غازی پور اترپردیش،ہندوستان کے نیازی پٹھان۔۔۔


اکبر نے اپنے عہد کے آخری آیام میں افغانوں کے بعض قبائل پر اعتماد کرنا شروع کردیا تھا اور ان کو عہدے اور منصب دینے لگا تھا. ان میں نیازی افغان بھی تھے. اورنگ زیب عالمگیر کے عہد تک افغانوں کی بڑی تعداد مغل فوج میں شامل ہوچکی تھی. اس عہد میں افغانوں کے ایک خاندان کو سرکار غازی پور میں کافی عزت و شہرت حاصل ہوئی. میمریز آف غازی پور مصنف والٹن کے مطابق یہ خاندان نیازی افغانوں کا تھا. یہ چار بھائی غوث خان نیازی، حاتم خان نیازی، پہاڑ خان نیازی اور عنایت خان نیازی تھے.
یہ نیازی افغان صوبہ الہ آباد کے صوبہ دار کے فوج میں جنگجو سپاہی تھے. ایک بار جب صوبہ دار فوجی مہم پر تھا تو اس کی بیگم بھی ساتھ میں ہوگئی. یہ فوج بہت عجلت میں تیار ہوئی تھی اور غنیم کی سرکوبی کیلئے اس کو انکے تعاقب میں کوچ کرنا پڑا. اس جلد بازی میں صوبہ دار کی بیگم کی پالکی چھوٹ گئی. اتفاق سے چاروں نیازی بھائی پالکی کے پاس پہنچے اور نہایت عزت و احترام کے ساتھ بیگم کو معہ پالکی بحفاظت صوبہ دار تک پہنچا دیا. کیونکہ یہ علاقہ غنیم کا تھا اس لئے صوبہ دار نے اپنی ناموس کو خیر و عافیت میں دیکھ کر خوش ہوکر انعام و اکرام کے علاوہ ان نیازی بھائیوں کو غازی پور میں بودوباش کی اجازت دیدی گئی. ان بھائیوں نے سب سے پہلے تحصیل محمد آباد یوسف پور کے قریب ویر پور نامی گاؤں میں سکونت اختیار کرنے کی کوشش کی مگر ان کو وہاں کے زمینداروں نے گاؤں میں بودوباش اختیار کرنے میں مزاحمت کی. ان نیازی بھائیوں نے آخر زمینداروں سے خراج لے کر ویر پور کو چھوڑ دیا اور غوث پور میں آکر سکونت اختیار کی یہ گاؤں موضع کٹھوٹ میں واقع ہے. جہاں راجہ ماندھاتا کا قلعہ تھا. اسکو اپنے تصرف میں لا کر بڑے بھائی یعنی غوث خان نیازی کے نام سے معنون کرکے غوث پور رکھا. ویسے ان کے نام کا ایک قلعہ و گاؤں غوث پور پرگنہ مہائچ میں ضلع بنارس سے متصل ہیتم پور میں بھی تھا. وہ بھی اسی غوث خان نیازی کا تعمیر شدہ تھا.
حاتم خان نیازی کا قلعہ
غوث خان نیازی کو چھوڑ کر انکے دوسرے بھائی پرگنہ مہائچ ضلع بنارس میں جا کر آباد ہوئے اور وہاں گیارہ مواضعات کی ملکیت حاصل کی. میمریز آف غای پور کے مطابق موضع ہتیم پور میں غوث خان نیازی کے تیسرے بھائی حاتم خان نیازی نے ایک عمدہ قلعہ تعمیر کرایا جو کہ آج بھی وہاں نمایاں حیثیت رکھتا ہے. لکڑی کے بڑے بڑے پھاٹکوں میں ایک بڑا پھاٹک اب بھی اپنے پرانے قبضے پر بدستور قائم ہے..


یہ قلعہ تقریباً بائیس بیگھے کی وسیع اراضی پر مشتمل ہے. اس قلعہ کی وسعت کچھ یوں ہے کہ مشرق کی جانب دو کلومیٹر اقبال پور، طرف جنوب چار کلومیٹر ڈھونڈیا، جنوب مغرب میں چار کلومیٹر غوث پور، شمال مغرب میں ڈیرھ کلومیٹر مرزا پور، شمال مشرق دو کلومیٹر پہاڑ پور، شمال میں پانچ کلومیٹر کھڑان، جنوب مشرق میں دو کلومیٹر عنایت پور اور بلکل مشرق میں ہیتم پور وغیرہ کی آبادیوں سے متصل ہے. قلعہ کی چاروں اطراف میں گہری خندق ہے جو بہت گہری ہے. پورے قلعہ میں لاہوری اینٹ استعمال ہوئی ہے. یہ اینٹیں آٹھ انچ چوکور میں ہیں. اینٹوں کی چنائی سرخی و چونے سے کی گئی ہے. قلعہ کی چہار دیواری پر دن رات گھوڑ سوار فوجی حفاظت کے مدنظر گشت کرتے رہتے تھے. چہار دیواری پر ایک ایک میٹر کی دوری پر مورچہ کیلئے کنگرے بھی بنے ہوئے ہیں. اور اس کے درمیانی حصوں میں توپوں کے رکھنے کیلئے خالی جگہیں بھی موجود ہیں جس سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ یہ ایک انتہائی اہم قلعہ تھا جہاں مستقل طور پر توپ خانہ نصب تھا.


حاتم خان نیازی کا جب عروج ہوا تو اورنگزیب عالمگیر نے حاتم خان نیازی کی جنگی خدمات کے عوض خوش ہو کر گاؤں بھتری بھی اسے اور اسکے بھائی عنایت خان کو بخش دیا. یہ گاؤں دو حصوں میں ایک طرف صدر خان نیازی جبکہ دوسری طرف حاتم خان نیازی کو ملا.. صدر خان نیازی عنایت خان نیازی کا بیٹا تھا. مزید پہاڑ خان نیازی بھی پہاڑ پور میں مکین ہوا
عجیب روایت
موضع حاتم پور میں یہ روایت مشہور ہے کہ حاتم خان نیازی نے یہاں جو قلعہ تعمیر کرایا ہے اگر اس قلعہ کی کسی بھی چھوٹی یا بڑی چیز کو کسی نے لینا چاہا تو وہ مرگیا یا پھر کسی مصیبت یا بیماری میں مبتلا ہوگیا ہے. اسلئے گاؤں کے لوگ دہشت کے مارے آج بھی قلعہ کی چیزوں کو ہاتھ نہیں لگاتے. یہ یقین انکے دل میں ایسا بیٹھا ہے کہ کوئی شخ بھی اس قلعہ کی اینٹ کو ہٹانے کی جرات نہیں کرپاتا..

کہتے ہیں کہ اسی غوث خان نیازی کا بیٹا لعل خان نیازی بھی نامور ہوا جو بہار کے ہندو کاشی حکمرانوں کا سپہ سالار تھا۔جس کی وفات پر کاشی حکمرانوں نے وارنسی سابقہ بنارس میں اس کا مقبرہ تعمیر کیا۔لیکن قتبہ پر نیازی درج نہیں ۔۔


بحوالہ :کتاب ممیریز آف غازی پور مصنف والٹن شائع کردہ 1848ء. صفحہ نمبر ٦٦، ٦٧
نوٹ:یہ تحریر جس کتاب سے لی گئی ہے وہ قریب دو سو سال پرانی ہے. دوسری بات اس تحریر کے متن سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انکی نیازی برادران کی اولادیں وہاں سے بودوباش ختم کرکے کہیں اور (خیال اغلب ہے ضلع فرخ آباد کے علاقے شمس آباد میںظ منتقل ہوگئی. مزید ان نیازی برادران کے بارے میں معلومات ضلع غازی پور کے گزٹیر 1982 میں بھی معلومات درج ہیں. اور قصبہ جات بھی ابھی تک موجود ہیں غوث پور تو ضلع غازی پور کی تحصیل ہے جبکہ بقیہ حاتم پور پہاڑ پور عنایت پور وغیرہ بھی موجود ہیں. لیکن ان بھائیوں کے قلعے تقریباً تباہ ہوچکے ہیں حتیٰ کہ یہ زیرِ نظر تصاویر بھی بڑی دقت کے بعد تالاش کی ہیں. کیونکہ کئی جگہوں کے نام بھی تبدیل ہوچکے ہیں جیسا کہ بنارس اب وارنسی کہلاتا ہے. مزید آس پاس ہندو آبادی ہے اور یہ قدیم عمارات ان کیلئے کوئی دلچسپی نہیں رکھتی…
ان نیازی برادران کی اولادیں قیاس کے مطابق مرہٹوں اور نوابین اودھ کی جنگوں میں شمس آباد منتقل ہوگئی بعدازاں قیام پاکستان کے بعد انکے کچھ لوگ وہاں مکین رہے کچھ پاکستان آگئے انھی کا ایک خانوادہ پنڈی بھٹیاں ضلع چنیوٹ میں آباد ہے… واللہ اعلم بالصواب
تحریر و ترتیب؛سرہنگ نیازی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں