مرادِ اؤلیاء مسند اعلیٰ نواب حضرت محمد خان نیازی رحمتہ اللہ علیہ (1540ء تا 1628ء). :-
محمد خان نیازی، شہنشاہ اکبر کے دربار میں موجود تمام افغان امراء میں سے اپنی قابلیتوں اور صلاحیتوں کے سبب منفرد و امتیازی حیثیت کے مالک تھے. آپ کا ذکر اکبر بادشاہ کے درباری امراء و مشیران کی کتابوں جیسے ابوالفضل کا اکبر نامہ،نظام الدین کی کتاب طبقات اکبری، بدیوانی کی منتخب التواریخ،میر معصوم بھکری کی کتاب تاریخ معصومی، شیخ فریدالدین بھکری کی کتاب ذخیرۃ الخوانین میں کافی ذکر ملتا ہے. اس کے علاوہ بعد میں لکھی گئی کتابوں جیسے کہ صمصام الدولہ کی مآثر امراء،خوافی خان کی منتخب اللباب اور کیول رام کی تذکرۃ امراء جیسی نادر و مستند کتابوں میں بھی احوال درج ہیں۔
آپ کی پیدائش کا باقاعدہ تو کوئی ماہ و سال دستیاب نہیں لیکن ایک اندازہ کے مطابق آپ کی پیدائش عین ان دنوں میں ہوئی جب شیر شاہ سوری، ہمایوں بادشاہ کو شکست دے کر تخت دہلی پر جلوہ افروز ہورہا تھا.
خیال ہے کہ آپ کے والد کا نام محمود خان نیازی تھا جو کہ نیلاب (اٹک) کے مقام پر ہمایوں بادشاہ کےساتھ شیر شاہ سوری کی وفات کے بعد آن کر ملا.جو کہ غالبا ہیبت خان نیازی کا صاحبزادہ تھا۔ کیونکہ ان دنوں سوریوں و نیازیوں میں اقتدار کو لیکر نفاق پیدا ہوچکا تھا. پس محمود خان نیازی اپنا لشکر لیکر ہمایوں کا ہمرکاب ہوا اور ہمایوں کو دوبارہ تخت دہلی پر بٹھانے میں معاونت فراہم کی. جس کا ذکر جوہر آفتابچی کی کتاب میں درج ہے..
محمد خان نیازی نے 1579ء کے آس پاس شاہی دربار میں شمولیت اختیار کی تھی جب شہنشاہ اکبر بنگال میں کرانی افغانوں سے لڑنے میں مصروف تھا. محمد خان نیازی نے ابتدا میں مشہور مغل امیر شہباز خان کمبوہ کے ساتھ ملکر عسکری مہمات میں حصہ لیا اور مختلف کارروائیوں بلخصوص براہمہ پُترا کی لڑائی میں بہادری اور شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کارنامے انجام دیئے.اور بنگال کے راجپوت حکمران عیسٰی خان کو فیصلہ کن شکست دی ۔ جس کے سبب جلد ہی، آپ نے شاہی کمانڈروں کے بیچ ایک منفرد مقام حاصل کر لیا. اکبر بادشاہ کی کوشش اور خواہش ہوتی کہ محمد خان نیازی اور اس کا دستہ ہر مہم میں لڑائی کیلئے شامل رہے. انھیں جنگ کے میدان میں اترتے وقت بادشاہ اپنی کمان میں رکھنے کو ترجیح دیتا. 1591-92ء میں، آپ نے سندھ کے حکمران مرزا جانی بیگ کے خلاف ٹھٹھہ کے مقام پر لڑائی لڑی.تاریخ معصومی میں درج ہے کہ سندھ میں ایک جنگ کے دوران جب خان خاناں عبدالمنعم خان کا لشکر تقریباً شکست کھا چکا تھا، تو یہ محمد خان نیازی ہی تھا، جس کے 1200 جوانوں نےعقب سے حملہ کر دشمن کے 5000 مضبوط افراد پر مشتمل لشکر کو گھیرے میں لے کر بھاری نقصان پہنچایا، اور مغل لشکر کی شکست کو فتح میں بدل دیا۔اسی طرح صوبہ دکن میں اورنگ آباد کی لڑائی میں جب مغل سلطنت کے سپہ سالار خان خاناں نے اپنے بیٹے شاہنواز خان کو دکنی سلطان ملک عنبر کے خلاف جنگ کیلئے بھیجا تو اس کے ساتھ محمد خان نیازی اور یعقوب خان بدخشانی کو ساتھ متعین کیا۔یہ دونوں شخصیات فن حرب یکتا اور تجربہ کار افراد تھے۔اس جنگ میں محمد خان نیازی نے وہاں واقع ندی کے کنارے پر مورچہ زن ہو کر دشمن کیلئے راہ کو مسدود کردیا۔ملک عنبر غیر تجربہ کار شاہنواز خان کو ندی کے پار مبازرت کی دعوت دیکر پھنسانا چاہتا تھا لیکن محمد خان نیازی نے شاہنواز خان کو ندی کے پار جا کر لڑنے سے روک دیا۔یوں ملک عنبر اپنی چال میں پھنس کر ندی پار کرکے حملہ آور ہونے کی کوشش کرنے لگا جس میں اس کے سینکڑوں سپاہی مارے گئے اور وہ زخمی حالت میں اپنی جان بچا کر بھاگا لیکن محمد خان نیازی نے اس کا تعاقب کیا اور اس کو سانس تک لینے نہ دی جب تلک کہ وہ اپنے قلعہ میں جا کر پناہ گزیں نہ ہوا۔
جب شہزادہ شاہ جہاں نے دکن کی مہم کی قیادت سنبھالی تو محمد خان نیازی نے پھر بھی بہادری کے کاموں میں سُستی نہیں دکھائی. کیونکہ اس سے قبل محمد خان نیازی شہزادہ پرویز کے ہمرکاب تھے اور ان دونوں شہزادوں کے بیچ تفاوت تھی. درحقیقت محمد خان نیازی ایک باضمیر اور اصول پسند شخصیت کے مالک تھے۔زیادہ تر لوگ انھیں پسند کرتے تھے۔انھوں نے اپنے شب و روز کو مختلف امور کی انجام دہی کیلئے تقسیم کر رکھا تھا اور ان کی یہ عادت پچاسی برسی کی عمر میں وفات تک برقرار رہی. ہاں اگر کوئی مہم درپیش ہوتی یا کوئی اور اہم مصرفیت آڑے آتی تو یہ سلسلہ عارضی طور معطل ہوجاتا۔رات کے آخری تین پہر میں طلوع آفتاب تک تلاوت کرتے اور دن میں چھ گھنٹے مختلف دینی و علمی کتب کا مطالعہ کرتے۔آپ کو تمام افغانوں کے انساب کی تاریخ مکمل طور پر ازبر تھی۔رات کا پہلا پہر وہ اپنے سپاہیوں،علماء اور فقراء کے ساتھ گزارتے جبکہ درمیانی حصہ حرم میں آرام فرمانے کیلئے مختص تھا۔انھوں کے کبھی بھی نماز قضاء نہیں ہونے دی اور شعائر اسلام پر نہ صرف خود سختی سے کاربند رہتے بلکہ اپنے ساتھیوں کو بھی اس کی تلقین کرتے۔لوگ آج بھی انکی کرامات کے واقعات سناتے ہیں۔
شہنشاہ جہانگیر کے دور حکومت میں، محمد خان نیازی، دلیری اور بہادری کے کاموں اور جنگی چالوں کا بہترین استعمال کرنے کے، بروقت بہترین فیصلے کرنے اور میدان کا پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھنے کے سبب مشہور ہوئے۔ جس کی وجہ س اکبر بادشاہ کے بعد جہانگیر بادشاہ نے بھی آپ کا کا بھرپور قدردان رہا. شہنشاہ جہانگیر نے کئی بار آپکو آپ کے جد اعلیٰ کے نام یعنی ہیبت خان کے خطاب سے نوازنا چاہا لیکن آپ نے انکار کردیا۔ آپ کا ماننا تھا کہ میرا نام محمد ہے اور محمد سے بڑا کوئی نام یا خطاب نہیں ہو سکتا جسے میں اپنے نام کے ساتھ لگاؤں۔
مآثر امراء کا مصنف صمصام الدولہ شاہ نواز خان لکھتا ہے کہ محمد خان نیازی جلالی اور جذباتی مزاج کے حامل تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے اصولوں پر سختی سے کاربند رہنے والے ایک اصول پرست اور کھری بات بادشاہوں کے منہ پر کہہ دینے کا حوصلہ رکھتے تھے، اس اصول پسندی کو انھوں نے مرتے دم تک نہ چھوڑا ۔ وہ نہایت دین دار تھے اور اپنا فارغ وقت دینی کتب کے مطالعہ میں اور اپنی راتیں عبادت میں گزارتے تھے۔ ان کا دستہ زیادہ تر نیازیوں پر مشتمل ہوتا تھا، وہ اپنے ساتھ تعینات نیازی جوانوں کی دیکھ بھال کرتے تھےاور کسی سپاہی کی موت کے بعد مرحوم کے پسماندگان کی کفالت کرتےرہتے۔
