کہیں پڑھا تھا میانوالی کے مضافات میں وتہ خیل قبیلے کی ایک ذیلی شاخ ایسی بھی ہے جسے گیدڑ خیل کہا جاتا ہے۔ خیل کا معنی دوست ہمدرد یعنی گیدڑ کا ہمدرد قبیلہ۔ یہ نام کیوں پڑا، بڑا دلچسپ واقعہ ہے، سنیے۔
کہتے ہیں ایک پختون سردار اپنے دوستوں کے ہمراہ شکار پر نکلا۔ راستے میں ایک گیدڑ نظر آیا آیا۔ سردار نے نشانہ باندھ کر اس پر تیر چلایا۔ زیادہ فاصلہ ہونے کی بناء تیر گیدڑ کو محض چھو کر ہی گزر کیا۔ گیدڑ زخمی ہوا اور ایک جانب دوڑ پڑا۔ سردار نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گھوڑا اس کے پیچھے ڈال دیا۔ گیدڑ کو اپنی جان عزیز جسے بچانے کے لیے بہت تیز بھاگا اور بہت دور نکل گیا۔ آخر ویرانے میں نظر آنے والی ایک جھونپڑی میں داخل ہوگیا۔ وہ جھونپڑی ایک غریب پٹھان کی تھی جس کا تعلق ایک کمزور قبیلے سے تھا۔ اس پٹھان کے سات جوان بیٹے تھے۔ اس پٹھان نے دیکھا کہ ایک زخمی گیدڑ پناہ لینے کے لیے اس کی جھونپڑی میں داخل ہوا ہے۔ اس نے اس کے زخم پر پٹی باندھی اور کچھ کھانے پینے کے لیے بھی اس کے سامنے رکھ دیا۔ اتنے میں اپنے شکار کا پیچھا کرتا سردار اور اس کے ساتھی بھی وہاں پہنچ گئے۔
ذرا رکیے، یہاں میں بتاتا چلوں کہ میں یہ کہانی آپ کو کیوں سنا رہا ہوں۔ میں نے جب یہ داستان پڑھی تھی تو شروع سے ہی مجھے بہت دلچسپ لگی، اور تجسس کے مارے میں اسے پڑھتا ہی چلا گیا۔ اور جب کہانی کا ڈرامائی اختتام ہوا تو ایک بہت بڑا انکشاف، ایک بہت بڑی حقیقت میرے سامنے تھی۔ اسے میں اپنی فکری زندگی کا ایک بہت بڑا حاصل سمجھتا ہوں۔ ایسا گوہر جو میں ہمیشہ اپنی صدری میں سنبھال کر رکھتا ہوں اور جب کبھی میری سوچ اور طبیعت مایوسی اور شکستگی کی طرف مائل ہوتی ہے، میں یہ نگینہ نکال کر اس کی روشنی سے اپنے اندر کی مایوسی اور نا امیدی کے اندھیرے مٹاتا ہوں۔ تو آئیے کہانی کے اختتام کی طرف، اور پھر آخر میں وہ نکتہ بھی بیان کریں گے۔
تو جب سردار خون کے نشانات کے تعاقب میں جھونپڑی کے پاس پہنچا تو اس نے دیکھا کہ یہ نشانات جھونپڑی کے اندر جا رہے ہیں۔ ہو نہ ہو زخمی گیدڑ جھونپڑی کے اندر ہی ہے۔ اس نے باہر کھڑے ہوکر آواز دی کہ یہ کٹیا کس کی ہے؟ اس کا مالک باہر آئے! بوڑھا پٹھان اپنے ساتوں بیٹوں کے ہمراہ باہر نکل آیا۔ سردار نے اس سے اپنا تعارف کروایا کہ میں فلاں طاقتور قبیلے کا سردار ہوں، آج دوستوں کے ہمراہ شکار پر نکلا تھا، ہمارا شکار زخمی ہو کر تمہاری جھونپڑی میں روپوش ہوا ہے۔ ایسا ہے تو میرا شکار میرے حوالے کردو، تمہیں انعام سے بھی نوازا جائے گا۔ اور ویسے بھی تم نے ایک حقیر سے گیدڑ کا کرنا بھی کیا ہے۔
بوڑھے پٹھان نے تحمل سے یہ سب سنا۔ آہستگی سے نے اپنے بیٹوں سے مشورہ کیا اور پھر سردار سے مخاطب ہوا۔ آپ ایک بڑے قبیلے کے سردار ہیں، آپ ہمارے دروازے پر آئے، یہ ہمارے لیے باعث عزت و شرف ہے۔ لیکن ہم یہ گیدڑ آپ کے حوالے نہیں کرسکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ گیدڑ ہماری جھونپڑی میں داخل ہوچکا ہے، ہماری دہلیز پار کرچکا ہے۔ اب اس نے ہماری پناہ لے لی ہے۔ اور ہماری روایت ہے کہ جو کوئی ہماری پناہ میں آجاتا ہے، ہم اسے اس کے دشمن کے حوالے کبھی نہیں کرتے، چاہے اس کی ہمیں کوئی بھی قیمت چکانی پڑے۔ آپ اس کے بدلے میں ہم سے جو چاہیں لے لیں، ہم دینے کو تیار ہیں لیکن گیدڑ کا مطالبہ نہ کریں، وہ ہم آپ کے سپرد نہیں کرسکتے۔
یوں سیدھا انکار سن کر سردار شدید غصے میں آگیا۔ اس نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ یا تو زخمی گیدڑ ہمیں واپس کردو یا پھر ہمارے ساتھ لڑنے کے لیے تیار ہوجاؤ کیونکہ ہم بھی اپنی روایات کے تحت اپنا شکار کبھی نہیں چھوڑتے۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد سردار اور اس کے دوستوں کی بوڑھے پٹھان اور اس کے بیٹوں کے ساتھ خون ریز لڑائی ہوئی۔ سردار اور اس کا قبیلہ بہت طاقتور تھا۔ بوڑھا پٹھان اور اس کے بیٹے ایک ایک کرکے جان گنواتے گئے لیکن اپنے جیتے جی انہوں نے اپنی پناہ میں آئے گیدڑ کو واپس کرنا گوارا نہ کیا۔ بعد میں جب یہ واقعہ معروف اور زبان زدِ عام ہوا تو اس بوڑھے پٹھان کے کمزور قبیلے کو گیدڑ خیل کہا جانے لگا، یعنی گیدڑ کا دوست یا گیدڑ کا یار قبیلہ۔
اب آتے ہیں اس کہانی کے اصل ماحصل کی طرف۔ آپ نے دیکھا کہ ایک غریب سے غریب، اور کمزور سے کمزور پٹھان کی غیرت کیا ہوتی ہے۔ وہ اپنی دہلیز عبور کرنے والے ایک حقیر سے گیدڑ کی حفاظت کرنا بھی اپنا جانی فرض سمجھتا ہے، اور اسے اس کے دشمنوں کے سپرد کرنا اپنی روایات کے منافی۔ مجھے اس خیال نے اپنی گرفت میں لے لیا، بلکہ لرزا طاری کردیا کہ جب ایک غریب ان پڑھ کمزور پٹھان کی غیرت اتنی بڑی ہے کہ وہ اپنی پناہ میں آئے ہوئے حقیر زخمی گیدڑ کو واپس کرنا گوارا نہیں کرتا تو اللہ کی غیرت کتنی بڑی ہوگی؟ اس کی غیرت کا کیا عالم ہوگا جب کوئی شیطان کا مفرور، نفس کا شکار، گناہوں سے لاچار اور ہر درِ دنیا سے دھتکارا ہوا مایوس بندہ اس کے در پر آتا ہوگا، روتا ہوگا، گڑگڑاتا ہوگا، اور اپنے اندر کے زخم دکھا کر ‘یا ربّی!’ کہ کر بلاتا ہوگا، تو کیسے ممکن ہے کہ وہ عظیم رب، وہ کریم رب، وہ رؤف الرحیم رب اپنے در پر آئے اپنے گناہ گار بندے، معافی کے خواستگار بندے اور پناہ کے طلبگار بندے کو نامراد لوٹا دیتا ہو، اسے اس کے دشمنوں کے سپرد کرنا گوارا کرسکتا ہو۔ وہ تو اس بندے کو ستّر ماؤں والی اپنی رحمت بھری آغوش میں لے لیتا ہوگا۔ جب میں یہ سوچتا ہوں تو میرا ہر غم ہر درد مٹ جاتا ہے، میری نا امیدی امید میں تبدیل ہوجاتی ہے، اور ایک عجیب سی رحمت کی خوشبو والی محبت میرے اندر سے پھوٹتی اور میرے پورے وجود پر طاری ہوکر اسے سرشار کردیتی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
تحریر: سرہنگ نیازی