کشمیر کی جنگِ آزادی کے ہیرو اور رہنما جناب یاسین ملک کی بیگم محترمہ مشعل ملک صاحبہ کی میانوالی میں متوقع تشریف آوری پر یہاں کی مقامی ایک نمایاں ادبی تنظیم ‘قلم برائے امن’ نے انکے اعزاز میں میونسپل کمیٹی میانولی ہال میں ایک بھرپور ادبی ثقافتی نشست کا اہتمام کیا ہوا تھا ۔مگر مہمانِ خصوصی صاحبہ اپنی چنداںمصروفیات و مجبوری کی بنا پر کہیں سے این۔او۔سی نہ ملنے کی وجہ سے تشریف نہ لا سکیں اگرچہ نشست کا باقی کا تمام کام تادمِ آخر مکمل ہوا تھا۔میرے دوست عزیز محترم جناب انوار حسین حقی صاحب نے مجھے اس نشست میں مدعو کرتے ہوئے خصوصی دعوت دی تھی اور اصرار کے ساتھ یہ بھی شرط لگائی کہ میں کوئی تحریری قلمی اسلحہ بھی ضرور ساتھ لے کر آؤں گا ،انکار کی جگہ نہیں تھی کشمیر سے اپنے دلی لگاؤ کا تقاضا بھی تھا لہذٰا تمام کاروائی میں شرکت کے بعد میں نے محترمہ مشعل صاحبہ کے لئے جو مقالہ لکھا تھا جسکا عنوان ”حرفِ سپاس” تھا میں نے بعد میں عزیزم حقی صاحب کے حوالے کر دیا کہ سند رہے ۔
حرف ِ سپاس
محترمہ صاحبہ کشمیر آپکا وطن ہے اور ہماری رگِ جان ہے فارسی کا ایک محاورہ ہے “ہر کسےراہ وطن او کشمیر است ” میرے خیال میں اس سے زیادہ کشمیر سے محبت کا دوسرا اور کوئی معیار نہیں ہو سکتا ہے ہمارے میانوالی کے گھبرو جوان کشمیر کی جنگ میں حصہ لے کر شہید و غازی ہوئے جبکہ یہاں کی ماؤں نے ہمیشہ اپنے بچوں کو ارضِ کشمیر سے لگاؤ کی خاطر اُنکے بچپن میں انہیں کہانیاں سنائیں یہ کچھ یوں بھی ضروری تھا کہ میانوالی کے عوام کے لئے سید ،قریشی ،پٹھان ،رانے ،عوام ،ملک ،جاٹ کشمیر اُن سب کا بہت پہلے سےایک جنت نظیر خیال چلا آرہا تھا۔چودھویں اور پندرھویں صدی جب ہندوستان پر شیر شاہ سوری اور انکی اولاد کی حکمرانی تھی جن میں نیازی پٹھانوں کی بہت بڑی تعداد شیر شاہ سوری کی پشت پناہ اور اسکی بادشاہی کے ستون تھے انمیں جنرل ہیبت خان نیازی مسند عالی صوبے دار لاہور اور انکے بھائی عیسیٰ خان نیازی مسند عالی جو کبھی صوبے دار ملتان بھی رہے تھے ، اپنی پٹھان سپاہ کے ساتھ سوریوں کے شریک اقتدار تھے۔بدقسمتی سے سوریوں اور نیازیوں کے درمیان مناقشہ کھڑا ہو گیا اور ایک سول وار شروع ہو گئی ۔اُسی زمانے کا تاریخی قلعہ رہتاس جنرل ہیبت خان نیازی کے زیر کمان ہوا کرتا تھا کہ اب سوریوں اور نیازیوں کے درمیان دھنکوٹ کالا باغ (ککڑاں والا)کے مقام پر جنگ ہوئی جس میں فریقین اگرچہ برابر رہے کہ کشمیر میں آزادی کی جنگ پھوٹ پڑی اور ہیبت خان نیازی مع اپنے مجاہدین کے مغل اور سوریوں کی اس اجتماعی طاقت سے کشمیر میں جا ٹکرایا۔ اس جنگ میں نیازیوں نے ازحد دلیری کا مظاہرہ کیا حتیٰ کہ خواتین تک نے اس جنگ میں شرکت ضروری سمجھی جنرل ہیبت خان کی بیگم ذکیہ خاتوں بی بی خود ہاتھ میں خالی بانس لے کر حملہ آوروں پر ٹوٹ پڑی تھی تب سے کشمیر ہمارے میانوالی کے ہر نفس کے ہر سانس میں بستا ہے ۔یہ میں اس زمانے کی بات کر رہا ہوں جب کشمیر میں حیدر شاہ جو بابر مغل بادشاہ کا ماموں تھا کشمیر کا حکمران تھا ۔جنرل ہیبت اسکی حمایت میں سوریوں سےجا لڑا جس میں جنرل ہیبت خان مع اپنے ساتھیوں کے میدانِ جنگ میں کام آئے جنکی قبور آج بھی وہیں کہیں کشمیر میں موجود ہوں گی ۔محترمہ مشعل صاحبہ مجھے اجازت دیں کہ میں اپنا پورا خیال ایک مختصر کہانی کی صورت میں آپ کے گوش گزار کر سکوں جو یوں چلتی ہے ۔
کہتے ہیں ایک مرتبہ ایک ظالم شکاری نے ایک کشمیری طوطے کو لوہے کے ایک بڑے پنجرے میں قید کر رکھا تھا اُس کے پر نچے ہوئےاور وہ غم سے نڈھال تھا کچھ ہی دیر بعد اس شکاری نے ایک دوسرا طوطا بھی پکڑ کر اس پہلے والے طوطے کے ساتھ آن قید کیا ۔پہلا طوطا اپنی تکلیف بھول کر اس نئے طوطے کو تسلی دیتا کہ وہ اپنی جان یوں ہلکان نہ کرے اس طوطے نے نئے قیدی سے کہا ایک دن آزادی کا سورج ہم پر بھی ضرور طلوع ہو گا ،حوصلہ کرو ۔نیا طوطا اسکی یہ باتیں چپ چاپ سنتا رہا ۔پہلے طوطے نے دوسرے طوطے کا غم ہلکا کرنے کے لئے اس سے باتیں شروع کر دیں کہ ہم آزادی کے بعد دونوں کس طرح اپنے وطن کی آزاد فضا میں اڑا کریں گے اور تم مجھے اپنا گھر دکھانا وغیرہ وغیرہ ۔یوں ان دونوں قیدیوں کا بوجھ کچھ ہلکا ہو گیا ہمارے مقامی سنبل پٹھانوں کا ایک مشہور قول ہے جو انہوں نے سوریوں ہی کے عہد میں اپنی برادری کے قتلِ عام پر یوں بیان کیا تھا کہ ” اکٹھ میں موت بھی کسی دعوت کی طرح کا مزہ رکھتی ہے ” ، یہ دونوں طوطے اب ایک دوسرے سے پوری طرح سے ہل گئے تھے ۔ایک دن کی بات ہے کسی جلدی میں انکا ظالم مالک پوری طرح سے پنجرے کے کنڈے کو اچھی طرح سے بند کرنا بھول گیا ،نئے طوطے نے اپنے ساتھی دوست پرانے طوطے کو اسطرف متوجہ کیا ،بس پھر کیا تھا تھوڑی ہی دیر میں موقعہ پا کر یہ دونوں قیدی طوطے بھاگ نکلے پرندوں اور ہوا کو کون قید کرے؟اب دوسرا طوطا پہلے دوست طوطے کو حسب ِ وعدہ اپنے گھر لے جاتا ہے جو دریائے جھہلم کے کنارے ایک درخت کی کھوہ میں بنا ہوا تھا اور درخت کی لچکیلی نرم شاخیں دریا کی سطح پر ہوا سے جھولتی تھیں اس ماحول میں یہ طوطا اپنے دوست کو کہتا ہے جب میں ان لچکتی ٹہنیوں پر اپنے وطن کشمیر کے گیت گاتا ہون تو امر ہو جاتا ہوں دوست تم کیسے محسوس کرتے ہو ؟جس پر اس پہلے طوطے نے جواب دیا ” دریائے جھہلم کے پانی کی یہ لہریں جو اٹھ اٹھ کر ٹہنیوں کو چوم رہی ہیں انکی اچھال کی قسم ہم دونوں زندگی بھر اپنی آزادی کو موت پر ترجیح دیں گے ” ۔
محترمہ تو اس پسِ منظر میں آپ میانوالی کے سپوتوں کے اس دیس میں موجود ہیں ہمارے لوگ کشمیر کی پہلی ،دوسری ،تیسری جنگوں میں شریک ہوئے ،کچھ قید ہوئے ،کچھ مارے گئے ،کچھ غازی کے مرتبے پر فائز ہوئے ،انکا تعلق ہمارے میانوالی کے قصبات داؤد خیل، روکھڑی،دھلہ عظمت خان و دیگر علاقوں سے تھا تب پاکستان کا ہمارا مشہور لیڈر امیر عبداللہ خان روکھڑی انکا سپہ سالار تھا جنرل ہیبت خان پندرھویں صدی عیسوی میں کشمیر کی جنگ میں مارے گئے انکے کچھ ساتھی قید ہو کر اسلام شاہ سوری کے سامنے پیش کیے گئے اس وقت بھی کشمیر اپنوں ہی کی ریشہ دوانیوں کا شکار تھا جیسے آج ہے مگر محترمہ مشعل صاحبہ !آؤ میں اور تم دخترِ کشمیر ، کشمیر کی آزادی کی سوگند کھائیں اُن دو طوطوں کی طرح جنہیں وطن کی آزادی کا پورا پورا یقین تھا ۔ ختم شد
تحریر: فیروز شاہ صاحب
شہزادہ سلیمان شاہ خلف شہزادہ جلال الدین سدوزئی مدفن میانوالی: لفظ “نیازی” کے تعاقب میں۔۔۔ روکھڑی کا نام روکھڑی کیوں ہے؟ مکڑوال تاریخ کے آئینہ میں۔۔۔ نیازی قبیلہ کی عسکری تاریخ…. ہیبت خان نیازی اور چاکر رند کے مابین تعلقات۔۔۔ عظمت رفتہ سے حال شکستہ تک۔۔۔ شکردرہ کی سرزمیں کے تین سیبوں کا قصہ۔۔۔ پشتون ثقافت کا طرٌہ امتیاز۔۔۔ طرّہ و دستار پٹھان قبیلہ سمین کی تاریخ