ذخیرۃ الخوانین کا مصنف لکھتا ہے کہ یوں تو نواب صاحب کے مناقب کافی ہیں لیکن طوالت کی وجہ سے یہاں فقط ایک واقعہ پر اکتفا کرتا ہوں. وہ واقعہ کچھ یوں ہے ہے کہ نواب محمد خان نیازی رحمتہ اللہ علیہ ان دنوں بخار کے سبب ایک ہفتہ سے فاقہ کا شکار تھے. انھی دنوں آپ کا فیل بان بھی کسی بیماری کی سبب بستر پر پڑا تھا اور فاقہ کی حالت میں تھا. اچانک ایک دن اس بیمار نے طعام یعنی کھانے کی خواہش کا اظہار کیا. مراد اؤلیاء محمد خان نیازی صاحب کے مصاحبین نے اس کیلئے طعام بہت تلاش کیا لیکن کھانے کو کچھ نہیں ملا. بھوک کی شدت کی وجہ سے اس کو دل کا دورہ پڑا ،جب نواب صاحب کو خبر ہوئی تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں التجا بلند کی ، فی الفور غیب سے ایک شخص نمودار ہوا جس کے پاس کشکول تھا جو کہ گرم چاول اور قورمہ سے بھرا ہوا اس نے وہ کھانا اس بیمار مہاوت یعنی ہاتھیوں کے نگہداشت کرنے والے بندے کو آکر دیا اور اس کو کہا کہ ، یہ کھاؤ کیونکہ یہ موجب شفا ہے( صحت بخش )ہے. یہ مجھے خان صاحب نے دیکر بھیجا ہے. فیل بان نے سیر ہوکر وہ کھانا کھایا اور بچا ہوا اپنے دیگر دوستوں کو دے دیا. اس کھانے کو ایک کثیر تعداد نے کشکول سے کھایا لیکن پھر بھی کھانا بچ گیا.
بہت جستجو کرنے کے بعد بھی وہ انجان آدمی جو کہ کشکول میں کھانا لیکر آیا معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کون تھا اور نہ ہی دوبارہ وہ شخص نظر آیا. بعد میں معلوم ہوا کہ رجال الغیب سے آنے والا شخص دراصل اللہ کے حکم سے خان کی دعا کی بدولت فیل بان کی مدد کیلئے پہنچا تھا. اور اسی طرح مناقب ظہور محمدی بہت ہیں. آپ کا انتقال 1627-8 عیسوی میں پچاسی سال کی عمر میں ہوا۔ جہاں پر آپ کے فرزند احمد خان نیازی نے ایک عالیشان مسجد اور ساتھ ہی ساتھ پر شکوہ مقبرہ تعمیر کروایا.آپ کی جاگیر ریاست مہاراشٹر کے ضلع واردھا کے علاقہ آشتی میں دریائے وردہ کے کنارے واقع تھی۔ آپ نے آشتی ‘پرگنہ’ کو اپنا آبائی علاقہ قرار دیا اور اس کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کیا. غیر آباد اس جنگل صاف کو صاف کرکے آباد کاری کرائی اور کاشتکاروں کو آباد کیا. اب آپ اسی آشتی بستی میں مدفون ہیں۔
وردھا ڈسٹرکٹ گزٹیئر کے مطابق، جب جہانگیر اپنے والد اکبر کا جانشین بنا تو اس نے محمد خان نیازی کو ایک وسیع جاگیر میں عطاء کی جوکہ اشتی، امنر، پاونار اور تلیگاؤں (برار) کے اضلاع تک وسیع و عریض تھی. آشتی کو بحال کرنے اور آس پاس کی زمینوں کے بڑے رقبے کو زیر کاشت لانے کا سہرا اس رئیس خاندان کو جاتا ہے۔ محمد خان نیازی کا مقبرہ آشتی کے مقام پر مغل طرز تعمیر کا ایک خوبصورت شاہکار ہے جہاں انھیں سپرد خاک کیا گیا ۔
تحقیق و تحریر: نیازی پٹھان قبیلہ فیس بک پیج
References
1- Mughal Archives: Durbar papers and a miscellany of singular documents
2- The Afghan nobility and the Mughals: 1526-1707
3- History of the Pathans: The Ghurghashti, Beitani and Mati Pathans
4- Wardha District Gazetteer p-634
5.مآثر الامراء
6.تذکرۃ الامراء کیول رام
7ذخیرۃ الخوانین ۔