قبیلہ بلو خیل کے سردار بلو خان کی کہانی


میانوالی کے جہاز چوک اور ضلع کچہری کے سامنے سے سیدھے جانبِ مغرب بڑی بلو خیل روڈ ہےجو اپنے ہی نام کے دریائے سندھ کے اس کنارے پر واقع بلوخیل گاؤں کو جاتی ہے۔یہ ایک بڑا بنیادی قدیمی گاؤں ہے جو کبھی بلوخیل خورد و بلوخیل کلاں دوشاخوں میں تقسیم تھا ۔انگریز دور میں تحصیل ایجنسی کا دفتر بھی یہاں رہا ۔بلوخان اسی نیازی پٹھان قبیلے کا سردار ہو گزرا ہے بلوخیل کا نام اسی پرپڑا۔یہ ایک شریف انسان تھا ،سیدھا سادھا پٹھان ،تیری میری والا نہیں تھا ۔فطری طور پرجرائم کو ناپسند کرتاتھا ۔تب مال مویشی چوری اور لُٹ پھُر عام ہوا کرتی تھی مگر بلو خان ایسے جرائم پیشہ لوگوں کو نہ تو اپنے علاقے میں چھوڑتا اور نہ کسی مفرور یا چور کو یہاں پناہ ملتی تھی۔تب کے قبائلی دیہاتی زرعی ماحول میں یہاں کے قریبی نشیبی جنگات محسودی وزیری اور قسما قسم کے مفروروں کی آماجگاہ ہوا کرتے تھے مگر بلو خان چونکہ ان کی حوصلہ افزائی نہ کرتا تھالازماً یہ لوگ بھی بلو خان پر نکتہ چینی کرنے اور اسے بول پٹکیوں کے نشانے پر رکھنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے خالی نہ جانے دیتے تھے۔ایک مرتبہ بلو خیل گاؤںمیں ایک اکٹھ یا جرگےمیں ان شرارتی لوگوں نے گاؤں کے بیوقوف مراثی کی مٹھی گرم کر کے آنے بہانے سے اس سے کھلے عام سائری (شاعری)کروا کر ڈھول بجوادیا اور یہ شعر پڑھا:
جڈاں رہیا نہ کوئی سردار
تڈاں بلوخان دی آئی وار (ہندکو)
بس جی اس شعر کا پڑھنا تھا کہ بلوخان بھی پھڑک کر اٹھا اور مراسی کو پیار سے اپنے پاس بلاتے ہوئے کہا:
استاد ڈھول دب دب کے مار
بلوخان نہ چور نہ چوراں دا یار (ہندکو)
تب تو بلوخان کی واہ واہ ہو گئی اور لوگوں نے اسے اپنے کندھوں پر اٹھا لیا ۔انگریزی کی کتاب میں اسے یوں بیان کیا گیا ہے
When a weak man is appointed a village headman , people criticize the selection.Who Ballo khan was is now forgotton
نتیجہ : جب کوئی شریف آدمی کسی بڑے عہدے یا سرداری پر پہنچتا ہے تو کھچرے قسم کے لوگ اسے اپنی نکتہ چینی کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے۔ختم شد
فیروز شاہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں