شیخ عبداللہ نیازی۔۔۔۔

سولہویں صدی کی معروف روحانی شخصیت۔۔


سولہویں صدی عیسوی میں جہاں ہیبت خان نیازی اور عیسٰی خان نیازی شہرت اور طاقت کی بلندیوں پر تھے تو دوسری طرف ایک مرد قلندر اور درویش صفت نیازی نے ” علائی تحریک” کو جنم دے کر پورے ہندوستان میں دھوم مچائی ـ
تاریخ اس مرد قلندر کو شیخ عبداللہ خان نیازی کے نام سے یاد کرتی ھے ۔
تارہخ کے اس نامی گرامی کردار سے بہت کم نیازی واقف ھیں اس لئے اس پر تفصیلی پوسٹ تیار کی ھے
میرا مقصد آپ تک معلومات دینا ھے آپ کو بور کرنا نہیں مگر مجبوری ھے تاریخ کو ایک دو سطروں میں سمیٹا نہیں جا سکتا ۔
شیخ عبداللہ نیازی کا ذکر دو قدیم تاریخی کتب میں آیا ھے
پہلی کتاب ملا عبدلقادر بدایونی کی ” منتخب التواریخ ” ھے جو 1596ء میں لکھی گئی
اور دوسری کتاب
نعمت اللہ ھراتی کی ” مخزن افغانی” ھے جو 1612ء میں لکھی گئی ۔
یہ دونوں مورخ شیخ عبداللہ نیازی کے ہم عصر تھے اور
نعمت اللہ ھراتی کو شیخ عبداللہ نیازی سے شرف ملاقات بھی حاصل رھی ۔
” منتخب التواریخ “
میں ملا عبدلقادر بدایونی صفحہ 263 پر لکھتے ھیں (حرف بہ حرف یہ واقعہ نقل کر رھا ھوں )
“نیازیوں کو کشمیریوں نے جو بڑے مکار اور دغاباز ھوتے ھیں، دھوکہ دے کر اپنے ھاں بلایا اور راستے سے بہکا کر گھاٹیوں میں پھنسا دیا پھر اسلام شاہ کے اشارے سے ان کا راستہ بند کرکے ان پر حملہ کردیا ۔
اس لڑائی میں نیازیوں کی عورتیں بھی اپنے ننگ وناموس کو بچانے کے لئے لڑکر مر گئیں ۔ خود اعظم ہمایوں کی ماں اور بیوی بھی مقابلہ کرتی ھوئی پتھروں کے نیچے دب کر مرگئیں ان میں سے ایک بھی زندہ نہ بچ سکا ۔
مشہور ھے کہ شیر شاہ کے زمانے میں اعظم ہمایوں نے سنبل قبیلے کے پٹھانوں کو عہد وپیمان کرکے بلایا تھا اور پھر عہد شکنی کرکے شیر شاہ سوری کے اشارے پر دو ھزار آدمیوں کو عورتوں بچوں سمیت ہلاک کر دیا تھا ۔ زمانے کا پھیر دیکھو ان کا کیا ھوا ان کے آگے آیا
کشمیریوں نے ان تین بھائیوں
( ہیبت خان نیازی، سعیدخان نیازی اور شھباز خان نیازی) کے سر کاٹ اسلام شاہ سوری کے پاس بھیج دئے ۔”
بات کہیں اور نکل گئی میرا موضوع شیخ عبداللہ نیازی ھے دراصل شیخ عباللہ نیازی اور ہیبت خان نیازی ھم عصر ھیں اس لئے یہ واقعہ ابتداء میں بتانا ضروری تھا ۔عبداللہ نیازی جو خواجہ سلیم الدین چشتی ؒ کے خلیفہ تھے ۔
آپ اس ولی کامل کے خانقاہ کے ساتھ متصل حجرےمیں حالت اعتکاف میں رہ کر ریاضت و عبادت میں مشغول رہتے تھے
سلیم الدین چشتی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے سفر حج سے واپسی پر شیخ عبداللہ نیازی نے اپنے مرشد سے سفر حج اور روضہ رسول ﷺ پر حاضری کی خواہش ظاھر کی اور اجازت چاھی ۔
سلیم الدین چشتیؒ نے ان کو اجازت دی اور رخصت کرتے ھوئے ان تمام شیوخ و اہل اللہ سے ملنے کی تلقین کی جو اس وقت عرب و عجم میں شہرت رکھتے تھے ۔ عبداللہ نیازی نے رخصت لی اور رخت سفر باندھا اس نے بہت سے شہروں کی سیاحت کی اور اپنے مرشد کے بتائے ھوئے مشائخین سے ملاقاتیں کیں ۔
12سال تک عرب و شام کے مشائخ اور علماء سے کسب فیض کرتے رھے ۔
اپنے زمانے کے اولیاء اور بزرگوں کی زیارت سے مشرف ھو کر ان سے بہت سی ظاھری و باطنی فضیلتیں حاصل کیں سات سال تک بغداد شریف میں ریاضت و مجاہدہ کرتے رھے ۔
سید محمد جون پوری سے متاثر ھو کر فرقہ مہدیہ کے مذھب و مسلک کو اختیار کیا ۔
آپ اسلام شاہ سوری کے دور حکومت ( 1545 ء تا 1554 ء) میں ہندوستان واپس آئےاور قصبہ بیانہ میں سکونت اختیار کی ۔
بیانہ شہر سے کچھ فاصلے پر ایک حوض کے کنارے گوشہ نشینی اختیار کی ۔
آپ کا معمول تھا کہ خود پانی کے گھڑے بھر کر اپنے سر پر اٹھا کر لے جاتے تھے اور شہر سے آنے والے لکڑھاروں اور کسانوں کو پانی پلاتے اور اکھٹا کرکے نماز پڑھاتے اور ان کو اپنے پاس سے کچھ نہ کچھ دے کر فرقہ مہدیہ کی طرف راغب کرتے ۔
اس دور میں ایک مذھبی تحریک “علائی تحریک ” کے نام سے اٹھی جس نےاسلام شاہ سوری کی نیندیں حرام کیں یہ تحریک شیخ عبداللہ نیازی کی ذات سے جڑی ھے ۔
علائی تحریک کے بانی شیخ علائی جن کا تعلق بنگال کے ایک شیخ (پیر) گھرانے سے تھا ان کے والد ایک گدی کے سجادہ نشیین اور درویش تھے ۔
وہ عبداللہ نیازی کے طریقہ تبلیغ سے بہت متاثر ھوا اور اپنے 300 مریدوں سمیت مہدویت مذھب اختیار کر کے عبداللہ نیازی کا مرید بن گیا اور ترک دنیا کرکے ان کے ساتھ ذکر و اذکاراور ریاضت و عبادت میں مشغول ھوگیا۔
روز بروز شیخ عبداللہ نیازی کے ارادت مندوں میں اضافہ ھوتا گیا اور کچھ ھی عرصہ میں اس نئے فرقہ نے بہت طاقت پکڑ لی ۔
شیخ علائی جو شیخ عبداللہ نیازی کا خلیفہ خاص تھا اس نے “علائی تحریک” کی بنیاد ڈالی اس تحریک نے ایسا زور پکڑا کہ اسلام شاہ سوری جو ایک طرف باغی نیازیوں سے نبرد آزما تھا اب اس تحریک نے ان کے اقتدار کے لئے خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں ۔
علائی تحریک کے مسلح کارکن شہروں اور بازاروں میں جاکر نہ صرف اس نئے مذھب کی تبلیغ کرتے بلکہ خلاف شرع کوئی کام دیکھتے تو وہ جبراً روک دیتے اور سرکاری حکام سے ذرہ بھی خوف زدہ نہ ھوتے اور جہاں بھی سرکاری حکام سے مڈبھیر ھوتی یہ ان پر غالب آجاتے ۔
شیخ عبداللہ نیازی تشدد اور ڈنڈے والی شریعت کے خلاف تھے اور اس نے شیخ علائی کو اسی وجہ سے بیانہ چھوڑنے کا حکم دیا ۔
شیخ علائی مرشد کے حکم پر 900 تحریکی کارکنوں کے ہمراہ بیانہ سے گجرات (انڈیا ) چلاگیا۔
1548ء میں جب اسلام شاہ سوری کا سپہ سالار خواجہ اویس ھیبت خان نیازی سے شکست کھا کر ناکام لوٹا تو اسلام شاہ سوری خود لشکر لے کر نیازیوں کی شورش کچلنے کے لئے آگرہ سے نکلا جب وہ بیانہ پہنچا تو انہیں اس نئے فتنے کے بارے میں بتایا گیا ۔
اس کے ایک معتمد خاص مخدوم الملک نے انہیں بتایا کہ اصل فتنہ شیخ علائی اور ان کی تحریک نہیں بلکہ اس فتنے کی جڑ آبیانہ کے شیخ عبداللہ نیازی ھیں جو شیخ علائی کا مرشد بھی ھے اور تمام نیازیوں کا پیر بھی ھے اور تین چار سو مسلح آدمیوں کے ساتھ بیانہ میں دنگا فساد کا ذمہ دار بھی ۔ اسلام شاہ سوری جو پہلے ہی نیازیوں کے خون کا پیاسا تھا یہ سن کر آگ بگولہ ھوا اور حاکم بیانہ کو حکم دیا کہ شیخ عبداللہ نیازی کو ان کے سامنے پیش کیا جائے۔
حاکم بیانہ جو شیخ عبداللہ نیازی کا عقیدت مند تھا شیخ عبداللہ نیازی کے پاس گیا اور انہیں فرار ھونے کا مشورہ دیا مگر عبداللہ نیازی نے انکار کیا اور اسلام شاہ سوری کے سامنے پیش ھوا ۔
آداب شاہی یعنی جھک کر سلام کرنے سے انکار پر شاہی محافظوں نے اسے پکڑا اور زبردستی اس کی گردن اسلام شاہ سوری کے سامنے جھکائی ۔
اس کے بعد بادشاہ کے سامنے انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور جب تک وہ بے ہوش نہیں ھوئے تھے ان کے لبوں پر یہ آیت کریمہ تھی ۔
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ۔
بے ہوش ھونے کے بعد ان کو چمرے(زُن) میں لپیٹ کر ایک رات ایک دن لگاتار آگ کی گرمی میں رکھا گیا تب انہیں ھوش آیا ۔
اس کے بعد اسلام شاہ سوری نیازیوں اور کیانیوں کی شورش کچلنے کے لئے روانہ ھوا اور دھن کوٹ ( کالاباغ کے قریب ایک قصبہ جو دریا برد ھوگیا ) کے مقام پر نیازیوں اور اسلام شاہ کے درمیان جنگ ھوئی جس میں ھیبت خان کو شکست ھوئی اور وہ کشمیر کی طرف نکل گیا ۔
اسلام شاہ کو نیازیوں اور کیانیوں کی شورش کا قلع قمع کرنے میں دوسال لگ گئے ۔
دوسری طرف شیخ عبداللہ نیازی کے خلیفہ خاص شیخ علائی اس دوران تفسیر ، حدیث اور تحریر و تقریر کی منزلیں تیزی سے طے کرتا رھا۔ وہ کسی عالم دین کو خاطر میں نہیں لاتا تھا اور ان سے مناظروں میں ان پر غالب آجاتاتھا ۔
اسلام شاہ سوری کے دو حاکم بھی اس کے متعقد ھو گئے تھے ۔
اسلام شاہ سوری نے شروع میں علماء کی طرف سے شیخ علائی پر قتل کے فتووں کے باوجود نرمی برتی اور اسے مہدویت چھوڑنےکے عوض بڑے منصب کی پیشکش بھی کی جو شیخ علائی نے ٹھکرا دی۔
شیخ علائی کی دن بدن مقبولیت اور حاکموں کی شیخ علائی سے عقیدت دیکھ کراسلام شاہ سوری نے اسے اپنے لئے خطرہ سمجھا۔
1550ء میں نیازیوں اور کیانیوں کی شورش کچلنے کے بعد وہ شیخ علائی کی طرف متوجہ ھوئے۔
اور اسے طلب کرکے کوڑے لگائے گئے جس سے شیخ علائی کی موت واقع ھوگئی ان کی لاش کو ھاتیوں سے روندا گیا اور دو دن بے گور وکفن رکھا گیا ۔
شیخ علائی کے موت کے بعد شیخ عبداللہ نیازی دوبارہ مکہ معظمہ کے سفر پر نکل گئے اور وھاں سے افغانستان جا کر سکونت اختیار کی ۔
اس طرح یہ فرقہ اور ” علائی تحریک ” اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔
مغل اعظم جلال الدین اکبر کے دور میں شیخ عبداللہ نیازی دوبارہ ہندستان آئے اور اب کی دفعہ سرہند آکر بسیرا کیا ۔
اور یہاں آکر مہدویت فرقےسے تائب ھوگئے اور حضور ﷺ کی سنت میں و اطاعت میں شادی کی اور صاحب اولاد ھوئے ۔
مخزن افغانی کے مصنف نعمت اللہ ھراتی ان سے اپنی ملاقات کا حال کچھ یوں بیان کرتے ھیں۔
” اس تاریخ کے کمترین مصنف کو بھی ایک بار ان کی خدمت میں حاضر ھونے کا موقع ملا۔
ملاقات کے وقت میں نے ان سے مہدیہ عقیدے کے متعلق استفسار کیا تو فرمانے لگے کہ شروع شروع میں تو میں بھی اس عقیدے پر ایمان لے آیا تھا کہ حضرت مہدی علیہ سلام دنیا میں تشریف لاچکے ھیں لیکن اب جو میں نے کتبِ حدیث کا مطالعہ کرکے تحقیق کی ھے توپتا چلا کہ مہدی موعود ابھی نہیں آئے چنانچہ میں نے اس فاسد عقیدے کو ترک کردیا ھے “
مغل اعظم جلال الدین اکبر جب بھی سرہند آتے شیخ عبداللہ نیازی سے ضرور ملتےاور ان کی صحبت میں ضرور کچھ وقت گذارتے وہ ہندستان بھر کے جتنے بھی مشائخ تھے ان سب سے زیادہ ان کے متعقد تھے ” نوادر افغانی ” اور
” مرآة الصفا” کے نام سے تفسیر قرآن پاک شیخ عبداللہ کی مشہور تصانیف ھیں۔
شیخ عبداللہ نیازی نے طویل عمر پائی اور 1592ء میں سو سال سے زائد کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے ۔
بیانہ کے حاکم شفیق خان نے اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد بنا رکھی تھی شیخ عبداللہ نیازی کا مزار اسی مسجد کے احاطے میں بنایا گیا ۔
ان کی وفات کےبعد ان کے صاحب کمال بیٹے ان کےقائم و مقام ھوئے اور رشدو ھدایت کا سلسلہ جاری رکھا ۔
شیخ عبداللہ نیازی کی بہت سی کرامات مشہور ھیں ۔

تحریر:عطاءاللہ خان نیازی سلطان خیل

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں