شجرہ و تاریخ قبیلہ بادین خیل (ضلع ہنگو)

تعارف؛

اس آرٹیکل میں ہم ضلع ہنگو کے قصبہ جات توغ سرائے، سماری، بڑھ عباس خیل کربوغہ شریف کے نیازیوں کا بیان کریں گے.

تاریخ؛

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ نیازی پشتونوں کا اصل مرکز افغانستان کا صوبہ غزنی کا ضلع شلگر (جو آجکل اندڑ کہلاتا ہے) تھا.
نیازی دیگر غلجی و لودی قبائل کی طرح اصل میں خانہ بدوش قبیلہ تھا جس کے کچھ لوگ آج بھی کوچی سلسلہ کو جاری رکھے ہوئے ہیں.
پس اسی زمانے میں مختلف وجوہات کی بنا پر نیازیوں کی اکثریت نے شلگر کو خیر باد کہہ کر نئی منازل کی راہ لی اسی زمانے میں نیازی براستہ درہ گومل ٹانک پہنچے. پھر وہاں سے براستہ درہ پیزو لکی مروت آئے.
نیازی قبائل نے یکبارگی اکھٹے ہجرت نہیں کی. بلکہ یہ سلسلہ وار تھی. جیسا کہ ہم میانوالی کے نیازی قبائل کی تاریخ میں لکھ آئیں ہیں کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق میانوالی میں نیازی مختلف ادوار میں پانچ مختلف ہجرتوں کے نتیجے میں پہنچے.
اسی طرح بلوچستان میں جانے والے نیازیوں کا مرکز بھی اصل غزنی یا ملحقہ صوبہ قندھار و پکتیکا تھا جہاں سے وہ براستہ درہ گومل وہاں پہنچے.
اس ساری بحث سے پتہ چلتا ہے کہ ضلع ہنگو میں جانے والے قبائل بھی دراصل درہ گومل سے ٹانک اور پھر ٹانک سے بنوں وہاں پہنچے ہونگے. اور انکی ہنگو و کوہاٹ میں آباد کاری پندرھویں صدی کے وسط میں ہوئی ہوگی. جب بہلول لودی بادشاہ ہندوستان تھا.

ضلع ہنگو کا نقشہ

کیونکہ اقبال خان نیازی صاحب کے مطابق یہ لوگ بھی سرہنگ قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں.
جبکہ ایک غیر معروف قیاس یہ بھی ہے کہ یہ وہ نیازی ہوں جو غزنی سے کسی وجہ سے خوست ہجرت کر گئے ہوں اور پھر وہاں سے درہ کرم ہنگو پہنچے ہوں. کیونکہ کیپٹن رابنسن کے مطابق نیازیوں کی آمد درہ کرم حتیٰ کہ درہ خیبر پر بھی ریکارڈ کی گئی ہے.
بہرحال اگر ہم پہلی رائے کو لیکر چلیں تو معلوم ہوگا کہ جب نیازی علاقہ مروت میں آباد ہوئے تو غالباً چراگاہوں کی کمی یا کسی دوسری وجہ سے علاقہ ہنگو (جو ماضی میں بنگش کے نام سے مشہور تھا) تھا نقل مکانی کر آئے ہوں. کیونکہ تزک بابری سے پتہ چلتا ہے کہ علاقہ بنگش اپنی ہریالی کے باعث خوشحالی کیلئے کافی مشہور تھا.
جیسا کہ تاج محمد نیازی صاحب آف توغ بالا بھی فرماتے ہیں کہ ہم یہاں بابر کی آمد (1505ء) کے وقت سے پہلے کے یہاں آباد ہیں.
جناب محترم اقبال خان ہنگو و کوہاٹ کے نیازی قبائل کو دو مرکزی شاخوں بادین خیل اور شادی خیل میں تقسیم کرتے ہیں. یاد رہے کہ میانوالی میں آباد ادریس کی اولاد یعنی وتہ خیل، تاجہ خیل، بلو خیل، الیاسی خیل وغیرہ بھی شادی خیل شاخ سے ہیں.

نیازی پٹھان قبیلہ کی ٹیم توغ سرائے ہنگو میں

بہرحال مغل بادشاہ بابر کے ہندوستان پر حملہ سے کئی دہائیوں پہلے بہلول لودھی کے زمانے میں یہ نیازی ہنگو پہنچے جہاں پر بادین خیل تو سارے ہنگو میں بنگشوں کے ساتھ آباد ہوگئے جب کہ شادی خیل (گو کہ جسکی اکثریت لکی مروت میں رہ گئی تھی جو بعد ازاں میانوالی چلے گئے) جو کہ کم تعداد تھے وہ کوہاٹ میں آ کر آباد ہوگئے.
ہم اقبال خان نیازی صاحب کی رائے سے متفق نہیں کہ یہ نیازی1550ء میں یہاں آباد ہوئے.
کیونکہ اگر اس زمانے میں دیکھا جائے تو صورتحال یکسر بدل جائے گی اور ہم پھر یہ بھی سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ یہ شاید سنبل نیازیوں کی شاخ ہوں جو ہیبت خان نیازی کے عتاب سے بچ کر براستہ مکھڈ یہاں آئے ہوں. لیکن ہم اس قیاس کو یہیں دفن کر دیتے ہیں کیونکہ یہ درست نہیں ہے.
گزٹیر آف کوہاٹ (1883ء) کو دیکھا جائے تو وہاں مسٹر ٹکر بھی ہماری رائے کی تائید کرتے ہیں کہ یہ نیازی براستہ گومل پہلے ٹانک آئے پھر وہاں سے یہ بنوں پہنچے جہاں سے یہ پھیل گئے. اور انکی ہنگو میں آباد کاری عیسٰی خیل نیازیوں کی موجودہ عیسٰی خیل میں آباد کاری سے ایک یا دو صدی پہلے کی معلوم ہوتی ہے. آگے چل کر مزید لکھتے ہیں کہ ہنگو و کوہاٹ میں نیازیوں کی آمد کا کوئی درست سن تو نہیں معلوم ہوسکا لیکن اندازہ کے مطابق پندرہویں صدی (یعنی وہی ابراہیم لودھی) کے زمانے میں یہاں آئے ہونگے. یہاں کے نیازیوں کی زبانی روایات کے مطابق یہ دولت خان بن بائی خان بنگش کی سرداری کے زمانے میں یہاں آئے. لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بیازئی بنگش کا زمانہ بابر بادشاہ کے دہلی پر حملہ آور ہونے اور فتح یاب ہونے کے بعد کا زمانہ ہے. تبھی مسٹر ٹکر کے مطابق اس زبانی روایت سے متفق نہیں ہیں اور اپنی رائے رکھتے ہیں کہ نیازی اس سے قبل جیسا کہ ذکر کیا ہے. یہاں آباد تھے.

پہلی آباد کاری؛

مسٹر ٹکر کے مطابق شروع شروع میں یہ لوگ کوہاٹ توئی کے نچلے حصے میں واقع میدانی علاقے میں آباد ہوئے پھر اسکے بعد یہاں سے یہ ہنگو و کوہاٹ میں پھیل گئے.
انکی زیادہ تر آبادی وادی سماری میں ہے جہاں سے یہ میران زئی کے نزدیکی علاقے توغ، بڑھ عباس خیل اور کوٹکی تک پھیل گئے ہیں. انکے سماری میں دو گاؤں گدا خیل (صابر آباد) اور دوسرے چھوٹے چھوٹے گاؤں جو کوہاٹ توئی کے ساتھ ساتھ ہیں جبکہ ایک گاؤں توغ جو کہ مشرق میں ہے. اس سب میں نیازی آباد ہیں.
مسٹر ٹکر کے مطابق بیا زئی بھی مانتے ہیں کہ نیازی یہاں پر بیازئی بنگش کی آمد سے پہلے کے آباد کار ہیں. انھوں نے یہ زمینات بنگش کی نصرت کے بغیر حاصل کیں..
نیازیو کے تمام گاؤں تیس میل لمبی پٹی پر مشتمل ہیں جو کہ بنگش اور خٹک قبائل کے درمیان حائل ہیں اور بفر کا کام دیتے ہیں.
یہ کربوغہ شریف کے پاس سے لیکر موجودہ مسلم آباد کوہاٹ تک پھیلی ہوئی ہے.
بیازئی بنگش میران زئی سے توغ میں بہت بعد میں اس وقت آئے جب انھوں نے کوہاٹ کو آپس میں تقسیم کیا.

نیازیوں کا بنگش قبیلہ کا حلیف ہونا؛

جس دوران بنگش کوہاٹ اور ہنگو وادی پر قبضہ کیلیے اورکزئی قبیلیے کیساتھ حالت جنگ میں تھے۔اسی زمانے میں نیازی قبیلے کی شاخ بادین خیل اور شادی خیل ضلع ہنگو میں وارد ہوۓ اس زمانے میں نیازیوں کی جنگی مہارت اور بہادری مشہور تھی۔چنانچہ بنگشوں نے نیازی قبیلے کیساتھ اورکزیوں کیخلاف بھائیوں کی طرح اتحاد قائم کرلیا۔۔آخر کار بنگش اور اورکزئیوں کے درمیان بمقام درسمند جرگہ منعقد ہوا لیکن فیصلے کی کوئی صورت نہ نکلتی تھی اور دونوں قومیں جنگ سے تنگ آچکی تھیں چنانچہ فریقین نے فیصلے کا اختیار ایک ڈم یعنی مراسی کو دیا جس کا نام دائی تھا دائی نے فیصلہ کیا کہ “دائی خو داسے وائی چہ سم دا بنگشو او غر د اورکزو” یعنی کہ وادیاں اور میدان بنگش کے اور پہاڑ اورکزیوں کے ۔۔۔قریب تھا کہ اورکزئی اسے قتل کر ڈالتے لیکن عجلت میں فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔چنانچہ اورکزئی قوم کوہاٹ اور ہنگو کی ملکیت کے اپنے مطالبے سے دستبردار ہوکر تیراہ کے پہاڑوں میں چلے گۓ آج تک دائی کا فیصلہ قائم ہے۔۔اور جن نیازیوں کی مدد سے بنگشوں نے اورکزیوں کا مقابلہ کیا تھا وہ آج تک ضلع ہنگو کے پہاڑوں میں آباد ہیں

درویزہ نیازی (نائب گورنر کوہاٹ)؛

توغسراۓ کے نیازیوں اور ہنگو کے بنگش نوابوں کے تعلقات خوشگوار رہے یہاں تک کہ درانی سلطنت کے زوال کا وقت آیا جبکہ درانیوں نے خیبر پاس اور جمرود پر ہری رنجیت سنگھ کے کمانڈروں کی طرف سے آفریدیوں پر حملے کرنے کی وجہ سے سکھوں سے جنگ شروع کردی سکھ پشتون علاقوں پر اپنا اثر و رسوخ بڑہاتے جا رہے تھے اس زمانے میں رنجیت سنگھ نے سردار اوتار سنگھ سندھوالیہ کو گورنر کوہاٹ لگایا جبکہ ہنگو کے بنگش نواب نے چند سیاسی وجوہات کی بنا پر سکھ سلطنت کا ساتھ دیا  جس کے صلہ میں سکھوں نے ؒخان بہادر خان بنگش کو نائب گورنر مقرر کیا۔ لیکن جلد ہی 1829ء میں دوبارہ درانی سلطنت نے علاقہ پر اپنی حکومت بحال کر لی اور سردار عبداللہ خان بارکزئی(برادر زادہ امیر دوست محمد خان بارکزئی) کو کوہاٹ کا گورنر مقرر کیا۔جبکہ جناب درویزہ خان نیازی نائب گورنر مقرر ہوئے۔ درویزہ خان نے وادی ہنگو پر حملہ کرنے اور سکھوں کا ساتھ دینے  پر نواب بنگش کو خاندان سمیت وادی سے بیدخل کر دیا بنگش چونکہ پشتونوں کا ایک بہادر اور جنگجو قبیلہ ہےاور جس کی اس علاقے میں اکثریت بھی  چپ رہنے والا نہ تھا آٹھ سال کے بعد اورکزئی قوم کو ساتھ ملا کر بمقام سمانہ درویزہ خان سے جنگ کی مٹھی بھر نیازیوں نے اپنے سے بڑے لشکر کا سخت مقابلہ کیا بالاخر درویزہ خان میدان جنگ میں کام آیا لیکن اس جنگ سے آپ ہنگو کے نیازیوں کی سیاسی و عسکری قوت کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس وقت نواب بنگش کی ٹکر کی دوسری کوئی قوم نہ تھی ۔اس اسکے علاوہ توغسراۓ کے نیازی قریبی گاؤں انار چینہ قوم خٹک اور محمد خواجہ قوم بنگش کیساتھ سرحداتی جھڑپوں میں مصروف رہے جس کی ایک طویل تاریخ ہے آج سے پانچ دہائیوں قبل تک سرحداتی جھڑپیں معمول کی بات تھی۔آخر کار ہنگو کے اخوندزادہ قوم کے مشران نے جرگہ میں ثالث کا کردار ادا کیا اور سرحدات کا تعین کیا جس کی وجہ سے امن قائم ہو ۔اخونزادہ قوم کے لوگ دینی علوم پر دسترس رکھتے ہیں جس کی وجہ سے پشتون قبیلے انکی عزت و احترام کرتے ہیں ۔

ہنگو کے نیازیوں کی پشتو؛

ہنگو میں آباد نیازی اپنے اصل غزنی کی وجہ سے آج بھی جنوبی پشتو لہجہ کے اثرات رکھتے ہیں.
نیازیوں کی پشتو بنگش کی نسبت خٹکوں سے زیادہ قریب معلوم ہوتی ہے.

بنگش اور نیازی میں فرق مشکل؛

یہاں پر بنگش اور نیازی ایسے مدغم ہیں کہ ان میں فرق کرنا مشکل ہے. کیونکہ ان کی آپس کی رشتہ داریاں بہت ہیں

نیازیوں کی تعداد؛

آج سے ڈیرھ سو سال پہلے یعنی 1877ءکی مردم شماری کے مطابق نیازیوں کی کل آبادی چار ہزار سے زائد نفوس پر مشتمل تھی.جو  اب یقینی طور ایک لاکھ کے قریب ہوگی۔

ہنگو کے قصبہ جات جہاں پر نیازی آباد ہیں؛

کوٹکی بالا، کوٹکی پایاں، سماری بالا، سماری پایاں، توغ سرائے، بڑھ عباس خیل، گدا خیل (مسلم آباد)، نیازی کلے (کربوغہ شریف) وغیرہ شامل ہیں

ذیلی شاخیں؛

نائب خیل، عمر خیل، سلطان خیل، بہرام خیل، عالم خان خیل، عباس خیل، باز گل خیل، سربلند خیل، ابراھیم خیل، سیدا گل خیل، دارہ خیل، سرور خیل، تورا باز خیل، توغ زرنئیے، لعلو خیل، نارو خیل، اور شیری خیل وغیرہ شامل ہیں.

مشہور شخصیات؛

:لیفٹیننٹ کرنل صاحبزادہ گل خان نیازی شہید (ستارہ جرات)

چھ لانسر پاکستان کی پہلی رجمنٹ تھی جس نے جناب لیفٹیننٹ کرنل صاحب زادہ گل نیازی کی قیادت میں ہندوستان کے علاقے پر اپنے قدم جائے. اور سب سے پہلے کسی بھی ہندوستانی گاؤں پر قبضہ کیا.جی ہاں یہ گاؤں تھا کھیم کرن جسکی بہت سی مشہور تصاویر انٹرنیٹ پر موجود ہیں جن میں پاکستانی افواج ہندوستانی ریلوے اسٹیشن پولیس اسٹیشن اور کھیم کرن کے گلی کوچوں میں پھرتی نظر آتیں ہیں.

لیفٹیننٹ صاحبزادہ گل نیازی شہید

08 ستمبر کو لیفٹیننٹ کرنل صاحبزادہ گل نیازی نے کھیم کرن ریلوے اسٹیشن کو قابو کرنے کیلئے پیش قدمی شروع کردی تھی وہ فرنٹ سے لیڈ کرتے ہوئے اپنے ٹینک کو سب سے آگے لیکر چلتے رہے کھیم کرن ریلوے اسٹیشن پر قبضہ سے قبل اسکا رابطہ ہندوستانی دفاعی نظام سے مربوط ولتھا ریلوے اسٹیشن سے منقطع کرنا اور تباہ کرنا تھا. اس سلسلے میں پہلے ولتھا ریلوے اسٹیشن پر حملہ کیا گیا یہ حملہ کامیاب رہا اور پاکستانی فورسز آگے مزید کھیم کرن کی طرف بڑھنے لگیں اب کھیم کرن کا دفاعی حصار ٹوٹ چکا تھا.
لیفٹیننٹ کرنل صاحب زادہ گل نیازی صاحب اسی دوران 09 ستمبر کو دشمن کے علاقے کی صورت حال کا جائزہ لینے کیلئے اپنے ٹینک پر کھڑے مشاہدہ کررہے تھے کہ اچانک ایک دشمن کی اینٹی ٹینک بیٹری کے ایک گولے کا نشانہ بنے اور یوں شہید ہوگئے..انا للہ وانا الیہ راجعون
جرات مندی سے اپنے جوانوں کو فرنٹ سے لیڈ کرنے اور ولتھا جیسی دشمن کی اہم دفاعی جگہ کو تباہ کرنے پر آپ کو بعد از شہادت ستارہ جرات سے نوازا گیا.
آپ فاتح کھیم کرن بھی کہلائے کیونکہ ولتھا ریلوے اسٹیشن کو تباہ کرنے کے بعد کھیم کرن کا دفاعی حصار پاش پاش ہوچکا تھا.
کھیم کرن پر پاکستانی افواج کے قبضے کے بعد وہاں کا دورہ اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان اور کمانڈر انچیف جنرل موسیٰ خان نے بھی کیا اور لیفٹیننٹ کرنل صاحب زادہ گل نیازی شہید کو خراج عقیدت پیش کیا..
لیفٹیننٹ کرنل صاحب زادہ گل نیازی شہید کا تعلق کوہاٹ کے نیازی گھرانوں نائب درویزہ خیل (نائب خیل) قبیلہ سے تھا.

اس کے علاوہ درج ذیل شخصیات معروف ہیں۔کیپٹن جلال گل خان، آئر کموڈور سعید گل خان نیازی، تاج محمد نیازی (سابقہ ناظم توغ سرائے) وغیرہ شامل ہیں.

نوٹ؛

یہ بات یاد رہے کہ ضلع ہنگو میں نیازیوں کی ایک خطیر تعداد صدیوں سے بنگشوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے اپنی الگ شناخت فراموش کرکے بنگشوں میں ضم ہو چکی ہے۔زیر دستیاب شجرہ جات صرف وہ ہیں جو تاریخ نیازی قبائل کتاب کے مؤلف حاجی اقبال خان نیازی صاحب مرحوم نے جناب تاج محمد نیازی صاحب آف توغ سرائے کی کوششوں سے اکھٹے کئے یا جن لوگوں نے ذاتی دلچسپی لیکر کر شجرے بنا کر ان تک پہنچائے.ان شجروں کو قطعی طور پر مکمّل نہ سمجھا جائے کیونکہ یہ چند سو افراد کے شجرے ہیں جبکہ قبیلے کی آبادی ہزاروں افراد پر مشتمل ہے.. اگر کسی کا زیر دستیاب شجرے میں نام موجود نہیں تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ نیازی نہیں یا بادین خیل نہیں. بلکہ یہ انتہائی محدود افراد کے شجرے ہیں جو مؤلف کو دستیاب ہوئے وہ شامل کردیئے۔

ایڈمن نیازی پٹھان قبیلہ

www.NiaziTribe.orgؒ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں