبقات اکبری،مخزن افغانی،سلاطین افاغنہ،افسانہ شاہان،تاریخ داؤدی،تاریخ فرشتہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

لودی سلطنت کے نیازی امراء۔۔۔” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں