جنرل نیازی بزدل نہیں تھا…


ساری عصبیتوں کو ایک طرف رکھ کر، دو سال قبل جب میں نے سانحہ مشرقی پاکستان پر کھلے ذہن کے ساتھ مطالعہ شروع کر کے اپنے نتائج فکر مرتب کرنے شروع کیے تو کھلنے والی بہت ساری فکری گرہوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ جنرل نیازی بزدل نہیں تھے اور ان کے سپاہیوں نے بھی یہ جنگ آخری دم تک حیران کن جذبے سے لڑی ۔ہم نے البتہ ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا ۔ یہ الگ بات کہ مجھے بھی یہ بات لکھنے کے لیے ہمت اکٹھی کرنے میں پورے دو سال لگ گئے ۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ سنجیدہ گفتگو ہمیں راس نہیں آتی ۔ دو فقروں کے بعد ہم ہانپنے لگتے ہیں اور بات ہمارے مزاج اور عصبیت کے خلاف ہو تو اسے طنز اور جگتوں میں اڑا دیتے ہیں ۔
سانحہ مشرقی پاکستان کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ کوئی سنجیدہ تجزیہ نہیں کیا گیا۔ سب نے اپنا اپنا الوسیدھا کیا ۔ اس مشق ستم میں جنرل نیازی ایک آسان اور اوارث شکار بن گئے۔ عشروں سے ان کی کردار کشی کا سلسلہ جاری ہے۔ واقفان حال نے بھی کبھی سچ نہیں بولا کہ ایک شکست خوردہ جرنیل کا فاع کون کرے۔
آئیے اس معاملے کو حقائق کی روشنی میں دیکھ کر خود فیصلہ کرتے ہیں۔
سب سے پہلے تو محاذ کی صورت حال دیکھتے ہیں ۔ مشرقی پاکستان کا بھارت نے مکمل محاصرہ کیا ہوا تھا ۔ مشرقی پاکستان تک اسلحہ، خوراک ادویات اور مزید نفری پہنچانے کا بہترین آپشن سمندری راستہ ہو سکتا تھا ۔ اس کی ناکہ بندی کی جا چکی تھی ۔ پی این ایس ذوالفقار نامی ہمارا بحرہ جہاز کراچی میں اپنے ہی پائلٹس کی غلطی سے حملے میں تباہ ہو چکا تھا ۔ پی این ایس غازی بھی تباہ ہو گیا ۔ بھارت مشرقی پاکستان پر پوری بحری قوت سے حملہ آور تھا لیکن ہماری بحری قوت اپنی فوجیوں کی امداد سے قاصر ہو چکی تھی ۔ بین الاقوامی مبصرین نے لکھا کہ آدھی بحریہ تباہ ہو چکی تھی ۔مشرقی پاکستان کے ساحلی شہروں پر بھارت بحریہ کا تسلط توڑنے کے لیے ہماری بحری قوت دستیاب نہ تھی۔
فضائی قوت کا معاملہ یہ تھا کہ بومن مارٹن کی کتاب ”کولڈ وار جیٹ کامبیٹ“ میں دیے اعداد و شمار کے مطابق بھارت نے مشرقی پاکستان میں 1978 فضائی حملے کیے ۔ جب کہ پاکستان کی جانب سے مشرقی پاکستان میں فضائی کارروائیوں کی تعدادصرف 30 تھی ۔ بھارت کے یہ حملے زمینی دستوں کی معاونت سے لے کر مکتی باہنی تک کو کور فراہم کرنے کے لیے ہوتے تھے اور اس سب سے کے سامنے ہمارے فوجیوں کو دستیاب فضائی کور نہ ہونے کے برابر تھا ۔ پاکستان کے پچھتر جنگی جہاز تباہ ہو چکے تھے۔پہلے ہی مرحلے میں ڈھاکہ ایر فیلڈ کا رابطہ منقطع ہو چکا تھا۔
آپ ذرا نقشہ اٹھا کر دیکھیں۔ مشرقی پاکستان بہت دور بھارت میں گھرا ہو تھا ۔ ہماری فوج کو فضائی کور دستیاب نہ تھا ۔ ان کی ناکہ بندی ہو چکی تھی اور پاکستان سے اس کا کوئی زمینی راستہ نہ تھا ۔ سمندری راستے بھی مسدود ہو چکے تھے اور ہماری بحری قوت وہاں تک نہیں پہنچ پا رہی تھی ۔ فوجیوں کو مزید اسلحہ کی سپلائی نہیں مل سکتی تھی ۔ راشن اور ادویات کا پہنچنا بھی ممکن نہیں تھا ۔ ہم یہاں سے مغربی پاکستان سے محاذ کھول کر بھارت کو پریشان کر سکتے تھے لیکن یہ مقصد بھی حاصل نہیں ہو سکا۔
جنرل گل حسن کے لیے بہت آسان تھا کتاب لکھ ڈالی اور جنرل نیازی کو کمپنی کمانڈر کی سطح کا افسر کہہ ڈالا ۔ جنگ کا یہ پلان جنرل نیازی کا تو نہیں تھا ۔ اس کا ماسٹر مائنڈ تو گل حسن ہی تھے ۔ سوال تو گل حسن سے پوچھا جانا چاہیے تھا کہ جب مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج محصور ہو چکی تھی تو آپ کے پاس پلان بی کیا تھا؟ آپ مغربی پاکستان سے حملہ کر کے بھارت کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے؟ آپ تو جنرل نیازی کی طرح کمپنی کمانڈر کی سطح کے آدمی نہ تھے ۔ آپ تو بڑے اعلی منصوبہ ساز تھے۔پھر کیا وجہ ہے کہ مشرقی پاکستان کا بدلہ اپ مغربی پاکستان سے نہ لے سکے؟ آپ تو بزدل نہ تھے آپ نے لاہور سے قصور سے سیالکوٹ سے اور کشمیر سے بھارت پر حملہ کر دیا ہوتا اور مشرقی پاکستان کا بدلہ لے لیا ہوتا.
جنرل نیازی کے ساتھ جو جوان اور سپاہی تھے وہ بھی کسی ماں کے بیٹے تھے ۔ وہ بکری کے بچے نہ تھے کہ جنرل نیازی انہیں قربان کروا دیتے تا کہ برسوں بعد فیس بک کے رستم اور صدیق سالک جیسے کتابیں لکھ کر ٹارزن بننے والوں کی انا کی تسکین ہوتی ۔ ہم نے ان سارے سپاہیوں کو گناہ کی طرح بھلا ڈالا ۔ وہ محصور تھے تو ہم ان کی مدد نہ کر سکے ۔ ہم انہیں اسلحہ نہ دے سکے ۔ ہم ان تک خوراک نہ پہنچا سکے ۔ وہ زخمی تھے ہم انہیں ادویات نہ دے سکے ۔ غلط فیصلے یہاں سے ہوتے رہے اور ملامت کے لیے ہم نے ان کو چن لیا جو اس مقتل میں کھڑے تھے۔یہ کیسا انصاف ہے؟
صدیق سالک اگر اتنے ہی رستم تھے تو بہت سے دوسرے افسران اور جوانوں نے کی طرح وہ بھی سرنڈر کے فیصلے کو تسلیم نہ کرتے ۔ کرنل سلمان کی طرح کی کوئی مثال قائم کرتے ۔ میجر شجاعت کی طرح امر ہو جاتے ، حوالدار مبین بن جاتے ، صوبیدار لیاقت جیسی شجاعت دکھا دیتے ۔ بعد میں کتابیں لکھ کر ٹارزن بننے سے تو بہتر ہوتا موقع پر کچھ کیا ہوتا۔
بے سروسامانی کے اس عالم میں ان افسران اور جوانوں نے شجاعت کی ایسی داستانیں رقم کیں کہ کوئی اور قوم ہوتی تو ان پر درجنوں فلمیں بن چکی ہوتیں ۔ ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں مشرقی پاکستان میں جان قربان والے میجر اکرم شہید نشان حیدر کی قبر آج کس حال میں ہے ۔ ہم تو البدر کو بھی بھول گئے ۔ ہم نے اپنی اجتماعی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے جنرل نیازی کو نشانے پر رکھ لیا ۔ اور یوں ایک رسم سی چل پڑی ۔ لیکن میں اس رسم سے اعلان بغاوت کرتا ہوں۔میرے نزدیک جنرل نیازی بزدل نہ تھا ۔ بز دل ہم ہیں جو آج تک سچ نہیں بول پا رہے۔
جنرل نیازی اور اس کے سپایہیوں کو مقتل میں بھیج کر نہ ہم انہیں اسلحہ دے سکے، نہ ان تک راشن پہنچا سکے، نہ ان کی فضائی مدد کر دکے، نہ ان کا بحری محاصرہ توڑ سکے، نہ مغربی پاکستان سے بھارت کو دباؤ میں لا سکے، نہ مسئلے کا سیاسی حل تلاش کر سکے، نہ اس کا سفارتی حل ڈھونڈ پائے اور طعنے دینے کے لیے بھی ہم نے انہی کو چن لیا جو مقتل میں لہو کے چراغ جلاتے رہے۔ان کی مائیں یہاں ان کی واپسی کی دعائیں کر رہی تھیں ن جنرل نیازی نے ان حالات میں ان کی واپسی کو یقینی بنایا تو کیا غلط کیا؟
مسئلہ وہی ہے۔ دو فقروں کے بعد ہم ہانپ جاتے ہیں اور سانس پھول جاتی ہے ۔ پھر معاملے پر مٹی ڈالنے کے لیے ہمیں قربانی کے کسی بکرے کی تلاش ہوتی ہے ۔ جنرل نیازی کو بھی ہم نے قربانی کا بکرا بنا لیا۔ہے کوئی ہم سا؟

تحریر
آصف محمود

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں