شہزادہ سلیمان شاہ خلف شہزادہ جلال الدین سدوزئی مدفن میانوالی:

زیر نظر تصاویر میانوالی شہر کے علاقے گُھنڈ والی وانڈھی قبرستان میں واقع سدوزئی شہزادے سلیمان ولد جلال الدین سدوزئی کی قبر کی ہیں.

جسکے قتبے پر یہ تحریر بزبان فارسی درج ہے…. 


بسم اللہ الرحمن الرحیم
شہزادہ سلیمان شاہ خلف شہزادہ جلال الدین سدوزئی کہ از دو مان احمد شاہ ابدالی بود
بتاریخ 19/1/27 بمقام میانوالی از عدم بوجوہ آبد بتاریخ 2/8/27 ازین دار فانی بدار القرار قرار گرفت
قالو انا للہ وانا الیہ راجعون


اس قبر کے بارے میں مزید کوئی مستند معلومات دستیاب نہیں ہوسکی. …

فی الحال مشاہدہ یہ ہے کہ اس قبر کی اصل تختی امتداد زمانہ کی وجہ سے تباہ ہوگئی جسکے بعد اُس مخدوش تختی سے عبارت نقل کر کے اِس نئی تختی پر منتقل کی گئی ہے یہ چیز موجود تختی کی حالت اور اس پر درج لفظ “میانوالی” کے ہجوں سے اخذ کی جاسکتی ہے کیونکہ پرانی کتابوں میں “میانوالی” کی بجائے “میاں والی” درج ہے.
جہاں تک بات درج تاریخ کی ہے وہ بھی واضح نہیں کیونکہ صدی کا کوئی تذکرہ نہیں۔اگر ہم دیکھں تو سدوزئیوں یا ابدالیوں کا زمانہ حکومت احمد شاہ ابدالی کے آنے سے لیکر رنجیت سنگھ کے پنجاب پر حکومت کے شروع سے قبل تک کا ہے. مطلب ١١٤٧ ہجری سے لیکر ١٢٤١ ہجری کے درمیان کا
کیونکہ پرانے زمانے میں عیسوی تقویم (کیلنڈر) کے بجائے ہجری تقویم استعمال کی جاتی تھی جبکہ عبارت میں موجود تاریخ میں ہجری یا عیسوی کی کوئی وضاحت ہے نہ ہی صدی کی بس سال ماہ اور دن درج ہے..
تو ہم یہ قیاس کرتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہجری میں تاریخ درج ہیں جبکہ ابدالیوں کے زمانے کو مدنظر رکھتے ہوئے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ١٢٢٧ ہوگا یا پھر ۱۳۲۷ہجری سال ہوگا عیسوی تقویم میں یہ 1812ء یا پھر 1909ء ہوگا..لیکن یہاں کچھ اور بھی سوچنا ہوگا کہ کہیں یہ ایرانی شمسی سال تو نہیں جس کا استعمال ہندوستان افغانستان اور ایران میں بہت ہوتا تھا۔ اگر ہم اس کلیہ کے تحت تاریخ کا تعین کریں تو یہ تاریخ ایرانی تقویم کے مطابق ١٢٢٧ یا پھر ۱۳۲۷ ہوگی۔اسطرح انگریزی کیلنڈر میں یہ تاریخ 1848ء یا 1948ء جا بنتی ہے۔
تواریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہزاد پہلے ماہ کی انیس تاریخ کو پیدا ہوا جبکہ آٹھویں ماہ کی دو تاریخ کو فوت ہوا. پس یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ یہ نومولود شہزادہ تھا. جسکا خاندان شائد اس وقت اس علاقے (میانوالی) سے یا تو گزر رہا تھا یا پھر عارضی طور پر مکین تھا کیونکہ میانوالی مستقل آباد کسی ابدالی خانوادے کی کوئی تاریخ نہیں ملتی..


واٹسن اپنی کتاب میں رقمطراز ہے کہ

سدوزئی قبیلہ بکھری ہوئی ٹولیوں میں ہندوستان کے شمال مغربی سرحدی علاقے کے بڑے قصبوں میں رہائش پذیر ہے. یا پھر ان قبیلوں کے زیر سایہ رہتے ہیں جن کے سرداروں نے ان کی حفاظت اور رہائش کی ذمہ داری قبول کی ہے. سدوزئی کی حیثیت اس وقت افغانستان میں ایک بے بس اور مجبور و لاچار قبیلے سے زیادہ نہیں. اس قبیلے کا سربراہ تب تک افغانستان کا حکمران رہا جب تک انگریزی حکومت کی حمایت و مدد اسے حاصل رہی . انگریزی فوج کے کابل سے نکلتے ہی شاہ شجاع کو قتل کر دیا گیا .اگرچہ سدوزئی قبائل نے متفقہ طور پر شاہ شجاع کے بیٹے کو اپنا سردار چن لیا تھا لیکن وہ بارک زئی قبائل سے اپنے باپ کا کھویا ہوا اقتدار حاصل کرنے میں ناکام رہا. ناصرف یہ بلکہ اسے افغانستان سے بھی نکلنا پڑا.
زیر نظر تصویر 1868 سال کی ہے تصویر میں موجود شخصیت شہزاد شہزادہ جمبور ہیں جن کا تعلق سدوزئی کے شاہی خاندان سے ہے. نواب آف ڈیرہ اسماعیل خان اور نواب آف منکیرہ اور ملتان کے سدوزئی اسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں. افغانستان میں اس خاندان کی حکومت کے دوران ان علاقوں کے نواب اصل میں افغان حکومت کے نمائندے ہوا کرتے تھے. کیونکہ اس زمانے میں یہ علاقہ افغانستان کا حصہ ہوا کرتا تھا. اگرچہ سکھوں نے انہیں اقتدار سے محروم کر دیا تھا لیکن پھر بھی انگریز حکومت کے دوران ان کے پاس بہت زیادہ جاگیریں اور علاقے موجود رہے. شہزادہ جمبور اب جلاوطنی کی زندگی گزار رہا ہے اور اور انگریز راج میں شامل سرحدی علاقوں میں رہ رہا ہے.”

افغانستان کا آخری سدوزئی حکمران شاہ شجاع تھا. احمد شاہ ابدالی کی اولاد شہزادگان کے نام سے جانی جاتی ہے. کوہاٹ شہر میں محلہ شہزادگان میں یہی خاندان آباد ہے. جو کہ شہزادہ جمبور کی اولاد میں سے ہیں. یہ لوگ اپنے نام کے ساتھ لفظ شہزادہ کے علاوہ لفظ درانی بھی استعمال کرتے ہیں. شہزادہ یا درانی خاندان نوشہرہ, کوہاٹ, بنوں کے علاوہ خیبر پختون خواہ کے دیگر علاقوں میں بھی رہائش پذیر ہے.
کیونکہ اس تختی کی عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ یہ احمد شاہ ابدالی کے خاندان سے تھا. جس زمانے کی بات ہورہی ہے تو اس مطابق شہزادہ سلیمان (جسکی یہ قبر ہے) اس کا باپ شہزادہ جلال الدین شائد رشتہ میں احمد شاہ ابدالی کا پوتا ہوگا یا پھر پڑپوتا. کیونکہ اس زمانے میں افغانستان پر میں محمود شاہ درانی(احمد شاہ ابدالی کے پوتے) کی حکومت تھی جبکہ پنجاب پر سکھ قابض ہوچکے تھے. اندرونی چپقلشوں کے باعث کئی درانی شہزادے سکھوں کے پاس پناہ بھی لے چکے تھے مثال کے طور شہزادہ شاہ زمان اور شاہ شجاع قابل ذکر ہیں. شاہ زمان کی قبر ہندوستان کے پنجاب ضلع سرہند میں واقع ہے.. تاریخ دانوں اور بلخصوص افغانستان کی تاریخ پر تحقیق کرنے والوں کیلئے یہ قبر نہایت اہم ہے.. واللہ اعلم بالصواب

ضلع میانوالی میں درانی قبیلہ کی آبادی کے کوئی آثار نہیں ملے۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں