سانحہ مشرقی پاکستان سیاسی، انتظامی اور معاشرتی ناہمواریوں کی باعث لاوہ کی مانند پک رہا تھا۔
مشرقی پاکستان کا سانحہ ایک دن، اک ماہ یا اک سال میں وقوع پذیر نہیں ہوا بلکہ. اس سانحہ کی بنیاد اسی دن رکھ دی گئی جس دن ملک کی اکثریتی زبان بنگالی کو بجائے اسکا مقام دینے کے عوام پر تشدد کیا گیا. مگر صاحب اقتدار آمر ایوب خان نے نہ اس پر کوئی توجہ دی اور نہ آمریت کی مداح سرائی کرنیوالوے نام نہاد سیاست دانوں نے جو دراصل وڈیرے تھے بس سیاست کی چادر اوڑھ رکھی تھی. اسی میں ایک سندھی وڈیرے کے بیٹے نے بھی آمر ایوب خان کی انگلی پکڑ کر میدان سیاست میں چلنا سیکھا. موصوف نے اس سے قبل کے آمر جنرل اسکندر مرزا کو (جو میر جعفر کا پڑپوتا تھا خاندانی نمک حرام تھا) خط لکھا اور انھیں قائداعظم سے بھی عظیم قرار دے ڈالا. مگر اس آمر کو اتنا موقعہ نہ مل سکا اور وہ ملک سے باہر نکل گیا. بعدازاں اس نے ایوبی آمریت کے زیر سایہ تربیت پائی اور جنرل ایوب کو اپنا باپ (ڈیڈی) قبول کیا.. اور چاپلوسی کا ریکارڈ قائم کیا. اس موصوف کا نام ذوالفقار علی بھٹو تھاجسے آج بابائے جمہوریت، قائد عوام اور پتہ نہیں کیا کیا خطابات سے نوازا جاتا ہے. سانحہ مشرقی پاکستان کے چار مرکزی کرداروں (یحییٰ، مجیب، اندرا اور بھٹو) میں سے ایک ہے. مگر پیپلز پارٹی اور پیپلز پارٹی سے نووارد شدہ جیالے جو پی ٹی آئی میں آگئے وہ بھی اسے عظیم اور مدبر سیاست دان قرار دیتے نہیں تھکتے .. حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ موصوف نے انیس سو ستر کے انتخابات میں کل تین سو نشستوں میں سے محض اکیاسی نشستیں جیتی جبکہ مد مقابل مجیب نے ایک سو ساٹھ نشستیں جیتی جو کہ کل تعداد کی نصف سے زائد تھیں. مگر دماغ میں اقتدار کا جنون سوار ہو چکا تھا. تبھی اس جمہوریت کے نام نہاد لیڈر نے نتائج ماننے سے انکار کردیا اور اُدھر تم اِدھر ہم کا نعرہ لگا دیا. اسکے بعد مشرقی پاکستان میں لگی آگ مزید بھڑک اٹھی اور انجام یہ ہوا کہ پاکستان متحدہ پاکستان خاکستر ہوگیا.. مگر لوگ کہتے ہیں اسے چھوڑیں دیکھیں اس نے ایک متفقہ آئین دیا، جنگی قیدیوں کو رہا کرایا، ٹریڈ یونین بنائیں، اسلامی بلاک بنانے کی بات کی وغیرہ وغیرہ.اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی کسی کے باپ کو قتل کردے اور بعد میں اسکی اولاد کو گاڑی، دولت، زمین جائدادیں دے دے کیا ان سب سے وہ باپ کا ناحق قتل بھول جائیں گا؟؟ ہرگز نہیں… حالانکہ اس نے کارخانوں کو قومیا کر ملک کی صنعتوں کی کمر توڑ دی جو آج تک سنبھال نہ پائی. بلوچستان میں اسکے تعینات کردہ جنرل ٹکا خاں نے ویسے ہی قتل عام رورا رکھا جیسے اس نے مشرقی پاکستان میں آپریشن سرچ لائٹ میں کیا. اس دن سے لیکر آج تک بلوچستان پرامن نہیں ہوسکا. یہ کریڈٹ بھی بھٹو کو ہی جاتا ہے. اگر بھٹو انتخابات کو قبول کرلیتا یا مجیب الرحمن سے باہم ملکر کوئی راستہ نکالنے کی سعی کرتا جو کہ اصلی جمہوری لوگوں کا شیوا ہے تو نوبت تقسیم تک نہ پہنچتی… مگر افسوس تینوں (بھٹو، یحییٰ اور مجیب) کو اقتدار پیارا تھا ملک کی سلامتی نہیں. اسلئے تینوں نے اپنے کئے کی سزا پائی اور عبرتناک انجام سے دوچار ہوئے….
تحریر: نیازی پٹھان قبیلہ