تعارف؛
بمبرہ قبیلہ کے لوگ زیادہ تر عیسٰی خیل اور اس کے نواحی قصبوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کولاچی کے ایک گاؤں کوٹ سلطان میں آباد ہیں.
تاریخ؛
بمبرہ قبیلہ کے بارے میں اقبال خان نیازی صاحب بحوالہ حیات افغانی رقمطراز ہیں کہ
جب ہیبت خان نیازی کو کشمیریوں نے دھوکہ دے کر شہید کیا اور ہیبت خان نیازی اور اسکے خاندان کے پسماندگان کو قید کرکے تخت دہلی کی طرف اسلام شاہ سوری کے دربار میں بھیجا گیا تو اوائل میں انھیں دہلی میں قید رکھا گیا. جہاں پر ان پر شدید تشدد کیا جاتا اور انکی تضحیک کی جاتی. اس بیہمانہ رویہ کی گواہی جہانگیر بادشاہ کے عہد میں لکھی گئی کتاب تاریخ داؤدی میں بھی ملتی ہے. اس ظالمانہ رویہ سے اسلام شاہ سوری کے دربار سے ملحق پشتون رؤسا کافی نالاں ہوئے اور احتجاج بھی درج کرایا. اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے اسلام شاہ سوری نے بغاوت کے ڈر سے ہیبت خان نیازی کے ان پسماندگان کو درابھن و ٹانک کی طرف بھجوا کر ہندوستان سے بیدخل کر دیا.
جناب اقبال خان نیازی صاحب کے مطابق ان پسماندگان میں ہیبت خان نیازی کا ایک بیٹا ہمایوں خان نیازی تھا جو اس مصائب میں زندہ رہا جس کا مزار ٹانک میں واقع ہے.
ہیبت خان نیازی اور اس کے بھائی شہباز خان نیازی و سعید خان نیازی وغیرہ کی یہ بے وطن اولادیں بعد میں بمبرہ کہلائیں.
جب مغلوں کی حکومت آئی تو نیازیوں نے سوریوں کے برخلاف مغلوں کا ساتھ دیا جسکا چشم دید گواہ ہمایوں بادشاہ کا خاص ملازم جوہر آفتابچی اپنی کتاب تذکرۃ الوقعات میں دیتا ہے جب نیلاب کے مقام پر محمود خان نیازی وغیرہ نے ہمایوں بادشاہ کو خوش آمدید کہا. تبھی اسی زمانے میں یہ لوگ درابھن اور ٹانک سے واپس اپنے علاقے عیسٰی خیل میں آئے جہاں پر عیسٰی خیلوں نے انھیں اپنی جائیداد کا چوتھائی حصہ اپو خیل اور بمبرہ شاخوں کو دیا.
اقبال خان نیازی صاحب کی تحقیقات کے مطابق ہیبت خان نیازی کی اولاد میں سے ایک قبیلہ حکیم خیل بھی ہوا ہے جو کہ ٹیری ضلع کرک میں آباد ہیں اور انکا دعویٰ ہے کہ وہ ہیبت خان نیازی کی اولاد میں سے ہیں.
وجہ تسمیہ بمبرہ؛
سینہ بہ سینہ روایات کے مطابق احمد شاہ درانی کے اس خطے میں آنے سے قبل تک مروت اور نیازی آپس میں آئے روز لڑائی جھگڑوں میں الجھے رہتے تھے.
اسی تناظر میں عیسٰی خیل نیازیوں اور مروتوں کی ایک جنگ دریائے کرم کے کنارے کھگلانوالہ کے مقام پر ہوئی جس میں نصرت خیلوں اور سرور خیلوں نے بڑھ چڑھ حصہ لیا اور ایسے جم کر لڑے کہ مروتوں کے پاؤں اکھڑے گئے. مروت بھاگتے جاتے ہوئے صرف اتنا کہتے تھے
“دا خلق بھمبرہ غُنڈے حملہ کئی“
یعنی یہ لوگ ایسے حملہ آور ہوتے ہیں جیسے بھڑیں اور ڈینبوں.
لوگوں نے جب یہ جملہ سنا تو اس دن سے نصرت خیلوں کو تور بمبرہ یعنی کالا ڈینبوں اور سرور خیلوں کو سور بمبرہ یعنی بھڑ کا نام دے ڈالا . چونکہ یہ نام انھیں جرات و شجاعت کے سبب ملا تھا تبھی ان نیازیوں نے اس کو خوشی سے اپنایا اور قبیلے کا نام ہی بمبرہ پڑ گیا.
مشہور شخصیات؛
چئیرمین محمد خان نیازی جڑانوالہ، عبدالمجید خان نیازی کمالیہ، نمبردار حاجی محمد خان، ڈاکٹر معظم محمود خان نیازی، کرنل شیر بہادر خان نیازی، میجر محمد اقبال خان نیازی، وغیرہ
ذیلی شاخیں؛
حکیم خیل، نصرت خیل، سرور خیل، خوشحال خیل وغیرہ.
نوٹ:
بمبرہ بہت بڑا قبیلہ ہے جسکی آبادی ہزاروں افراد پر مشتمل ہے لیکن یہ بات یاد رہے کہ زیر دستیاب شجرہ جات صرف وہ ہیں جو تاریخ نیازی قبائل کتاب کے مؤلف حاجی اقبال خان نیازی صاحب مرحوم نے اپنی کوشش سے اکھٹے کئے یا جن لوگوں نے ذاتی دلچسپی لیکر کر شجرے بنا کر ان تک پہنچائے.ان شجروں کو قطعی طور پر مکمّل نہ سمجھا جائے کیونکہ یہ چند سو افراد کے شجرے ہیں جبکہ قبیلے کی آبادی ہزاروں افراد پر مشتمل ہے.. اگر کسی کا زیر دستیاب شجرے میں نام موجود نہیں تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ نیازی نہیں یا بمبرہ نہیں. بلکہ یہ انتہائی محدود افراد کے شجرے ہیں جو مؤلف کو دستیاب ہوئے وہ شامل کردیئے۔اگر کوئی آرٹیکل میں مزید معلوت کا اضافہ کروانے کا متمنی ہے یا کوئی تصحیح درکار ہے یا کسی معروف شخصیت کی تصویر شامل کروانا چاہتا ہے تو ہمیں نیچے کمنٹ کریں یا فیس بک پیج نیازی پٹھان قبیلہ پر انبکس کریں شکریہ
ایڈمن نیازی پٹھان قبیلہ
www.NiaziTribe.org