توغسرائے ضلع ہنگو کے نیازیوں کا ایک گاؤں۔۔

توغ سرا ئے خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو کا ایک خوبصورت ،پرفضا، اہم اور مشہور گاؤں ہے۔یہ ہنگو سے بارہ کلومیٹر دور ٹل پاڑاچنار روڈ پر واقع ہے۔ اس گاؤں میں اور اسکے پڑوس میں واقع بڑھ عباس خیل اور کوٹکی اور دوآبہ کیساتھ واقع کربوغی شریف گاؤں میں بھی نیازی قوم آباد ہے۔جو کہ کل ضلع ہنگو کی آبادی کا پندرہ سے بیس فیصد ہیں۔ زمین بارانی ہے رہٹ  سے بھی زمین کو سیراب کیا جاتا ہے کاشکاری کیلیے نہایت موضوع فصل گندم اور مکئی کی ہے اسکے علاوہ سبزیاں بھی یہاں کثرت سے اگائی جاتی ہیں۔اس علاقے کی تاریخ کچھ ایسی رہی ہے اب یہاں کی بڑی قوم یعنی کہ بنگش اور نیازیوں میں تفریق کرنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ یہاں کے لوگ اپنی تاریخ سے ناواقف ہیں یہاں کہ بنگش بلکہ خود کافی سارے نیازی بھی بنگش اور نیازی کو مشترکہ ماخذ کی قوم سمجھتے ہیں یا پھر نیازی کو بنگش قوم کی ایک شاخ تصور کرتے ہیں حالانکہ بنگش کڑلانی جبکہ نیازی متوزئی ہیں ۔توغ زرین اس گاؤں کے نیازیوں کا جد امجد تھا ۔بزرگوں کے بقول کوہاٹ کے توغ بالا اور توغ پایان کے نیازیوں کا جد امجد اسی توغ زرین کا بھائی تھا۔

سورلاکہ پہاڑ کا ایک منظر

توغ زرین کی اولاد سے شادی خیل اور بادین خیل شاخیں نکلیں اور بادین خیل سے مزید دو شاخیں درہ خیل اور ابراہیم نکلیں ۔اب توغسراۓ میں تین اقوام آباد ہیں شادی خیل،درہ خیل اور ابراہیم خیل بادین خیل کی مزید شاخوں نے کوٹکی اور بڑھ عباس خیل گاؤں کو آباد کیا اس طرح ہنگو کے کل نیازی آپس میں رشتہ دار ہوۓ سواۓ کربوغہ شریف کے نیازیوں کے کیونکہ انکا تعلق کس شاخ سے ہے اس کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں۔توغ سراۓ کے لوگوں کو مقامی لوگ گاؤں کی مناسبت سے توغوال کہتے ہیں اور توغوال بھی خود کو گاؤں کے نام کی مناسبت سے توغوال ہی کہتے ہیں۔اور اپنے لہجے کی پشتو کو توغوال زبان کہتے ہیں۔یہاں کے نیازی وہی پشتو بولتے ہیں جو کہ پکتیا،پاڑا چنار،ٹل،تیراہ اور ہنگو کے پہاڑی علاقوً میں بولی جاتی ہے اسے مقامی  پشتو میں غرانی زبان یعنی پہاڑی زبان کہتے ہیں یہ پشتو میانوالی کے سلطان خیل اور مکڑوال میں بولی جانے پشتو سے مختلف ہے۔

شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں کے نیازہوں کے ماضی میں میانوالی کے نیازیوں سے قریبی تعلقات رہے ہیں کیونکہ یہاں ایک خاندان کا دعوی ہے کہ انکا جد امجد تقریبا چار سو سال قبل میانوالی کے سلطان خیل علاقہ سے دشمنی یا پھر کسی اور وجہ سے سلطان خیل چھوڑ کر توغسراۓ آگیا تھا۔یہاں مرد وخواتین  خود کو نیازی کہلوانے پر فخر محسوس کرتے ہیں خصوصاً شادی خیل تو نیازی قبیلے کی پہچان بن کر ابھرے ہیں کیونکہ اس قوم میں بہت سے نامور لوگ پیدا ہوۓ جنہوں نے فوجی و عسکری خدمات سے لیکر تعلیم و تربیت کی درسگاہیں قائم کرنے تک ہر کام میں اپنا لوہا منوایا ہے جنرل شیریں دل خان نیازی اور کوہاٹ کی مشہور دلز اکیڈمی کے بانیان اسی شادی خیل تعلق رکھتے ہیں۔

عسکری تاریخ

توغسراۓ کے نیازیوں کی عسکری تاریخ کو مختصراً بیان کرنے کی کوشش کر تے ہیں کیونکہ اگر تفصیل سے لکھنے اور پڑھنے کیلیے کافی وقت چاہیے ۔وادی ہنگو میں نیازیوں کی آمد کیساتھ ہی انکی عسکری تاریخ شروع ہوتی ہے ۔یہاں پر پندرہویں صدی میں نیازی آۓ جب بنگش اور اورکزئی وادی پر قبضے کیلیے بدست و گریباں تھے نیازیوں نے بنگش قوم کیساتھ اتحاد کر کے انہیں کامیابی سے ہمکنار کیا اور اورکزئی وادی چھوڑ کر تیراہ کی پہاڑیوں میں چلے گئے  توغسراۓ کے نیازیوں اور ہنگو  کے بنگش نوابوں کے تعلقات خوشگوار رہے یہاں تک کہ درانی سلطنت کے زوال کا وقت آیا جبکہ درانیوں نے خیبر پاس اور جمرود پر ہری رنجیت سنگھ کے کمانڈروں کی طرف سے آفریدیوں پر حملے کرنے کی وجہ سے سکھوں سے جنگ شروع کردی سکھ پشتون علاقوں پر اپنا اثر و رسوخ بڑہاتے جا رہے تھے ہنگو کے بنگش نواب نے چند سیاسی وجوہات کی بنا پر سکھ سلطنت کا ساتھ دیا توغ سراۓ کے نیازیوں کا قبائلی سردار نائب درویزہ درانی سلطنت کی طرف سے وادی کا نائب اور گورنر تھا درویزہ خان نے وادی ہنگو پر حملہ کرنے پر نواب بنگش کوقوم سمیت وادی سے بیدخل کر دیا بنگش چونکہ پشتونوں کا ایک بہادر اور جنگجو قبیلہ ہے چپ رہنے والا نہ تھا آٹھ سال کے بعد اورکزئی قوم کو ساتھ ملا کر بمقام سمانہ درویزہ خان سے جنگ کی مٹھی بھر نیازیوں نے اپنے سے بڑے لشکر کا سخت مقابلہ کیا بالاخر درویزہ خان میدان جنگ میں کام آیا لیکن اس جنگ سے آپ ہنگو کے نیازیوں کی سیاسی و عسکری قوت کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس وقت نواب بنگش کی ٹکر کی دوسری کوئی قوم نہ تھی ۔اسکے علاوہ توغسراۓ کے نیازی قریبی گاؤں انار چینہ قوم خٹک اور محمد خواجہ قوم بنگش کیساتھ سرحداتی جھڑپوں میں مصروف رہے جس کی ایک طویل تاریخ ہے آج سے پانچ دہائیوں قبل تک سرحداتی جھڑپیں معمول کی بات تھی۔آخر کار ہنگو کے اخوندزادہ قوم کے مشران نے جرگہ میں ثالث کا کردار ادا کیا اور سرحدات کا تعین کیا جس کی وجہ سے امن قائم ہو ۔اخونزادہ قوم کے لوگ دینی علوم پر دسترس رکھتے ہیں جس کی وجہ سے پشتون قبیلے انکی عزت و احترام کرتے ہیں ۔ہنگو کے نیازیوں کے اجداد نے عسکری میدان میں اپنا لوہا منوایا اور آنے والی نسلوں کیلیے ایک مقام بنا کر گۓ ملکی سطح پر بھی اس گاؤں کے لوگ عسکری اداروں میں اپنی خدمات انجام دے انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں کھیم کرن پر حملہ کرکے قبضہ کرنے والی فوج کی کمان کرنے والے شہید کرنل صاحبزاد گل نیازی بھی اسی گاؤں کے سپوت تھے جن کا تعلق درویزہ خان کے خاندان سے تھا۔

مہمان نوازی

یہاں کے نیازی اسلامی روایات اور پشتونولی کے اصولوں یعنی کہ جرگہ،مرکہ،بدل یعنی انتقام اور میلماستیہ یعنی کہ مہمان نوازی کے اصولوں پر سختی سے کاربند ہیں ۔شیرمان خیل قبیلہ کے مشہور کرکٹر اور سیاستدان عمران خان نیازی فارغ البالی کے زمانے میں سیاسی زندگی سے پہلے یہاں اپنے دوستوں سے ملنے آیا کرتے تھے اور تاریخ نیازی قبائل کے مصنف اقبال خان نیازی بھی یہاں تشریف لاتے تھے اور انہوں  نے ضلع ہنگو کے نیازیوں کی مہمان نوازی پر اپنی کتاب میں انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔۔

شادی بیاہ

یہاں کے شادیوں میں نوجوان روایتی علاقائی رقص کرتے ہیں جسے بالبلہ یا اتنڑ کہا جاتا ہے۔نکاح مسجدوں میں پڑہے جاتے ہیں۔مرد سفید جوڑا اور خواتین سرخ جوڑا پہنتی ہیں۔شادی کا تمام خرچ مرد برداشت کرتا ہے اور دلہن کے سامان اور خرچ کیلیے لڑکی والوں کو پہلے سے طے شدہ رقم بھی فراہم کرتا ہے جسے پشتو میں ولوَر کہتے ہیں۔چند سال پہلے تک شادی میں سیاہ پگڑی باندھنے کا رواج تھا جو کہ اب کم ہی نظر آتا ہے۔

شیخ قلند زیارت

شیخ قلندر کا مزار تمام گاؤں والوں کیلیے مرکزِعقیدت ہے۔گاؤں کے لوگ عقیدت سے شیخ قلندر نیکہ کہہ کر نام لیتے ہیں نیکہ پشتو میں دادا کو کہتے ہیں ۔یہ اللہ کے برگزیدہ بندے تھے انکی ایک کرامت مشہور ہے کہ جب گاؤں محمد خواجہ قوم بنگش کے لوگ توغسراۓ کی سرحد عبور کرکے گاؤں میں داخل ہوۓ توغ سراۓ کے لوگ جنگ کی غرض سے  گاؤں سے نکلے تو شیخ قلندر نے موقع پر پہنچ کر محمد خواجہ گاؤں والوں یہ تجویز پیش کی کہ یہ جو تمہارے ساتھ کوچنی یعنی کے ناچنے والے لڑکے ہیں اگر میں انہیں سورلاکہ نامی پہاڑی سے نشانہ باندھ کر قتل کر ڈالوں تو تم یہ جگہ چھوڑ دو گے ورنہ ہم چھوڑ دیں گے چونکہ سورلاکہ پہاڑی بہت دور تھی جہاں سے بندوق کا نشانہ لینا تو کجا گولی کا پہنچنا بھی ناممکن تھا اسلیے وہ مان گۓ لیکن شیخ قلند نے سور لاکہ پر بیٹھ کر کوچنی کو نشانہ بنا ڈالا اور آج تک کوچنی اسی مقام پر دفن ہے جسے لوگ ۔۔د کوچنیانو قبر کہتے ہیں۔۔

تحریر : علی محراب خان  نیازی شادی خیل

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں